Episode 72 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 72 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

ناقابل اعتماد شراکت دار
کسی غیر مستحکم ملک میں فوجی مداخلت اس صورت میں کام کر سکتی ہے اگراس سے وہاں مستحکم سیاسی نظام کو پروان چڑھانے کے مقصد کو تقویت مل سکے… لیکن اس کا انحصار اُس ملک کے سیاست دانوں کے مقاصد اور اُن کے اعمال پر ہوتاہے۔ امریکہ کی انسداد بغاوت حکمت عملی کے ضمن میں تو اصولی طور پر اس حقیقت کو تسلیم کرلیا گیا ہے ،لیکن ہمیشہ عملی طور پر اسے تسلیم نہیں کیا گیا۔
اکثر اوقات، اس پر عمل درآمد کرنے والوں نے سیاسی پیش رفت کے لئے انتظامی کامیابیوں کو الجھایا ہے اور وہ ،ایک غیر ملک کی سیاست کی رہنمائی کے حوالے سے واشنگٹن کی صلاحیت کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے رہے ہیں۔ امریکہ کی طرف سے جمہوری عمل کی ترغیب کا نتیجہ محض ضمیرفروش رہنماؤں کو بااختیار بنانے کے اُلٹے اثر کے طور پر سامنے آیا ہے، اور اس کی ایسی کوششوں نے متعلقہ ملک کو متحد کرنے کے بجائے مزیدتقسیم کیا ہے۔

(جاری ہے)

اور امریکہ کی انسداد بغاوت حکمت عملی بھی اس حوالے سے کامیاب نہیں ہوسکی کہ، میزبان حکومتیں مزاحمت کاروں کے خلاف فعال طور پر مزاحمت کے لیے اپنی دیہی آبادی کو متحرک کرسکیں۔
2000 ء میں مہم کا آغاز کرتے ہوئے، جارج ڈبلیو بش نے قومی تعمیر کو ایک امریکی فوجی مشن کے طور پر انجام دینے کی قسم کھائی تھی۔ تاہم، بطورصدر، انھوں نے دو ایسی جنگوں کا آغاز کیا جو قومی تعمیر کے ایسے پُرعزم منصوبوں میں تبدیل ہوگئیں، جو ویت نام جنگ کے بعد دنیا نے کبھی نہیں دیکھے تھے۔
ایک دہائی کی اچھی خاصی محنت کے باوجود، یہ دونوں اب ناکام نظر آتے ہیں۔ ان سے ملنے والے سبق بالکل واضح ہیں: پالیسی سازوں کو قابل عمل سیاسی نظام تخلیق کرنے کے حوالے سے امریکہ کی صلاحیتوں کو بہت زیادہ تصور نہیں کرنا چاہیے، اور اُنھیں ایسے ملک میں انسداد بغاوت مہم شروع کرنے سے بچنا چاہیے جہاں حکومت خود اس کام کے لئے بہت کمزور یا کرپٹ ہو۔
لیکن یہ سبق اتنے سادہ نہیں ہیں جتنے کہ لگتے ہیں۔بہرحال، امریکی حکومت، کبھی بھی افغانستان یا عراق میں ایک طویل مہم شروع کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی تھی، لیکن اس کے باوجودوہ ایسا کرنے پر مجبور ہے۔ لہٰذا جنگیں شاذو نادر ہی منصوبے کے مطابق آگے بڑھتی ہیں۔
یہ بات دوسری کسی بھی جگہ سے زیادہ عراق میں سچ ثابت ہوئی ہے۔ 2003 کا حملہ خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے جیسا تھا، شروع سے ہی غیر ضروری تھا، لیکن واشنگٹن میں اس کے حامیوں کا خیال تھا کہ یہ 1991کے حملے کی طرح آسانی سے فیصلہ کن انداز میں جلد ختم ہوجائے گا۔
جب مداخلت طویل ہوتی تباہی سے دوچار ہونے لگی تو امریکی پالیسی سازوں کو ملک میں جمہوری اصلاحات کے لئے جدوجہدمیں اپنی پالیسی لڑکھڑاتی ہوئی محسوس ہوئی اور جب امریکی فوج انسداد بغاوت کے نظرئیہ کو دوبارہ سیکھنے کی کوشش کررہی تھی، یہ بات ویت نام کی جنگ کے بعد اس کے لاشعور سے نکل چکی تھی۔جنوبی ویت نام کی طرح، 2007 میں امریکی فوجوں کی مہم کے بعد عراق میں انسداد بغاوت مہم نے کچھ دیر کے لئے امن بہتر بنانے کے ضمن میں کافی اچھی طرح کام کیا، لیکن آخر میں حکومت قومی یکجہتی پیدا کرنے کی اہل ثابت نہیں ہوئی۔
چونکہ جمہوری عمل کی طرف لے جانے کی کوششوں نے اس سماجی تقسیم کو واضح کردیا جسے صدام حسین نے ظلم سے دبا رکھا تھا،اس نے تلخ سیاسی تنازعے کو پھٹنے اور حکومت کومفلوج کرکے رکھ دینے کا موقع فراہم کردیا۔ (عراق اور افغانستان دونوں میں ایسے انتخابات منعقد ہوئے جو ایک حکومت کی تشکیل میں ناکام رہے )۔ امریکیوں کے نمائندہ حکمرانوں کے حفاظتی اقدامات سے یہ مسائل اب اس آسانی سے حل نہیں ہوسکتے جس طرح امریکی سیاست دان اپنے ملک میں جماعتی تعطل کو آسانی سے حل لیتے ہیں۔
فوجی مداخلت کے نتائج اکثر سیاسی سازشوں کے ہاتھوں یرغمال بن جاتے ہیں، جنہیں امریکہ کنٹرول نہیں کر سکتا۔
ہاکس(وہ لوگ جو جارحانہ اور جنگی پالیسی کی وکالت کرتے ہیں،بالخصوص خارجہ پالیسی میں) اس طرح کے نقطہٴ نظر کا مقابلہ اس دلیل کے ساتھ کرتے ہیں کہ تیزرفتار آپریشن کے بعد عراق نے جو عارضی پیش رفت کی تھی، اوباما انتظامیہ اُسے مستحکم کرسکتی تھی (اور آئی ایس آئی ایس کے حملوں کو روک سکتی ہے) اگر وہ عراقی حکومت کو 2011کے بعد بقایا امریکی فوج کی عراق میں موجودگی پر قائل کرلیتی۔
اس دلیل کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ عراقی وزیر اعظم نوری المالکی نے امریکی افواج کے عراق میں موجود رہنے کی واضح طور پر مخالفت کی تھی کیونکہ وہ اپنے ہی راستے پر چلنے کا منصوبہ بنا رہے تھے ۔ اور اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ امریکی مشاورت یا قبضے سے عراق کے شگاف پُر ہوسکتے تھے۔ حتیٰ کہ اگر کچھ امریکی فوجی عراق میں ہی تعینات رہتے، تو ممکنہ طور پر انھیں بہت کم کنٹرول حاصل ہوتا اور تب بھی ہر غلط کام کے لیے اُنھیں مورد الزام ٹھہرایاجاتا۔
اور وہ امن کے قیام کے حوالے سے جو بھی کام کرپاتے ، آخر میں جب وہ اپنے ملک واپس آتے تو یہ اثر ممکنہ طور پر غائب ہوجانا تھا۔
عراق میں مہم کے برعکس، افغانستان میں مہم اپنے دفاع کی خاطر ایک جائز جنگ کے طور پر شروع ہوئی تھی: نائن الیون کے بعدطالبان حکومت نے القاعدہ کے رہنماوٴں کی حوالگی سے انکار کر دیا تھا۔ لیکن عراق جنگ کی طرح، افغانستان کی آزادی کسی اور ہی چیز میں تبدیل ہوگئی۔
جب کابل کی حکومت ، جو 2002 ء میں امریکی مدد سے قائم ہوئی تھی، کرپٹ اور نااہل ثابت ہوئی، تو طالبان دوبارہ مضبوط ہونے لگے اور جنگ، آبادی پر کنٹرول کی ایک جدوجہد بن گئی۔
اس جدوجہد کے حصہ کے طور پر، امریکی فوج نے مرحلہ وار حکمت عملی اپنائی، جسے ”صفایا کرو،قبضہ جماؤ اور تعمیر کرو“ کا نام دیا گیا تھا۔ امریکی افواج صفایا کرنے… دوسرے لفظوں میں روایتی جنگ…میں ماہر ہیں۔
لیکن اُنھیں صفایا کردہ علاقے پر قبضہ جمانے کے لیے افغان فورسز پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ علاقے پر قبضہ جمائے رکھنے کے لیے افغانوں کو ایک پائیدار، ایماندار، اور ذمہ دار حکومت بنانے کی ضرورت تھی جو طالبان کا ایک پرکشش متبادل پیش کرسکتی۔ لیکن افغان صدر حامد کرزئی کی قیادت میں، افغان یہ کرنے میں ناکام رہے۔جہاں گاوٴں کے حکام کو مواد پر مبنی مدد فراہم کرنے کی ضرورت تھی، وہاں تو امریکی فوجیوں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، لیکن وہ شہری تنظیموں میں دیہاتیوں کو بھرتی کرنے ، ان کے مطالبات کو حکومت کے موٴثر پروگراموں سے جوڑنے، یا انھیں طالبان کے للکارنے پر باڑ کے پیچھے چھپنے یا لڑنے کی ترغیب دینے، میں مہارت نہیں رکھتے۔
غیر ملکی فوجیوں سے یہ کام انجام دینے میں کامیابی کی بہت کم امید کی جاسکتی ہے، جب مقامی حکومت انھیں انجام دینے میں ناکام رہے، یا اس سے بھی بدتر صورت میں، وہ خود مقامی لوگوں کو ظلم کا نشانہ بناتی ہو۔
ایسی خدمات حاصل کرنے والی حکومتوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے جو خود اپنا ایجنڈہ رکھتی ہوں، باہر کے لوگ شاذ و نادر ہی اس طریقے سے سیاسی طورطریقوں کو نئی شکل دے سکتے ہیں، جو مستقل طور پر باغیوں کی حمایت کا خاتمہ کردیں۔
جیسا کہ فوجی امور کے ماہر اسٹیفن بڈل نے دلیل دی ہے کہ، امریکہ کے انسداد بغاوت نظریے کو اس باطل سوچ کی وجہ سے نقصان اُٹھانا پڑا ہے کہ میزبان حکومتیں بھی امریکی حامیوں کے مقاصد میں حصہ دار بنیں گی۔ واشنگٹن ان حکومتوں میں شامل بدعنوان لوگوں کا قلع قمع اس جمہوری عمل کی طرف واپس جائے بغیر نہیں کرسکتا،جس کے بارے میں خیال کیا گیا تھا کہ امریکہ کی مداخلت سے اسے فروغ ملے گا۔
ایسی بات بھی نہیں کہ ہر انسداد بغاوت مہم ہی لازماًناکام ثابت ہوگی، لیکن ان میں سے سب سے زیادہ کامیاب ہونے والی مہمات غیر ملکی، فورسز کے بجائے مقامی فورسزپر انحصار کرتی ہیں اور ان کی کامیابی کے لیے قریب دس سے 20 سال لگتے ہیں…یعنی اس مدت سے بھی کہیں زیادہ جتنا سب سے زیادہ قوت برداشت رکھنے والے امریکی عوام صبر کرنے کو تیار ہیں۔
راہ میں حائل رکاوٹوں کو دیکھتے ہوئے، ایک انتہائی منظم بغاوت پر قابو پانے کی کوشش کے لیے انتہائی خطرہ مول لینا پڑتا ہے۔
اگر امریکہ کے پالیسی ساز اس حقیقت کو تسلیم کرلیں، تب بھی، مسئلہ جُوں کا تُوں رہے گا، کیونکہ وہ بہت کم جان بوجھ کر اس طرح کے بکھیڑوں میں شامل ہوتے ہیں۔ اکثر اوقات سیاسی رہنما عمل کرتے ہیں، کیونکہ وہ کچھ کرکے ناکام ہونے کے خطرے کے بجائے کچھ کرنے میں ناکام رہنے کے خطرے پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔حقیقت پسندانہ طور پر دیکھیں تو، پھر، امریکی فوجی رہنماء کبھی کبھی خود کو غلط سمت میں جاری مشن کے بوجھ تلے دبے تصور کرتے ہیں۔
چنانچہ، امریکی فوج اور میرین ویت نام جنگ کے بعد کی گئی غلطی دہرانے کی متحمل نہیں ہو سکتیں، جب انھوں نے جان بوجھ کر انتہائی بدنظمی پر مبنی خانہ جنگی میں مداخلت کے لئے منصوبہ بندی نہیں کی تھی۔ ایک بار افغانستان اور عراق سے نکلنے کے بعد، اگر سویلین حکام نے ایک بار پھر انھیں اسی طرح کی کسی دلدل میں پھینکنے کا فیصلہ کیا، تو ان محکموں کو انسداد بغاوت مہم کے لیے کم ازکم صلاحیت کے مرکز کو دوبارہ حاصل کرنے کی ضرورت ہو گی۔
صحیح منصوبے
گذشتہ بارہ سال کی غلطیوں پر نظر ڈال کر یہ سبق حاصل کرنا آسان ہے کہ واشنگٹن کو کس طرح کی فوجی مہمات سے بچنا چاہیے اور کن کو اختیار کرنا چاہیے۔ اس بات کا تعین کرنے کے لیے کہ فوجی لحاظ سے کیا منصوبہ بندی کرنی ہے، پالیسی سازوں کو دو اہم سوالات پوچھنے چاہئیں۔ سب سے پہلے یہ کہ، داوٴ پر لگے مفادات کتنے اہم ہیں؟ دوسرا یہ کہ،ان مفادات کی حفاظت کے لیے فوجی طاقت کس قدر موثر ثابت ہو سکتی ہے؟
ان دو سوالات کے جواب یہ ظاہر کرتے ہیں کہ، اب وقت ہے کہ امریکہ ملکوں کے درمیان روایتی جنگوں کی منصوبہ بندی کے لیے اپنی ترجیحات مرکوز کرے۔
امریکہ کی اولین ترجیح یورپ اور ایشیا میں طویل عرصے سے چلے آرہے اتحادیوں کا دفاع ہونا چاہیے۔ یہ کام بڑی حد تک دقیانوسی ہوگیا ہے کیونکہ سرد جنگ نے عظیم طاقت کے تنازع کی طرف سے ایک طویل رخصت کا راستہ کھول دیا تھا، لیکن حالیہ واقعات نے ان چھٹیوں کا خاتمہ کردیا ہے۔ مشرق وسطیٰ کی بدنظمی پر مبنی داخلی جنگوں کے مقابلے میں، یورپ اور مشرقی ایشیا میں خطرات روایتی فورس کے اطلاق کے لئے زیادہ مناسب ہیں۔
ان علاقوں میں، امریکہ کی بے مثال روایتی جنگ کی طاقت ایک طاقتور دھمکی کے طور پر کام کر سکتی ہے۔ امریکہ روایتی جنگوں کے لئے تیاری اور روک تھام کا ایک کامیاب ریکارڈ رکھتاہے، اور یہ ایک بار پھر اس کی توجہ کا مرکز ہونا چاہیے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہوگا کہ فوجیوں کی کافی تعداد کوزمین پر اُتارنے کے لیے تیار رہا جائے۔
سرد جنگ کے بعد ایشیا کے باقی حصوں اور زیادہ تر یورپ کے برعکس، جزیرہ نما کوریا کبھی بھی منفرد طور پر خطرناک مقام ہونے سے بچ نہیں سکا کیونکہ پیانگ یانگ کی حکومت باقاعدگی سے لاپرواہ اشتعال دلانے میں مصروف ہے۔
تاہم جنوبی کوریا کو شمالی کوریا کے حملے سے بچانا، روایتی جنگوں جیسا ہی انتظام ہو گا: جس محاذکا احاطہ کرنا ہے وہ مختصر ہی ہے ،امریکہ اور جنوبی کوریا کی افواج، جدید اور خوب مہارت رکھتی ہیں،اور ان کے شمالی کوریا کے ہم منصب تعداد میں تو خطرہ نما ہیں لیکن معیار کے اعتبار سے گھسے پٹے ہیں اور خاص طور پر فضائی قوت کے خلاف کمزور ہیں۔اگرچہ شمالی کوریا کے جوہری ہتھیارمعاملات کو پیچیدہ کردیتے ہیں، لیکن اس کے ابتدائی جوہری ذخیرے امریکی جوابی کارروائی کا مقابلہ کرنے کے لئے بہت چھوٹے ثابت ہونگے، اور یوں وہ طول پکڑنے والے تنازعے میں غالب نہیں آسکتا ،جو جنگ کے زمانے میں سب سے تشویشناک امر ہو گا۔
Kim حکومت اب بھی جانتی ہے کہ جوہری ہتھیاروں کا کسی بھی طرح کا استعمال، واشنگٹن کے ہاتھوں اس کے خاتمے کو یقینی بنا دے گا۔ شمالی کوریا جو ہتھیار رکھتا ہے، وہ امریکہ اور جنوبی کوریا کو شمالی کوریا پر حملہ کرنے سے تو روک سکتے ہیں، لیکن وہ شمالی کوریا کو جنوبی کوریا فتح کرنے کے قابل نہیں بناسکتے۔
اگر کبھی شمالی کوریا ایک عام بُری ریاست کی طرح کام کرتی ہے تو، امریکہ جزیرہ نما سے اپنی زمینی افواج کے انخلاء پر غور کر سکتا ہے، ایسی صورت میں وہ اپنی موجودگی فضائی فوج کی صورت میں محدود کرسکتا ہے جو فوری طور پر عمل کر سکتی ہیں، اور صرف جنگ کی صورت میں زمینی افواج کو دوبارہ لانے کی منصوبہ بندی کرسکتا ہے۔
جب امریکی صدر جمی کارٹر نے1970 کی دہائی میں یہ تجویز پیش کی تھی، اُس وقت یہ ایک بُرا خیال تھا، جب فوجی توازن جنوبی کوریا کے لیے کم سازگار تھا۔ لیکن اس بُرے خیال کا وقت تقریباً آ گیا ہے۔ آج، جنوبی کوریاشمالی کوریا پر روایتی فوجی ٹیکنالوجی، اقتصادی وسائل، اور آبادی کے لحاظ سے مکمل طور پر برتری رکھتا ہے، حالانکہ یہ اپنے جی ڈی پی کا امریکہ کے مقابلے میں صرف نصف خرچ کرتا ہے ۔
اس کے باوجود ابھی وقت نہیں آیا کہ امریکہ جنوبی کوریا کی سلامتی کے لئے اپنی سبسڈی کو کم کردے: پیانگ یانگ میں موجودہ حکومت اس قدر بدماغ ہے کہ، وہ امریکی موجودگی میں کسی بھی سطح کی واپسی کو کمزوری کی علامت سمجھ سکتی ہے،اور اس سے شمالی کوریا کے غلط اندازے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ چنانچہ جزیرہ نما کوریا میں کام اب بھی وہی رہے گا جیسے کہ یہ ساٹھ سال سے چلا آرہا ہے۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط