سوچ سمجھ کر جنگیں منتخب کریں، مستقل جنگ کے امریکی دور کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟(رچرڈ کے بیٹس)
(رچرڈ کے بیٹس کولمبیا یونیورسٹی میں سالٹز مین انسٹی ٹیوٹ برائے وار اینڈ پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر، خارجہ تعلقات کی کونسل میں اسسٹنٹ سینئر فیلو اور کتاب”American Force: Dangers, Delusions, and Dilemmas in National Security“ کے مصنف ہیں)
ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سے امریکی فوجی ایک انتہائی افسوسناک صورت حال میں مشقت کررہے ہیں:اگرچہ امریکہ کو بے مثال عالمی فوجی غلبہ حاصل ہے،جس کے بل پر اس کے دشمنوں کو انتہائی خوفزدہ ہونا چاہیے، لیکن وہ خود کو اپنی تاریخ کی طویل ترین مستقل جنگ میں اُلجھا ہوا پاتاہے، اور اس کے پاس اس کے نتیجے میں دکھانے کے لیے بھی کچھ خاص نہیں ہے۔
کوسوو، افغانستان، عراق، اور لیبیا میں امریکی فوجی حملوں میں سے، صرف پہلی مہم کو ہی ایک کامیابی شمار کیا جا سکتا ہے۔
(جاری ہے)
اس ریکارڈ کا تجزئیہ کرنا اب خاص طور پر مشکل کام ہے، کیونکہ امریکی دفاعی پالیسی طاقتور مخالفین کے دباوٴ کے درمیان پھنس چکی ہے۔ نہ ختم ہونے والی جنگ کی وجہ سے مایوسی اور بہت زیادہ مالیاتی مشکلات نے عوامی رائے کو تیزی سے ”تخفیف“ کے حق میں ہموار کیا ہے۔
اسی دوران، تین اہم علاقوں میں خوفناک چیلنجز اب بھی مزید کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں: اسلامی انتہا پسندوں نے عراق اور شام میں ملک کے وسیع علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے، روس یوکرائن میں مداخلت کرچکا ہے، اور چین وسطی ایشیا میں اپنے ’پٹھوں‘ کو حرکت دے رہا ہے۔ واشنگٹن کو اب ایک فیصلہ کرنا ہے: آیا وہ ان پُرخطر علاقوں کو ان کے حال پر چھوڑ دے، یا انھیں ٹھیک کرنے کے لیے اپنی جنگی مہمات کو دوگنا کردے؟
یہ فیصلہ کرتے ہوئے کہ بیرون ملک خون اور خزانہ کب خرچ کرنا ہے، امریکی پالیسی سازوں کو امریکہ کے حالیہ جنگی تجربات سے سبق سیکھنا چاہیے، لیکن اُنھیں یہ بھی خیال رکھنا ہوگا کہ کہیں وہ یہ سبق ضرورت سے زیادہ ہی نہ سیکھ لیں۔
کامیابی کی وجہ سے ضرورت سے زیادہ خوداعتمادی ناکامی کو جنم دے سکتی ہے، اور ناکامی کی وجہ سے بندوق سے ہی شرم کرنے لگنا، فالج زدہ کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، 1991 کی خلیجی جنگ میں امریکی فوج کی حیران کن طور پر تیز رفتار، سستی، اور صفایا کردینے والی فتح نے پالیسی سازوں کی اس حوالے سے توقعات بڑھادیں کہ طاقت کے بل پر کیا کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے، جس کی وجہ سے وہ اُس وقت کم تیار تھے اور تجاوز کرگئے جب امریکہ نے عراق پر دوسری بار حملہ کیا۔
اسی طرح،زیادہ تر امریکی رہنماوٴں نے افغانستان اور عراق کی جنگوں سے انتہائی(ضرورت سے زیادہ ہی) مضبوط سبق سیکھ لیا ہے: یعنی کبھی کسی سرزمین پر فوج نہ اُتارو۔ باقاعدہ فوجی یونٹوں کی تعیناتی کو موٴثر طریقے سے مسترد کردئیے جانے کے بعد، امریکہ کے ان پالیسی سازوں کو، جو اب بھی طاقت کا استعمال کرنا چاہتے ہیں، ایسے اختیارات کی طرف دھکیل دیا گیا ہے، جن میں صرف فضائی طاقت کا استعمال ہی شامل ہے۔
یہ حکمت عملی اُن مقامات پر مفید ثابت ہوسکتی ہے جہاں امریکہ کسی تنازع کو صرف صحیح سمت میں ایک ٹہوکا دینا چاہتا ہے۔لیکن جب مقصد اس(تنازع) کو حتمی نتیجہ تک پہنچانا ہو، تو ایسی صورت میں صرف فضائی طاقت ناکافی ہے۔
حالیہ تجربات سے کوئی سبق سیکھنا چونکہ خطرناک ہو سکتا ہے ،اس لیے پالیسی سازوں کو درج ذیل قدامات سے شروعات کرنی چاہیے۔
سب سے پہلے، امریکہ کو جنگیں کم کرنی چاہئیں مگر جو جنگ کی جائے وہ فیصلہ کُن ہو،اور فورسز کے بہت زیادہ یا پھر بہت ہی کم استعمال کے بجائے ، اُس وقت قدم اُٹھائے جب جنگ ضروری ہو۔ دوسرا یہ کہ، امریکہ کو ایسے مقامات پر لڑائی سے گریز کرنا چاہیے جہاں فتح بدنظمی کے شکار ممالک کی سیاست کو کنٹرول کرنے پر منحصر ہو، کیونکہ مقامی سیاستدان شاذ و نادر ہی وہ کریں گے جو امریکی چاہتے ہیں اور جو اُن کے اپنے مقاصد سے مختلف ہو۔
اور تیسرا یہ کہ، واشنگٹن کو زیادہ اہم مسائل کو ترجیح دینی چاہیے، یعنی اپنی فوجی منصوبہ بندی کو عظیم طاقتوں کے ساتھ جنگ لڑنے پر مرکوز رکھے اور اپنی ڈپلومیسی کا مرکز ان طاقتوں کی روک تھام بنائے۔
نصف اقدامات کو ترک کر دیجئے
امریکہ کے دائمی جنگ کے راستے پر بڑھتے جانے سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ امریکی صدور کو جنگی طاقت کے اظہار کی خواہش کی مخالفت کرنی چاہیے۔
غیر روایتی جنگوں کے نتائج آسانی سے حاصل نہیں ہوتے ہیں، اور تمام اقسام کی جنگوں کو جیتنے کے لیے ابتدائی اندازوں کی نسبت کہیں زیادہ کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔
تاہم جب صدور طاقت استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیتے ہیں تو، اُنھیں اس کا استعمال کم سے کم کرنے کی خواہش کی مخالفت کرنی چاہیے۔ حد سے زیادہ قوت کسی زمینی جنگ میں کامیابی کی ضمانت تونہیں ہوتی ، لیکن ضرورت سے کم قوت کا استعمال یقیناً ناکامی کو دعوت دیتا ہے۔
اگرچہ صدر جارج ایچ ڈبلیو بش نے فوجی طاقت کے غیر فیصلہ کن استعمال کی غلطی نہیں کی تھی مگر ان کے تمام جانشینوں نے یہ غلطی کی ہے۔ 1999 میں، کلنٹن انتظامیہ نے، نیٹو کے ساتھ مل کر یوگوسلاویہ کے خلاف فضائی حملوں کا آغاز کیا، یہ تصور کرتے ہوئے کہ چند دن کے بم حملوں سے یوگوسلاویہ کے صدر سلوبودان ملوسیوک نیٹو افواج کو کوسوو کا انتظام سنبھالنے کی اجازت دینے پر مجبور ہو جائیں گے۔
لیکن ملوسیوک نے انکار کر دیا، اور یوں امریکہ اور نیٹو وہاں سے نکلنے کی حکمت عملی کے بغیر ایک طویل مہم میں پھنس کر رہ گئے۔ واشنگٹن ناکامی سے صرف بال بال بچا: جنگ شروع ہونے کے کئی مہینے بعد، جب ملوسیوک نے بات کو تسلیم کیا، اس وقت تک مہم جاری رکھنے کے حوالے سے نیٹو کے ارکان کے درمیان اتفاق رائے تقریباً ختم ہوچکا تھا۔ 2003 میں، صدر جارج ڈبلیو بش کے سیکرٹری دفاع ڈونالڈ رمزفیلڈ نے، اس وقت کے آرمی چیف ایرک شن سیکی کے تخمینہ کو مسترد کردیا تھا کہ اس ملک کو محفوظ بنانے کے لیے لاکھوں فوجیوں کی ضرورت ہوگی اور فوجی رہنماء ابتدائی طور پر عراق پر حملے کے لئے فورس کی جتنی تعداد چاہتے تھے، رمز فیلڈ نے اس کے حجم کو بھی کم کردیا تھا۔
بغداد میں حکومت کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والے انتشار نے،سُنّی شورش کے خلاف پیش بندی کے کسی بھی موقع کو ختم کر دیا۔
صدر باراک اوباما نے افغانستان میں بھی اسی طرح کی غلطی کی ہے۔ 2009 میں، اُنھوں نے وہاں امریکی کوششوں میں اضافہ کیا، لیکن اُتنا نہیں جتنا ان کے فوجی مشیروں نے سفارش کی تھی۔ اضافی فوجیوں کی تعداد پر بحث تمحیص کے بعد وائٹ ہاؤس بالآخر، پنٹاگان لیڈروں کے درخواست کردہ 40ہزار فوجیوں کے بجائے 30ہزار پر رضامند ہوا۔
اس کا نتیجہ ایک ایسی مہم کی صورت میں برآمد ہوا،جس کا اتنا زوردار اثر نہیں تھا جتنا کہ ہونا چاہیے تھا،اس کے نتائج سامنے آنے میں طویل وقت لگا ، اور یہ کبھی بھی طالبان کے مضبوط اثرورسوخ والے علاقوں پر بیک وقت دباؤ ڈالنے کے قابل نہیں ہوسکی۔ بچت برائے بچت ،غلط معاشی اصول ہے۔اگر اوباما افغانستان میں جنگ کی لاگت کو کم سے کم کرنا چاہتے تھے تو اُنھیں پوری قوت کے ساتھ فوجی مہم کا انتخاب کرنا چاہیے تھا۔
یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ اس طرح کا طریقہٴ کار اختیار کرنے سے کیا ایسا نقصان ہوتا جو سُست رفتار اور چھوٹے پیمانے پر کیے جانے والے اقدامات کی وجہ سے ہونے والے نقصان کی نسبت زیادہ بدترہوسکتا تھا۔
ادھورے اقدامات قدرتی طور پر سیاستدانوں کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں، جن کا فطری رجحان یہ ہوتا ہے کہ غیر ملکی تنازعات میں فوجی کارروائی کی ضرورت کی سطح اور ملک میں موجود ناقدین کی برداشت پر مبنی اقدامات کے درمیان کا راستہ اختیار کیا جائے۔
وہ بڑے پیمانے پر فوجی بھیجنے کے لیے فوج کی سفارشات کو ضرورت سے زیادہ محتاط انشورنس پالیسیوں کے طور پر دیکھتے ہیں، اور وہ اس خطرے کو نظرانداز کردیتے ہیں کہ کم طاقتور کوششیں کامیابی کے بجائے مشن کو تعطل کا شکار کرسکتی ہیں۔ کم از کم2007 میں فوجوں کی تعداد میں اضافے تک ، عراق میں جنگ کے چار سال کا نتیجہ تعطل ہی تھا، اور ایک درجن سے زائد سالوں کے بعد ، افغانستان میں جنگ اب بھی جیت کے کالم میں داخل نہیں ہوسکی ہے۔
کم طاقت کے استعمال پر مبنی انداز فکر کی وکالت کرنے والے دلیل دیتے ہیں کہ ایک بڑے پیمانے پر امریکی موجودگی مقامی لوگوں کو اجنبی بنادیتی ہے اور یوں مداخلت کے مقصد کو کمزور کرنے کا سبب بنتی ہے۔ یہ بات اکثر سچ ثابت ہوئی ہے، لیکن اس سے ہلکے پیمانے پر کارروائی کی اہمیت ثابت نہیں ہوتی۔ سب سے پہلے تو، زیادہ سے زیادہ طاقت کے استعمال کو اندھا دھند ہدف بندی اور نادانستہ نقصان کے ساتھ نہیں اُلجھانا چاہیے؛ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ، ایک ہی وقت میں دشمن کی افواج اور اس کے علاقے کے زیادہ سے زیادہ ممکنہ حصے کو جنگ میں شامل کرنا تاکہ دشمن کے دباوٴ سے مطابقت پیدا کرنے کی صلاحیت کو ختم کیا جاسکے۔
دوسرا یہ کہ ، جہاں کہیں بڑے پیمانے پر امریکی فوجوں کی موجودگی غیر سود مند ہونا یقینی ہو، وہاں امریکہ کو بالکل قدم نہیں رکھنا چاہیے، کیونکہ اس بات میں کوئی شبہ ہی نہیں کہ چھوٹے پیمانے پر کی جانے والی کارروائی بھی بڑے پیمانے پر کی جانے والی کارروائی کے لیے ممکنہ قیمت کو نسبتاً طویل مدت میں قسطوں کی صورت ادا کرنے کے سوا کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی، اور اس کا نتیجہ بھی وہی ہوگا۔
قوت کاکم استعمال کب مفید رہتا ہے؟
ضروری نہیں کہ خود کو روک کر رکھنے کے اصول پر عمل کا مطلب ”وین برگر اور ”پاول“ کے قوانین پر عمل کرنا ہی ہو…وین برگر اور پاول ڈاکٹرائن دراصل کچھ قوانین ہیں جو اس بارے میں ہیں کہ امریکہ کو کب جنگ کرنی چاہیے، جنہیں پہلے 1980کی دہائی میں امریکی وزیر دفاع کیسپر وین برگر نے پیش کیا تھا اور پھر 1990کی دہائی میں جوائنٹ چیفس آف سٹاف کولن پاول نے ان میں اضافہ کیا تھا۔
یہ ہدایات تجویز کرتی ہیں کہ ایسے معاملات میں فوجی قوت کو محدود کیا جائے جن میں یہ آخری حربہ ہو، اسے بڑے پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہو، اس سے اہم ترین قومی مفادات کو تقویت ملتی ہو، اس کا نتیجہ غالب قوت ہو، اور یہ دیگر مشروط پابندیوں پر پورا اُترتی ہو۔
نہ ہی خود کوروک کر رکھنے کا مطلب ان طریقوں کو نظرانداز کرنا ہے جو روایتی جنگ سے ہٹ کر امریکہ اب بھی استعمال کرسکتا ہے اور اسے کرنے چاہئیں…مثلاً، سفارت کاری، اقتصادی امداد، خفیہ کارروائی، خصوصی آپریشن فورسز، فوجی تربیت کے ذریعے مدد، خفیہ معلومات کے تبادلے، اور ہتھیاروں کی فراہمی۔
سرد جنگ کے بعد کے دور میں چند تنازعات ،خواہ کامیاب ہی رہے ، اس قابل تھے کہ ان کے لیے بڑے پیمانے پر امریکی فوجی کارروائی عمل میں لائی جاتی۔لیکن جب مقصد مقامی تنازعات کو فیصلہ کن طور پر حل کرنا نہ ہو، بلکہ صرف متعلقہ حکومتوں کو تقویت دینا یا مخصوص سازشیوں کو ختم کرنا ہو، تو ایسی صورت میں واشنگٹن کے لیے محدود پیمانے پر اقدامات کرنا مناسب ہو سکتا ہے۔
جب وہ ناکام رہتے ہیں، تو ان کی قیمت آلات کے جیسی محدود ہوتی ہے۔
خاص طور پر،سپیشل آپریشن فورسز کا کردار جتنا عام طور پر ہوتا تھا ، اس سے کہیں زیادہ فرض کرلیا گیا ہے، اور اب وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم ترین فوجی ہتھیار کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وہ زمین پر فوج اُتارنے کے عمل کو مختصر طور پر انجام دینے کا طریقہٴ کار فراہم کرتی ہیں، اور فضائی قوت کے ساتھ اُنھیں استعمال کیا جاسکتا ہے اور پھر شکست تسلیم کیے بغیر اُنھیں واپس نکالا جاسکتا ہے۔
اس کے نتیجے کے طور پر، کچھ حکمت عملی بنانے والوں نے، ان فورسز کو زیادہ سے زیادہ مشن سونپنے کے عمل کو فروغ دیا ہے،خاص طور پر اس لیے کہ باقاعدہ افواج کی تعیناتی کو محدود کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود، سپیشل آپریشن فورسز پر بہت ساری ذمہ داریوں کا بوجھ ڈال دینے میں یہ خطرہ ہوسکتا ہے کہ وہ انھیں کھینچ کر کمزور کردیں گی یا ان کی صفوں میں اضافہ کرکے ان کے معیار میں کمی واقع کردیں گی۔
اس کے علاوہ،سپیشل آپریشن فورسز اُس وقت تک موثر انداز میں یا بہت دیر تک کام نہیں کر سکتیں جب تک کہ انھیں انٹیلی جنس، سپلائی، اور نقل و حمل کے لئے مقامی سطح پر رسد کے بنیادی ڈھانچے کی حمایت حاصل نہ ہو، اور اس کے لیے دکھائی دینے والے اڈوں اور اضافی اہلکاروں کی ضرورت ہوتی ہے، جو نتیجتاً اس پروفائل میں اضافہ کردیتے ہیں جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ فورسز اسے کم کریں گی۔
چونکہ افغانستان اور عراق میں زمینی جنگوں نے ان کے منہ کا ذائقہ خراب کیا ہے، اس لیے ہوسکتا ہے کہ امریکی پالیسی ساز بھی قدرتی طور پر فضائی قوت کے استعمال پر مائل ہوجائیں۔بم حملے، اب ماضی کے مقابلے میں بہت بہتر طور پر کام کرتے ہیں، جس کی وجہ مخصوص اہداف کو نشانہ بنانے والے گولہ بارود کے شعبوں میں ترقی ہے، جودُور دراز کے اہداف کو کم خطرہ اُٹھائے اور غیرمتوقع نقصان سے بچتے ہوئے تباہ کرنے کی اجازت دیتی ہے۔
فضائی طاقت ایک خالصتاً تادیبی کارروائی کے طور پر کام کرسکتی ہے، بالکل ویسے ہی جیسے 1986میں امریکی افواج نے برلن ڈسکو پر معمر القذافی کے حملے کے ردعمل میں لیبیا پر بمباری کی تھی۔ یہ مقامی قوتوں کے درمیان توازن کو کسی خاص فریق کی طرف جھکانے کے لئے بھی کام کر سکتی ہے، جیسے کہ قذافی کے خلاف 2011 کی امریکہ اور نیٹو کی مہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوئی۔
لیکن لیبیا میں حتمی نتائج انتہائی خوفناک ثابت ہوئے ہیں، کہ ملک پر کنٹرول کے لئے بے قاعدہ افواج (ملیشیا)لڑ رہی ہیں۔ فضائی قوت چیزوں کو تباہ کر سکتی ہے، لیکن یہ اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتی کہ جب بم گرنے بند ہوں گے تو صدارتی محل میں کون رہائش پذیر ہوگا؟
فضائی قوت اپنے طور پر بڑے سٹریٹجک مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے بہت کم وعدہ کرتی ہے۔
ذرا ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی فضائی حملے کیے جانے کے خیال پر غور کیجئے۔ جو لوگ اس راستے کی وکالت کرتے ہیں، وہ اس بات پر یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں پیش کرتے کہ تہران کی ایٹمی ہتھیار کی تیاری میں تاخیر کا عارضی فائدہ، حملے کے اخراجات پر بھاری ہوگا:ایران شاید ایٹمی ہتھیارکے حصول کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ محنت کرے گا، ہوسکتا ہے وہ شمالی کوریا کے ساتھ زیادہ تعاون کرنے لگے، اور اپنی دہشت گردانہ پراکسیز کے ذریعے امریکی اہداف کے خلاف جوابی کارروائی کرے گا۔
فضائی حملے یقیناً ایرانیوں اور دنیا کے دوسرے مسلمانوں میں امریکہ مخالف جذبات کو ہوا دینگے، جس سے دولت اسلامیہ عراق و الشام (آئی ایس آئی ایس، یا اسلامی ریاست)، القاعدہ، حزب اللہ، اور ان کے جیسے دوسرے گروہوں کی بھرتی کی کوششوں میں اعانت ملے گی۔ ایران کو ایٹمی ملک بننے سے روکنے کے فیصلہ کن طریقے …یعنی حملہ کیا جائے اور ملک پر قبضہ کرلیا جائے… پر عمل درآمد کا کوئی امکان ہی نہیں ہے۔
لیکن فضائی حملے ایک غیر فیصلہ کن راستے کی نمائندگی کرتے ہیں، اور غیر فیصلہ کن جنگوں کا ریکارڈ اس راستے کو اپنانے کی سفارش نہیں کرتا۔ بہتر ہے کہ ایران کو مذاکرات کے ذریعے، اور سخت پابندیوں کی دھمکی کے ذریعے بم بنانے سے روکا جائے، اور اگر یہ کوشش ناکام رہتی ہے تو پھر ایٹمی ڈیٹرنس سے تبدیل کردیا جائے۔
جیسا کہ ماہرسیاسیات رابرٹ پاپے نے دکھایا ہے، فضائی قوت نے اسی وقت کام کیا ہے جب اسے زمینی افواج کی مدد حاصل تھی۔
لیکن جب اسے ہی واحد ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا، یہ حکومتوں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور نہیں کرسکی (البتہ ایک ممکنہ رعایت کے طور پر یوگوسلاویہ میں 1999 کی مہم کو شمار کیا جاسکتا ہے)۔ بہرحال، جب خانہ جنگی کے دوران مبہم انقلابی تحریکوں کو شکست دینے کا معاملہ درپیش ہو تو فضائی قوت تنہا اپنے طور پر محض بیرونی کناروں کے اندر بہت کم ہی اس حوالے سے مقصد پورا کر سکتی ہے۔اور بدنظمی پر مبنی خانہ جنگی ہی اب تک اکیسویں صدی کا سب سے زیادہ عام چیلنج ثابت ہوا ہے، اور یہ ایسا مسئلہ ہے جو بہت زیادہ روایتی فوجی طاقت کے بل پر زیادہ آسانی سے حل کیا جاسکتا ہے۔