غیر محکوم دُنیا،دنیا پر اچھی حکمرانی کا مقدمہ(سٹیورٹ پیٹرک)
(ڈاکٹر سٹیورٹ پیٹرک، کونسل آن فارن ریلیشنز (سی ایف آر) کے سینئر فیلو اور انٹرنیشنل انسٹی ٹیوشنز اینڈ گلوبل گورننس (آئی آئی جی جی) پروگرام کے ڈائریکٹر ہیں)
2008میں صدارتی عہدے کے لیے مہم چلاتے ہوئے،باراک اوباما نے امریکی طاقت و قوت کی اُس شکستہ حال عمارت کی تزئین و آرائش کا وعدہ کیا تھا جو امریکہ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد تعمیر کی تھی۔
اُنھوں نے اقوام متحدہ،بریٹن ووڈز انسٹی ٹیوشنز اور نیٹو جیسے ادارے بنانے پر فرینکلن روز ویلٹ،ہیری ٹرومین اور جارج مارشل کے دور کے لوگوں کی عظمت کو خراج تحسین پیش کیا۔اُنھوں نے کہا کہ”ان عظیم لوگوں نے اپنی ذہانت سے سمجھ لیا تھا کہ یہ ادارے ہماری طاقت کو محدود کرنے کے بجائے اُس کی عظمت کا اظہار کریں گے۔
(جاری ہے)
“ مگر اس کے ساتھ ہی اوباما نے خیال ظاہر کیا کہ” دوسری جنگ عظیم کے بعد قائم ہونے والے عالمی ”آرڈر“ کی عمارت کے پرانے ستونوں میں دراڑیں پڑرہی ہیں اور وہ ڈگمگانے لگا ہے،چنانچہ خود کو درپیش تیزی سے تبدیل ہوتے خطرات کے ساتھ اپنی رفتار برقرار رکھنے کے لیے دنیا کو عالمی اداروں کی تعمیر کے نئے دور کی ضرورت ہے۔
“
اوباما کو صدر بنے پانچ سال گزرنے کے بعد بھی ہم اس محاذ پر بہت کم آگے بڑھ سکے ہیں،اور اب بہت کم لوگوں کو اس بارے میں پیش رفت کی اُمید ہے۔رسمی کثیر فریقی ادارے گڑبڑ پھیلاتے اُسی طرح چل رہے ہیں۔ یہ ادارے بین الاقوامی مسائل کو معمولی حد تک بہتر بنانے کے لیے تھوڑی سی بحث پر مبنی اجلاس منعقد کرتے اوررپورٹس جاری کردیتے ہیں۔ اوباما انتظامیہ کی طرف سے اُبھرتی ہوئی طاقتوں کو باہم ضم کرنے کی مسلمہ خواہشات کے باوجود ابھی تک نئے جغرافیائی و سیاسی حقائق پر توجہ کے لیے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی ساخت میں اصلاح کے حوالے سے کوئی تحریک نہیں ہوئی۔
دریں اثنا ، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن(ڈبلیو ٹی او) غفلت میں ڈوبی ہوئی ہے، نیٹو اپنے اسٹریٹجک مقاصد معلوم نہیں کرسکی،اور انٹرنیشنل انرجی ایجنسی نے چین اور بھارت کی رکنیت ختم کرکے خود کو ہی متروک بنالیا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ عالمی تعاون کی ضرورت کم نہیں ہوئی۔بلکہ درحقیقت،باہمی اقتصادی انحصار، ماحولیاتی آلودگی کی بگڑتی ہوئی صورت حال ، بین الاقوامی خطرات کے برقرار رہنے ، اور تکنیکی تبدیلی کو تیز کرنے کی اہمیت کی وجہ سے، اس کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔
مگران رسمی اداروں کے باہر کثیر جہتی موثر ردعمل مسلسل بڑھ رہا ہے،کیونکہ مایوس فریق زیادہ آسان،عبوری جگہوں کا رُخ کررہے ہیں۔ امریکہ اور دوسری ریاستوں کے… علاقائی تنظیموں ، متعلقہ ریاستوں کے درمیان قلیل فریقی تعاون ، طرز عمل کے ضابطوں ، اور غیر حکومتی فریقوں کے ساتھ… اشتراک پر زیادہ انحصار کی وجہ سے قانونی معاہدوں اور اقوام متحدہ جیسے عالمی اداروں کی اہمیت ، گھٹ رہی ہے۔
اور یہ رجحانات اب رُکنے والے نہیں بلکہ جاری رہنے والے ہیں۔ مستقبل میں کسی نئے چمکدارعالمی ڈھانچے کی تعمیر یا تزئین دیکھنے میں نہیں آنے والی،بلکہ ایک بدصورت مگر موافق کثیر جہتی تروڑ مروڑ کا مسلسل پھیلاؤ نظر آئے گا، جو غیر رسمی انتظامات اور ٹکڑوں میں بٹے طریقہٴ کار کے ذریعے عالمی تعاون کے جزوی اقدامات کا موقع فراہم کرتا ہے۔
”عالمی نظامِ حکومت“ ایک کثیر المعنی اصطلاح ہے۔
اس سے مراد دنیا کی حکومت نہیں ہے(جس کی نہ تو کوئی اب توقع کرتا ہے اور نہ ہی ایسا چاہتا ہے) بلکہ اس سے مراد کچھ زیادہ عملی صورت ہے…یعنی خود مختار ریاستوں کی طرف سے اجتماعی کوشش، عالمی تنظیمیں، اور ایسے غیرسرکاری لوگ جو مشترکہ مسائل سے نپٹ اور قومی سرحدوں سے بالاترہوکرمواقع سے فائدہ اُٹھاسکیں۔ اندرون ملک سیاست میں گورننس سیدھی سادی چیز ہے۔
یہ حقیقی حکومتوں نے فراہم کرنی ہوتی ہے…باضابطہ رہنما اداروں کے ذریعے جن کے پاس پابند کرنے والے قوانین کو ترتیب دینے اورنافذ کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ مگر بین الاقوامی یا کثیر قومی میدان میں،گورننس زیادہ پیچیدہ اور مبہم کام ہے۔ اس ضمن میں بعض ملکوں کو اعلیٰ درجہ حاصل ہے، جیسے کہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے مستقل ارکان کو تفویض کیے گئے خاص اختیارات…مگر بین الاقوامی سیاست ایک ایسے نظام کے ساتھ جو آزاد و خودمختار یونٹس سے ملکر بنا اور کسی کے اختیار کو نہیں مانتا،بدعملی کا شکار رہی ہے۔
اقوام متحدہ جیسے رسمی اداروں کے باہر عالمی تعاون بڑی تیزی سے مسلسل بڑھ رہا ہے،کیونکہ مایوس فریق زیادہ آسان،عبوری جگہوں کا رُخ کررہے ہیں۔
اس طرح کے انتشار کے زیرِ سایہ تعاون تو یقیناً ممکن ہے۔قومی حکومتیں اکثر میدان عمل میں طرز عمل کے مشترکہ معیار کو تشکیل دینے کے لیے مل جل کر کا م کرتی ہیں، جیسے کہ تجارت یا سیکورٹی وغیرہ کے شعبے ،بین الاقوامی اداروں میں ایسے قوانین اور روایات کا اطلاق کرکے جو عالمی سطح پر سامان کی فراہمی یا عالمی خرابیوں کو کم کرنے کے لیے مصروف عمل ہیں ۔
لیکن سب سے زیادہ تعاون پر مبنی کثیر جہتی ادارے،حتیٰ کہ وہ ادارے بھی جو بین الاقوامی قوانین کے پابند ہیں،وہ بھی اجتماعی فیصلوں کو نافذ اور اُن کی تعمیل کرانے کی طاقت نہیں رکھتے۔ چنانچہ گورننس کے لیے جو باقی بچتا ہے وہ رسمی اور غیر رسمی اداروں کا غیرفائدہ مندپیچ ورک ہے۔
طویل عرصہ سے موجود عالمی ممالک کی رکنیت رکھنے والے اداروں کے ساتھ ساتھ بہت سے علاقائی ادارے بھی ہیں،کثیرملکی اتحاداورسیکورٹی گروپ ہیں،مشاورتی نظام،ذاتی انتخاب پر مبنی کلب،عبوری اتحاد،مخصوص مسئلہ کے لیے انتظامات،بین الاقوامی پیشہ ورانہ نیٹ ورکس،تکنیکی معیار کا تعین کرنے والے ادارے،عالمی سطح پر کارروائی کرنے والے ادارے اور دیگر کئی طرح کی تنظیمیں اور ادارے بھی کام کررہے ہیں۔
ریاستیں بلاشبہ اب بھی غالب کردار رکھتی ہیں مگر غیر ریاستی کردار رکھنے والوں نے بھی عالمی ایجنڈے کی تشکیل،نئے قوانین تشکیل دینے اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں نمایاں طور پر مدد کی ہے۔
یہ بے ترتیبی ناپسندیدہ اور عجیب ہے، مگر اس کے کچھ فائدے بھی ہیں۔ کوئی ایک کثیر جہتی ادارہ دنیا کے پیچیدہ بین الاقوامی مسائل سے نپٹ نہیں سکتا، کجا یہ کہ تنہا یہ کام موثر طریقے سے یا تیزی سے کرسکے۔
اداروں اور فورمز کی تعداد کا زیادہ ہونے کا مطلب ہمیشہ اُن کا غیرفعال ہونا نہیں ہوتا، کیونکہ ان کے ذریعے ریاستوں کو نئے مسائل کے حل کے لیے زیادہ بہتر اور لچک دار انداز میں کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔ لیکن قطع نظر اس کے کہ کوئی موجودہ عالمی نظام کی خرابیوں کے حوالے سے کیا سوچتا ہے،یہ بات واضح ہے کہ ہمیں یہیں رہنا ہے اور اس لیے ہمیں درپیش چیلنج یہ ہے کہ اسے جتنا ممکن ہوسکے بہتر طور پر چلائیں۔
بڑا کھیل
عصر حاضر کے عالمی نظام حکومت کا مرکزاقوام متحدہ ہے ، اور اقوام متحدہ کے نظام کا اہم ترین ادارہ سلامتی کونسل ہے ، ایک ایسی سٹینڈنگ کمیٹی،جس میں دنیا کے طاقتور ترین ممالک شامل ہیں۔ نظرئیاتی طور پر بات کریں تو، سلامتی کونسل عالمی نظام کے حوالے سے دنیا کو درپیش اہم ترین خطرات پر عالمی ممالک کے ردعمل کو ہم آہنگ کرنے کے لیے ایک مشترکہ مقام کا کام دے سکتی ہے۔
عملی طور پر دیکھا جائے تو،سلامتی کونسل کا کردار اکثر مایوس کُن ثابت ہوتا ہے۔کیونکہ اس کے پانچ مستقل ارکان (امریکہ،برطانیہ،فرانس،روس اور چین) عام طور پر غیرمتفق رہتے ہیں اور اُن کے پاس موجود ویٹو کا حق اُنھیں اختلافات کی صورت میں کارروائی روکنے کا اختیارات دیتا ہے۔ یہ بات بلاشبہ اقوام متحدہ کے قیام سے ہی حقیقت چلی آرہی ہے، مگر حالیہ دھائیوں میں سلامتی کونسل کی اہمیت واضح طور پر کم ہوئی ہے کیونکہ اس کا انتظامی ڈھانچہ عالمی قوت کے مراکز میں تبدیلی کے دھارے کا احساس کرنے میں ناکام رہا ہے۔
اوباما انتظامیہ نے بھی اپنی پیش رو حکومتوں کی طرح،سلامتی کونسل کی رُکنیت کو نئے سرے سے ترتیب دینے کے لیے چارٹرترمیم کرنے کا جھانسہ دیا، مگر وہ ان خدشات کی وجہ سے محتاط رہی ہے کہ کہیں ایک زیادہ بڑی سلامتی کونسل،جس میں نئے اور زیادہ حق رکھنے والے ارکان ہوں، کہیں امریکی اثرورسوخ اور مفادات کو کم نہ کردے۔ لیکن اگر بالفرض امریکہ تبدیلی کے لیے بہتر کوشش کرے،تب بھی ”سٹیٹس کو“ کو تبدیل کرنا ناقابل یقین حد تک مشکل ثابت ہوگا۔
کسی بھی توسیعی منصوبے کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 193ارکان کی دو تہائی حمایت حاصل کرنا ضروری ہے،نیز سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان کی طرف سے اس کی توثیق بھی درکار ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ ممالک جو توسیع کے حق میں ہیں، اُن کے درمیان بھی اس بات پر گہرا اختلاف پایا جاتا ہے کہ اس توسیع کا فائدہ کس ملک کو پہنچنا چاہیے اور کسے نہیں۔
چنانچہ عملی طور پر ہر کوئی لب ہلا کر توسیع کے بارے میں بات تو کرلیتا ہے مگر ساتھ ہی مذاکرات کو غیرمعینہ مدت تک بغیر کسی نتیجے کے چلتا رہنے دیتا ہے۔
لگتا یوں ہے کہ یہ صورت حال ایسے ہی برقرار رہے گی،مگر اس صورت میں ادارے کی قانونی حیثیت ،تاثیر اور فیصلوں پر عمل درآمد کے حوالے سے بحران میں اضافے کی قیمت ادا کرنا پڑے گی، کیونکہ عالمی طاقت کی تقسیم کی وجہ سے سلامتی کونسل کا انتظامی ڈھانچہ مزید انتشار کا شکار ہوتا چلا جائے گا۔
مطمئن نہ ہوپانے والے ممالک شاید ادارے پر سیاسی حملہ کرسکتے ہیں، مگر زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ وہ سلامتی کونسل کو نظرانداز کرکے کوئی دوسراایسا راستہ تلاش کرلیں گے،جہاں وہ اپنے خدشات کو دُور کرسکیں۔
اقوام متحدہ کی غیرفعالیت کے اثرات،بلاشبہ سلامتی کونسل کے معاملے سے بڑھ کر ہیں۔ عام درجے کی انتظامی اصلاحات کے باوجود، اقوام متحدہ کا سیکرٹریٹ اور اقوام متحدہ کی کئی تنظیموں کا کردار مبہم رہا ہے، اور ان کے بجٹ اور آپریشنزکے عمل،ادارے کے اہلکاروں کی بنائی ایسی پالیسیوں کی وجہ سے غیرموثر ہیں، جو متروک ہوچکی ہیں اور محض قریبی ساتھیوں کو نوازنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں ۔
دریں اثناء،اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اندر، ایسے غیرذمّہ دار کردار(ممالک)موجود ہیں،جو ایسی گیلریوں میں اپنے کھیل کھیلتے ہیں جہاں اکثر بحث مباحثے کا غلبہ رہتا ہے،اور یا پھر بے شمار ایسی قرار دادیں پیش ہوتی ہیں جن پر ایسے علاقائی اور نظرئیاتی بلاک کی چھاپ لگی ہوتی ہے، جو اپنی مدت معیاد ختم ہونے کے باوجود کسی نہ کسی طرح وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
سلامتی کونسل کے پرانے طریقہٴ کار پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے، اُبھرتی ہوئی عالمی طاقتوں نے اپنے اثرورسوخ حاصل کرنے اور خدشات کے اظہار کے لیے ممکنہ متبادل جگہوں پر نظر رکھنی شروع کردی ہے۔ عالمی طاقت کی تبدیلی ہمیشہ بالآخر اداروں کی ساخت اور ہےئت میں تبدیلی کا باعث بنتی ہے،مگر آج جو بات مختلف ہے وہ یہ کہ علاقائی اور عالمی خواہشات رکھنے والے بیک وقت کئی طاقت کے مراکز اُبھر کر سامنے آگئے ہیں۔
اب جبکہ امریکہ زوال کی طرف جارہا ہے اور،یورپ اور جاپان بے حرکت ہیں جبکہ چین،ہندوستان،برازیل،روس،ترکی،انڈونیشیا اور کچھ دیگر ممالک اپنے پٹھے تول رہے ہیں، اپنے علاقائی اثرورسوخ کو بڑھا اور کثیرجہتی اداروں کے اندر زیادہ سے زیادہ بات منوانے کا حق حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
ان جغرافیائی و سیاسی تبدیلیوں کے باوجود ، بہرحال ، آج کے مغربی آرڈر کے لئے کوئی معقول متبادل سامنے نہیں آیا ہے۔
یہ اُن (ممالک) کے حوالے سے بھی سچ ہے جن کے بارے میں بہت زیادہ بات کی جاتی ہے اور جنہیں برکس (BRICS) کہا جاتا ہے…برازیل،روس،ہندوستان،چین اور 2012سے جنوبی افریقہ بھی برکس میں شامل ہیں۔ ان ممالک کے درمیان ہمیشہ ایک مشترکہ وژن کی کمی رہی ہے،تاہم کم ازکم آغاز میں معاشی محرکات کی وجہ سے ان کے درمیان باہم اعتماد قائم رہا اور عالمی معیشت کے نظام کومغربی ممالک کی حمایت کا سامان تصور کرنے کی وجہ سے یہ ممالک اس نظام سے مشترکہ طور پر متنفررہے ہیں۔
حالیہ برسوں میں برکس نے کچھ عام عہدوں کو مشکوک بنادیا ہے۔ ان سب نے ریاستی خودمختاری کے روایتی تصورات کو اپنالیا ہے اور بھاری بھرکم مغربی مداخلت کے خلاف مزاحمت کررہے ہیں۔ ان کے سربراہی اجلاس کے اعلامیوں میں دُنیا کے اہم اثاثوں کے طور پر بطور کرنسی ڈالر کے استحقاق پر تنقید کی جاتی ہے اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے اندر جلد انتظامی اصلاحات پر اصرار کیا جاتا ہے۔
برکس نے رکن ممالک کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے کے لئے ایک مکمل برکس بینک بنانے پر اتفاق کیا ہے اور مسائل کے حل کے لئے بلاک مغربی عطیہ دہندگان کی طرف سے عائد شرائط کے بغیر ، ترجیحات متعین کرتا ہے۔عالمی نظام کی خرابی ایسے ہی رہنے والی ہے، چنانچہ ہمارے لیے چیلنج یہ ہے کہ اسے بہتر سے بہتر کام کرنے کے قابل بنایا جاسکے۔
بعض مبصرین توقع کرتے ہیں کہ برکس جی۔
20ممالک کے اندر،جی۔7کے مقابل ایک آزاد بلاک اور توجہ کا مرکز بن کر اُبھر رہے ہیں۔مگر ترقی یافتہ اور بڑی ترقی پذیر طاقتوں کے درمیان ورلڈ آرڈر کے اس طرح حصے بخرے ہونا ، ایک دُور کی بات لگتی ہے،کیونکہ برکس جتنا ان ممالک کو آپس میں جوڑتا ہے اُتنا ہی تقسیم بھی کرتا ہے۔ چین اور روس کو اپنے نام نہاد ساتھی ممالک کے اپنے ساتھ سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنتے دیکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔
چین اور بھارت سرحدی تنازعات اور مختلف سمندری مفادات کے ساتھ اسٹریٹجک حریف بن کر اُبھر رہے ہیں،جبکہ چین اور روس کے درمیان سائبیریا کی سرحد کے ساتھ اپنی کشیدگی چل رہی ہے۔ ان ممالک کی حکومتوں کے اندرونی اختلافات بھی اُن کے باہمی تعاون کی راہ میں حائل ہیں۔بھارت،برازیل اور جنوبی افریقہ نے…جو تینوں پُرجوش مخلوط جماعتوں پر مبنی جمہوریتیں ہیں…اپنا ایک اتحاد بنالیا ہے(بھارت،برازیل،جنوبی افریقہ فورم یا آئی بی ایس اے)،اور اسی طرح چین اور روس نے بھی(شنگھائی تعاون تنظیم) بنالی ہے۔باہم متصادم معاشی مفادات بھی برکس ممالک کے درمیان تعلقات کو پیچیدہ بناتے ہیں،جن میں ان ممالک کی ترقی کی رفتار کم ہونے پر اضافہ ہوسکتا ہے۔