Episode 65 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 65 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

مشترکہ مسابقتوں پر مبنی حکمرانی
روایتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے عصر حاضر کے عالمی نظام حکومت میں ایک اہم مسئلہ اگر موجودہ اداروں کی نااہلی ہے تو ، دوسرا اور یکساں طور پر پریشان کن مسئلہ غیرروایتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے کسی بھی سنگین ادارہ جاتی طریقہٴ کار کی کمی ہے۔جب عالمی مشترکات کا معاملہ آتا ہے، یعنی اُن مقامات کا جن پر کسی ملک کا قبضہ نہیں جن پر تمام ملک سلامتی اور خوشحالی کے لیے انحصار کرتے ہیں، تو اُس وقت عالمی حکمرانی کے مطالبے اور اس کے لیے سپلائی میں واضح فرق سامنے آتا ہے۔
ان میں سب سے اہم مقامات سمندری، بیرونی خلاء اور سائبر سپیس ڈومینز ہیں، جو سامان، ڈیٹا، سرمایہ، لوگ، اور آئیڈیاز کو لیکر جاتے ہیں،جن پر گلوبلائزیشن یا عالمگیریت کا انحصار ہے۔

(جاری ہے)

ان چیزوں تک آسان اور آزادانہ رسائی کو یقینی بنانا نہ صرف امریکہ بلکہ دیگر زیادہ تر ممالک کے لیے بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔قریب سات دہائیوں تک امریکہ نے اس عالمی مشترکہ مقصد کو تحفظ فراہم کیا ہے اور اب بھی کررہا ہے،اور اس نے ورلڈ آرڈر کو تقویت دی ہے۔

سمندر میں بالا دستی…اور زیادہ حال میں، بیرونی خلاء اور آن لائن شعبوں میں بھی برتری سے… امریکہ کو دفاعی فوائد حاصل ہوئے ہیں اور وہ دنیا بھر میں اپنی طاقت کے اظہار میں کامیاب رہا ہے۔ مگر جُوں جُوں ان مشترکات پر ہجوم بڑھااور یہ نقصان دہ ہوگئے تو یہ بالادستی بھی غائب ہورہی ہے۔
اُبھرتی ہوئی طاقتیں اور ان کے ساتھ جرائم پیشہ افراد سے لیکرکارپوریشنز تک کی صورت میں غیر ریاستی کردار بھی امریکی مفادات کو کم کرنے کے لیے طویل عرصہ سے چلی آرہی روئیے کے حوالے سے روایات کو چیلنج کررہے اوربے ہنگم صلاحیتوں کو بروئے کار لارہے ہیں۔
عالمی مشترکات کی کشادگی ، استحکام ، اور لچک برقرار رکھنے کے لیے ، امریکہ کو ایک جیسے ذہن رکھنے والے ممالک ، اُبھرتی ہوئی قوتوں اور میدان کے نئے قوانین پر نجی اسٹیک ہولڈرز کے درمیان معاہدہ کروانے کی ضرورت ہو گی۔مثال کے طور پر، چین سے ایران تک اُبھرتی ہوئی طاقتیں، اپنے علاقائی پانیوں تک امریکہ اور دوسرے ممالک کی رسائی روکنے اور اپنے سمندروں کی آزادی کو خطروں سے بچانے کے لیے نیلے پانیوں کی قابلیت حاصل کرنے اور بے ہنگم حکمت عملیوں کے استعمال کی کوشش کررہے ہیں۔
آج سب سے بڑا مقام اشتعال چین کا جنوبی سمندر ہے، جہاں سے5ٹریلین ڈالرز سے زیادہ مالیت کا تجارتی سامان ہر سال گزرتا ہے۔ یہاں، چین قریب 1.3ملین مربع میل کے سمندری علاقے میں برونائی، ملیشیا،فلپائن،تائیوان اور ویت نام کے ساتھ خود مختاری کے خطرناک تنازعات میں گھر گیا ہے…مسابقتی جزائر بھی اس میں شامل ہیں…اور سمندر میں تیل اور گیس کے ذخائر کا استحصال جاری ہے۔
چین کا جارحانہ پن علاقائی استحکام کے لئے انتہائی خطرناک ہوسکتا ہے۔ سب زیادہ خطرناک امریکہ اور چین کا براہ راست بحری ٹکراؤ ہوگا۔جس کا سبب شاید امریکہ کی طرف سے چین کے ساحلی پانیوں میں نیویگیشن کی آزادی کے اظہار کے لیے کی جانے والی مشقیں ہوں یا امریکہ کے کسی اتحادی یا معاہدے میں شریک ملک کا لاپرواہی پر مبنی عمل بھی ہوسکتا ہے۔ جغرافیائی و سیاسی اور معاشی مقابلہ بھی گرم ہوتے قطب شمالی کے ساتھ تیز ہوگیا ہے کیونکہ ملکوں کے درمیان پھیلتے برّاعظمی کونوں پر حقوق ،ایشیاء اور شمالی امریکہ میں نئے بحری راستوں ، فوسلز کے ایندھن اور معدنی ذخائر پر قبضے کے لیے زور آزمائی ہورہی ہے۔
اب تک تو دماغ ٹھنڈا رکھنے والے غالب ہیں۔ 2008میں،قطب شمالی کے پانچ ممالک… کینیڈا،ڈنمارک ، ناروے ، روس اور امریکہ نے باہم مشترک دعوؤں کو ایک پرامن اور منظم انداز میں حل کرنے کے اپنے عزم کی تصدیق کرتے ہوئے، Ilulissat اعلامیے پر دستخط کئے تھے۔ بعض ماہرین کے مطابق آرکٹک کو، مقابلہ خود مختاری کے دعوے مصالحت نوردی کے مسائل سے نمٹنے ، اجتماعی توانائی میں ترقی کی سہولت ، ماہی گیری انتظام، اور ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے لئے ایک جامع کثیر جہتی معاہدہ کی ضرورت ہے۔
 
ایک زیادہ بہتر حکمت عملی یہ ہوسکتی ہے کہ پانچ آرکٹک ممالک کے علاوہ فن لینڈ ، آئس لینڈ ، سویڈن ، اور کئی مقامی لوگوں کی تنظیموں پر مشتمل آرکٹک کونسل کے کردا ر کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اگرچہ اس تنظیم نے ماضی میں متنازعہ سرحدی اور قانونی تنازعات میں کودنے سے گریز کیا ہے ، لیکن یہ ، تیل اور گیس کی ترقی پر رہنمائی، باہمی تعاون کے ساتھ براعظمی کونوں کی پیمائش کو سپانسر کرنے ، ایک علاقائی نگرانی کا نیٹ ورک تشکیل دینے ، اور نیویگیشن ، ٹریفک مینجمنٹ ، اور ماحولیاتی تحفظ کے نظام کو جدید بنانے میں مدد دے سکتی ہے۔
سمندری انتظامات کو مضبوط بنانے کے لیے امریکہ جو سب سے اہم کام کرسکتا ہے،بشمول آرکٹک کے، وہ سمندر کے قانون پر اقوام متحدہ کے کنونشن کے فیصلے کو قبول کرنا ہو گا، جس کی سفارش گزشتہ چار امریکی صدور ، امریکی فوجی رہنماوٴں ، صنعت کاروں اور ماحولیاتی گروپوں نے بھی کی ہے۔سمندری علاقوں اور خصوصی اقتصادی زونز میں ریاستوں کے حقوق و فرائض کی وضاحت کرنے اور بین الاقوامی آبناؤں کے ذریعے آمدورفت کے قوانین کی وضاحت کرنے کے علاوہ، UNCLOSسمندری حدود سے متعلق ایشوز پر تنازعات کے حل کے لیے ایک فورم فراہم کرتا ہے،جن میں براعظموں کے سمندری کونوں میں پھیلاؤ کے بعد مختلف ممالک کے ان نئی حدود پر دعوؤں کے جھگڑے بھی شامل ہیں۔
ایک غیر رکن ملک ہونے کے ناطے،امریکہ زمین پر آخری خودمختار خلاء کی عظیم تقسیم میں حصّہ لینے کے موقع سے محروم ہے، جو آرکٹک،بحر اوقیانوس ، خلیج ، اور بحر الکاہل کے ساحلوں کے ساتھ ساتھ وسیع علاقوں پر دائرہ اختیار دے سکتی ہے۔ نہ ہی وہ عالمی سمندری تخت کے عہدے پر بیٹھ کو کام کرسکتا ہے، جہاں اُسے مستقل نشست کے ساتھ ویٹو کا حق بھی حاصل ہو۔
الگ تھلگ رہ کر امریکہ نے نہ صرف اپنے قومی مفادات کا نقصان کیا ہے بلکہ اصول پر مبنی انٹرنیشنل آرڈر کے لیے اپنے دیرینہ عزم کو کمزور کیا اور تبدیلی کی خواہش مند علاقائی قوتوں کو جرأت دی ہے۔ چنانچہ مشرقی ایشیاء میں چین نے اور آرکٹک میں روس نے اشتعال انگیز خودمختاری کے دعوؤں پر کارروائی کے لیے امریکہ کی عدم موجودگی کا پورا فائدہ اُٹھایا ہے۔
اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی درست ہے کہ،معاہدے میں امریکہ کی شمولیت کوئی مسئلہ کا حل نہیں ہوگا۔ یہ بات خاص طور پر مشرقی ایشیاء کے حوالے سے سچ ہے جہاں چین اپنے دعوؤں کو UNCLOS کے تحت ثالثی کے لیے پیش کرنے پر تیار نہیں ہے۔ بہرحال آخر میں ، باہم مسابقانہ علاقائی دعوؤں کے پُرامن حل کے لیے چین اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم میں شامل اس کے ہمسایہ ممالک کو علاقائی دائرہ اختیار اور سمندر کے وسائل کے مشترکہ استعمال سے متعلق ضابطہٴ حیات پر اتفاق کی ضرورت ہو گی۔
یہ وہ کام ہے جس کی چین سختی سے مزاحمت کرتا ہے،لیکن اگر چین کی حکومت اپنے پُرامن عروج کے دعوؤں کی ساکھ قائم رکھنا چاہتی ہے، تو یہ ناگزیر لگتا ہے ۔
حتمی محاذ
بیرونی خلاء کے انتظامات کے حوالے سے عالمی قوانین بھی فرسُودہ ہوچکے ہیں،جیسے کہ سابق امریکی نائب وزیر دفاع ولیم جے لِن کے الفاظ میں ، یہ دائرہ کار زیادہ ”گنجان،مسابقتی اور لڑائی کا باعث“ بن چکا ہے۔
چونکہ اقوام عالم اور نجی کارپوریشنز اپنے مصنوعی سیاروں اور ایک محدود ریڈیو فریکوئنسی کے حصول کے لیے زمین کے خلائی مدار میں محدود جگہ پر قبضے کے لیے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں لگے ہیں، جس کی وجہ سے خلا میں کام کرنے والوں کی تعداد آسمان پر پہنچ گئی ہے۔پہلے ہی ، نو ممالک اور یورپی خلائی ایجنسی کے پاس خلاء میں مشن بھیجنے کی صلاحیت موجود ہے ، اور تقریباً 60 ممالک یا حکومتی ادارے ، سول، تجارتی ، فوجی اور مصنوعی سیاروں کا انتظام سنبھالتے ہیں۔
گاڑیوں کی تعداد اور خلائی ملبے کے بڑھنے سے، نیزایک سافٹ بال سے زیادہ بڑے حجم والے 22ہزار سے زیادہ خلائی اجسام نے …ایک تباہ کن تصادم کے خطرے میں بے حد اضافہ کردیا ہے۔ اس سے بھی پریشان کُن بات یہ ہے کہ ،خلائی سفر کرنے والی ترقی یافتہ اور اُبھرتی ہوئی اقوام کے درمیان سیاسی و جغرافیائی مقابلہ نے، خلاء میں ہتھیاروں کی دوڑ کے امکان کو بڑھادیا ہے۔
 
اس کے باوجود اب تک کم از کم ، کچھ حد تک اس حوالے سے عالمی اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ زمین کے حتمی محاذ کے استحکام اور پائیداری کو یقینی بنانے کے لیے کس طرح کا ریگولیٹری نظام ہونا چاہیے۔ بیرونی خلا میں کسی ملک کے قومی اخلاق کو بنیادی کنونشن کے لحاظ سے قابو رکھنے کے لیے انتظامات کا بنیادی کنونشن 1967 ہی بیرونی خلا کا بہترین معاہدہ رہا ہے۔
اگرچہ اس نے موثر قوانین مرتب کیے ہیں(جیسے کہ خلاء میں خودمختاری کے دعوؤں پر پابندی)، مگر اس معاہدے میں کسی تنازع کو حل کرنے کے طریقہٴ کار کا فقدان ہے، یہ اس بارے میں خاموش ہے کہ خلائی ملبوں اور باہمی تصادم سے کیسے بچنا ہے،اور یہ دوسرے ممالک کے خلائی اثاثوں میں مداخلت کے حوالے سے بھی ناکافی بات کرتا ہے۔
ان خامیوں کو دُور کرنے کے لیے ، مختلف جماعتوں نے روئیوں کے معیار پر ایک غیر رسمی معاہدے سے لیکرخلائی ہتھیاروں پر پابندی کا کثیر جہتی معاہدہ کرلینے تک کی مختلف تجاویز پیش کی ہیں۔
ایک معاہدے کی بنیاد پر مسائل کو حل کرنے کے نقطہ نظرسے، اوباما انتظامیہ نے بڑی عقل مندی سے بیرونی خلا کی سرگرمیوں کے لئے طرز عمل کے بین الاقوامی قوانین تشکیل دینے پر توجہ مرکوز کی ہے، جو خلا میں ذمہ دارانہ رویے کے لئے وسیع اصولوں اورضابطوں کو قائم کریں گے ۔ اس طرح کا رضاکارانہ ضابطہ قانوناً پابند کرنے والے کثیر جہتی معاہدے سے کم ذمہ داریاں عائد کرے گا ، لیکن یہ مختصر مدت میں رویے کے نئے معیار قائم کرنے کے لئے بہترین موقع فراہم کرسکتا ہے۔
امریکہ کو خلائی سفر کرنے والے ممالک کے محدود سطح کے مشاورتی فورم کے قیام پر بھی غور کرنا چاہیے۔ 
سائبر سپیس میں گُم
سائبرسپیس، سمندر یا بیرونی خلا سے مختلف ہے کیونکہ اس کا بنیادی طبعی ڈھانچہ، بنیادی طور پر خود مختار ریاستوں میں اور نجی ہاتھوں میں ہوتا ہے…اور یہ اپنے مفادات کا پیچھا کرنے والی پارٹیوں کی مداخلت کے بالکل واضح خطرات پیدا کرتی ہے۔
ڈیجیٹل زمانے کے آغاز سے ہی،امریکہ ایک آزاد،مرکزیت سے پاک اور محفوظ،سائبر سپیس کا سب سے بڑا چیمپئن رہا ہے…جو زیادہ تر نجی شعبے کی تحویل میں رہی ہے۔یہ طرزعمل طویل عرصے سے چلے آرہے امریکہ کے اس عقیدے کے مطابق ہے کہ معلومات اور خیالات کا آزاد بہاوٴ ایک آزاد،منصفانہ اور کھلی دنیا کے لیے بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتا ہے اور ساتھ ہی آمریت کے خلاف ایک مضبوط دفاع بھی ہے۔
لیکن سائبر سپیس کے عالمی نظام حکومت میں یہ نقطہ نظر تین جانب سے خطرے میں ہے۔
سب سے پہلے تو بہت سے ترقی پذیر اور آمرانہ ملکوں کی طرف سے یہ مطالبہ خطرے کا باعث ہے کہ انٹرنیٹ کا نظام (انٹر نیٹ کارپوریشن فار آسائنڈ نیم اور نمبرز) ICANN سے لیکر،جوکہ لاس اینجلس سے تعلق رکھنے والی آزاد اور غیرنفع بخش کارپوریشن ہے اور جس کی معمولی طور پر نگرانی امریکی محکمہٴ تجارت کرتا ہے…اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے (انٹرنیشنل ٹیلی کمیونی کیشن یونین) ITU،کو منتقل کردیا جائے۔
دوسرا خطرہ سائبر کرائم(انٹرنیٹ کے ذریعے ہونے والے جرائم) کی بڑھتی وباء ہے،جو زیادہ تر نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی طرف سے ملکیتی معلومات چوری کرنے کی کوششوں کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ انتہائی پیچیدہ قسم کے کمپیوٹر وائرس، wormsاور botnets نے ،انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی حالت کو جسے ”سائبر عوامی صحت “ کہا جاسکتا ہے،ڈرامائی طور پر نقصان پہنچایا ہے۔
اور عالمی ادارہٴ صحت کی طرح کی کوئی سائبر سپیس موجود نہیں ہے جو ایسے خطرات کا تدارک کرسکے۔تیسرا اہم خطرہ خود مختار ریاستوں کے درمیان سائبر جنگ کی بڑھتی ہوئی کالی چھایا ہے ۔ درجنوں ممالک نے نام نہاد انفارمیشن آپریشنز انجام دینے کے لیے مخصوص طریقے اور صلاحیتیں تیار کرنا شروع کردی ہیں،نہ صرف معلومات میں دراندازی کے لیے بلکہ اس لیے بھی کہ اگر ضرورت ہوتو اپنے دشمنوں کے انتہائی اہم ڈیجیٹل انفراسٹرکچر(فوجی اور سویلین دونوں) کو تباہ بھی کیا جاسکے۔
چونکہ سائبر حملے کی کوئی عام قابل قبول تعریف نہیں ہے، اور جائز ردعمل پر بہت کم اتفاق رائے ہوپاتا ہے، لہٰذا سائبر جنگ کو قابو کرنے کے لیے معیاری اور قانونی دائرہ کار سائبر ہتھیاروں کی تیاری اور اُن کے استعمال کی دوڑ میں کہیں پیچھے رہ گیا ہے۔ خاص مجرموں سے حملوں کو منسوب کرنا جتنا مشکل ہے ، ان حملوں کے خلاف مزاحمت اور جوابی کارروائی کے روایتی طریقے بھی اُتنے ہی پیچیدہ ہیں۔
اقوام متحدہ کا کوئی ایسا معاہدہ موجود نہیں جو بیک وقت سائبر جنگوں کی روک تھام کے لیے قوانین کی پابندی کراسکے،سائبر جرائم کا تدارک کرسکے اور ساتھ ہی ساتھ انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی شخصی آزادی کا تحفظ کرسکے۔ لبرل اور آمرانہ حکومتیں ”سائبر سیکورٹی“ کی تعریف اور اسے کیسے ممکن بنایا جائے پر اتفاق نہیں کرتیں۔موخرالذکر یعنی آمرانہ حکومتیں عام طور پر خیالات اور معلومات کے آزادانہ تبادلے کو ایک بنیادی اقدار نہیں بلکہ اپنے استحکام کے لیے خطرہ تصور کرتی ہیں، اور پھر سائبر ہتھیاروں کو روایتی ہتھیاروں پر کنٹرول اور عدم پھیلاؤ کے مذاکرات میں شامل کرنے کے حوالے سے بھی بہت سی مخصوص رکاوٹیں حائل ہیں۔
چنانچہ سائبر سپیس میں ٹکڑوں میں حکومت کا طریقہٴ کار زیادہ حقیقت پسندانہ لگتا ہے۔ عالمی ممالک کو سائبر حملوں کی ذمہ داری اور جوابی کارروائی کے معیار سے متعلق اصول وضع کرنے کے لیے مذاکرات کرنا ہونگے۔ اُنھیں شفافیت اور اعتماد سازی کے لیے بھی اقدامات کرنا ہونگے، اور سائبر جنگ کی صور ت میں انسانی ہمدردی کے اصولوں کے تحفظ پر اتفاق کرنا ہوگا،روٹ سرورز پر حملوں سے گریزکے اصول اپنانے ہونگے جوانٹرنیٹ کی ریڑھ کی ہڈی کی تشکیل کرتے ہیں،اور سروس اٹیک سے مکرنے اور سروس پر حملوں کی ذمہ داری سے انکار پر پابندی عائد کرناہوگی کیونکہ ایسے حملے متاثرہ ممالک کے انٹرنیٹ انفراسٹرکچر کو مفلوج کرسکتے ہیں۔
امریکہ شاید اپنے ہم خیال ملکوں کو ساتھ ملاکر…بالکل فنانشل ایکشن ٹاسک فورس یا پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے، لیے گئے اقدام کی طرح…جس قدر ممکن ہو بیرونی رکنیت کی توسیع کرتے ہوئے ، اس ایجنڈے کو آگے بڑھانا شروع کرسکتا ہے۔

ٹکنالوجی اور عالمی نظام حکومت کی سرحدیں
عالمی نظام حکومت کی تاریخ نئی ٹکنالوجی کو اپنانے سے عبارت ہے۔
جُوں جُوں کامیابیاں ملیں،آزاد حکومتوں نے مشترکہ معیار قائم کرتے ہوئے جھگڑوں سے بچنے کے لیے باہمی تعاون کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر، آج ہم گرین وچ مین ٹائم کو بیس لائن مقرر کرتے ہوئے دنیا کی 24الگ الگ ”ٹائم زون” میں تقسیم کو خاص اہمیت نہیں دیتے،مگر انیسویں صدی کے وسط میں ، صرف امریکہ میں 144 مقامی ٹائم زون تھے۔ یہ تو انیسویں صدی کے آخر میں ٹرین اور بحری جہازوں کے اوقات کو مقرر کرنے کے لیے دنیا کے اکثر اہم ممالک کو احساس ہوا کہ اُنھیں اپنے معیاری وقت میں باہم مطابقت پیدا کرنی چاہیے۔
آج ، تکنیکی تبدیلی کی تیز رفتار کی وجہ سے عالمی نظام حکومت پر گرد پڑنے کا خطرہ ہے۔ تکنیکی ترقی جو سہولتیں فراہم کرتی ہے ، بین الاقوامی نظام اُسے ریگولیٹ کرنے کے لیے کس قدر تیار ہے…ڈرون اور مصنوعی حیاتیات سے لیکر نینوٹکنالوجی اور جیوانجینئرنگ تک دونوں کے درمیان فرق کئی شعبوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ 
جب ڈرونز کا معاملہ آتا ہے، تو امریکہ خود ٹارگٹڈ ہلاکتوں پر منطقی جواز فراہم کرنے میں مشکلات کا شکار رہا ہے۔
ابتدا میں غیرملکی اعتراضات متاثرہ ملک تک مرکوز تھے،مگر پھر بڑھتے ہوئے ان ڈرونز کے استعمال کو مقامی اور بین الاقوامی سطح پر چیلنج کردیا گیا۔ اور پھر اب ڈرون ٹکنالوجی کے ریاستی اور غیرریاستی عناصر کے ہاتھوں میں آنے سے ان کے استعمال کے حوالے سے قوانین بنانے…اور جلد بنانے کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔
 بائیوٹیکنالوجی میں تیزی سے ترقی بھی زیادہ طویل مدتی خطرات کا باعث ہو سکتی ہے۔
سائنسدان آج جینیاتی مواد کو توڑ مروڑ کر نئے حیاتیاتی نظام تخلیق کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ اس طرح کی ” مصنوعی حیاتیات“ کی علاج اور عوامی صحت کے حوالے سے زبردست افادیت ہے، مگریہ عظیم نقصان بھی پہنچاسکتی ہے، جیسے کہ بدمعاش ریاستوں یا مجرمانہ ذہن رکھنے والے سائنسدان مہلک امراض پھیلانے والے پیتھوجینز یا دوسرے حیاتیاتی ہتھیار وں کا غلط استعمال کریں۔
اس وقت ایسے خطرات کے تدارک کے لیے صرف نامکمل پیچ ورک پر مبنی قواعد و ضوابط موجود ہیں۔ اور نہ ہی ”نینو ٹکنالوجی“ کے استعمال اور اس پر تحقیق کے حوالے سے بین الاقوامی ریگولیٹری انتظامات موجود ہیں…مثال کے طور پر جوہری یا سالموں کی سطح پر مواد توڑنے کے عمل کے حوالے سے قوانین موجود نہیں۔ جہاں کہیں قواعد و ضوابط موجود ہیں،وہاں یہ امور بنیادی طور پر قومی سطح پر انجام دئیے جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر امریکہ میں،یہ عمل ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی ، فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن اور، معیار اور ٹیکنالوجی کے قومی انسٹی ٹیوٹ کی زیرنگرانی مشترکہ طور پر کیا جاتا ہے۔ جو بات معاملات کو مزید پیچیدہ بناتی ہے ،وہ یہ کہ اس شعبے میں تحقیق اور سرمایہ کاری کا زیادہ تر کام نجی شعبے کی طرف سے کیا جارہا ہے،جسے عوام کی حفاظت سے متعلق ممکنہ خطرات پر غور کرنے کی بہت کم پرواہ ہے۔
 
آخرمیں،جیوانجینئرنگ کے شعبے میں غیر مربوط کاوشوں کے حوالے سے پائے جانے والے خطرات…مثال کے طور پر گلوبل وارمنگ کے عمل کو سُست یا ختم کرنے کے لیے زمین کی آب و ہوا کے نظام میں بڑے پیمانے پر کی جانے والی چھیڑ چھاڑ …کے حوالے سے بھی قواعدو ضوابط کی ضرورت ہے۔ اس طرح کے منصوبوں میں (جیسا کہ ایک فری لانسنگ امریکی سائنسدان نے 2012 میں کوشش کی تھی) ، لوہے کے چورے کے ساتھ دنیا کے سمندر کی بوائی کی جائے، جو خلاء میں موجود آئینوں کے نظام کے ذریعے شمسی تابکاری کا رُخ موڑنا، اور قطب شمالی کے میدان tundras اور سمندر میں موجود میتھین کے اخراج کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے اقدامات شامل ہیں۔
زمین کے ماحول کو ازسر نو بنانے کی یہ کوششیں،جنہیں ایک عرصہ قبل غیرحقیقی مان کر مسترد کردیا گیا تھا، بعض اہم ماہرین نے اچانک انہیں سنجیدگی سے لینا شروع کردیا ہے۔ جیسے جیسے گلوبل وارمنگ بڑھے گی، ملک اور نجی شعبے کے کردار چیزوں کو اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے زیادہ کو شاں ہونگے۔ صرف مناسب طور پر وضع کیے گئے قواعد و ضوابط سے ہی یہ بات ممکن بنائی جاسکتی ہے کہ اس طرح کی غیرمربوط کوششیں غلط سمت میں نہ چلی جائیں، جس کے ممکنہ طور پر تباہ کن نتائج ہوسکتے ہیں۔
 
بہت کافی عالمی نظام حکومت
جیسا کہ ان تمام مثالوں سے واضح ہوتا ہے،عالمی نظام حکومت کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے،اور اس حوالے سے طلب اور سپلائی میں فاصلہ بڑھتا جارہا ہے۔ڈرامائی بحرانوں پر توجہ کا فقدان ہے،کثیر فریقی ادارے تکلیف دہ حد تک سُست اور جوابی ردعمل ظاہر کرنے میں بے ڈھنگے پن کا شکار ہیں۔ چنانچہ اگر وہ موجودہ عالمی آرڈر کو زندہ کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں،سفارت کاروں اور دوسری دلچسپی رکھنے والے فریقین کو اجتماعی عمل کے لیے دوسرے اعزازی فریم ورک کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے، جس میں ریجنل اور سب ریجنل اداروں،پبلک۔
نجی سیکٹر کے انتظامات اور غیررسمی ضابطہٴ اخلاق کی طرف رُخ کرنا پڑے گا۔ اس کے نتیجے میں عالمی تعاون کے لیے حاصل ہونے والاجیری رگڈ(jerry-rigged)ڈھانچہ جمالیاتی اعتبار سے خوشگوار نہیں ہوگا،مگر یہ کچھ مفید چیزوں کے حصول کا سبب بنے گا۔
ایک دھائی پہلے ہاورڈ کی سکالر Merilee Grindleنے اُندرون ملک اچھے اسلوب حکمرانی میں اصلاحات کی اُس طویل فہرست کے خلاف جوابی بیانات شروع کیے ۔
جسے عالمی بینک اور دیگر ادارے ترقی کی حوصلہ افزائی اور ترقی پذیر ممالک میں غربت کم کرنے کے لئے ضروری سمجھتے تھے ۔اُنھوں نے بین الاقوامی عطیہ دینے والوں کو اپنی طویل،نیک نیتی پر مبنی جانچ پڑتال کی فہرست ایک طرف رکھنے اور ”بہت کافی عالمی نظام حکومت“ پر توجہ مرکوز کرنے پر زور دیا۔ تمام مسائل کو ایک ساتھ ہی حل کرنے کے بجائے اُنھوں نے تجویز دی کہ امدادی اداروں کو ترقی کے لئے کم سے کم ادارہ جاتی ضروریات کے حصول پر توجہ مرکوز کرنا چاہئے۔
کم توقعات اور صرف ضروری اور ممکن چیزوں پر عمل کا مشورہ بین الاقوامی میدان میں، وہاں اداروں میں اصلاحات کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو صاف کرنے کے لیے اس سے بھی زیادہ قابل عمل ہے ۔ہوسکتا ہے کہ اوباما انتظامیہ، اس کے ساتھیوں اور جانشینوں کے لیے ،بہت اچھے عالمی نظام حکومت کی منزل کے کچھ قریب پہنچنا، ٹرومین انتظامیہ کے سنہری دنوں کو دہرانے کی کوشش سے کم تسلی بخش ہو۔مگر یہ کام کم ازکم کچھ بھی نہ کرنے سے بہت بہتر ہوگا،اور پھر ہوسکتا ہے کہ یہ کام ہی کرجائے۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط