کم ہوتے سمندر،سمندری تباہی کے نتائج(ایلن بی سائیلن)
(ایلن بی سائیلن سکرپس انسٹی ٹیوشن آف اوشنوگرافی کے مرکز برائے سمندری حیات اوراس کا تحفظ میں بین الاقوامی ماحولیاتی پالیسی کے سینئر فیلو ہیں۔وہ 1995 سے 2001 تک امریکہ کی ماحولیاتی تحفظ ایجنسی میں بین الاقوامی سرگرمیوں کے ڈپٹی اسسٹنٹ ایڈمنسٹریٹر رہے تھے)
آج کرہ ارض پر جو خطرات منڈلارہے ہیں، ان میں سب سے زیادہ پریشان کُن اور بے مہر دکھائی دینے والا ماحولیاتی تباہی کے نتیجے میں دنیا کے سمندروں کا کم ہونا ہے۔
گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران، انسانی سرگرمیوں نے سمندروں کی بنیادی ہیت میں اس قدر تبدیلیاں کی ہیں کہ وہ اب اُلٹی جانب ارتقاء کا سامنا کر رہے ہیں…کروڑوں سال پہلے کے بہت ہی محدود قدیم پانیوں کی طرف واپسی ہورہی ہے۔
(جاری ہے)
ابتدائی زمانے میں سمندروں کے قریب آنے والے کوپانی کے اندر کی دنیا زیادہ تر زندگی سے محروم لگتی ہوگی۔ بالآخر، تقریباً 3.5 ارب سال پہلے، بنیادی حیاتیات تہہ میں جمے کیچڑ سے اُبھر کر سامنے آنا شروع ہوئی۔
الجی (طحالب) اور بیکٹیریا کے اس جرثومہ نما سیال کو زندہ رہنے کے لیے بہت کم آکسیجن کی ضرورت تھی۔ کیڑے، جیلی فش، اور زہریلے پودے( fireweed) گہرائی میں حکمرانی کرتے تھے۔ وقت کے ساتھ، ان سادہ اصناف نے بڑی جاندار مخلوقات کی شکل اختیار کرنا شروع کردی،اور اس کے نتیجے میں مختلف اقسام کی حیرت انگیزمچھلیاں،مونگے، وہیل، اور دیگر سمندری حیات وجود میں آئی جسے آج ہم سمندر سے جُڑی مخلوق کے طور پر جانتے ہیں۔
اس کے باوجود کہ سمندری حیات خطرے میں ہے۔ گزشتہ 50 برسوں کے دوران…جو ماحولیاتی وقت کے حساب سے محض آنکھ جھپکنے کے برابر عرصہ ہے… انسانوں نے، گہرے پانیوں میں موجود حیاتیات کی حیرت انگیز کثرت کو، بالکل اُلٹ حالت میں تبدیل کرنے کے خطرناک حد تک قریب پہنچا دیا ہے۔ آلودگی، حد سے زیادہ ماہی گیری،مسکن کی تباہی، اور موسمیاتی تبدیلیاں… سمندروں کو خالی کررہی ہیں اور زندگی کی ابتدائی ترین اشکال کو دوبارہ غالب آنے کے قابل بنارہی ہیں۔
سمندری جغرافیہ کے ماہر جیریمی جیکسن اسے ”کیچڑ کا عروج“ کہتے ہیں…یعنی پیچیدہ سمندری ماحولیاتی نظام کی تبدیلی،جو خوراک کے باہم اُلجھے ہوئے دھاگے کے ساتھ بڑے جانداروں کی سادہ نظام میں ایسی تبدیلی پر مشتمل ہے، جس پر جرثوموں، جیلی فش، اور بیماریوں کا غلبہ ہے۔ درحقیقت، انسان سمندر کے شیر چیتوں کا خاتمہ کرکے کا کروچ اور چوہوں کے لئے جگہ بنارہے ہیں۔
وہیل، قطبی ریچھ،نیلے پر والی ٹونا مچھلی، سمندری کچھوؤں، اور جنگلی ساحلوں کے معدوم ہونے کے امکانات ، بذات خود ہی بہت زیادہ باعث فکر ہونے چاہئیں۔ لیکن پورے ماحولیاتی نظام میں کسی قسم کی بھی رکاوٹ سے ،دراصل ہماری بقا خطرے میں پڑجاتی ہے،کیونکہ ان متنوع نظاموں کا صحت مند طور پر کام کرنا ہی اس زمین پر زندگی کو برقرار رکھتا ہے۔
اس سطح پر توڑپھوڑ انسانوں کو… خوراک، روزگار، صحت، اور زندگی کے معیار کے لحاظ سے بہت مہنگی پڑے گی۔ یہ بہتر مستقبل کے اس خاموش عہد کی بھی خلاف ورزی ہے جو ایک نسل آنے والی نسل سے کرتی ہے۔
فضلہ پھینکنا
سمندروں کے مسائل آلودگی سے شروع ہوتے ہیں، جس کی سب سے نمایاں صورت ساحلوں پر تیل اور گیس کی تلاش میں کھدائی کے دوران یا ٹینکرز کے حادثات کی وجہ سے ان عناصر کا تباہ کن طور پر سمندر میں گرنا ہے۔
اس کے باوجود کہ یہ واقعات کس قدر تباہ کن ہوسکتے ہیں، خاص طور سے مقامی طور پر،مگر سمندری آلودگی میں ان کا مجموعی حصہ… دریاوٴں، پائپوں،پانی کے بہاؤ اور ہواکے ذریعے سمندروں میں شامل ہونے والے کثیر فضلہ کے مقابلے میں پھیکا پڑ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر فالتو اشیاء… پلاسٹک کے بیگ، بوتلیں، کین،مینوفیکچرنگ میں استعمال ہونے والے پلاسٹک کے چھوٹے چھررے… ساحلی پانیوں میں دھوئے جاتے ہیں یاپھر بڑے اور چھوٹے بحری جہازوں کے ذریعے ان اشیاء کو سمندروں میں ضائع کیا جاتا ہے۔
یہ کباڑ، بہہ کر سمندر میں آگرتا ہے، جہاں یہ بہتے ہوئے کُوڑے کے بڑے انبار بناتا جاتا ہے۔ ویسے ہی جیسے کہ بدنام عظیم اوقیانوسی گاربیج پیچ ہے،جو شمالی بحر اوقیانوس کے پار سینکڑوں میل تک پھیلا ہوا ہے۔
سب سے زیادہ خطرناک آلودگی پھیلانے والے عناصر” کیمیکلز“ ہیں۔ سمندروں کو ایسے مادوں کے ذریعے زہریلا کیا جارہا ہے جو زہر آلود ہیں، طویل مدت تک اس ماحول میں پڑے رہے ، عظیم فاصلے طے کرکے آئے ، سمندری زندگی میں شامل ہوئے، اورفوڈ چین میں منتقل ہوگئے۔
سمندری آلودگی پھیلانے والے بدترین مجرموں میں بھاری دھاتیں بھی شامل ہیں…جیسے کہ پارہ،جو کوئلے کے جلنے سے فضا میں شامل ہوتا ہے اور اس کے بعد بارش کے ساتھ برس کر سمندروں، دریاوٴں، اور جھیلوں میں شامل ہوجاتا ہے، پارہ ، طبی فضلہ میں بھی پایا جا سکتا ہے۔
ہر سال مارکیٹ میں سینکڑوں نئے صنعتی کیمیکل شامل ہوتے ہیں اور ان میں سے اکثر تصدیق شدہ نہیں ہوتے۔
ان میں سے سب سے زیادہ تشویش کے باعث وہ ہیں جو مستقل نامیاتی آلودگی کے نام سے جانے جاتے ہیں،اور جو عام طور پر نہروں، دریاوٴں، ساحلی پانیوں اور کھلے سمندر میں پائے جاتے ہیں۔یہ کیمیکلز آہستہ آہستہ مچھلیوں اور شیل فش کے خلیوں میں جمع ہوتے رہتے ہیں اور پھر انہیں کھانے والی بڑی مخلوق میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ امریکی ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی کی تحقیقات نے، مستقل نامیاتی آلودگی کو مچھلیوں اور دیگر جنگلی حیات میں اموات، بیماریوں ، اورغیرمعمولی پن کی وجہ قرار دیا ہے۔
یہ سرایت کرنے والے کیمیکلز،انسانوں میں بھی دماغ ، اعصابی نظام، اور تولیدی نظام کی ترقی کومتاثر کر سکتے ہیں۔
پھرنامیاتی اجزاء ہیں جو فارموں… زیادہ تر ملک کے دُور دراز اندرونی حصّوں میں، کھادوں کے طور پر استعمال کیے جانے کے بعد ساحلی پانیوں میں بہت زیادہ نظر آتے ہیں۔ تمام جاندار چیزوں کو نامیاتی اجزاء کی ضرورت ہوتی ہے؛ تاہم ان کی ضرورت سے زیادہ مقدار، قدرتی ماحول کے لیے تباہ کن ہوسکتی ہے۔
پانی میں بہہ کر آنے والی کھادیں،الجی(نقصان دہ سمندری پودے) کی تعداد میں تباہ کن اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ جب یہ الجی مر جاتے ہیں اور ڈوب کرسمندر کی تہہ میں پہنچ جاتے ہیں، تو ان کے گلنے سڑنے کا عمل پانی کی وہ آکسیجن جذب کرلیتا ہے جو پیچیدہ سمندری حیات کے زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے۔ کچھ زہریلے سمندری پودوں( algal)کے کھلنے سے بھی ایسے زہریلے مادے پیدا ہوتے ہیں جومچھلیوں کو ہلاک اور سمندری غذا کھانے والے انسانوں میں زہر منتقل کرسکتے ہیں۔
ان سب حقائق کا نتیجہ وہ ہے جسے سمندری سائنسدان ”ڈیڈ زونز“ کہتے ہیں…یعنی ایسے حصّے جہاں اُس سمندری حیات کا کوئی وجود نہیں جسے لوگ سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ دریائے مسی سپی میں بہہ کر آنے اور میکسیکو کی خلیج میں خالی ہوجانے والے بہت زیادہ مقدار میں غذائی اجزاء نے ایک اتنے بڑے موسمی سمندری ”ڈیڈ زون“ کو پیدا کیا ہے جو ریاست نیوجرسی سے بھی بڑا ہے۔
اس سے بھی بڑا … دنیا کا سب سے بڑا ”ڈیڈزون“… بحیرہ ٴبالٹک میں دیکھا جاسکتا ہے، اس کے حجم کا موازنہ کیلی فورنیا سے کیا جاسکتا ہے۔ چین کے دو سب سے بڑے دریاؤں، یانگسی اور ییلو کے دھانے ، کچھ اسی طرح سے اپنی پیچیدہ سمندری حیات سے محروم ہوچکے ہیں۔ 2004 کے بعد سے، دنیا بھر میں اس طرح کے آبی ”بنجر “علاقوں کی کل تعدچار گُنا بڑھ گئی ہے،یعنی 146سے آج 600 سے زیادہ ہے۔