جی۔10کی دنیا میں خوش آمدید
تجزئیہ کار این بریمر اور ڈیوڈ گورڈن نے ایک ”جی۔زیرو دنیا“ کے وجود میں آنے کے بارے میں لکھا ہے، جس میں اُن کے مطابق عالمی قیادت کا تصور تقریباً ناممکن ہے، جس کی وجہ طاقت کا عالمی سطح پرگہرے متصادم مفادات کے حامل ملکوں میں تقسیم ہوجانا ہے۔ مگر دور حاضر کو واقعی نمایاں کرنے والی چیزکثیر جہتی اداروں کی عدم موجودگی نہیں بلکہ اس کا حیرت انگیز طور پر تنوع ہے۔
اقوام متحدہ یا باہمی معاہدے کی بنیاد پر وجود میں آنے والے اداروں،حتیٰ کہ کسی ایک اہم فورم جیسے کہ جی۔20،کے موقع پر بھی، اجتماعی کارروائی اب مکمل طور پر یا بنیادی طور پر توجہ کا مرکز نہیں رہی۔بلکہ حکومتیں کسی خاص مسئلہ کے لیے مخصوص نیٹ ورکس کا حصّہ بننے لگی ہیں اور ایسے اشتراک میں شریک ہونے لگی ہیں جس کی رکنیت کا انحصار تبدیل ہوتے حالات ،مشترکہ اقدار اور متعلقہ صلاحیتوں پر ہوتاہے، گویا اُنھوں نے بہت سے مقامات پر بیک وقت عملی طور پر حصّہ لینے کا راستہ منتخب کرلیا ہے۔
(جاری ہے)
جی۔ٹین ممالک کی اس دنیا کی ایک شناخت اجنبی ممالک کا عارضی اتحاد ہے۔اس حوالہ سے قابل ذکرمثال بحر ہند میں اُبھر کر سامنے آنے والا کثیرالقومی انسداد پائریسی بحری بیڑہ ہے۔ باہم وسیع اتحاد کے حامل اس فلوٹیلا میں نہ صرف امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں بلکہ چین،بھارت،انڈونیشیا،ایران،جاپان،ملائشیا،روس،سعودی عرب،جنوبی کوریا اور یمن کے بحری ناکے بھی شامل ہیں۔
ہوسکتا ہے یہ ممالک بہت سے معاملات میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہوں،مگر اُنھیں افریقی ساحل کے سمندری راستوں کو محفوظ بنانے کا مشترکہ سبب مل گیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی جی۔ٹین ممالک امریکہ کو روایتی مغربی ممالک کے ساتھ روابط مضبوط کرنے کی اجازت بھی دیتے ہیں۔اس پر حیرت انگیز طور پر لچک کا مظاہرہ کرنے والے جی۔ایٹ ممالک کی مثال لے لیجئے،جو امریکہ ، جاپان ، جرمنی ، فرانس ، برطانیہ ، اٹلی ، کینیڈا ، اور روس (کے علاوہ یورپی یونین) پر مشتمل ہیں۔
کئی برس پہلے، ماہرین جی۔ایٹ کے خاتمے کی پیش گوئی کرچکے ہیں،مگر یہ اب بھی چل رہا ہے۔ جی۔ایٹ اعلیٰ درجے کی جمہوریتوں کو حساس سیاسی اور سلامتی کے معاملات پر اپنی پوزیشن مربوط کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے…بالکل اسی طرح جیسے اس کا مالی سرگرمیوں پر مشتمل متوازی اتحاد جی۔سیون اُنھیں معاشی پالیسیوں کو ہم آہنگ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
آمرانہ روس کے سوا، جسے 1997میں ناسمجھی سے شامل کرلیا گیا تھا،جی۔ایٹ کے رکن ممالک ایک جیسے عالمی نظرئیات و اقدار،اسٹریٹجک مفادات اور اہم پالیسی ترجیحات رکھتے ہیں۔ یہ ایک طرح کی سوچ ان ممالک کو انسانی حقوق سے لیکر انسانی ہمدردی تک کے معاملات پر پالیسی کی ترجیحات میں اشتراک کا موقع فراہم کرتی ہے،اور یوں ریاستوں کو علاقائی استحکام کی طرف لے جاتی ہے۔
امیر جی۔ایٹ ممالک کے پاس اپنے نظرئیات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے خاص اثاثے بھی موجود ہیں…مالی،سفارتی،فوجی اور نظرئیاتی اثاثے۔مئی 2011 کے ڈوولی سربراہی اجلاس میں ،جی-ایٹ ارکان، عرب ممالک کو سفارتی حمایت اور مادی مدد کی فوری پیشکش کے لیے حرکت میں آگئے تھے۔ اس عمل نے جی۔ایٹ ممالک کو مغربی لبرل آرڈر کی عملی علامت ثابت کرتے ہوئے دنیا کو یاد کروایا کہ جی۔
ایٹ اب بھی ریاستی سطح پرترقیاتی امداد کا اہم ترین ذریعہ ہے۔
عالمی سطح پرلوگوں پر راج کرنے میں،جیسا کہ دُوسری کسی بھی سطح پر یہ اصول لاگو ہوتا ہے،ضرورت ایجاد کی ماں ہے کا اصول کارفرما رہتا ہے،عالمی بحران زر(Credit Crisis) نے جو 2008میں پوری شدت سے سامنے آیا، ایک نئی بین الاقوامی گروہ بندی یعنی جی۔20کے قیام کی اہمیت کو اُجاگر کیا۔ عالمی اقتصادی نظام کے ممکنہ بحران کے تناظر میں، دنیا کی بڑی معاشی طاقتوں…ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں…کے رہنماؤں نے دوسری عظیم کساد بازاری سے بچنے کے لیے مشترکہ مفاد دیکھا۔
ایک ہی کشتی کے مسافر ہونے کے ناطے،اُنھوں نے فوری طور پر اداروں میں نئی اختراعات کا سفر شروع کیا،جس میں جی۔20ممالک کے وزراء خزانہ کے گروپ کو رہنماؤں کا مقام دیتے ہوئے عالمی بحران کے جواب کے لیے خصوصی کمیٹی کی تشکیل بھی شامل تھی۔ جی۔20ممالک نے بہت تیزی سے کچھ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اس گروپ نے سرکاری سطح پر مربوط کاموں کے ذریعے عالمی معیشت میں بے مثال لیکویڈیٹی داخل کی، جس میں اپریل 2009میں لندن کے سربراہ اجلاس میں اعلان کردہ 5ٹریلین ڈالرز بھی شامل تھے۔
جی۔20نے اقتصادی استحکام بورڈ قائم کیا،جس کے ذمہ اہم مالیاتی اداروں کے لیے نئے ریگولیٹری معیارات ترتیب دینا تھا، نیز ان ممالک نے باسل سوم معاہدے کے تحت نئے بینک سرمایہ اکاؤنٹ کے قیام پر زور دیا۔اسی طرح جی۔20نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے قریب ختم ہوچکے خزانے میں دوبارہ اضافہ کرنے اور اُبھرتی ہوئی معاشی قوتوں کو زیادہ اہمیت دینے کے لئے عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے اندر اصلاحات پرزور دیا۔
اور اس کے ارکان نے 1930کی دہائی کے ”جیسے کو تیسا“ تجارتی تحفظ کے احیاء سے بچنے کے لیے ”ساکت رہنے“ کا نسخہ اختیار کرلیا۔
جب فوری گھبراہٹ کم ہوئی اور ایک ناہموار عالمی بحالی نے قدم جمالیے،تب حساس قومی مفادات دوبارہ سامنے آگئے اور ان کے اثرات نے جی۔20کی رفتار کو سُست کردیا۔ گذشتہ چار سال سے،جی۔20، جس کے ارکان کی نوعیت مختلف ہے، اور وہ متنوع اقدار،سیاسی نظام اور ترقی کی سطح رکھتے ہیں…اسے عالمی معیشت کے مختصر مدت کے بحران کا انتظام کرنے والے سے ایک طویل مدتی اسٹیئرنگ گروپ کی حیثیت حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا رہا ہے۔
بڑے عالمی مالیاتی اداروں کی اصلاحات کا کام بھی رُک گیا ہے کیونکہ مستحکم (خاص طور پر یورپی)طاقتوں نے ووٹنگ کے اختیار تفویض کرنے اور گورننگ بورڈ کی نشستوں کے لیے نامزدگیوں پر مزاحمت کی ہے۔ چنانچہ جو گروپ ایک مختصر وقت کے لیے ایک نئے برتر فورم کی ابتدا لگ رہا تھا، وہ محض بیکار قسم کی دکان ہی ثابت ہوا۔
ٹکڑوں میں حکومت
گذشتہ دو دہائیوں میں زیادہ تر،اقوام متحدہ کی میگا کانفرنسوں پر کثیرملکی ڈپلومیسی کا غلبہ رہا ہے۔
لیکن جب کثیرملکی معاملات کی بات ہو تو ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ ملکوں کی زیادہ تعدادبہتر ثابت ہو، اور میگا کانفرنسوں کا دور بھی ختم ہورہا ہے کیونکہ بڑی طاقتوں نے، میڈیا کی بھرپور چکاچوند اور اس کے ساتھ ہزاروں سرگرمیوں،دلچسپی رکھنے والے گروپوں اور رابطہ افراد کی صورت میں، اقوام متحدہ کے 193رکن ممالک کے درمیان جامع بین الاقوامی معاہدوں پر گفت و شنید کی اہمیت کو تسلیم کرلیا ہے۔
یہ ممالک ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان ”باہم جوڑنے“ والے وعدوں کو پورا کرنے کی ناممکن جدوجہد میں،سالانہ مباحثوں کے لیے جمع ہونا جاری رکھیں گے، جیسے کہ موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن ( UNFCCC ) کے لیے پارٹیز کی کانفرنس۔مگر یہ سرکس تیزی سے ”سائیڈ شو“ بن جائے گا کیونکہ ان کی کارروائی کم رسمی انتظامات اور متعلقہ اور قابل ملکوں کے درمیان قریبی گروہ بندی میں تبدیل ہورہی ہے۔
پہلے ہی،17سب سے بڑے گرین ہاؤس گیس پیدا کرنے والے ممالک نے، بیکار ہوتے ادارےUNFCCC سے باہر راہ بناتے ہوئے توانائی اور آب و ہوا پر اہم معاشی فورم بنالیا ہے۔اب تک یہ فورم کچھ خاص کام نہیں کرسکا۔ لیکن متوازی قومی کوششوں کے ذریعے زیادہ ٹھوس پیش رفت ہوئی ہے، کیونکہ ریاستوں نے ملکی سطح پر اقدامات شروع کرنے کے لیے پیش رفت کی، جسے وہ آخر میں اجتماعی جائزے کے لیے فورم کو پیش کردیتے ہیں۔
علاقائی تنظیمیں عالمی اداروں کو تیز رفتاری سے عمل کرنے میں مدد فراہم کررہی ہیں۔
یہاں ایک زیادہ عمومی سبق موجود ہے۔ خوفناک پیچیدہ مسائل کے تناظر میں، جیسے کہ آب و ہوا کی تبدیلی،حکومتی عہدیداروں کے بین الاقوامی نیٹ ورک اب مسائل کے قابل حل حصوں میں تجزئیہ اور مخصوص ایجنڈا آئٹمز پر اتفاق کے ذریعے آگے بڑھنے کی کوشش کررہے ہیں۔
اسے ”ٹکڑوں میں عالمی حکمرانی“ کہہ سکتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے، اس کا مطلب ہے کہ گلوبل وارمنگ کو کم کرنے اور خود کو اس سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ،شروع سے آخر تک راستہ بتانے والے معاہدے کی تلاش چھوڑ دینا۔اس کے بجائے مذاکرات کار الگ اقدامات پر زور دے رہے ہیں، جیسے کہ بے کار فوسلز ایندھن پر سبسڈی کا خاتمہ،چھوٹے پیمانے پر ماحول کی صفائی کرنے والی ٹکنالوجی میں شراکت شروع کرنا، اور ترقی پذیر ممالک میں جنگلات کی کٹائی کی اجازت اور جنگلات کی اہمیت میں کمی کے تدارک کے لیے اقوام متحدہ کے باہمی تعاون کے پروگرام کو وسعت دینے جیسے اقدامات بھی دوسرے قابل قدر منصوبوں کے ساتھ شامل ہیں۔
اس کا نتیجہ کسی ایک ادارے یا معاہدے کی شکل میں متحدہ بین الاقوامی انتظامیہ نہیں ہے بلکہ اعزازی سرگرمیوں کا مجموعہ ہے، جسے سیاسی سائنسدان ”پیچیدہ حکومت“ کہتے ہیں۔
عالمی صحت کے حوالے سے بھی کچھ ایسا ہی ہورہا ہے، کبھی اہم ترین ادارہ تصور ہونے والا ”عالمی ادارہٴ صحت“ اب دیگر بڑی تنظیموں کے ساتھ پالیسی سازی اور کارکنوں کی تقسیم میں شریک ہے، جیسے کہ ورلڈ بنک،اقوام متحدہ کے خصوصی ادارے جیسے کہ یو این ایڈ، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ جیسے کہ جی اے وی آئی الائنس(جسے پہلے گلوبل الائنس فار ویکسینز اینڈ امیونائزیشن کہا جاتا تھا)، انسان دوست تنظیمیں جیسے کہ بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن،رفاہی ادارے جیسے کہ آٹھ ملکی(اور یورپی یونین) گلوبل ہیلتھ اتحاد، اور کثیر ملکی ادارے جیسے کہ ایڈز،تپ دق اور ملیریا کے خلاف جنگ کے لیے قائم کردہ گلوبل فنڈ۔
اس کا نتیجہ بدانتظامی پر مبنی عالمی انتظامیہ برائے صحت ہے۔
کبھی کبھی ، ٹکڑوں میں کام کرنے کا طریقہٴ کار جمود کا شکار عالمی متبادل اداروں کے مقابلے میں زیادہ نتائج حاصل کرنے کے قابل ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر،عالمی تجارتی تنظیم کے دوحہ راوٴنڈ کی ناکامی کو دیکھتے ہوئے ، امریکہ اور دیگر ممالک نے کامرس کی مزید آزادی کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے ترجیحی تجارتی معاہدوں کی طرف رُخ کرلیا ہے۔
ان میں سے کچھ دوطرفہ ہیں جیسے کہ امریکہ اور جنوبی کوریا کا معاہدہ۔ مگر دوسرے معاہدوں میں زیادہ ملک شامل ہیں۔ ان میں دو اقدامات شامل ہیں جو امریکی صدر باراک اوباما کی دوسری مدت صدارت کے تجارتی ایجنڈے کے مرکزی حصّے کو تشکیل دیتے ہیں…یعنی ٹرانس پیسفک شراکت ،اور ٹرانس اٹلانٹک تجارت و سرمایہ کاری کی شراکت۔ انتظامیہ ان میں سے ہر ایک کو عالمی آزادی کی طرف اہم قدم قرار دیتی ہے۔
اور اس کے باوجود ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے مستقبل کے مذاکرات بدنظمی کی شکل اختیار کریں گے کیونکہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے ارکان کے” ذیلی سیٹ“ زیادہ قابل انتظام مخصوص مسائل کی طرف بڑھ چکے ہیں(جیسے کہ عوامی محصول یا سرمایہ کاری)،جبکہ اُن بجلی کی چھڑی جیسے موضوعات سے بچتے ہوئے (جیسے کہ زرعی تجارت) جس نے کئی بار جامع تجارتی مذاکرات کو آگے بڑھنے سے روکا ہے۔
ریجن کا عروج
عالمی حکمرانی کے نئے قابل ذکر طریقوں میں صرف عبوری نوعیت کے اتحاد اور محدودنیٹ ورکس ہی قابل ذکر نہیں ہیں۔علاقائی تنظیمیں بھی عالمی سطح پر رکنیت رکھنے والے اداروں کا پورا مقابلہ کررہی ہیں۔اور یہ سوال کھڑا کررہی ہیں کہ اس بات کو کیسے یقینی بنایا جائے کہ یہ تنظیمیں اقوام متحدہ کے نظام کو کمزور کرنے کے بجائے اُس سے ہم آہنگ ہوں اور اُس کی تکمیل کا باعث بنیں۔
یہ مسئلہ جتنا سمجھا جاتا ہے اُس سے بھی زیادہ پُرانا ہے۔ 1945 میں سان فرانسسکو کانفرنس سے قبل کے مہینوں میں ، امریکہ اور برطانیہ کے ، جنگ کے بعد کے منصوبہ سازوں نے اس بات پر بحث کی تھی کہ کیا علاقائی اداروں کو اقوام متحدہ کے اندر رسمی، یا آزادانہ مقام دیا جائے( جس کی برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے بعض دوسرے لوگوں کے ساتھ ملکر تجویز دی تھی)۔
امریکہ کے زیادہ تر مذاکرات کار سخت مخالف تھے، اس خوف سے کہ ضرورت سے زیادہ علاقائی جھکاؤ سے اقوام متحدہ کے ربط میں کمی واقع ہوجائے گی بلکہ یہ اُسے کئی مخالف بلاکس میں تقسیم کرنے کا باعث بنیں گے۔آخر میں ، امریکیوں کا عالمی نقطہٴ نظر غالب رہا۔ اس کے باوجود اقوام متحدہ کے چارٹر کا باب 8علاقائی تنظیموں کے جائز ماتحت کردار کو تسلیم کرتا ہے۔
سان فرانسسکو میں بہت کم لوگ علاقائی اور ذیلی خطوں کے ڈرامائی پھیلاؤ اور جدید صلاحیتوں کا اندازہ کرسکتے تھے، جن کی تعداد آج سینکڑوں میں ہے۔ یہ ادارے اکثر اقوام متحدہ اور دیگر عالمی تنظیموں کے ساتھ ملکر سرحد پار چیلنجوں،تجارتی سہولتوں اور علاقائی سلامتی کو فروغ دینے کے انتظامات میں زیادہ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ برّاعظم افریقہ میں قیام امن کی کوششوں پر غور کریں۔
اقوام متحدہ کے روایتی آپریشنز کے ساتھ ہم اب کئی طرح کے مخلوط ماڈل دیکھ رہے ہیں، جن میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کسی مبصر یا امن مشن کا تقرر کرتی ہے، جسے اس کے بعد ایک عبوری اتحاد کی طرف سے لاگو کیا جاتا ہے(جیسے کہ لیبیا میں نیٹو کے زیرِ قیادت کام کرنے والا مشن)،یا ایک علاقائی تنظیم کو یہ مشن سونپا جاتا ہے(جیسے کہ صومالیہ یا AMISOM میں کام کرنے والا افریقی یونین کا مشن)، یا پھر دونوں کو ملا کر مشن کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے۔
علاقائی تنظیموں کے اس جُداگانہ اہمیت کے کردار کے بارے میں کئی سوال موجود ہیں، ایک یہ کہ کیا علاقائی تنظیموں کو اقوام متحدہ کی ذمہ داریوں کے اطلاق کے لیے محافظ کا کام سونپا جانا چاہیے یا نہیں۔ یہ متنازعہ مسئلہ 2011 میں سامنے آیا جب نیٹو نے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی منظوری اور عرب لیگ کی سفارتی حمایت سے مگر افریقی یونین کی حمایت حاصل کیے بغیر، لیبیا میں آپریشن ”یونیفائیڈ پروٹیکٹر“ شروع کیا۔
جنوری 2012میں،جنوبی افریقہ کے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی مسلسل تبدیل ہونے والی کرسیٴ صدارت سنبھال لینے کے بعد،جنوبی افریقہ کے صدر جیکب زوما نے ، مغربی قوتوں کی طرف سے لیبیا کے شہریوں کی حفاظت کے بہانے حکومت کی تبدیلی کے لیے اختیارات استعمال کرنے کو 1973کی قرارداد کے متن سے تجاوز قرار دیکر خوب تنقید کا نشانہ بنایا۔ اُنھوں نے زور دیکر کہا کہ،”افریقہ،کو دوبارہ کبھی دوسرے خطّوں کے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے ایک کھیل کا میدان نہ بنایا جائے۔
اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل اور علاقائی تنظیموں کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے ، زوما نے کسی کے خلاف کارروائی کی اجازت دینے کے لیے باہم اتفاق پر مبنی نظام کے قیام کی تجویز پر مبنی قرارداد پیش کی۔جیسا کہ توقع تھی، اس چال پر پانچوں مستقل رُکن ممالک کی طرف سے شدید مخالفت سامنے آئی، اور کچھ نے اسے مقبولیت حاصل کرنے کا بھونڈا طریقہ قرار دیکر مسترد کردیا۔
مگر زوما نے ایک بڑی اہم تشویش کے بارے میں آواز اُٹھائی تھی…بین الاقوامی سطح پر مداخلت کے تصوراتی جواز اور عملی کامیابی کا بہت زیادہ انحصار متعلقہ علاقائی تنظیموں کی حمایت پرہوتا ہے ۔
اس بات سے قطع نظر کہ اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی ادارے کس قدر پھیلاؤ کے قابل ہوسکتے ہیں، بڑھتی ہوئی علاقائیت کے واضح فوائد ہیں۔ علاقائی ادارے عام طور پر مقامی جھگڑوں کے بنیادی اسباب سے زیادہ آگاہ ہوتے ہیں، اور ہوسکتا ہے کہ وہ ان کے ممکنہ حل کے حوالے سے زیادہ سنجیدہ اور سرمایہ کاری کرسکتے ہوں۔
مگر وہ قطعاً مکمل طور پر اقوام متحدہ کی جگہ لینے کے قابل نہیں ہیں۔پہلی بات تو یہ کہ،علاقائی تنظیمیں خواہشات ، مینڈیٹ ، صلاحیتوں ، اور سرگرمیوں کے لحاظ سے وسیع پیمانے پر مختلف ہوتی ہیں۔اجتماعی کارروائی کے ضمن میں اُنھیں بھی وہی مسائل درپیش ہیں جو اقوام متحدہ کو جھکڑے ہوئے ہیں۔ ان کے اراکین اکثر کمزور ، سب سے کم درجے کے عام شمار ہونے والے عہدوں کو اپنانے کے لئے یا دوسروں کی محنت پر مفت سواری کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
مقامی رہنما اپنے محدود مقاصد کے لیے اُنھیں یرغمال بناسکتے ہیں۔ علاقائی تنظیموں کی خواہشات بھی اُن کی کام کرکے دکھانے کی صلاحیتوں پر اثرانداز ہوسکتی ہیں۔ مثال کے طور پر افریقی یونین نے امن و سلامتی کونسل تخلیق کی ہے مگر تنظیم کی قیام امن کے لیے ضروری آپریشنز کی صلاحیت… پیشہ ورانہ ، تکنیکی ، مواد ، اور رسد کی کمی کی وجہ سے مفلوج ہوجاتی ہے۔ اسی طرح، اقوام متحدہ اور علاقائی تنظیموں کے درمیان بوجھ کا اشتراک آسانی سے بوجھ کی منتقلی میں تبدیل ہوسکتا ہے، کیونکہ، دنیا غیر حقیقی توقعات کے ساتھ ایسے علاقائی اداروں پر سرمایہ کاری کررہی ہے جو اس کام کے لیے تیار نہیں ہیں۔