Episode 59 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 59 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

نئی اختراعات کا مشرق کی طرف رُخ
چین بلاشبہ حکومت کے مستقبل پر بحث کے حوالے سے توجہ کا واضح مرکز ہے۔ چینیوں نے حکومت کا ایک نیا ماڈل تخلیق کرکے آزاد مارکیٹوں اور جمہوریت پر مغربی یقین کو چیلنج کردیاہے ۔ چین نے ہزاروں چھوٹی کمپنیوں کی فروخت لیکن ایک سو سے زائد بڑی کمپنیوں میں برابر حکومتی حصص رکھ کر”ریاستی سرمایہ دارانہ نظام“ کی ایک نئی شکل متعارف کروائی ہے۔
چین نے اپنے میرٹ کے قدیم اصول کو زندہ کرتے ہوئے صف اول کی یونیورسٹیوں سے چینی کمیونسٹ پارٹی کے اراکین کو بھرتی کیا ہے اور غربت کے خاتمے اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے جیسے اہداف حاصل کرنے کی صلاحیت کی بنیاد پر پارٹی کارکنوں کو آگے لایا گیا ہے۔چین نے حکومتی اصلاحات کے میدان میں بھی کچھ حیران کن کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

(جاری ہے)

گزشتہ دہائی میں، چین نے عالمی معیار کا یونیورسٹی سسٹم وضع کیا ہے۔

اسی طرح گذشتہ پانچ برسوں کے دوران اس نے سرکاری پنشن پروگرام کو 240 ملین دیہی شہریوں تک پھیلادیا ہے،جو امریکہ میں سوشل سیکورٹی سسٹم کے تحت آنے والے لوگوں کی کل تعداد سے کہیں زیادہ تعداد ہے۔
لیکن جب حکومتی خدمات کے حوالے سے نئی اختراعات کی بات آتی ہے تو دیگر کئی ممالک چین سے بھی آگے ہیں۔خاص طور پر سنگاپور، جس نے منطقی طور پر دنیا کا سب سے زیادہ موٴثر انتظامی نظام تخلیق کیا ہے۔
حکومت پبلک سروس میں کام کرنے کے لئے بہترین ممکنہ لوگوں کو بھرتی کرتی ہے، اور ان میں سے جو بیوروکریسی کے اہم عہدوں تک پہنچنے ہیں، ان لوگوں کو بہت ہی زیادہ امیرانہ معاوضے دئیے جاتے ہیں، جوزیادہ سے زیادہ 2 ملین ڈالرسالانہ کے ساتھ سرکاری ملازمت چھوڑنے کے بعد نجی شعبے میں ضمانت روزگار جیسے پیکج پر مشتمل ہوسکتی ہے۔ سنگاپور کے باشندے حکومت کے زیراہتمام چلنے والے سنٹرل پرویڈنٹ فنڈ میں تنخواہ کا 20 فیصد ادا کرتے ہیں، جبکہ آجر حضرات اپنے طور پر 15.5 فیصد ادا کرتے ہیں۔
یہ لازمی بچت اکاوٴنٹ ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کے طور پر کام آتا ہے اور اس سے سنگاپور کے باشندے رہائشی منصوبوں، صحت کی سہولتوں، اور اعلی تعلیم کے لئے ادائیگی کرنے کے بھی قابل ہوجاتے ہیں۔ لیکن بہت سے مغربی ممالک کے فلاحی ریاست کے نظام کے برعکس، سنگاپورکا نظام محنت کرنے اور شراکت حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے:اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اس فنڈ سے جتنا حاصل کرتا ہے اُس کا 90فیصد دراصل اُس رقم پر مشتمل ہوتا ہے جو اس نے خود بچت کرکے جمع کروائی ہوتی ہے۔
سنگاپور کی یہ کوشش انسانی صحت اور فلاح و بہبود کے پروگراموں کو کفایت شعاری کے ساتھ جوڑنے کی سوچ کو تقویت دیتی ہے۔ جدید سنگاپور کے بانی اور رہنما لی کوان یو، مغربی فلاحی ریاست کے تصور کو مسترد کرتے اوراسے ”جتنا کھا سکو کھاؤ“ پر مبنی دعوت قرار دیتے ہیں۔
اب جبکہ ایشیائی ممالک حکومت کی اصلاح کے لئے سمجھدارانہ خیالات سامنے لارہے ہیں، تو مغرب کی سب سے بڑی طاقت یعنی عوام کی نمائندہ جمہوریت کا نظام اپنی چمک کھو رہا ہے۔
جمہوری حکومتیں بہت سے ایسے وعدے کرتی ہیں جنہیں وہ پورا نہیں کرپاتے اور اپنے مخصوص مفادات کا شکار ہوجاتے ہیں یا مختصر مدت میں مکمل ہونے والی ترجیحات کی طرف اُن کا رُخ مڑ جاتا ہے۔ امریکی کانگریس 1997کے بعد سے اب تک وقت پر ایک مناسب بجٹ منظور نہیں کرسکی۔ پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ برائے بین الاقوامی معاشیات نے تحقیق سے معلوم کیا ہے کہ 2010کے بعد سے امریکہ کی مالی پالیسی میں غیریقینی صورتحال نے اس کی جی ڈی پی میں اضافہ کی شرح ایک فیصد کم کی ہے۔
جس کی وجہ سے روزگار کے دو ملین مواقع پیدا نہیں ہوسکے۔فرانس اور بہت سے دیگر یورپی ممالک کئی دہائیوں سے اپنے بجٹ کو متوازن نہیں بناسکے۔ اور حالیہ یورپی انتخابات سے بھی اس کی نفی ہوتی ہے… 2012 کے فرانس کے صدارتی انتخابات میں صدر نکولس سرکوزی نے ملک کے حد سے بڑھے ہوئے بجٹ کو کم کرنے یا ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کی تجویز پیش کی اور نہ ہی ان کے سوشلسٹ حریف، فرینکوئس ہالینڈنے ہی ایسا کیا۔
برسلز میں ہونے والے یورپی پارلیمنٹ کے حالیہ انتخابات میں، دائیں بازو کی جماعتوں نے، بجائے اس کے کہ وہ یورپی یونین کی رکن ریاستوں کی طرف سے بے اعتدالی پر مبنی اخراجات پر زور دیتیں، اُنھوں نے آزاد سرحدوں کی پالیسی کی وجہ سے یورپی یونین کے مسائل کو نمایاں کرکے بہت بڑی کامیابی حاصل کی۔
سیاسی اشرافیہ کی ناقص کارکردگی مغربی ووٹرز میں شدید مایوسی کی وجہ بنی ہے۔
خاص طور پر یورپی یونین کے رکن ممالک کے انتخابات میں ووٹر ٹرن آوٴٹ گھٹ رہا ہے، اور سیاسی جماعتوں کی رکنیت کم ہورہی ہے۔ برطانیہ میں، 1950 کی دہائی میں ووٹرز کی وہ عمر جو آبادی کا 20 فیصد تھی آج صرف ایک فیصد ہے۔ 2010 میں، آئس لینڈ کی پارٹی جس کا نام ستم ظریفی سے بہترین پارٹی(بیسٹ پارٹی) ہے، اپنے وعدوں کی کھلے عام خلاف ورزی اور کرپشن کے اعتراف کے باوجود اتنے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی کہ اسے Reykjavik کی سٹی کونس (جو ملکرملک چلانے کے مترادف ہے) کا نظم نسق مشترکہ طور پر چلانے کا حق حاصل ہوگیا۔
سیاست کے لیے اس طرح کے نفرت کے جذبات سے اس صورت میں تو زیادہ فرق نہیں پڑتاکہ اگر ووٹرز ریاست کی طرف سے بہت کم توقع رکھتے ہوں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ وہ مسلسل بہت زیادہ کی طلب رکھتے ہیں۔ اور اس کا نتیجہ انتہائی زہریلا مرکب ہے…یعنی ایک طرف تو اُن کا سب کچھ حکومت پر منحصر ہے، اور دوسری طرف وہ حکومت کے لیے شدید نفرت کے جذبات رکھتے ہیں۔
لوگوں کا انحصار کرنا، حکومت کو اس بات پر مجبور کردیتا ہے کہ وہ اپنا دائرہ کار بہت زیادہ پھیلائے اور خود پر ضرورت سے زیاد بوجھ ڈال لے، جبکہ لوگوں کی نفرت حکومت کو اس کی قانونی حیثیت اور مقام و مرتبہ سے محروم کردیتی ہے اور یوں حکومت کو لگنے والا ہر جھٹکا ایک بحران میں بدل جاتا ہے۔ دراصل جمہوری غیرفعالیت اور جمہوری بدنظمی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
چوتھا انقلاب
مغربی لبرل جمہوریت کا یہ بحران کئی دہائیوں سے پنپ رہا تھا، لیکن یہ تین وجوہات کی بنا پر گزشتہ چند سالوں میں سنگین تر ہوگیا ہے۔ اس کی پہلی وجہ وہ نہ تھمنے والا قرضوں کا بوجھ ہے جسے مغربی ریاستیں اُٹھائے ہوئے ہیں۔ 2008 کے مالیاتی بحران اور اس کے نتیجے میں ہونے والی عالمی کساد بازاری عوامی قرضوں میں ایک دھماکہ خیز اضافے کا سبب بنی ہے : اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ کے مطابق، عالمی سطح پرعوامی قرضوں کا مجموعی بوجھ 2012میں صرف 22 ٹریلین ڈالر کے مقابلے میں، 2013 میں 50.6 ٹریلین ڈالر تک پہنچ گیا۔
اس اضافے کے رجحان کی زیادہ حوصلہ افزائی مغربی ممالک کی طرف سے کی گئی جنھوں نے معاشی ترقی کی سُست رفتار کے حل کے طور پر بھاری رقوم پر مبنی قرضے لیے۔ یورپ میں، کام کرنے والی آبادی 2012میں اپنے عروج پر تھی اور اس کی کُل تعداد 308 ملین تھی،مگر اب یہ کمی کی طرف گامزن ہے اور اندازے کے مطابق 2060تک یہ تعداد 265ملین رہ جائے گی۔ کارکنوں کے اس چھوٹے گروہ کو بہت بڑی تعداد میں موجودریٹائرڈ لوگوں (مطلقاً اورحقیقی معنوں میں ) کی ایک بے انتہا تعداد کا بوجھ اُٹھانا پڑے گا۔
اس وقت اور 2060 کے درمیان، یورپ میں حکومت پر انحصار کرنے والے لوگوں کا تناسب…یعنی 65سال سے زیادہ عمر رکھنے والوں اور 20سے 64 سال کی عمر رکھنے والوں کی تعداد کے درمیان تناسب…وہ (اس وقت کے) 28فیصد سے بڑھ کر 58 فی صد تک جاپہنچے گا۔ اوریہ تعداد ظاہر کرتی ہے کہ یورپی یونین ہر سال ایک ملین سے زائد نوجوان تارکین وطن پیدا کرے گی۔اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو یہ تعداد اس سے بھی زیادہ بدتر ہوجائے گی۔
امریکہ میں جہاں اب بچوں کی پرورش کرنے والے بوڑھے ہورہے ہیں… کانگریس بجٹ آفس کے مطابق اگلے دس سال کے دوران صرف صحت کی سہولیات کی فراہمی کے ضمن میں حکومتی اخراجات 60فیصد بڑھ جائیں گے… اور اس کے بعد بھی ان میں زیادہ تیزی سے اضافہ شروع ہو جائے گا۔
دوسرا عنصر جس نے مغربی گورننس کی خامیوں کو ہٹا کر نسبتاً کچھ سکون دیا ہے، وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی ہے۔
گزشتہ دو دہائیوں میں، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے کامرس کی تمام شکلوں میں انقلاب برپا کیا ہے اور یہ اس کے ساتھ ساتھ حکومتی نظام میں بھی انقلاب لا سکتی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے پہلے ہی ریاست کے دو بنیادی افعال کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے… یعنی جنگیں لڑنے اور معلومات جمع کرنے کا افعال کو۔ لیکن اب تک، مغربی حکومتیں زیادہ تر خودکو انٹرنیٹ سے ہم آہنگ کرنے کی کمزور کوششوں کے باعث، ڈیجیٹل انقلاب سے مکمل طور پر استفادہ کرنے میں ناکام رہی ہیں… امریکہ میں اوباما کئیر Obamacare نامی ویب سائٹ کے اناڑی پن پر مبنی آغاز کی صورت میں ان کمزور کوششوں کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
مغربی طرز کی لبرل جمہوریت کا تیسرا امتحان دوسرے ماڈلز کا حالیہ برسوں میں متاثر کن ٹریک ریکارڈ ہے۔اور یہ امتحان اس وقت جاری ہے۔ خاص طور پر جدید آمریت پر مبنی نظام جسے چین اور سنگاپور جیسے ایشیائی ممالک نے اپنایا ہے۔ بیسویں صدی کے وسط کے بعد سے پہلی بار،ریاست کی سب سے بہترین قسم اور حکومت کا سب سے بہترین نظام وضع کرنے کے حوالے سے مقابلہ ہورہا ہے۔
اُس پہلے دور کے مقابلے میں، آج کے ماڈلز کے درمیان اختلافات بہت چھوٹے ہیں - لیکن مفادات اُتنی اہمیت کے حامل ہیں۔ جو بھی اس مقابلے کو جیت کر چوتھے انقلاب کی قیادت کرے گا، اُس کے پاس عالمی معیشت پر حکمرانی کا بھی ایک اچھا موقع ہوگا۔
مغربی لوگ طویل عرصہ سے یہ سمجھتے آئے ہیں کہ آزادی اور جمہوریت کے نظریات بالآخر ہر جگہ جڑیں گاڑ لیں گے، اور یہ کہ جو بھی ملک خود کو جدید بنانا چاہتا ہے اُسے بالآخر ان اقدار کو اپنانا ہوگا۔
لیکن ایشیا میں جدیدآمرانہ نظام کی ترقی نے اُن کے اس تصور کوڈگمگادیا ہے۔ مستحکم اور خوشحال رہنے اور عالمی لیڈر کے طور پر اپنی حیثیت برقرار رکھنے کے لیے یورپی ممالک اور امریکہ کو زیادہ موثر حکومت کے مقصد کو اپنانا پڑے گا۔
اس وقت، مغربی حکومتیں بہت سے کام انتہائی بُرے انداز میں کررہی ہیں…بہتر ہوگا کہ وہ کم افعال انجام دیں مگر انہیں اچھی طرح سے کریں۔
مغربی جمہوری ریاست کو اسی طرح کی ”صفائی“ کی ضرورت ہے جو Victorians نے کی تھی، ایسی صفائی جو 1980 اور 1990 کی دہائیوں کے نصف انقلاب سے ملنے والی کامیابیوں کو بنیاد بناکر ان سے آگے کے سفر کا آغاز فراہم کرسکے۔صدر ریگن اور مارگریٹ تھیچر نے ریاست کو ایسے بہت سے کام کرنے سے روک دیا تھا جن کے انجام دینے کی یا تو اسے کوئی ضرورت ہی نہ تھی، جیسے کہ توانائی فراہم کرنے والی کمپنیوں اور ٹیلی کمیونیکیشن فرموں کا نظم و نسق چلانا۔
چوتھے انقلاب کو اس سے بھی آگے بڑھنا چاہیے اورحکومت کو مارکیٹ کو تباہ کردینے والی سبسڈی اور قواعد و ضوابط کے ذریعے نجی شعبے کے فاتحین کو منتخب کرنے کے کام سے باہر نکالنانا چاہیے۔ مغربی حکومتوں کو بھی یہ بات یقینی بنانی چاہیے کہ عوام کے پیسے غریبوں کی مدد پر خرچ ہوں نہ کہ پہلے سے امیر اور صاحب ثروت لوگوں پر۔مثال کے طور پر، امریکہ، اشیاء گروی رکھنے والوں کو ٹیکسوں میں چھوٹ، صحت کی انشورنس کے لئے ادائیگی میں مالی امداد،اور زراعت و توانائی کے شعبوں کے لئے سبسڈی کی شکل میں نسبتاً خوشحال لوگوں میں بھاری رقوم واپس تقسیم کردیتا ہے امریکی ٹیکس کوڈ کی طرف سے پیش کردہ تمام چھوٹ کی کل مالیت 1.3 ٹریلین ڈالر کے قریب بنتی ہے،جو اتنی رقم ہے جس میں نمایاں طور پر معیشت کو نقصان پہنچائے بغیرکمی کی جا سکتی ہے۔
مغربی حکومتوں کو چین کی مثال پر عمل کرنا چاہیے اور اچھے خیالات جہاں بھی ملیں اُنھیں حاصل کرنا چاہیے۔قریبی مثال کے طور پر اُنھیں، سویڈن کے سکول واوٴچر کے کامیاب تجربات کی طرف توجہ دینی چاہیے۔اور تھوڑا دُور جاکر اُنھیں بھارت کی ہسپتال کے اخراجات میں کمی کے حوالے سے کامیابی کو مدنظر رکھنا چاہیے اور اسی طرح مشروط نقد رقم کی منتقلی کی بنیاد پر، برازیل کے فلاحی پروگرام پر غور کرنا چاہیے،جس کے تحت رقم وصول کرنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ کچھ خاص اہداف کو پورا کریں، جیسے کہ اس بات کا یقینی بنانا کہ ان کے بچے سکول میں حاضر رہیں اور اُنھیں ویکسین پلائی جائے۔
اکیسویں صدی میں بلاشبہ ریاستوں کے درمیان اس حوالے سے شدید ترین مقابلہ دیکھنے میں آئے گا کہ حکومت کرنے کا کونسا نیا طریقہ بہترین نتائج کا حامل ہے، مغربی دنیا کی لبرل جمہوریتوں کو اب بھی مال و دولت اور سیاسی استحکام کی بنیاد پر سبقت حاصل ہے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ کیا اُس دانشورانہ اور سیاسی توانائی کو قائم رکھ پائے گا، جس نے گزشتہ چار صدیوں کے دوران اسے ریاست کے نظام کو نئی شکل دینے کی عالمی دوڑ میں آگے رکھا ہے۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط