تقسیم کا عمل بدنظمی کی شکار دنیا کوکیسے درست کیا جائے؟ (رچرڈ این ہاس)
(رچرڈ این ہاس خارجہ تعلقات کونسل کے صدر ہیں)
معروف سکالر ہیڈلے بل اپنی کلاسیک کتابThe Anarchical Society میں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ، دنیا میں کسی نظام کی پابند اور اس کی خلاف ورزی کرنے والی قوتوں کے درمیان مستقل کشیدگی جاری رہی ہے اور ان دونوں قوتوں کے درمیان توازن کی تفصیلات سے ہی ہر دور کے خاص کردار کی وضاحت ہوتی ہے۔
کسی نظام کے ذرائع میں موجودہ بین الاقوامی قوانین اور انتظامات اور ان میں تبدیلی کرنے کے عمل کے لئے مخلصانہ جذبات رکھنے والے کردار شامل ہوتے ہیں؛ نظام کے مخالف ذرائع میں وہ کردار شامل ہوتے ہیں جو ان قوانین اور انتظامات کو مکمل طور پر رد کرتے ہیں اور انھیں نظر انداز یا ان کو کمزور کرنے کے حوالے سے خود کو بالکل آزاد تصور کرتے ہیں۔
(جاری ہے)
توازن، حکومتوں کے اختیار سے باہر مختلف درجوں تک عالمی رجحانات کی وجہ سے بھی متاثر ہوسکتا ہے، جو کرداروں کے انتخاب کے لئے سیاق و سباق تخلیق کرتے ہیں۔ ان دنوں، نظام اور اس کے مخالفین کے درمیان توازن، موٴخر الذکر کی طرف منتقل ہورہا ہے۔اس کی کچھ وجوہات تو انتظامی ہیں، لیکن بعض وجوہات اہم کرداروں کے انتخاب کا نتیجہ ہیں… اور ان میں سے کم از کم بعض کو درست کیا جاسکتا ہے اورکیاجانا چاہیے۔
موجودہ بدنظمی کی سب سے اہم وجہ مشرق وسطیٰ ہے۔ پہلی عالمی جنگ یا سرد جنگ کے حوالے سے جتنے بھی موازنے کیے گئے ہیں، ان سے قطع نظر، آج اس علاقے میں جو ہو رہا ہے،وہ تیس سالہ جنگ،یعنی تین دہائیوں پر محیط اُس تنازعے سے زیادہ ملتا جلتا ہے جس نے سترہویں صدی کے پہلے نصف حصہ میں یورپ کے بیشتر حصوں کو تباہ حال کرکے رکھ دیا تھا۔جیسا کہ اُس وقت یورپ کے ساتھ ہوا تھا، بالکل اسی طرح آنے والے سالوں میں، مشرق وسطیٰ بھی ہر طرف، ایسی کمزور ریاستوں جو اپنے علاقوں کی سرحدوں کی نگرانی کی صلاحیت سے عاری ہونگی، بڑھتی طاقت کے ساتھ سرگرم ملیشیا اور دہشت گرد گروپوں، اور خانہ جنگی اورریاستی جھگڑوں سے بھرا ہوگا۔
فرقہ وارانہ اور گروہی تشخص قومی تشخص کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہو جائے گا۔ قدرتی وسائل کے وسیع ذخائر کے ذریعے ہمت پاکر، طاقتور مقامی کردار(ممالک)… ہمسایہ ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے رہیں گے، اوراہم بیرونی کردار(ممالک) خطے کو مستحکم کرنے کے قابل ہونگے اور نہ اس پر تیارہونگے۔
یورپ کی سرحدوں پر بھی نیا عدم استحکام ظاہر ہورہا ہے۔
صدر ولادی میر پوٹن کی قیادت میں، یوں لگتا ہے کہ روس نے یورپی اور عالمی آرڈر کے ساتھ نمایاں انضمام کی تجویز کو رد کرتے ہوئے اپنے قریب ترین ہمسایہ ممالک اورکلائنٹس کے ساتھ خصوصی تعلقات کی بنیاد پر مستقبل کے ایک متبادل راستے کا انتخاب کرلیا ہے۔ یوکرائن میں بحران، روسی یا بلکہ، سوویت یونین کی بحالی کے منصوبے کاسب سے زیادہ اہم، مگر آخری نہیں، اظہار ہو سکتا ہے۔
ایشیا میں، موجودہ عدم استحکام کی نسبت اس کے بڑھتے امکانات زیادہ اہم مسئلہ ہیں۔وہاں، زیادہ تر ریاستیں کمزور ہیں اور نہ ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، بلکہ مضبوط ہیں اور مضبوط تر ہو رہی ہیں۔ مضبوط تشخص، متحرک معیشتوں، بڑھتے ہوئے فوجی بجٹ، تلخ تاریخی یادوں، اور حل طلب علاقائی تنازعات رکھنے والے کئی ملکوں کا مرکب، کلاسیک جغرافیائی و سیاسی مداخلت اور ممکنہ مسلح تصادم کے واضح امکانات رکھتا ہے۔
دنیا کے اس حصے میں مسائل میں اضافہ کرنے والے عناصر میں اکھڑشمالی کوریا اور ایک ہنگامہ خیز پاکستان جیسے ممالک شامل ہیں، جو دونوں ہی جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں (اور ایک میں تو دنیا کے سب سے زیادہ خطرناک دہشت گردموجود ہیں)۔دونوں ہی کسی لاپرواہ کارروائی یا ریاست کی نا اہلی کے نتیجے میں، ایک مقامی یا عالمی بحران کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
عالمی نظام کے لئے کچھ موجودہ چیلنجز عالمی نوعیت کے ہیں، یہ گلوبلائزیشن کے خطرناک پہلووٴں کی عکاسی کرتے ہیں اور ان میں دہشت گردوں کا ایک ملک سے دوسرے میں داخل ہونا، وائرس (جسمانی اور ورچوئل دونوں طرح کے)، اور گرین ہاوٴس گیسوں کا اخراج شامل ہیں۔چونکہ ان مسائل کا راستہ روکنے یا ان کے انتظام کے لئے اداروں پر مبنی نظام بہت ہی کم دستیاب ہیں، اس لیے ان مسائل کا یونہی بڑھتے رہنا مجموعی طور پر نظام کے معیار کو کم کرنے یا اس میں خلل ڈالنے کا سبب بن سکتا ہے۔
اور پاپولزم میں اضافے، اقتصادی جمود اور بڑھتی ہوئی عدم مساوات کے باعث بھی عالمی طرز حکمرانی کو بہتر بنانا زیادہ مشکل ہورہا ہے۔
بین الاقوامی نظام کو تشکیل دینے والے اصولوں پر بھی اختلافات پائے جاتے ہیں۔طاقت کے ذریعے علاقے کے حصول کے ناقابل قبول ہونے سے متعلق کچھ اتفاق رائے موجود ہے، اور یہ ایسا ہی معاہدہ تھا جس نے1990 میں، کویت کو عراق میں جذب کرنے کی صدام حسین کی کوشش کا رُخ واپس موڑنے میں مدد کے لیے وسیع اتحاد کو مضبوط بنایا تھا۔
لیکن یہ اتفاق رائے بعد کے عرصے میں اس قدر تار تار ہوچکا تھا کہ اس نے روس کو اُس وقت اسی طرح کی عالمی مذمت سے بچ نکلنے کی اجازت دے دی، جب اُس نے گزشتہ موسم بہار کے بعد کریمیا کو اپنے ساتھ شامل کیا، اور اس بارے میں محض اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے کہ چین کی طرف سے متنازعہ فضائی حدود، سمندر، یا زمینی علاقوں میں طاقت کے اظہار پر دنیا کیا ردعمل ظاہر کرے گی۔
خود مختاری پر بین الاقوامی معاہدہ اس وقت اور بھی زیادہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے جب کسی حکومت کی طرف سے اپنے ہی شہریوں پر حملہ کرنے یا دوسری صورت میں اُس ملک کے اپنی خود مختار ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام رہنے کی صورت میں، بیرونی ممالک کی طرف سے مداخلت کے حق کا سوال آتا ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے منظوری کے ایک دہائی کے بعد، ” حفاظت کی ذمہ داری“ کے تصور کو اب وسیع حمایت حاصل نہیں رہی، اور نہ ہی دوسرے ممالک کے معاملات میں ملوث ہونے کے جائز حق پر کوئی مشترکہ معاہدہ پایا جاتا ہے۔
یقینی طور پر، نظام کو قائم رکھنے والی طاقتیں بھی سرگرم عمل ہیں۔ کئی دہائیوں سے عظیم طاقتوں کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوئی ہے، اور مستقبل قریب میں اس کا کوئی خاص امکان بھی نہیں ہے۔ چین اور امریکہ کچھ مواقع پر تعاون کرتے ہیں اور بعض مواقع پر ان کے درمیان مقابلہ بھی ہوتا ہے مگر دوسری(مقابلے کی) صورت میں بھی، مقابلہ حدود کے اندر ہوتا ہے۔
دونوں ممالک کا ایک دوسرے پر انحصار حقیقی ہے، اور دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے ہاں (لفظی اعتبار سے بھی اور اعدادو شمار کے لحاظ سے بھی) بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رکھی ہے، جس کی وجہ سے تعلقات میں کوئی بھی بڑا اور طویل تنازعہ دونوں کے لئے ایک تشویشناک ممکنہ صورت حال کا باعث بن گیا ہے۔
روس، بھی، ایک دوسرے پر انحصار کی وجہ سے خود کو روکے رکھنے پر مجبور ہے، اگرچہ وہ اپنی توانائی پر مبنی معیشت اور بیرونی تجارت اور سرمایہ کاری کی معمولی سطح کی وجہ سے چین کے مقابلے میں کم مجبور ہے۔
تاہم اس کا مطلب یہ ہے کہ پابندیوں کے ذریعے وقت کے ساتھ اس کے رویے پر اثر انداز ہونے کا امکان موجود ہے۔ پوٹن کی خارجہ پالیسی بزور طاقت قبضے کی ہو سکتی ہے، لیکن روس کی طاقت کے سخت اور نرم وسائل دونوں محدود ہیں۔ روس اب ایسی کسی چیز کی نمائندگی نہیں کرتا جو نسلی روسیوں کے علاوہ کسی اور کو متاثر کرسکے، اور اس کے نتیجے میں، یہ جو جغرافیائی و سیاسی مشکلات پیدا کرسکتا ہے، اُن کا دائرہٴ اثر یورپ کے اہم حصوں کو چھوئے بغیر، صرف اس کے بیرونی علاقے تک ہی رہے گا۔
بے شک، گذشتہ 70 سال کے دوران یورپ کی تبدیلی کے اہم عناصر… جرمنی میں جمہوری اصلاحات، فرانکو جرمن مصالحت، اقتصادی انضمام…اس قدر مضبوط ہوچکے ہیں کہ انھیں باآسانی نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ یورپ کی تنگ نظری اور فوجی کمزوری خطہ کو عالمی امور میں امریکہ کے لئے ایک بُرا پارٹنر بنا سکتا ہے، لیکن براعظم یورپ اب خود سیکورٹی کے لحاظ سے کوئی خطرہ نہیں، جو ماضی کے مقابلے میں ایک بہت بڑی پیش قدمی ہے۔
ایشیا پیسیفک کی طرف دیکھ کر بدترین حالات فرض کرلینا بھی غلط ہو گا۔یہ خطہ کئی دہائیوں سے بے مثال اقتصادی ترقی حاصل کررہا ہے اور پُر امن طریقے سے اس میں کامیاب بھی ہے۔ یہاں بھی، باہمی معاشی انحصار تنازعات میں رکاوٹ کا کردار ادا کرتا ہے۔ اور پھر حفاظتی عناصر کے حامل اداروں کی تخلیق کے لیے سفارتکاری اور تخلیقی پالیسی سازی کے لئے اب بھی وقت ہے، جو بڑھتی قوم پرستی اور بد اعتمادی کے نتیجے میں تصادم کے خطرے کو کم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔
دریں اثنا، عالمی معیشت مالیاتی بحران کے بعد دوبارہ مستحکم ہو گئی ہے، اور مستقبل کے بحرانوں کی مشکلات اور اُن کی شدت کو کم کرنے کے لئے نئے ضوابط عمل میں آچکے ہیں۔ امریکی اور یورپی شرح نمو اب بھی ماضی کی روایات سے کم ہیں، لیکن جو چیز امریکہ اور یورپ کو پیچھے رکھے ہوئے ہے وہ بحران کے اثرات نہیں ہیں بلکہ وہ مختلف پالیسیاں ہیں جو پائیدار ترقی کو روکتی ہیں۔
شمالی امریکہ اپنی مستحکم، خوشحال، اور آزاد معیشت … اپنے 470 ملین لوگوں اورتوانائی میں بڑھتی خود کفالت…کے باعث ایک بار پھر دنیا کا اقتصادی انجن، بن سکتا ہے۔لاطینی امریکہ کا زیادہ تر حصہ پُر امن ہے۔ میکسیکو، ایک دہائی پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ مستحکم اور کامیاب ملک ہے، اسی طرح کولمبیا ہے۔ برازیل، چلی، کیوبا، اور وینزویلا جیسے ملکوں کے مستقبل پر اگرچہ سوال لٹک رہا ہے مگر یہ سوال ایک ایسے خطے کے بنیادی خدوخال کو تبدیل نہیں کرتا جو صحیح سمت میں آگے بڑھ رہا ہے اور افریقہ میں بھی ایسے ملکوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جہاں بہتر اسلوب حکمرانی اور اقتصادی کارکردگی اب اتفاقیہ بات کی بجائے عام معمول بن گئی ہے۔
روایتی تجزیاتی نظرئیات ان بظاہر متضاد رجحانات کی توجیہہ بیان کرنے کی بہت کم صلاحیت رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر،ایک روایتی طریقہٴ کار یہ ہے کہ بین الاقوامی محرک کے طور پر امریکہ کے زوال اور چین کی ترقی کے تناظر میں اُبھرتی اور کمزور ہوتی طاقتوں کا موازنہ کیا جائے۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے عام طور پر امریکہ کی کمزوریوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے جبکہ چین کی کمزوریوں کو کم اہمیت دی جاتی ہے۔
اپنے تمام تر مسائل کے باوجود امریکہ اکیسویں صدی میں ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے بہترین پوزیشن میں ہے، جبکہ چین کو سُست ترقی، کرپشن، عمر رسیدہ آبادی، ماحولیاتی آلودگی، اور کڑی نظر رکھنے والے پڑوسیوں سمیت،بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ اور اس وقت کوئی بھی ملک عالمی برتری کے لحاظ سے امریکہ کا حریف بننے کے لیے درکار صلاحیت اور عزم کے قریب بھی نہیں ہے۔
امریکی صدر باراک اوباما کے حوالے سے حال ہی میں بتایا گیا تھا کہ اُنھوں نے یہ کہتے ہوئے چیزوں کے ہاتھ سے نکلنے کے خدشات کو مسترد کردیا کہ ”دنیاہمیشہ سے بدنظمی کا شکار رہی ہے“ اور جو کچھ آج ہورہا ہے ”وہ سرد جنگ کے دوران درپیش چیلنجز کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔“ تاہم اس قدر خوش اعتقاد ہونا بھی غیرمناسب ہے کیونکہ آج کی دنیا بہت زیادہ غیرمنظم ہے، جس کی وجہ بڑی تعداد میں اہم اداکاروں کا اُبھر کر سامنے آنا اور ان میں سے سب سے زیادہ شدت پسندوں کی صلاحیت کو روکنے یا ان کے رویے کو معتدل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے ملتے جلتے مفادات یا میکانزم کی کمی ہے۔
درحقیقت، ایسی صورت میں جبکہ امریکی سبقت تحلیل ہورہی ہے لیکن کوئی جانشین لاٹھی لینے کے لئے انتظار نہیں کر رہا، ممکنہ مستقبل ایسا ہوگا جس میں موجودہ بین الاقوامی نظام ایک زیادہ غیر منظم نظام کو راستہ دے دیگا ،جس میں طاقت کے کئی ایسے مراکز ہونگے جو بڑھتی خودمختاری کے ساتھ امریکی مفادات اور ترجیحات کو کم اہمیت دیں گے۔ یہ موجودہ مسائل کے حل کو زیادہ مشکل بنانے کے ساتھ ساتھ نئے مسائل بھی پیدا کرے گا۔ مختصراً یہ کہ، سرد جنگ کے بعد کا نظام بکھر کر تقسیم ہورہا ہے، اور چونکہ یہ کامل نہیں تھا، اس لیے اب اسے صرف یاد کیا جائے گا۔