سلطنت کے باطل تصورات: نئے امریکی آرڈر کی وضاحت(جی ۔جان آئی کن بیری)
(جی ۔جان آئی کن بیری ، جارج ٹاوٴن یونیورسٹی میں جیو پالیٹکس اور ر گلوبل جسٹس کے پیٹر ایف کروف پروفیسر اور امریکہ میں جرمن مارشل فنڈ میں ٹرانس اٹلانٹک فیلو ہیں)
سلطنت کے بارے میں بحث پھر سے شروع ہوگئی ہے۔یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے، کیونکہ امریکہ دنیا پر ایسے غلبہ جمائے ہوئے ہے جیسے اس سے قبل کوئی ریاست کبھی نہیں رکھ سکی۔
یہ سرد جنگ سے واحد سپر پاور بن کر اُبھری، اور اس کا کوئی جغرافیائی و سیاسی یا نظریاتی حریف اب بھی دکھائی نہیں دیتا۔یورپ اندرونی معاملات میں اُلجھا ہوا ہے، اور جاپان جمود کا شکار ہے۔ ان پر قبضے کے نصف صدی بعد ، امریکہ اب بھی جاپان اور جرمنی کو سیکورٹی فراہم کرتا ہے ۔
(جاری ہے)
جو دنیا کی دوسری اور تیسری سب سے بڑی معاشی قوتیں ہیں۔امریکی فوجی اڈے اور بیڑے دنیا کو گھیرے میں لینے والے گروپوں کے خلاف جنگ کرتے ہیں۔
روس امریکہ کے ساتھ سلامتی کے ایک بظاہررسمی معاہدے میں شامل ہے، اور چین نے کم از کم فی الوقتی طور پر، امریکی غلبے کو تسلیم کرلیا ہے۔جدید دور میں پہلی بار، دنیا کی سب سے زیادہ طاقتور ریاست دیگر عظیم طاقتوں کی طرف سے رکاوٹوں کے بغیر عالمی سطح پر کام کر سکتی ہے۔ ہم ایک ہی بڑی طاقت کے حامل (unipolar) امریکی عہد میں داخل ہوچکے ہیں۔
بش انتظامیہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ، افغانستان اور عراق پر حملوں، فوجی بجٹ میں اضافے، اور 2002 کی متنازعہ قومی سلامتی کی حکمت عملی نے امریکی طاقت کو واضح طور پر زور دار جھٹکا دیا ہے… اور ایسا کرتے ہوئے دنیا کے زیادہ تر ممالک کو نمایاں طور پر غیر مستحکم کردیا ہے۔
یہ کوئی زیادہ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ امریکہ اور یورپی ممالک کے درمیان حالیہ کشیدگی کا بین السطور موضوع امریکہ کی یک طرفہ برتری (unipolarity) کے اثرات کے بارے میں پریشانی ہی تھی۔اور جرمنی، برازیل، اور جنوبی کوریا میں حالیہ صدارتی انتخابات کے دوران بھی اسی یشانی کو نمایاں کیا گیا ہے۔ عالمی سیاست کی نوعیت کے بارے میں سب سے بنیادی سوالات…یعنی کون حکم دیتا ہے اور کسے فائدہ پہنچتا ہے… اب طویل عرصے سے ایک دوسرے کے اتحادیوں اور مخالفین کے درمیان یکساں طور پر گفتگو کا اہم موضوع بن چکے ہیں۔
طاقت کو اکثر چھپاکر یا لبادہ اوڑھا کر رکھا جاتا ہے لیکن جب یہ بے نقاب ہوجائے اوراسے تسلط کے طور پر سمجھا جائے، تو یہ لامحالہ ردعمل کو دعوت دیتی ہے۔ Georges Clemenceau کا تبصرہ یاد آجاتا ہے جو انھوں نے ایک نوجوان سیاستدان کے طور پر فرانکو پرشین(فرانس اور جرمنی کے درمیان) جنگ کے خاتمے کا تصفیہ ہونے پر کیا تھا کہ، ”جرمنی کا خیال ہے کہ اس کی فتح کا مطلب اس کا تسلط ہے، جبکہ ہم نہیں سمجھتے کہ ہماری شکست کا مطلب غلامی ہے۔
“نصف صدی کے بعد اُنھوں نے ورسیلز میں، شکست خوردہ جرمنی کے لیے صرف (harsh a peace) معاہدہ کی شرائط عائد کیں۔
سلطنت کے بارے میں موجودہ بحث دراصل ایک ہی طاقت پر مبنی (unipolar )نئے نظام کی حقیقت کا احساس دلانے کی ایک کوشش ہے۔ بلاشبہ یہ دعویٰ کوئی نئی بات نہیں، کہ امریکہ سلطنت کی طرف جھکا ؤ رکھتا ہے۔ برطانوی مصنف اور لیبرپارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاستدان ہیرالڈ لاسکی نے 1947 میں بڑھتی ہوئی امریکی سلطنت کا احساس جگاتے ہوئے کہا تھا،امریکہ کسی دیوتا کی مانند غلبہ حاصل کرتا ہے، نہ تو روم نے اپنے طاقت کے عروج کے وقت اور نہ ہی برطانیہ نے اقتصادی بالادستی کے دور میں اپنے عروج کے وقت اس طرح کے براہ راست،بہت گہرے، یا وسیع اثرو رسوخ کا لطف اٹھایا تھا۔
اور درحقیقت، ڈین ایچیسن اور جنگ کے بعد کے عالمی نظام کے معمار، برطانوی سلطنت کے بے حد معترف تھے۔ تاہم بعد میں، ویت نام کی جنگ کے دوران، بائیں بازو کے دانشوروں اور تبدیلی کے علمبردار مورخین نے امریکہ کی خارجہ پالیسی کی تاریخ کے ذریعے فوج اور سلطنت کے تصور میں اسی گہرے تسلسل کا اندازہ لگایا۔ اس اسکول کے ڈین، ولیم اپلیٹن ولیمز نے اپنی تخلیق The Tragedy of American Diplomacy میں دلیل دی کہ، قوم کا حقیقی آئیڈیلزم طاقت کے سامراجی استعمال کی تلاش اور سرمایہ دارانہ لالچ کے ذریعے برباد کردیا گیا ہے۔
آج، ”امریکی سلطنت“کچھ لوگوں کے لیے منظوری اور امید کے مترادف ہے جبکہ دوسروں کے لیے حقارت اور خطرے کی ایک علامت ہے۔نیو کنزرویٹوز، امریکہ کی طرف سے طاقت کے سلطانی استعمال پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں، جو ”روڈیارڈ کپلنگ“ کے”سفید آدمی کے بوجھ“ کے ایک جدید ورژن کے طور پر ایسی آزاد طاقت ہے جو جمہوریت کو پروان چڑھاتی اور ظلم، دہشت گردی، فوجی جارحیت، اور ہتھیاروں کے پھیلاوٴ کو روکتی ہے۔
دریں اثنا، ایک اُبھرتی ہوئی امریکی سلطنت کو پہچاننے والے ناقدین، اس کے ناقابل قبول مالی اخراجات، جمہوریت پر اس کے تخریبی اثرات، اور اُن اداروں اور اتحاد کے لئے جنھوں نے دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ کے قومی مفادات کی حفاظت کی ہے، اس کے خطرے کے بارے میں فکر کا اظہار کرتے ہیں۔
لفظ ”E“
اس سے کسی کو اختلاف نہیں کہ امریکہ کی طاقت غیر معمولی ہے ۔
یہ دراصل امریکی تسلط کا کردار اور منطق ہے جو اس وقت سلطنت پر بحث کا اہم موضوع ہے۔ امریکہ صرف اپنے مفادات کے حصول کے لیے سرگرم ایک سپر پاورہی نہیں ہے؛ بلکہ یہ ایک ”ورلڈ آرڈر“ یا عالمی نظام کا تخلیق کنندہ ہے۔کئی دہائیوں سے، دیگر ممالک کی طرف سے مزاحمت کے مقابلے میں زیادہ کی حمایت کے ساتھ… امریکہ نے ایک نمایاں طور پر آزاد اورقوانین کی بنیاد پر عالمی نظام بنارکھا ہے۔
بڑی صلاحیتوں، مفادات، اور نظریات کی حامل اس کی متحرک قوت کا مجموعہ بے مثال عالمی رسائی کے حامل ”امریکی منصوبے“ کی تشکیل کرتا ہے۔ اچھا یا بُرا، دوسرے ممالک کو کچھ شرائط کے تحت اس تغیرپذیر عالمی نظام کے ارد گرد کام کرنا ہے۔
سکالرز اکثر اوقات بین الاقوامی تعلقات کو انتشار کی شکار دنیا میں خودمختار ممالک کے درمیان بات چیت سے تشبیہ دیتے ہیں۔
کلاسیکی ویسٹفالیہ ورلڈ آرڈر کے مطابق، کوئی بھی ریاست اپنی حدود میں طاقت کے استعمال میں خودمختار ہے، مگربین الاقوامی سطح پراسے ریاستوں کے درمیان طاقت کے اشتراک کے ذریعے برقرار رکھا جاتا ہے۔ آج کی ایک ہی طاقتور ریاست والی دنیا، ویسٹفالیہ ورلڈ آرڈر کو بالکل مختلف معنی میں سمجھتی ہے۔ آج امریکہ کو طاقت کے استعمال کے حوالے سے تقریباً اجارہ داری حاصل ہے…البتہ اندرونی سطح پر اداروں اور ریاستوں کا طرز عمل بہت زیادہ عالمی قوانین کے لیے آزاد ہے…یعنی امریکی جانچ پڑتال سے مشروط۔
گیارہ ستمبر (نائن الیون) کے بعد بش انتظامیہ کی طرف سے ”منتخب خودمختاری“ اور ممکنہ اقدامات کے حق کے دعوؤں نے اس تبدیلی کو بالکل واضح بنادیا۔ چنانچہ ایک طرف دنیا میں ایک ہی سپر پاور کی طاقت میں اضافہ اور اس کے ساتھ ریاستی خودمختاری کا کم ہونا… ایک نئی اور مستحکم ترکیب ہے۔
لیکن کیا یہ سیاسی ترتیب ایک سلطنت کے قیام کے مترادف ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو، کیا امریکی سلطنت ماضی کی عظیم سلطنتوں جیسے انجام سے ہی دوچار ہو جائے گی… یعنی اسی طرح اپنے عزائم اور زیادتیوں کے ذریعے دنیا میں اس وقت تک تباہی مچاتی رہے گی جب تک کہ بالآخر، ضرورت سے زیادہ پھیلاؤ،غلط اندازے اور بڑھتے مخالفین اس کے جلد خاتمے کی راہ ہموار کردیں؟
”سلطنت“ کی اصطلاح سے کمزور ممالک کی ملکی اور غیر ملکی پالیسیوں کو ایک غالب ملک کی طرف سے سیاسی طور پر کنٹرول کیا جانا مراد لیا جاتا ہے۔
انیسویں صدی کی یورپی نو آبادیاتی سلطنتیں اس کی سب سے زیادہ براہ راست، اور رسمی مثال تھیں۔ مشرقی یورپ میں سوویت یونین کا ”اثر و رسوخ کا حلقہ“ بھی اسی طرح کے کنٹرول کی ایک یکساں مثال تھا لیکن کم براہ راست شکل میں۔ برطانوی سلطنت البتہ ” براہ راست نوآبادیاتی حکمرانی اور ”غیر رسمی سلطنت“ دونوں طرح کی خصوصیات کی حامل تھی۔اگر سلطنت سے مراد سیاسی تعلقات کا ایسا پیشوائی نظام ہے جس میں سب سے زیادہ طاقتور ریاست فیصلہ کن اثر و رسوخ استعمال کرتی ہے ، تو پھر آج امریکہ یقینا اس تعریف پر پورا اُترتا ہے۔
تاہم، اگرامریکہ ایک سلطنت ہے،تو وہ ایسی سلطنت ہے جیسی اس سے پہلے کوئی دوسری سلطنت نہ تھی۔ اس بات کا یقین کرنے کے لئے یہ دلیل کافی ہے کہ، یہ ایک طویل عرصہ تک ناپختہ سلطانی پالیسیوں کی طرف راغب رہا ہے، بالخصوص لاطینی امریکہ اور مشرق وسطیٰ میں۔مگر بہت سے ممالک کے لئے، امریکی قیادت میں قائم یہ نظام (ورلڈ آرڈر) ،ایسا مذاکراتی نظام ہے، جس میں امریکہ نے باہم متفقہ شرائط کے ذریعے دیگر ممالک کی طرف سے شرکت کا راستہ تلاش کررکھا ہے۔
یہ بات تین معاملات کے لحاظ سے سچ ہے۔سب سے پہلے یہ کہ دیگر ممالک کے تعاون کے بدلے میں امریکہ نے اُنھیں عوامی مفاد کی چیزیں… خاص طور پر سیکورٹی کی توسیع اور ایک آزاد تجارت کی حامل حکومت کے لئے حمایت …فراہم کی ہے۔دوسرا یہ کہ، امریکہ کے قائم کردہ نظام میں طاقت کا استعمال قوانین اور اداروں کے ذریعے کیا جاتا ہے، طاقت کی سیاست اب بھی موجود ہے، لیکن صوابدیدی اوربلا امتیاز طاقت کو فروغ دیا گیا ہے۔
آخر میں، امریکی قیادت میں قائم اس نظام میں کمزور ریاستوں کو اپنی ”آواز بلند کرنے کے مواقع“ دئیے گئے ہیں… یعنی اُنھیں امریکہ کی پالیسی سازی کے عمل اور اُن بین الحکومتی اداروں میں جن سے انٹرنیشنل آرڈر(بین الاقوامی نظام) تشکیل پایا ہے،باقاعدہ رسائی حاصل ہے۔یہ انہی خصوصیات کا حامل 1945کے بعد کا انٹرنیشنل آرڈر(بین الاقوامی نظام) ہے جس نے چارلس مائیر جیسے مورخین کو ”متفقہ سلطنت“ اور گئیر لنڈیستاد کو ”دعوتی سلطنت“ کی باتیں کرنے کا موقع دیا ہے۔
امریکی نظام درجہ بندی پر مبنی ہے اور یوں یہ اقتصادی اور فوجی طاقت کے ذریعے تشکیل پاتا ہے، لیکن اس سے جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کی توسیع کا کام لیا جاتا ہے۔
بنیادی طور پر، اس کے بعد، نئی امریکی سلطنت پر بحث اس بات کے گرد گھومتی ہے کہ ان خصوصیات کی جڑیں کس قدر وسیع اور گہری ہیں۔ اور 11 ستمبر(نائن الیون) کے بعد، امریکہ کی طرف سے طاقت کا نیا دعویٰ، اس لبرل ماضی سے بنیادی طور پر دُوری کے مترادف ہے۔
عالمی ریکٹ
چالمرز جانسن نے اپنی تخلیق ”In The Sorrows of Empire“میں ایک پریشان کن دعویٰ کو آگے بڑھایا ہے کہ،سرد جنگ کے دوران امریکہ کی فوجی طاقت اور اس کے دور دراز علاقوں میں قائم اڈوں کے نظام (بیس سسٹم)نے گزشتہ دہائی میں، عالمی سامراجی اقتدار کو ایک نئی شکل میں مضبوط کیا ہے۔ جانسن کے مطابق، امریکہ ”دنیا کے تسلط پر مامور ایک بہت بڑی فوجی طاقت“ بن گیا ہے۔
برتری( triumphalist)کے نظریہ ، خطرات کے ایک مبالغہ آمیز احساس، اور اپنے مفاد پر مبنی فوجی صنعتی کمپلیکس کے تحت کارفرما یہ مسلط فوجی قوت دنیا کے زیادہ تر حصے پر اپنی گرفت سخت کررہا ہے۔ پنٹاگون محکمہ خارجہ کی جگہ خارجہ پالیسی تشکیل دینے والا اہم ترین ادارہ بن گیا ہے۔ علاقائی ہیڈ کوارٹرز میں موجود فوجی کمانڈر جدید قونصلیٹ اور جنگی سفارتکار ہیں، جوامریکہ کی سلطانی رسائی کی رہنمائی کرتے ہیں۔
جانسن اس خوف کا اظہار کرتے ہیں کہ، فوجی سلطنت…آہستہ آہستہ جمہوریت پر غالب آجائے گی، قوم کو دیوالیہ کردے گی، اپوزیشن کو بھڑکائے گی، اور بالآخر سوویت یونین طرز کے خاتمے کی طرف لے جائے گی۔
اس طرح کی منظر کشی کے لحاظ سے، امریکہ کی فوجی سلطنت، تسلط کی ایک جدید شکل ہے۔ جانسن اسے”بین الاقوامی تحفظ کے ریکٹ“ کا نام دیتے ہیں…جس میں باہمی دفاعی معاہدے ہیں، فوجی ایڈوائزری گروپ ہیں، اور غیرتسلی بخش طور پر وضاحت شدہ، حد سے زیادہ ہوا دئیے گئے، نابود خطرات سے تحفظ کے لیے غیر ممالک میں تعینات فوجیں ہیں۔
یہ انتظامات ”مصنوعی سیارے“ تخلیق کرتے ہیں…یعنی ایسے بظاہر آزادممالک ، جن کے خارجہ تعلقات سامراجی ریاست کے ارد گرد گھومتے ہیں۔ جانسن کہتے ہیں کہ، سلطنت کی یہ قسم سرد جنگ کے دوران مشرقی یورپ میں سوویت یونین نے اور مشرقی ایشیا میں امریکہ نے قائم کی تھی۔ ماضی کی عظیم سلطنتیں… رومیوں اور چین کے ہان خاندان کی سلطنتیں… مستقل فوجی کمین گاہوں کے ساتھ اپنے زیراثر علاقوں پر حکمرانی کرتی تھیں جو اس مفتوحہ علاقہ میں فوجی چھاوٴنی کی صورت میں موجود ہوتی تھیں۔
امریکی سلطنت جدید ہے،کیو نکہ یہ علاقوں پرقبضے کی صورت میں نہیں ہے، بلکہ فوجی اڈوں کی صورت میں قائم ایک سلطنت ہے۔
جانسن نے اپنی سابقہ بحث، Blowback،میں اس بات پر زور دیا تھا کہ 1945 کے بعد مشرقی ایشیا اور لاطینی امریکہ میں امریکی اثر و رسوخ اس کے ہم عصر سوویت یونین کی طرح تشدد آمیز اور استحصالی تھا۔ان کی تخلیق The Sorrows of Empire بھی انہی مشتبہ خطوط پر اظہار خیال کرتی ہے۔
1960 کی دہائی کے revisionism کی گونج میں، جانسن زور دیتے ہیں کہ امریکہ کا اتحادوں اور اڈوں کی صورت سردجنگ کا سیکورٹی نظام، خودساختہ خطرات پر تعمیر شدہ اور توسیع پسند رجحانات کی حوصلہ افزائی پر مبنی تھا۔ امریکہ اپنے دفاع میں اقدامات نہیں کررہا تھا،بلکہ وہ سلطنت کے قیام کے مواقع سے فائدہ اُٹھارہا تھا۔ اس دلیل کے تناظر میں، سوویت یونین اور امریکہ،زیادہ مختلف نہیں بلکہ یکساں تھے: دونوں نے اپنے معاشروں اور خارجہ پالیسیوں کو فوجی رنگ دیا اوربیرونی طور پر توسیع کی،اور صارف ریاستوں اور سیاسی انحصار پر مبنی”مرکز اور بات چیت“کے نظام کے ذریعے شاہی حکومت قائم کی۔