Episode 62 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 62 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

شاہی عدم تحفظ
بنجمن باربرکی تخلیق ”Fear's Empire “ امریکی خارجہ پالیسی میں حالیہ یکطرفہ رجحانات کے خلاف مقدمہ پیش کرتی ہے۔باربر کے مطابق سلطنت امریکی غلبے میں شامل نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ترغیب ہے، جس کی طرف بش انتظامیہ تیزی سے چلتی رہی ۔ دہشت گردی کا مقابلہ کرتے ہوئے، واشنگٹن کبھی قانون سے رجوع کرنے اور کبھی اس کوکمتر ثابت کرنے کے درمیان لڑکھڑاتا رہاہے۔
باربر کا مقالہ یہ ہے کہ یکطرفہ کارروائی، احتیاطی جنگ، اور حکومتوں کو تبدیل کرنے کے حق کااعلان کرکے، امریکہ نے دہشت گردی کے انتشار سے لڑنے کے لئے درکار تعاون اور قانونی فریم ورک کو مجروح کیا ہے۔باربر دلیل دیتے ہیں کہ ،خودسر ریاستوں کے خلاف فوجی طاقت کے استعمال پر مبنی خارجہ پالیسی، عالمی سطح پر ایک دوسرے پر انحصار اور میثاق جمہوریت کے نتائج کو غلط طور پر سمجھنے کی عکاسی کرتا ہے۔

(جاری ہے)

امریکہ، فوجی کارروائی اور دہشت گردی کے خوف کے ذریعے کارفرما عالمی نظام نہیں چلا سکتا۔ سادہ لفظوں میں، امریکی سلطنت پائیدار نہیں ہے۔
باربر کے نزدیک، گلوبلائزیشن کی سوچ سلطنت کی سوچ پر غالب آچکی ہے: میک ڈونلڈ کی دنیا کا پھیلاوٴعظیم سلطانی حکمت عملی کوکمزور کرتا ہے۔ اقتصادی اور سیاسی زندگی کے زیادہ تر پہلووٴں کے بارے میں، امریکہ دوسرے ممالک پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔
چنانچہ دنیا اس قدر پیچیدہ اور باہم منحصر ہے کہ اس پر ایک شاہی مرکز کے ذریعے حکومت کرنا بہت مشکل ہے۔خوف پر مبنی سلطنت میں، امریکہ اسلحہ کی طاقت کے ذریعے دنیا کو منظم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن یہ حکمت عملی خود کو شکست دینے کے مترادف ہے: یہ فرمانبردار ماتحت شراکت داروں کے بجائے شاہی نظام کی مخالفت کی طرف جھکاؤ رکھنے والی دشمن ریاستیں تخلیق کرتی ہے۔
باربر تجویز کرتے ہیں کہ،انسانی برادری میں راسخ عالمگیر قانون کے بجائے…”انسانوں کے بنائے قوانین زیادہ موثر طور پر عالمگیر حقوق اور قوانین کے فریم ورک میں انسانی برادری کے لیے کام کرتے ہیں…جو کثیر جہتی، سیاسی، اقتصادی، اور ثقافتی تعاون پر مبنی ہوتے ہیں…جس میں صرف اتنا ہی عام فوجی ایکشن شامل ہوسکتا ہے جو عام دائرہ قانون میں آتا ہو…خواہ یہ کانگریس میں ہو، چاہے کثیر جہتی معاہدوں میں، یا اقوام متحدہ کے ذریعے۔
“ باربر حتمی طور پر کہتے ہیں کہ،دہشت گردی کے خطرات سے نپٹنے کا بہترین طریقہ ”محتاط جمہوریت“ کی حکمت عملی ہے…یعنی جمہوری ممالک آزاد خیالی کو آگے بڑھانے اور مضبوط کرنے کے لئے مل کر کام کریں۔
تاہم ،باربر کا روایتی عالمی نظام حکومت کو ضرورت سے زیادہ آئیڈیلائز کرنے کے بارے میں نقطہ نظر، یکطرفہ فوجی حکومت کے بارے میں ان کے انتباہ کی نسبت کم قائل کرنے والا ہے۔
بے شک، وہ دواعتبار سے پُرجوش لبرل سلطنت کے بارے میں مفید انتباہی نوٹ فراہم کرتے ہیں۔ پہلا : آزاد سلطنت کے دو مقاصد…یعنی بین الاقوامی نظام کے قوانین کو برقرار رکھنا اور یک طرفہ طور پر امریکی نظام کے دشمنوں کے خلاف فوجی طاقت کو بروئے کار لانا… اکثر تنازعہ کی شکل میں۔جیسا کہ باربر نے دکھایا ہے،جوشیلے پالیسی ساز طاقت کے یکطرفہ استعمال کا جواز پیش کرنے کے لئے اکثر دہشت گردی کے خوف کا بہانہ بناتے ہیں،جو نتیجتاًان قوانین اور اداروں کی حیثیت کو کمزور کرنے کا سبب بنتا ہے، جن کی حفاظت کی ان سے توقع کی جاتی ہے۔
دوسرا: دہشت گردی اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی طرف سے درپیش خطرات، امریکہ کی لبرل سلطنت کو جائز قرار دینے کے لئے کافی نہیں ہیں۔ سرد جنگ کے دوران، امریکہ نے اپنی طاقت کو قانونی جواز کے ساتھ استعمال کرنے کی مشق کرتے ہوئے،امریکی قیادت کے تحت آزاد دنیا کی کمیونٹی اور ترقی کا نقطہ نظر پیش کیا تھا۔تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ، دہشت گردی کے خلاف جنگ، جس میں ممالک یا تو”ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے خلاف“، اتنی کشش رکھتی ہے کہ امریکی غلبہ پر مبنی نظام کو جواز مہیا کرنے کے لیے کافی حمایت حاصل کرسکے۔
توازن پر مبنی عمل
مائیکل مان نے بھی امریکی خارجہ پالیسی میں ایک خطرناک، اور بالآخر غیر مستحکم، شاہی تبدیلی سے خبردار کیا ہے۔وہ اپنی تحریر”(بے ربط سلطنتIncoherent Empire)“ میں دلیل دیتے ہیں کہ یہ ”نیا استعمار“ ایک بنیاد پرست نظرئیہ کی بنیاد پر آگے بڑھ رہا ہے، جس میں یکطرفہ فوجی طاقت امریکی راج کو نافذ کرتی اور عالمی خرابیوں پر قابو پاتی ہے۔
مان یہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ”سامراجی منصوبہ“ امریکی طاقت کے ایک عقل سے ماوراء مغرور اقدام پر مبنی ہے… امریکہ کے پاس زبردست فوجی طاقت تو ہوسکتی ہے، لیکن اس کی سیاسی اور اقتصادی صلاحیتیں بہت کم مغلوب کرنے والی ہیں۔ یہ عدم توازن،سلطنت کے لئے جدوجہد کو حد سے زیادہ پُراعتمادی اور غیرمعمولی حد تک فوجی اثرورسوخ میں تبدیل کرکے ، امریکہ کو طاقت کے استعمال پر ضرورت سے زیادہ توجہ مرکوز کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔
مان کے الفاظ میں یہ فوجی اثرورسوخ ”بے ربط سلطنت“ کو جنم دیتا ہے،جو امریکی غلبہ کو کمزور اور دہشت گرد اور بدمعاش ریاستوں، کو کم نہیں بلکہ زیادہ پیدا کرتا ہے۔
مان،جو ایک سماجی علوم کے ماہر ہیں، سماجی طاقت کی تاریخ پر اپنی مایہ ناز عالمانہ تحقیق میں دلائل دیتے ہیں کہ اقوام، سلطنتوں، خطوں، اور تہذیبوں کے عروج و زوال میں چار اقسام کی طاقت کارفرما ہوتی ہے…یعنی فوجی، سیاسی، اقتصادی، اور نظریاتی۔
ان اقسام کا اطلاق امریکہ پر کرتے ہوئے، مان یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ یہ استعاروں کے الجھاؤ میں گرفتار ہے، جیسے کہ”ایک فوجی دیو، ایک بیک سیٹ اقتصادی ڈرائیور، ایک سیاسی ذہنی مریض، اور ایک نظریاتی بھوت“۔
مان تسلیم کرتے ہیں کہ امریکہ عالمی معیشت میں مرکزی حیثیت کا حامل ہے اور بنیادی ریزرو کرنسی کے طور پر ڈالر کا کردار اقتصادی معاملات میں اہم فوائد کا باعث ہے۔
لیکن ان کا ماننا ہے کہ تجارت اور امداد کو بطور سیاسی ہتھیار استعمال کرنے کے حوالے سے واشنگٹن کی حقیقی صلاحیتیں بے حد محدود ہیں۔ جیسا کہ عراق جنگ سے پہلے ،سلامتی کونسل میں انگولا، چلی، گنی، میکسیکو، اور پاکستان جیسے ممالک کی حمایت حاصل کرنے میں ناکامی سے واضح ہوگیا تھا۔ اس کے علاوہ، واشنگٹن کی خدمات سے فائدہ اُٹھانے والی ریاستیں بہت زیادہ ناقابل اعتماد ہیں، اور سابق اتحادیوں کے عوام امریکا مخالف جذبات سے بھرے ہوئے ہیں۔
دریں اثنا، امریکی ثقافت اور نظریات جتنے گزشتہ زمانے میں توجہ کے حامل تھے، اس کے مقابلے میں اب بہت کم کشش رکھتے ہیں۔اگرچہ دنیا اب بھی امریکہ کے آزاد معاشرے اور بنیادی آزادیوں کے نظرئیات کو قبول کرتی ہے، مگر وہ ”ثقافتی سامراج“ اور امریکی جارحیت کے بارے میں بہت زیادہ شکایات بھی کرتی ہے۔ قوم پرستی اور مذہبی بنیاد پرستی نے امریکی سامراج کے منصوبے کے خلاف مزاحمت کے گہری رواج کو فروغ دیا ہے۔
مان اور باربر، دونوں ایک اہم نقطہ بیان کرتے ہیں کہ …صرف فوجی تسلط کی بنیاد پر بنائی گئی سلطنت کامیاب نہیں ہو گی۔ ان کی خصوصیات میں،امریکہ دوسرے ممالک کی خاموشی کے بدلے میں… اُنھیں سیکورٹی فراہم کرتا ہے۔ اس سلطانی نقطہ نظر کے تحت،واشنگٹن ان اصولوں کے تحت کام کرنے سے انکار کردیتا ہے جن پر دوسرے ممالک عمل کرتے ہیں، اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ دنیا کو سیکورٹی کی یہ قیمت لازماً ادا کرنا پڑے گی۔
لیکن امریکہ کا مسلط کردہ یہ نظام زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔باربر دلیل دیتے ہیں کہ امریکہ کے پاس باقی دنیا کے ساتھ اتنا زیادہ ”لین دین“ ہے کہ وہ تعاون کے پیچیدہ انتظامات پر مشتمل نظام کو مسترد کرہی نہیں سکتا۔مان اپنا حصہ ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ، فوجی ”حملہ اور خوف“ محض مزاحمت کو بڑھاتا ہے۔ وہ ماہر عمرانیات تالکوٹ پارسنس کا حوالہ دیتے ہیں، جنوں نے طویل عرصہ پہلے کہا تھا کہ،متفقہ اختیار کے برعکس، محض طاقت کا استعمال ”تفریطی(کم ہوجانے والا)“ ہوتا ہے…جتنا زیادہ آپ اسے استعمال کریں گے، یہ اتنی ہی تیزی سے کم ہوگی۔
سلطنت کی واپسی
فرانسیسی مضمون نگارامینوئیل ٹوڈ مان کا ماننا ہے کہ،مان اورباربر کی طرف سے جس طویل مدتی زوال کی پیش گوئی کی گئی ہے وہ پہلے ہی شروع ہوچکا ہے۔وہ اپنی تحریر ”سلطنت کے بعد After the Empire “ میں فرانسیسی نیک خواہشات کے لبادہ میں کہتے ہیں کہ، امریکہ کی جغرافیائی اہمیت تیزی سے کم ہورہی ہے۔دنیا امریکی غلبہ کے دور میں داخل نہیں ہورہی،بلکہ اس سے نکل رہی ہے۔
واشنگٹن ہوسکتا ہے کہ لبرل سلطنت کو قائم رکھنا چاہتا ہو، مگر دنیا اس قابل ہے اور بڑی تیزی سے کسی بھی زمانے کی نسبت کم متعلقہ امریکہ کی طرف سے رُخ پھیرنے پر مائل ہورہی ہے۔
 ٹوڈ کی پیش گوئی ایک تخلیقی …لیکن آخر میں مشتبہ… عالمی سماجی و اقتصادی تبدیلی کے نقطہ نظر سے اخذ کردہ ہے۔وہ تسلیم کرتے ہیں کہ امریکہ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد کی دہائیوں میں عالمی معیشت کی تعمیر میں ایک اہم کردار ادا کیا۔
لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ اس عمل میں، مختلف مفادات اور اقدار کے ساتھ ایشیا اور یورپ میں طاقت کے نئے مراکز، اُبھر کر سامنے آگئے،جبکہ امریکہ کے زیر اثر معیشت اور معاشرے کمزور اور بدعنوان بنتے چلے گئے۔ امریکی طاقت کا نرم کمزور حصہ، ان علاقوں میں جہاں وہ چڑھائی کرتا ہے،ہلاکتوں کو قبول کرنے اور معاشروں کی تعمیر نو کے اخراجات ادا کرنے میں اس کی ہچکچاہٹ پر مبنی ہے۔
دریں اثنا،جہاں امریکی جمہوریت کمزور ہورہی ہے ،وہاں دنیا بھر میں جمہوریت کے فروغ سے واشنگٹن کے خلاف مزاحمت کو تقویت مل رہی ہے۔ٹوڈ کے الفاظ میں،”اس وقت جب کہ باقی دنیا… جو، اب تعلیم، آبادی، اور جمہوریت میں بہتری کی بدولت استحکام کے عمل سے گزر رہی ہے…یہ دریافت کرنے کے بہت قریب پہنچ گئی ہے کہ وہ امریکہ کے بغیر آگے بڑھ سکتی ہے اور امریکہ کو یہ احساس ہورہا ہے کہ وہ دنیا کے باقی حصوں کے بغیر آگے نہیں چل سکتا۔
 امریکہ کی اس عجیب حالت…یعنی اقتصادی انحصار اور سیاسی طور پر بیکار ہونا… سے دو مضمرات برآمد ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ، امریکہ عالمی اقتصادی شکاری بنتا جا رہا ہے، اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے تیزی سے کمزور ہوتے”خراج وصول کرنے پر مبنی“ نظام سے کام لے رہا ہے۔ یہ دوسرے معاشروں کی اقتصادی ترقی کے ساتھ اپنی اقتصادی کامیابیوں کو یکجا کرنے کی صلاحیت کھو چکا ہے۔
دوسرایہ کہ، ایک کمزور امریکہ اپنی سامراجی پوزیشن برقرار رکھنے کے لئے زیادہ سے زیادہ بے دھڑک اور جارحانہ اقدامات کا سہارا لے گا۔ ٹوڈ… عراق، ایران، اور شمالی کوریا کے ساتھ امریکی تصادم کے پیچھے اسی تسلسل کی نشاندہی کرتے ہیں۔ بے شک، اپنے سب سے زیادہ مشکوک دعوے میں، ٹوڈ کہتے ہیں کہ امریکی جمہوریت کی کرپشن ایک غیر تسلی بخش نگرانی کے حامل حکمران طبقے کو جنم دے رہی ہے، جو دیگر جمہوریتوں کے خلاف فوجی طاقت کے استعمال پر کم ہچکچائیں گے،ان میں یورپی ممالک بھی شامل ہیں۔
ٹوڈ کے نزدیک، یہ سب امریکی سلطنت کی توڑپھوڑ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
ٹوڈ اس اعتبار سے ٹھیک کہتے ہیں کہ کسی بھی ریاست کی بین الاقوامی نظام پر غلبہ حاصل کرنے کی صلاحیت کا انحصار اس کی اقتصادی قوت پر ہوتا ہے۔جیسے ہی معاشی غلبہ میں تبدیلی آئے گی، امریکہ کی ایک ہی طاقت کے طور پر برتری(unipolarity)آخر کارطاقت کی نئی تقسیم کے لئے راستہ دینے پر مجبور ہوجائے گی۔
لیکن، ٹوڈ کی تشخیص کے برعکس، امریکہ مضبوط سماجی و اقتصادی برتری کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اور اُن کا یہ دعویٰ کہ خاص لوگوں پر مبنی ایک خوفزدہ لالچی گروہ نے امریکی جمہوریت پر قبضہ کر لیا ہے، بے حد عجیب ہے۔سب سے اہم بات یہ کہ، ٹوڈ کا یہ دعویٰ بھی جغرافیائی سیاست کے اہم پہلوؤں کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے کہ، روس اور دیگر بڑی طاقتیں… امریکی طاقت کا توڑ کرنے کی تیاری کر رہی ہیں۔
یورپ، جاپان، روس، اور چین کی طرف سے امریکہ کو دفاعی طور پر مشغول رکھنے کا مقصد اس کے خلاف مزاحمت کرنا نہیں ہے۔ وہ موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے اثرورسوخ اور اپنے لیے جگہ حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، نہ کہ اسے تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اصل میں، عظیم طاقتیں عالمی حکمرانی کی طرف جھکاؤ رکھنے والے امریکہ کی نسبت ایک علیحدہ، الگ تھلگ امریکہ کے بارے میں زیادہ فکر کرتی ہیں۔
درحقیقت، امریکہ کے ایک ہی برتری رکھنے والی طاقت کے نظام(unilateralism ) کے بارے میں کڑی تنقید اس تشویش کی عکاسی کرتی ہے کہ امریکہ سیکورٹی اور استحکام فراہم کرنا بند کردے گا، نہ کہ اس امید کی کہ امریکہ زوال کا شکار اور صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔
حکمران یا قواعد؟
کیاامریکہ ایک سلطنت ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر، فرگوسن کی طرف سے پیش کی گئی لبرل سلطنت کی منظرکشی جانسن کی فوجی سلطنت کے مقابلے میں زیادہ قائل کرنے والی ہے۔
لیکن آخر میں، سلطنت کا تصور گمراہ کن ہے… اور یہ امریکی طاقت کے ارد گرد تیار کیے گئے عالمی سیاسی نظام کے مخصوص پہلووٴں کو نظرانداز کرتا ہے۔
امریکہ نے سامراجی پالیسیوں کی پیروی کی ہے، خاص طور پر اپنے دائرہ کار میں آنے والے کمزور ممالک کے خلاف۔ لیکن یورپ، جاپان، چین، اور روس کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کو کسی طرح بھی سامراجی قرار نہیں دیا جاسکتا، اس وقت بھی جب ”نیا سامراج“ یا ”لبرل سامراج“ کہہ کر اس اصطلاح کو تبدیل بھی کرلیا جائے۔
اعلی درجے کی جمہوریتیں ایک ”سیکورٹی کمیونٹی“ کے اندر کام کرتی ہیں، جہاں طاقت کا استعمال یا اس کے استعمال کی دھمکی ناقابل تصور ہے۔ ان کی معیشتوں بے حد گہرائی تک ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔یہ ممالک ایک ساتھ مل کر، سودے بازی، وسیع تر خیر سگالی اور بین الحکومتی اداروں اور عبوری عملی تعلقات کی بنیاد پر پر ایک سیاسی نظام تشکیل دیتے ہیں۔
یہ سلطنت نہیں ہے، بلکہ یہ امریکی قیادت میں قائم ایک جمہوری سیاسی نظام ہے، جس کا کوئی نام ہے اور نہ اس کی کوئی تاریخی مثال موجود ہے۔
 اس بات کا یقین کرنے کے لئے، واشنگٹن میں نیو کنزرویٹوز نے اپنے سامراجی نقطہ نظر کو اُجاگر کیا ہے …یعنی یہ ایسی عالمی حکمرانی کا دور ہے جو…فوجی طاقت کے جرات مندانہ یکطرفہ استعمال، تکثیریت کی رکاوٹوں سے بتدریج علیحدگی، اور آزادی اور جمہوریت کو پھیلانے کے لئے جارحانہ کوششوں کے گرد منظم عالمی نظام پر قائم ہے۔
لیکن یہ نقطہ نظر امریکی طاقت کے بھرم پر قائم ہے۔ یہ اس طرح کی طاقت کے استعمال اور اس کے تحفظ میں تعاون اور قوانین کے کردار کو تسلیم کرنے میں ناکام ہے۔ اس کی پیروی امریکہ کو نمایاں عالمی طاقت کے طور پر اس کے جوازسے محروم کردے گی،اور اس کے اختیارکو بُری طرح محدود کردے گی جو اس طرح کے جواز سے حاصل ہوتا ہے۔ آخر میں، نیوکنزرویٹوزان تمام چیلنجز اور مواقع کے بارے میں بالکل خاموش ہیں جن کا امریکہ کو سامنا ہے۔
اور جیسا کہ فرگوسن نے لکھا ہے، امریکی عوام کالونیوں قائم کرنے یا عالمی سلطنت کا انتظام سنبھالنے کی کوئی خواہش نہیں رکھتے۔ اس طرح، ایک ہی برتری کی حامل ریاست (unipolar ) دور میں بھی امریکہ کے سامراجی دعوؤں پر کچھ حدود عائد ہوتی ہیں۔
آخر میں، سلطنت کے حوالے سے بحث، حالیہ برسوں کے سب سے اہم بین الاقوامی پیش رفت کو نظر انداز کردیتی ہے… اور وہ ہے عظیم طاقتوں کے درمیان طویل عرصے سے جاری امن، جسے کچھ سکالرز عظیم طاقتوں کے درمیان جنگوں کا خاتمہ قرار دیتے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام، جمہوریت اور جوہری ہتھیار، یہ سب اس امن کی وضاحت میں مددکرتے ہیں۔ لیکن اسی طرح وہ منفرد طریقہ بھی اس امن کی وضاحت کرتا ہے، جس پر عمل کرکے امریکہ نے بین الاقوامی نظام کی تعمیر کا کام کیا ہے۔ امریکہ کی کامیابی بین الاقوامی اداروں کی تخلیق اور توسیع سے جنم لیتی ہے جس نے امریکی طاقت کو محدود اورجواز پرمبنی بنایا ہے۔
امریکہ اب لبرل حکمرانی اورسامراجی حکمرانی کے درمیان جدوجہد میں پھنس کر رہ گیا ہے۔یہ دونوں محرکات امریکی سیاست کے جسم کے اندر گہرائی میں رہتے ہیں۔ لیکن دنیا کو امریکہ کی سلطنت کے طور پر چلانے کے خطرات اور اخراجات بہت زیادہ ہیں، اور قانون کی حکمرانی پر قوم کے گہرا ایمان میں کوئی کمی نہیں آئی۔جب سب کہا اور کیا جاتا ہے، امریکی عوام دنیا پر حکمرانی میں کم اور اصولوں پر قائم دنیا بنانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط