Episode 70 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 70 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

وہ کیوں لڑے تھے؟جنگ نے ریاست اور ریاست نے امن کی تخلیق کیسے کی؟(مائیکل مینڈل بام) 
(مائیکل مینڈل بام،جان ہاپکنز سکول آف ایڈوانسڈ انٹرنیشنل سٹڈیز میں امریکی خارجہ پالیسی کے پروفیسر اور کتاب ”دی روڈ ٹو گلوبل پراسپیرٹی The Road to Global Prosperity“ کے مصنف ہیں)
War! What Is It Good For? Conflict and the Progress of Civilization From Primates to Robots BY IAN MORRIS. 
(نوٹ: یہ ایان مورس کی وہ کتاب ہے جس کا حوالہ مائیکل مینڈل بام نے زیر نظر تحریر میں بار بار دیا ہے) 
معروف فلسفی الفریڈ نارتھ وائٹ ہیڈ نے ایک بار کہا تھا کہ یورپی فلسفہ کی تاریخ، افلاطون کے فٹ نوٹس کی سیریز پر مشتمل ہے۔
ایان مورس کے نزدیک، دنیا کی تاریخ کو تھامس ہوبز کے فٹ نوٹس کے ایک سلسلہ کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ہوبز کے فلسفہ کی رو سے ، نظم وضبط کوتمام تر سماجی حالات کے درمیان مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

(جاری ہے)

ان کے لکھے جملے کے مطابق ،نظم و ضبط کے بغیر، انسانی وجود ” گھٹیا، محروم، اور مختصر“،بن جاتا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ… نظم و ضبط، جسے انھوں نے عہد نامہ قدیم کی سمندری بلا کے نام پر”Leviathan “قرار دیا ہے،ایک طاقتور حکومت کی تخلیق کے ذریعے وجود میں آتا ہے۔

زمانہ ٴ قدیم سے موجودہ دور تک، مورس کی تنازعات کی جامع تاریخ کے مطابق، نظم و ضبط ہمیشہ ایسی حکومتیں بناتی ہیں جو اتنی مضبوط ہوں کہ اپنے زیر حکومت رہنے والے لوگوں کی حفاظت کرسکیں، اور جیسا کہ ہوبز نے کہا، ایسا ہی ہوا۔ایسی حکومتیں، ایک کے بعد ایک، جنگ کے نتیجے میں اُبھر کر سامنے آئیں۔ مورس کی کتاب کے عنوان(جنگ! اس کا فائدہ کیا ہے؟) کی طرف سے اُٹھائے گئے سوال کا جواب یہ ہے کہ جنگ کا فائدہ یہ ہے کہ یہ حفاظت فراہم کرتی ہے…دوسرے الفاظ میں، جنگ کا فائدہ امن کا قیام ہے۔
یقیناً ،جیسا کہ مورس کہتے ہیں، سب جنگیں”سُود مند“ نہیں ہوتیں، وہ جنگیں جو نظام(leviathans ) کو کمزور کرنے یاتوڑنے کا سبب بنیں، اُنھیں ”غیر سُودمند“ قرار دیا گیا،کیونکہ اُنھوں نے لوگوں کو زیادہ غیر محفوظ بنادیا۔ ان کے بیان کے مطابق، انسانی تاریخ نے دونوں قسم کی جنگوں کے طویل دور دیکھے ہیں۔اپنا موقف پیش کرتے ہوئے، مورس منظم جنگ کے آغاز کے بعد سے فوجی تاریخ کا ایک مفید جائزہ فراہم کرتے ہیں، اگرچہ موجودہ زمانے تک پہنچ کر اُن کی کہانی مشکلات کا شکار ہوجاتی ہے۔
تشدد کی تاریخ
مورس کی بیان کردہ کہانی دس ہزار سال پہلے کے، پتھر کے زمانے سے شروع ہوتی ہے، جب ہمارے سیارے کے کئی ملین انسانی باشندے، شکار پر گزارہ کرنے والے باہم مخالف چھوٹے گروہوں کی صورت رہتے تھے۔ اس ناخوشگوار دور میں، انتہائی غیرمصدقہ اندازوں کے مطابق، تمام لوگوں میں سے ،10سے 20فیصد کے درمیان لوگ دوسروں کے ہاتھوں تشدد سے مرنے کی توقع کر سکتے تھے۔
اگلے پانچ ہزار سال کے دوران، بنی نوع انسان کی تاریخ میں پہلی عظیم تبدیلی کی بدولت حالات تبدیل ہوگئے…وہ تبدیلی زراعت کی دریافت اور کاشتکاری کی بنیاد پر آباد بڑے گروہوں کی ترقی تھی۔ ان گروہوں میں سے سب سے زیادہ طاقتور نے کانسی کے ہتھیاروں، قلعہ بندیوں اور رتھوں سمیت کئی قسم کی فوجی اختراعات کا استعمال کرتے ہوئے، اپنے اثرورسوخ کو وسیع کیا اورکم طاقتور گروہوں کو اپنے اندر شامل کرلیا۔
بالآخر، جنوبی ایشیا میں موریہ، چین میں ہان، اور بحیرہ روم کے ارد گرد سلطنت روما سمیت بڑی سلطنتیں وجود میں آگئیں۔
ان قدیم نظم وضبط کے مظاہروں (leviathans) نے زندگی کو محفوظ بنایا۔ طاقتور حکومتیں اپنے علاقوں میں رہنے والوں کی حفاظت کرسکتی تھیں اور انھوں نے قتل کی حوصلہ شکنی اور جنگ کا راستہ روک کر، ایسا ہی کیا۔ تشدد سے اموات کی شرح میں تیزی سے کمی ہوئی، مورس کے اعدادو شمار کے مطابق یہ تمام اموات کے دو سے پانچ فیصد کے برابر رہ گئیں۔
ان نظاموں(leviathans) نے اپنے باشندوں کو امیر بھی بنایا۔یہ وضاحت کرنے کے لیے کہ یہ سب کیسے ہوا، مورس معروف ماہر اقتصادیات مین کور ولسن کے تصور ”بے حرکت ڈکیت“ کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ اس کے مطابق، ایک ”جگہ جگہ گھومنے والا ڈاکو“ تو بستیوں پر حملہ کرتا اور وہاں سے جو کچھ حاصل کرسکتا ہے اسے سمیٹ کر چلتا بنتا ہے مگر بڑی زرعی آبادیوں کے حکمران، جواگرچہ لالچ میں ان ڈاکوؤں سے کم نہیں ہوتے، مگر وہ اپنی جگہ ہی موجود رہتے ہیں… فرار نہیں ہوتے۔
چنانچہ اسی لیے وہ ان لوگوں کو خوشحالی دینے میں دلچسپی رکھتے ہیں، جن پر وہ حکمرانی کرتے ہیں… کیونکہ اس طرح، انھیں چوری کے لئے زیادہ مال مل سکتا ہے۔اور چونکہ خوشحالی کے لیے نظام کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے وہ اسے نافذ کردیتے ہیں۔گشت کرنے والے ڈاکو کو ملنے والا مال و زر ”لُوٹ“ کہلاتا ہے جبکہ اپنی جگہ موجود رہنے والے ڈاکو جو وصول کرتے ہیں اُسے وہ ”ٹیکس“ کا نام دیتے ہیں،اور اُن کے زیرِ حکومت علاقہ جتنا پُرامن ہوگا، وہ اتنا زیادہ سرمایہ جمع کر سکتے ہیں۔
قدیم سلطنتوں اور ان پر حکمران ”ایک ہی جگہ قیام کرنے والے“ ڈاکوؤں نے جو سکون قائم کیا، وہ زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔ اس کی ذمہ دار ایک خاص فوجی جدت تھی:یعنی گھوڑے کا استعمال۔خانہ بدوش گروہوں نے گھوڑے پر سوار ہوکر لڑنے میں مہارت حاصل کرلی اور یوں وہ”غیر مفید“ جنگیں جیتنے کے قابل ہوگئے۔ ان نئی فوجی طاقتوں نے گشت کرنے والے ڈاکوؤں کی طرح کام کیا: وہ، چھاپہ مارتے، لوٹتے، کمزور کرتے، اور بالآخر انھوں نے نظم وضبط والے معاشرے جہاں بھی تھے اُنھیں کمزور کردیا۔
عظیم رومی سلطنت بھی اسی طرح زوال پذیر ہوئی اور پھر اس کا خاتمہ ہوگیا۔یورپ میں، اس کے بعد کی صدیوں کو بعض دفعہ تاریک دور کہا جاتا ہے۔ مورس کا خیال ہے کہ یہ اصطلاح دنیا کے دیگر حصوں کے لئے بھی مناسب ہے۔ جب غیرمفیدجنگوں نے قدیم سلطنتوں کو تباہ کرکے رکھ دیا، تو دنیا عام دور کی ابتدائی چودہ صدیوں کے دوران ایک غیر منظم جگہ بن کر رہ گئی تھی۔
تشدد سے اموات کی شرح پانچ سے دس فیصدکے درمیان دوبارہ بڑھ گئی تھی۔ 
تاہم نشاة ثانیہ کے دور کے قریب شروع ہوکر ، بدنظمی نے ،استحکام پر مبنی 500 سالہ دور کے لیے راستہ دیا۔لیکن ایک بار پھر، ایک اہم فوجی جدت… یعنی بارود کی دریافت نے…تبدیلی کا آغاز کردیا۔رہنماوٴں نے پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور بندوقوں اور توپوں کا استعمال کرتے ہوئے بڑی سیاسی اکائیوں کو جمع کرنے کی صلاحیت دوبارہ حاصل کرلی۔
ان اکائیوں کے اندر، پُر تشدد اموات کی شرح میں کمی آگئی۔اس دور کے آخری حصہ میں، 1760 کے آس پاس شروع ہونے والی، انسانی تاریخ میں دوسری عظیم تبدیلی واقع ہوئی : یعنی صنعتی انقلاب برپا ہوا۔ یورپیوں نے اپنی ایجاد کردہ مشینوں کو فوج کے ساتھ ساتھ سویلین شعبوں میں بھی استعمال کیا، اور ان مشینوں نے اُنھیں انیسویں صدی میں دنیا کے زیادہ ترباقی حصوں کو فتح کے قابل بنادیا۔
قدیم سلطنتوں کی طرح، جدید دور کی عظیم یورپی سلطنتوں کے اندر… ان میں سے بعض، خاص طور پر برطانوی ریاست، دنیا بھر میں پھیل گئی تھیں… زندگی پہلے سے کہیں زیادہ محفوظ ہو گئی تھی۔
انیسویں صدی نے ایک ایسی قوت کا ظہور بھی دیکھا جو عالمی سطح پر نظم و ضبط کے قیام …جسے مورس ”گلوبو کوپglobocop“ کا نام دیتے ہیں…کی ذمہ داری اُٹھائے ہوئے تھی۔
برطانوی ریاست نے دوسری جنگ عظیم تک یہ کردار ادا کیا،جس کے بعد امریکہ نے اس کی جگہ لے لی۔فائدہ مند جنگوں کی دو صدیوں کے دوران، ہمارا سیارہ…امن رومانا(رومی نظام) سے امن بریٹانیکا(برطانوی نظام) اور پھر امن امریکانا(امریکی نظام) میں تبدیل ہوگیا۔ یوں انسانی وجود تیزی سے محفوظ ہوتا چلا گیا۔ اکیسویں صدی میں، دنیا بھر میں پُرتشدد اموات کی شرح، سب سے کم یعنی ایک فیصد سے بھی نیچے پہنچ گئی ہے۔
جنگ کا مستقبل
اتنے طویل عرصہ پر محیط مدت کے دوران، جس کا مورس نے احاطہ کیا ہے، تقریباً کسی بھی طرز کے ثبوت تلاش کیے جاسکتے ہیں، لیکن جس دورانیہ کو مورس نے اپنی کتاب کے مرکز میں رکھا ہے، وہ یقینا تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔ طاقتور ریاستوں نے یقینا اپنے باشندوں کی حفاظت کی ہے (اوروہ ان پراکثر ظلم بھی کرتی رہی ہیں)، اور اس طرح کی ریاستوں کے قیام کے لئے طریقہ کار عام طور پر جنگ پر مبنی رہا ہے۔
قدیم یونانی فلسفی ہیراکلیتس نے کہا تھا کہ،”ہر شئے کو جنگ نے جنم دیا ہے“، تو اس میں حیرت کی بات نہیں ہونی چاہیے کہ امن نے بھی جنگ سے جنم لیا ہے۔
تاہم ،مورس جس طریقہٴ کار کی نشاندہی کرتے ہیں، وہ حالیہ تاریخ کی نسبت دُورپار ماضی کے زمانے کے لیے مناسب لگتا ہے، مستقبل کی تو بات ہی رہنے دیں۔ بیسویں صدی میں، ریاستوں کو مضبوط بنانے کا رجحان اُلٹ ہوگیا ہے، جس میں جدید سلطنتیں چھوٹی سیاسی اکائیوں کو تحلیل کررہی یا پیچھے چھوڑ رہی ہیں ، لیکن زندگی کو تکلیف دہ،وحشیانہ یا اس کی مدت کم کیے بغیر۔
بے شک، گزشتہ سو سال کے دوران، کسی بھی ریاست میں تشدد کی شرح جانچنے کا اہم ترین پیمانہ ، اُس کا حجم نہیں بلکہ اس کی اہلیت رہی ہے۔اسکینڈی نیویا کے ممالک، جو عصر حاضر کے معیار کے مطابق اور کچھ بھی ہیں نظم و ضبط پر مبنی نظام” leviathans“ نہیں ہیں، وہ دنیا میں سب سے محفوظ مقامات بن گئے ہیں۔ حقیقت میں، چھوٹی قوموں پر مبنی ریاستیں کثیر القومی سلطنتوں کے مقابلے میں تشدد کا کم شکار ثابت ہوئی ہیں،اس کی وجہ وہ بہت وسیع قانونی حیثیت ہے جو ہم جنس قوم پر مبنی ریاستوں کو اپنے باشندوں کی نظر میں حاصل ہوتی ہے۔
لوگ عام طور پر ایسے حکمرانوں کو قبول کرنے پر زیادہ تیار ہوتے ہیں جو اُن کی نسل سے ہوں، اُن کے ہم مذہب ہوں اور اُن جیسی زبان بولتے ہوں، بہ نسبت اُن لوگوں کے جنہیں وہ غیرملکی تصور کرتے ہوں، اور وہ اپنی پسند کے سیاسی نظام کے لیے لڑنے کو تیار رہتے ہیں۔
اس کے علاوہ،انیسویں صدی میں، برطانوی گلوبوکوپ نے اپنی شاہی سرحدوں کے باہر لوگوں کی زندگی کو زیادہ محفوظ بنانے کے لیے بہت کم کام کیا۔
یورپ میں نظم ونسق قائم کرنے سے دُور…جو ہمارے سیارے کا وہ حصہ تھا جو بیسویں صدی میں ہلاکت خیز تشدد پر مبنی لڑائیوں کا شکار ہونے والا تھا… برطانوی اس سے الگ تھلگ رہے۔ اس براعظم(یورپ) میں امن و امان کا انحصار برطانوی کوششوں پر نہیں، بلکہ اس کی اہم ریاستوں کے درمیان طاقت کے توازن پررہا۔البتہ برطانیہ نے تیزی سے پھیلتی عالمی معیشت کے لئے ایک محفوظ فریم ورک فراہم کرنے کے لئے اپنی بحریہ کا استعمال ضرور کیا ۔
اس طرح سے، برطانوی فوجی طاقت نے شاید اور سیاسی اثر و رسوخ نے یقیناً ساری دنیا میں عوام کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے لئے کافی کچھ کیا، لیکن برطانوی سلطنت سے باہر، تشدد سے ہلاکتوں کے امکانات کو کم کرنے کے لئے، زیادہ کوششیں نہیں کیں۔
ماضی قریب میں، مورس کے پیٹرن کی ایک اور عجیب عملی صورت کے طور پر، پہلی اور دوسری جنگ عظیم اُن (مورس) کی بتائی تعریف کی رُو سے ”مفید“ کی اصطلاح پر پوری اُترتی لگتی ہیں، کیونکہ انھوں نے امریکی گلوبوکوپ globocop کے آغاز کے لئے راہ ہموار کی تھی۔
تاہم ان دونوں جنگوں میں مرنے والوں کی مشترکہ تعداد، جو100 ملین لوگوں کے قریب تھی، محض ایک غلبہ کو دوسرے سے تبدیل کرنے کے لیے یہ قیمت بہت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔
آخر میں، جنگ نے ماضی میں جو بھی طویل مدتی فوائد فراہم کیے ہوں، یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ یہ، چند غیر منظم، متنازعہ مقامات کو چھوڑ کر، مستقبل میں امن کے لئے کس طرح اچھی ثابت ہو سکتی ہے۔
ہوبز اور مورس مفید جنگوں کے جن پیٹرنز کی نشاندہی کرتے ہیں، وہ مثال کے طور پر… کانگو، عراق، اور شام کی جمہوری ریاستوں کے عوام کے لئے کچھ مطابقت رکھتے ہیں، لیکن دنیا کے باقی حصوں میں وہ بڑی حد تک غیر متعلقہ لگتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر تشدد کے امکانات اب بھی موجود ہیں۔ گزشتہ صدی کے دوران فوجی ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی نے حکومتوں کو تشدد سے اموات کی شرح کو آسمان تک پہنچانے کی صلاحیت دے دی ہے،اب کیا اُنھیں خود کو طاقتور ترین دستیاب ہتھیاروں سے مسلح کرنے کا فیصلہ کرنا چاہیے۔
 
مورس ، بیسویں صدی کے اوائل میں ہونے والے واقعات کی تکرار سے مستقبل میں آنے والے سب سے بڑے خطرہ کا اندازہ لگاتے ہیں، جب جرمنی نے برطانیہ کو چیلنج کیا اور دنیا کو دو خوفناک تنازعات میں غرق کردیا تھا۔ آج،جبکہ امریکہ اس عہدے پر قبضہ جمائے ہوئے ہے جس پر ایک سو سال پہلے برطانوی براجمان تھے،یہ چین ہے جو اس وقت غالب گلوبوکوپ کے لیے خطرے کا باعث ہے۔
مورس اُس دور کے برطانیہ اور آج کے امریکہ کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ،”اگر 2010اور 2050کی دہائیوں کے درمیان چالیس برس،1870اور 1910کی دہائیوں کے درمیان چالیس سالوں کی طرح ہی آشکار ہوتے ہیں، تو یہ تاریخ کے سب سے زیادہ خطرناک برس ہونگے۔“ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر چین امریکہ کے لیے ایسا چیلنج کھڑا کرتا ہے، جو ان دونوں کو ایک ایسی جنگ کی طرف لے جاتا ہے جیسی جرمنی کے عزائم کی وجہ سے زور پکڑ گئی تھی، تودونوں فریق اُن جوہری ہتھیاروں کو بروئے کار لاسکتے ہیں، جو ان کے پاس موجود ہیں۔
یہ اس بات کو یقینی بنادے گا کہ اس جنگ کے بعد زندہ بچ جانے والا، اس تنازعہ کو جو بھی نام دے، یہ”مفید جنگ“ ہرگز نہیں ہوگی۔ 
مورس کے نزدیک، اکیسویں صدی کے اس طرح کے تصادم سے بچنے کی اُمید ،ٹیکنالوجی پر ٹکی ہوئی ہے۔ وہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ، آنے والے برسوں میں کمپیوٹر کا استعمال اتنی تیزی سے ترقی کر ے گا کہ وہ بنی نوع انسان کو تبدیل کرکے رکھ دے گا اور نتیجے میں ”ٹرانس ہیومن transhuman“ یا ”پوسٹ ہیومنposthuman“ مخلوق شاید تشدد کو یکسر ختم کرنے کے قابل ہو سکے۔
یہاں مورس مستقبل کی پیش بینی کرنے والے کئی محققین( futurists )کے نظریات پر انحصار کرتے ہیں۔ ان کے تصورات سائنس فکشن سے جُڑے ہوئے ہیں، اور سائنس فکشن کی پیش گوئی کبھی کبھی درست ثابت ہوتی ہے۔ تاہم، کبھی کبھی وہ پوری نہیں ہوتی ہے، اس کو نسبتاً نرم کرکے بات کی جائے تو، تیسری عالمی جنگ کو روکنے کے لئے اس طرح کے تصورات پر انحصار کیا جانا، بہت غیرمحتاط لگتا ہے ۔
یہ قدیم عمل، جو کبھی انسانی وجود کے لیے ایک ناگزیر خصوصیت کے طور پر دیکھا جاتا تھا، اب اسے زیادہ تر ناقابل قبول، فرسودہ، اور قابل گریز سمجھا جاتا ہے ۔بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے جدید ہتھیار دانشمندانہ خارجہ پالیسی کے اس معیار کو تار تار کرسکتے ہیں،جو بیسویں صدی کے وسط سے پہلے، شاذ و نادر ہی موجود تھا۔
مزید برآں، اس صدی کے پہلے نصف حصہ کے عظیم تنازعات میں ’نظرئیہ‘ کا معمولی کردار بھی نہیں تھا، جو سماجی اور سیاسی زندگی کی وہ خصوصیت ہے جو انقلاب فرانس سے قبل نامعلوم تھی اور اسی لیے مورس کی بیان کردہ تاریخ کے زیادہ تر حصے میں اس کا ذکر نہیں ملتا۔
فاشسٹ نظرئیات کے ساتھ جرمنی کی وابستگی اور کمیونسٹ نظرئیات کے لئے سوویت یونین کی وابستگی نے دنیا کو ان نظرئیات کی آمد سے پہلے کے زمانے کی نسبت کہیں زیادہ کشت و خون والی جگہ بنادیا۔ جرمنی، کم از کم، دوسری جنگ عظیم کے بعد کہیں زیادہ پُر امن بن گیا، اور اسی طرح اس تنازعہ کے دوسرے عظیم سامراجی حملہ آور، جاپان کا حال ہوا، کچھ حد تک اس وجہ سے کہ دونوں ممالک نے اپنے فاتحین ملکوں میں سے ایک، یعنی امریکہ کے سیاسی نظریات اوراس کے سیاسی نظام کو اپنالیا۔
جمہوریت سے امن پیدا کرنے میں مدد ملی۔ درحقیقت، اب جمہوریتوں کے درمیان ایک دوسرے سے جنگ سے بچنے کا رجحان اچھی طرح قائم ہوچکا ہے،اور یہ رُجحان مستقبل میں ایک بڑے پیمانے پر غیرمفید جنگ روکنے کی اُمید کا باعث ہے۔ اگر چین جمہوری ملک بن جائے تو، اینگلو جرمن دشمنی جیسے حالات ، لیکن اس بار اکیسویں صدی کے ہتھیاروں کے ساتھ، دوبارہ پیدا ہونے سے بچنے کے امکانات میں، یقینا بہتری آئے گی۔
 یقینا اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ مستقبل قریب میں یا کبھی بھی چین میں جمہوریت آسکے گی۔ لیکن ایک جمہوری چین بہرحال، امن قائم رکھنے کے لئے، بنی نوع انسان کے کمپیوٹر سے چلنے والے انسانوں میں تبدیلی کی نسبت… زیادہ مناسب، اور بہتر صورت لگتی ہے۔ یقینا، جمہوریت کے پھیلاؤ کے ذریعے نظم و ضبط، حفاظت، اور امن کی بحالی کا قیام نظم و ضبط پر مبنی نظام Leviathan کا موضوع نہیں ہے۔ اگرچہ ہوبز ایک طاقتور، اور اثر انگیز مفکر تھے،لیکن آج ہمارے زمانے میں آسمان اور زمین کے درمیان اس سے کہیں زیادہ چیزیں پائی جاتی ہیں، جن کا تصور وہ اپنے فلسفہ میں کرسکتے تھے۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط