Episode 75 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 75 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

 اخلاقی حیثیت؟
زی کی سیاسی اصلاحات کا اہم ترین مقصد کمیونسٹ پارٹی کی اخلاقی حیثیت کو بحال کرنے کی کوشش ہے۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ پارٹی کی بے قابو بدعنوانی سے نمٹنے میں ناکامی کا نتیجہ نہ صرف پارٹی بلکہ چینی ریاست کے بھی خاتمے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ پولٹ بیورو کی قائمہ کمیٹی کے رکن وانگ قیشان کی کڑی نگرانی میں، سرکاری بدعنوانی سے نپٹنا ،زی جن پنگ کی خاص پہچان بن چکا ہے۔
سابق چینی رہنماوٴں نے بھی انسداد بدعنوانی کی مہمات انجام دی تھیں، لیکن زی نے اس مقصد کو سنجیدگی اور نئی توانائی دی ہے: سرکاری تقریبات، گاڑیوں، اور کھانے کے لئے فنڈز کومحدود کیا ہے… ذرائع ابلاغ، حکومت، فوج، اور نجی شعبے میں معروف شخصیات کی کڑی نگرانی کی گئی ہے… اور ڈرامائی طور پر سرکاری جائزے کے لئے لائے جانے والے بدعنوانی کے مقدمات کی تعداد میں اضافہ کیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

2013 میں، پارٹی نے 182,000حکام کو کرپشن پر سزادی، جو پچھلے پانچ سال کی اوسط کی نسبت 50,000 زیادہ ہے۔ گزشتہ موسم بہار میں سامنے آنے والے دو سکینڈلز ظاہر کرتے ہیں کہ یہ مہم کس پیمانے پر جاری ہے۔ پہلے سکینڈل میں، وفاقی حکام نے مسلح افواج کے سینکڑوں عہدوں کی فروخت کے الزام میں چینی فوج کے ایک لیفٹیننٹ جنرل کو گرفتار کر لیا، جو کبھی کبھی غیر معمولی رقم کے بدلے یہ جُرم کررہا تھا…مثال کے طور پر، میجر جنرل بننے کی قیمت، 4.8 ملین ڈالرز تک پہنچ گئی تھی۔
دوسرے سکینڈل میں، بیجنگ نے ہنان صوبے کی علاقائی حکومت کے 500 سے زائد ارکان کے خلاف ووٹوں کی خریداری کے لیے 18 ملین ڈالرز کی کرپشن میں حصہ لینے کے معاملے پر تحقیقات شروع کر دی۔
زی کی انسدادبدعنوانی کی جنگ، کمیونسٹ پارٹی کی اخلاقی اتھارٹی کو دوبارہ بحال کرنے کے لئے ان کے وسیع تر پروگرام کے صرف ایک حصہ کی نمائندگی کرتی ہے۔ انہوں نے چینی معاشرے کے اہم ترین خدشات میں سے کچھ سے نمٹنے کے لیے بھی اصلاحات کا اعلان کیا ہے۔
زی جن پنگ کی رہنمائی میں، چینی قیادت نے ملکی فضا کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے مہم شروع کی ہے، ایک بچے کی پالیسی میں اصلاحات کی ہیں،رہائشی اجازت ناموں کے حوالے سے خصوصی نظام” hukou(چین میں قانون کے تحت رہائشوں گاہوں کی رجسٹریشن کے لیے درکار ریکارڈ کا نظام) پر نظر ثانی کی ہے…جو ایک شہری کی رہائش، صحت کی دیکھ بھال، اور تعلیم کو اس کی سرکاری رہائش گاہ سے منسلک کرتا اور دیہی باشندوں سے زیادہ شہریوں کی حمایت کرتا ہے، اور ”محنت مزدوری کے ذریعے دوبارہ تعلیم“ کے کیمپوں کے نظام کو بند کردیا ہے، جو حکومت کو بلاوجہ لوگوں کو گرفتار کرنے کی اجازت دیتا تھا۔
حکومت نے قانونی نظام کو مزید شفاف بنانے اور مقامی حکام کی طرف سے دخل اندازی کی لعنت سے چھٹکارا دلانے کے لیے منصوبے کا بھی اعلان کیا ہے۔
زی کے اصلاحات پر مبنی اقدامات کی متاثر کن رفتار اور امکانات کے باوجود، یہ واضح نہیں کہ کیا یہ اقدامات طویل المیعاد تبدیلی کے آغاز کی نمائندگی کرتے ہیں، یا پھر محض مختصر مدت کے لیے لوگوں کے خیر سگالی جذبات خریدنے کے لئے ڈیزائن کردہ محض سطحی اقدامات ہیں۔
بہرحال، ان کی کچھ اصلاحات نے شدید مخالفت کو اکسایا ہے۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق، سابق چینی رہنماوٴں جیانگ جیمن اور ہوجنتاوٴ دونوں نے زی کو خبردار کیا ہے کہ وہ اپنی انسداد بدعنوانی مہم کو لگام دیں، اور خود، زی نے تسلیم کیا ہے کہ ان کی کوششوں کو خاطر خواہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔یہ مہم حقیقی معاشی اخراجات کا باعث بھی بنی ہے۔ بینک آف امریکہ میرل لنچ کی ایک رپورٹ کے مطابق، عیش و آرام کی اشیاء اور خدمات کی فروخت میں کمی کے نتیجے میں چین کا جی ڈی پی اس سال 1.5 فی صد شرح پوائنٹس تک گِرسکتا ہے، کیونکہ حکام اس بارے میں بہت زیادہ فکر مند ہیں کہ شاہانہ جماعتوں، سیاسی حمایت خریدنا، اور مہنگی خریداریاں ناپسندیدہ چیزوں کی طرف توجہ مبذول کروادیں گی۔
(بلاشبہ بہت سے چینی اب بھی خریداری کر رہے ہیں،لیکن وہ ایسا صرف بیرون ملک سے کر رہے ہیں)۔یہاں تک کہ بدعنوانی کے خلاف جنگ کے مقصد کی حمایت کرنے والوں نے بھی زی جن پنگ کے طریقوں پر سوالات اُٹھائے ہیں۔ مثال کے طور پر، وزیراعظم لی کی کیانگ نے، 2014 کے آغاز میں حکومت کی انسداد بدعنوانی مہم میں زیادہ شفافیت اور عوامی احتساب کا عنصر شامل کرنے کے لئے کہا تھا؛ تاہم، ان کے ریمارکس کو، فوری طور پر ویب سائٹس سے ہٹا دیا گیا تھا۔
کرپشن پر زی کا موقف ان کی ذاتی اور سیاسی حیثیت کے لیے بھی خطرات کھڑے کر سکتا ہے: ان کے خاندان کا شمار چینی قیادت کے امیر ترین لوگوں میں ہوتا ہے، اور نیو یارک ٹائمز کے مطابق، زی نے اپنے رشتہ داروں سے کہا ہے کہ وہ اس حوالے سے خطرے کو کم کرتے ہوئے اپنے اثاثے چھپا دیں۔اس کے علاوہ، انہوں نے زیادہ شفافیت کے مطالبات کے خلاف مزاحمت کی ہے،حکام پر اثاثے ظاہر کرنے کے لیے زور دینے والے کارکنوں کو گرفتار کیا ہے اور چینی رہنماوٴں کے خلاف تحقیقات کرنے والے مغربی ذرائع ابلاغ کو سزا دی ہے۔
کنٹرول قائم رکھنے کے لیے
اب جب کہ زی سیاسی کنٹرول کو مستحکم بنانے اور کمیونسٹ پارٹی کی قانونی حیثیت کو بحال کرنے کے لئے کوشاں ہیں، اُنھیں چین کی معیشت میں مزید اضافہ کے طریقوں کو بھی تلاش کرنا ہوگا۔وسیع طور پر بات کی جائے تو، اُن کے مقاصد میں، چین کو دنیا کے مینوفیکچرنگ مرکز سے جدت طرازی کے مرکز میں تبدیل کرنا، سرمایہ کاری پر کھپت کو ترجیح دیکر چینی معیشت کا توازن نئے سرے سے ترتیب دینا، اور نجی انٹرپرائز کو زیادہ جگہ دینا، شامل ہیں۔
زی جن پنگ کے منصوبوں میں اداروں اور پالیسی دونوں سے متعلق اصلاحات شامل ہیں۔مثال کے طور پر انہوں نے واضح طور پر جانچ پڑتال کے لیے ٹیکسوں کے نظام میں تبدیلیاں کی ہیں: مقامی آمدنی کئی طرح کے ٹیکسوں سے حاصل کی جائے گی بجائے اس کے کہ اسے خاص طور پر زمین کی فروخت سے حاصل کیا جائے،جو کرپشن اور سماجی بے چینی کا باعث بنتا ہے۔ اس کے علاوہ، وفاقی حکومت جو روایتی طور پر قومی ٹیکس آمدنی کا تقریباً نصف خود لے جاتی اور سماجی بہبود کے اخراجات کے صرف ایک تہائی کے لئے ادائیگی کرتی ہے،وہ مقامی حکومتوں پر بوجھ میں کچھ کمی کرتے ہوئے، سماجی خدمات کے لئے فنڈز کی فراہمی میں اضافہ کرے گی۔
اضافی پالیسی اقدامات کی کارکردگی بھی ابھی جانچ کے مرحلے میں ہے، جن میں،سرکاری اداروں میں نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اور ان کے ایگزیکٹوز کے معاوضہ کم کرنا، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کے لئے سرمایہ فراہم کرنے والے نجی بینکوں کا قیام، اور نئے کاروبار کے لئے انتظامی منظوری حاصل کرنے میں خرچ ہونے والے وقت کی مدت میں کمی کرنے جیسے اقدامات بھی شامل ہیں۔
 پھر جبکہ زی کے اقتصادی منصوبے کی تفصیلات سامنے آرہی ہیں ، یہ واضح ہو گیا ہے کہ اُن کی طرف سے آزاد مارکیٹ پر زور دئیے جانے کے باوجود، ریاست کا معیشت کے زیادہ تر حصے پر کنٹرول برقرار رہے گا۔ سرکاری سرپرستی میں چلنے والی کمپنیوں کوجس طرح چلایا جاتا ہے، اصلاحات کرنے سے ان کمپنیوں کی فیصلہ سازی میں کمیونسٹ پارٹی کے غالب کردار کو کمزور نہیں کیا جاسکے گا،زی جن پنگ نے غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ میں اہم رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں؛ اور اگرچہ حکومت سرمایہ کاری کی بدولت ترقی سے دُور ہٹنے کی تبدیلی کا عزم کررہی ہے، اس کی محرکانہ کوششیں جاری ہیں، جومقامی قرض کی بڑھتی سطح میں کردار ادا کررہی ہیں۔
بے شک، ایک چینی اخبار گلوبل ٹائمز کے مطابق، 2014 کی پہلی ششماہی میں نان پرفارمنگ قرضوں کی قیمت میں اضافہ، 2013 میں تمام نئے نان پرفارمنگ قرضوں کی قیمت سے زیادہ ہوچکا ہے۔
اس کے علاوہ، زی جن پنگ نے اپنے اقتصادی ایجنڈا کو اسی قوم پرست…حتیٰ کہ غیرملکیوں سے گریز پر مبنی… جذبات کے ساتھ آگے بڑھایا ہے ، جو ان کے سیاسی ایجنڈے کا بھی خاصا ہیں۔
ان کی جارحانہ انسداد بدعنوانی و انسداد اجارہ داری مہمات نے، پاؤڈر دودھ، طبی سامان، ادویات، اور آٹو پارٹس جیسی مصنوعات بنانے والی ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کو نشانہ بنایا ہے۔ درحقیقت،جولائی 2013 میں، چین کے قومی ترقی اور اصلاحات کمیشن نے، 30 کثیر القومی اداروں کے نمائندوں کو غلط کام کرنے کا جُرم تسلیم کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش میں ایک ساتھ طلب کیا تھا۔
بعض اوقات ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بیجنگ جان بوجھ کر غیر ملکی اشیا اور خدمات فراہم کرنے والوں کو کمزور کررہا ہے: ریاستی کنٹرول میں ذرائع ابلاغ کثیر القومی کمپنیوں میں مبینہ ظلم کو خاص طور پر نمایاں کرتے ہیں جبکہ چینی فرموں میں اسی طرح کے مسائل کے بارے میں نسبتاً خاموش رہتے ہیں۔
انسداد بدعنوانی کی مہم کی طرح، غیر ملکی کمپنیوں کے خلاف زی کی تحقیقات سے بھی اُن کے بنیادی ارادے کے بارے میں سوالات پیدا ہوتے ہیں۔
چین میں یورپی یونین کے چیمبر آف کامرس کے سربراہ اورچین کے قومی ترقی اور ریفارم کمیشن کے ایک اہلکار کے درمیان چین کے سرکاری ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی ایک مقبول بحث میں، یورپی عہدیدار نے اپنے چینی ہم منصب کو چینی حکومت کی طرف سے غیر ملکی اور ملکی کمپنیوں کے ساتھ سلوک کے درمیان واضح فرق کے دفاع پر مجبور کر دیا تھا۔ آخر میں، چینی اہلکار یہ کہہ کرقائل ہوتے نظر آئے کہ، چین کا اجارہ داری ختم کرنے کا طریقہٴ کار ،”چینی خصوصیات میں شامل“ طریقہٴ کار ہے۔
زی جن پنگ کی طرف سے ابتدا میں کیا گیا ہر خرابی دُور کرنے کا وعدہ حقیقت نہیں بن سکا۔ چین ،امریکہ بزنس کونسل کی طرف سے جُون 2014 میں شائع کیے جانے والے چین کی اقتصادی اصلاحات سے متعلق 31 صفحات کے اسکور کارڈ میں، درجنوں ادھورے کاموں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ زی کے پالیسی اقدامات میں سے صرف تین کو کامیابیاں تسلیم کرتا ہے،یہ تین اقدامات :نئے کاروبار کو رجسٹر کرانے کے لیے درکار وقت کو کم کرنا، کثیر القومی اداروں کو اپنے کاروبار پھیلانے کے لیے چینی کرنسی استعمال کرنے کی اجازت دینا، اور ”hukou“ نظام میں اصلاحات کرنا، ہیں۔
تاہم،گہری اصلاحات سے نمٹنے کے لیے نظام کو جھٹکا دینے کی ضرورت پڑسکتی ہے، جیسے کہ ہاوٴسنگ مارکیٹ کے خاتمے کی صورت میں۔ ابھی تک تو، زی جن پنگ آپ اپنے بدترین دشمن لگتے ہیں: مارکیٹ پر غلبے کے مطالبات اور اقتصادی کنٹرول برقرار رکھنے کے لئے ان کی خواہش کے درمیان کوئی مطابقت نہیں ہے۔
شیر کو بیدار کرنا
ملکی سیاست اور معاشیات کو تبدیل کرنے کے لیے زی کی کوششیں ، چین کو ایک عالمی طاقت کے طور پر تسلیم کروانے کے اُتنے ہی ڈرامائی اقدامات سے ہم آہنگ ہوگئی ہیں۔
تاہم،زی جن پنگ کی خارجہ پالیسی کی جڑیں، ان کی صدارت سے پہلے کے دور سے چلی آرہی ہیں۔ چینی قیادت نے عوامی سطح پر چین کے ایک عالمی طاقت کے طور پر عروج پر بحث کا آغاز 2008 کے عالمی مالیاتی بحران کے تناظر میں کیا، جب کئی چینی تجزیہ کاروں نے یہ دلیل دی کہ امریکہ کا حتمی زوال شروع ہوگیا ہے جس سے چین کے لیے عالمی نظام میں اہم ترین مقام حاصل کرنے کی راہ ہموار ہوجائے گی۔
مارچ 2014 ء میں پیرس میں ایک تقریر کے دوران، زی نے چین سے متعلق نپولین کے طرز فکر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا:”نپولین نے کہا تھا کہ چین ایک سویا ہوا شیر ہے، اور جب وہ جاگے گا تو دنیا کو ہلادے گا“۔زی نے اپنے سامعین کو یقین دلایا کہ،” چینی شیرپہلے ہی بیدار ہے ، لیکن یہ ایک پُر امن، خوشگوار، اور مہذب شیر ہے“۔ اس کے باوجود زی جن پنگ کے کچھ اعمال اُن کے تسلی آمیز الفاظ کو جھٹلاتے ہیں۔
انہوں نے سابق چینی رہنما دینگ جیاؤپنگ کے کئی دہائی پرانے جاپ ”چمک چھپاؤ، غیراہم رہنے کو فروغ دو“ کو کہیں زیادہ وسیع اور طاقت کے اظہار پر مبنی خارجہ پالیسی کے ساتھ تبدیل کردیا ہے۔
زی کے لئے، تمام راستے تمثیلی اور لفظی طور پر، بیجنگ کی طرف جاتے ہیں۔ اُنھوں نے پرانے راستے کی پیروی کرنے والے ریل روڈ، پائپ لائنز، شاہراہوں، اور نہروں کے ایک مجوزہ وسیع نیٹ ورک کے ذریعے شاہراہ ریشم کے قدیم تصور کو زندہ کیا ہے…جس نے چینی سلطنت کو سنٹرل ایشیا، مشرق وسطیٰ، اور یہاں تک کہ یورپ سے منسلک کیا تھا۔
زی جن پنگ ، جس انفراسٹرکچر کے لیے چینی بینکوں اور کمپنیوں کی طرف سے مالی اعانت اور تعمیر کی توقع رکھتے ہیں، وہ چین اور باقی دنیا کے درمیان کہیں زیادہ تجارت کے قابل بنائے گا۔ بیجنگ نے تقریباً 8,100میل طویل تیز رفتار بین البراعظمی ریلوے لائن کی تعمیر پر غور کیا ہے، جو چین کو آبنائے بیرنگ کے ذریعے کینیڈا، روس، اور امریکہ سے منسلک کرے گی۔
یہاں تک کہ قطب شمالی کا علاقہ بھی چین کے لیے ”گھر کے پچھواڑے“ جیسا بن گیا ہے: چینی سکالرز اپنے ملک کو”قطب شمالی کے قریب“ریاست کے طور پر بیان کرتے ہیں۔
نئے بنیادی ڈھانچے کے ساتھ ، زی جن پنگ ایک علاقائی اور عالمی رہنما کے طور پر چین کے موقف کو مضبوط کرنے کے لیے نئے ادارے بھی قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اُنھوں نے ،برکس ممالک… برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ… کے ذریعے کام کرنے والے ایک نئے ترقیاتی بینک، کی تخلیق میں مدد کی ہے تاکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) اور عالمی بینک کے غلبے کو چیلنج کیا جاسکے۔
اور انھوں نے ایشیائی انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک، کے قیام کی طرف پیش قدمی کی ہے جو چین کو علاقائی ترقی کے حوالے سے اہم ترین سرمایہ مہیا کرنے والا بناسکتا ہے۔ ان کی یہ دونوں کوششیں ، زی کی اس خواہش کو ظاہر کرتی ہیں کہ بین الاقوامی اقتصادی تنظیموں کو ترقی پذیر ممالک کی زیادہ نمائندہ بنانے سے امریکہ کی عدم رضامندی کے باعث پیدا ہونے والی محرومیوں کا فائدہ اُٹھایا جائے۔
زی نے علاقائی سلامتی کے حوالے سے نئے اقدامات کو بھی فروغ دیا ہے۔ پہلے سے موجود شنگھائی تعاون کی تنظیم کے علاوہ، جو چین کی قیادت میں روس اور چار وسط ایشیائی ریاستوں پر مشتمل علاقائی سلامتی کا ادارہ ہے، زی جن پنگ ایک نئے ایشیا پیسیفک سلامتی کے ڈھانچے کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں، جو امریکہ کو خطے کے معاملات سے خارج کردے گا۔ مئی 2014 میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، زی نے اس نقطہ پر خاص طور پر زور دیا تھا: ” ایشیا کے امور کو چلانا، ایشیا کے مسائل کو حل کرنا، اور ایشیا کی سلامتی کا تحفظ کرنا…ایشیا کے عوام کا کام ہے۔
ایک مضبوط علاقائی پالیسی کی طرف زی جن پنگ کا جھکاؤ اُن کے صدر بننے سے پہلے ہی واضح ہوگیا تھا۔ 2010 میں، زی نے ملک کی جنوبی بحر چین سے متعلق پالیسی کے ذمہ دار معروف گروپ کی صدارت کی،جس نے جنوبی بحر چین کے سمندری علاقے میں اپنے وسیع دعوؤں کو شامل کرنے کے لیے چین کے بنیادی مفادات کی تعریف کو وسیع کیا ہے۔ اس کے بعد سے، انہوں نے ان دعوؤں کو مضبوط کرنے کی کوشش میں چینی بحریہ سے لیکر ماہی گیری کی کشتیوں تک سب کچھ استعمال کیا ہے… سمندر کی سرحد کے قریب واقع دوسرے ممالک کی طرف سے دعوؤں کے باعث یہ دعوے متنازعہ ہیں۔
مئی 2014 میں، چین اور ویت نام کے درمیان ایک تنازعہ اس وقت شروع ہوا، جب چائنا نیشنل پٹرولیم کارپوریشن نے جنوبی بحر چین کے ایک متنازعہ علاقے میں تیل کی تلاش کا سامان منتقل کیا ؛ یہ تناؤ اُس وقت تک شدت سے جاری رہا جب تک کہ جولائی کے وسط میں چین نے ”آئل رِگ“ واپس نہ بُلا لیا۔ مشرقی بحر چین میں چین کے اس دعویٰ کو نافذ کرنے میں مدد دینے کے لیے، زی نے اس کے ایک حصے پر ”فضائی دفاعی شناختی زون“ قائم کردیا ہے، جو جاپان اور جنوبی کوریا کی طرف سے قائم کردہ زونزسے متصادم ہے۔
انہوں نے علاقائی ماہی گیری کے قواعد و ضوابط کا بھی اعلان کیا ہے۔ چین کے کسی بھی ہمسایہ ملک نے ان اقدامات کو جائز تسلیم نہیں کیا ہے۔ لیکن بیجنگ نے چینی پاسپورٹ پر چین کے نقشے کو کندہ کرادیا ہے تاکہ بھارت کے ساتھ ساتھ جنوب مشرقی ایشیاء کے دیگر ممالک کے ساتھ متنازعہ علاقوں کو اپنے اندرشامل ظاہر کرسکے، اور اس سے ایک فکرانگیز سیاسی طوفان کو ہوا دی ہے۔
اس مشق نے اندرون ملک قوم پرست جذبات کو اور یکساں طور پر بیرون ملک خطرناک قوم پرستی کو بھی ہوا دی ہے۔ بھارت اور جاپان میں نئے اور اسی طرح کے قوم پرست رہنماوٴں نے زی کی پالیسیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور اپنے ملکوں کے حفاظتی حصاروں کو مضبوط کرنے کے لئے اقدامات اُٹھائے ہیں۔ درحقیقت، 2014 کے آغازمیں بھارتی وزارت عظمیٰ کے لیے اپنی انتخابی مہم کے دوران، نریندرا مودی نے چین کے توسیع پسندانہ رجحانات کو تنقید کا نشانہ بنایا، اور اس کے بعد سے اُنھوں نے جاپانی وزیر اعظم شینزو ایبے کے ساتھ ملکر دونوں ملکوں کے حفاظتی اوردفاعی تعلقات کو بہتر بنایا ہے۔
علاقائی سلامتی کے لیے کئی نئے اقدامات کیے جارہے ہیں، جن کے تحت بیجنگ (اور اس کے ساتھ ساتھ واشنگٹن کو بھی) خارج کیا جارہا ہے۔ مثال کے طور پر، بھارت …میانمار اور ویت نام سمیت، بعض جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی بحری افواج کو تربیت دے رہا ہے، اور علاقے کے بہت سے ممالک کی افواج…جن میں آسٹریلیا، بھارت، جاپان، فلپائن، سنگاپور، اور جنوبی کوریا کی افواج بھی شامل ہیں… مشترکہ دفاعی مشقوں کامنصوبہ بنا رہی ہیں۔

ایک زوردار ردعمل
امریکہ اور دنیا کے باقی اکثر ممالک کو، زی جن پنگ کے چین کی بیداری، دو مختلف طرح کے ردعمل پر اکساتی ہے: ایک طرف اس بات پر خوشی کہ ایک مضبوط، کم بد عنوان چین کیا کچھ حاصل کر سکتا ہے، اوردوسری طرف ان مسائل کے حوالے سے اہم تشویش جو ، ایک زیادہ آمرانہ، عسکری چین … امریکہ کے حمایت یافتہ لبرل آرڈر(عالمی نظام) کے لیے پیدا کرسکتا ہے۔
 
مثبت جانب دیکھتے ہوئے بات کریں تو،نئی شاہراہ ریشم کی تعمیر کے حوالے سے بیجنگ کے منصوبے مشرق وسطیٰ میں سیاسی استحکام کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کریں گے؛ اور یہ خطے میں امن کو یقینی بنانے کے لیے واشنگٹن کے ساتھ ملکر کام کرنے کے ضمن میں چین کی حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں۔ اسی طرح، بیرون ملک سرمایہ کاری کرنے میں چینی کمپنیوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی واشنگٹن کو بیجنگ کے ساتھ باہمی سرمایہ کاری کا معاہدہ کرنے کے حوالے سے زیادہ مدد دے سکتی ہے۔
امریکہ کو ٹرانس پیسفک شراکت داری کے معاہدہ میں چین کی شرکت کی بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے…جو کہ آزاد تجارت کے لیے ایک اہم علاقائی معاہدہ ہے اور اس پر ابھی مذاکرات ہورہے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے1990 کی دہائی میں عالمی تجارتی تنظیم میں شامل ہونے کے لیے چین کے مذاکرات نے چینی اقتصادی اصلاح پسندوں کو اندرون ملک تبدیلی آگے بڑھانے پر مائل کیا تھا، ٹی پی پی میں شامل ہونے کے لیے مذاکرات آج بھی ایسا ہی کر سکتے ہیں۔
 اس کے علاوہ، اگرچہ چین پہلے ہی بین الاقوامی نظام میں ایک اہم حصہ رکھتا ہے،مگر امریکہ کو لازماً چین کو اس دھارے میں رکھنے کے لئے کام کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر، امریکی کانگریس کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے اندرونی ووٹنگ کے نظام میں مجوزہ تبدیلیوں کی توثیق کرنی چاہیے ، جس سے چین اور دیگر ترقی پذیر ممالک کو فنڈز کے انتظامات میں ایک وسیع تر اختیار حاصل ہوسکے گا اور اس طرح مقابلے کے گروپ قائم کرنے کے بیجنگ کے عزائم کو کم کرنے میں مدد مل سکے گی۔
منفی حوالے سے بات کریں تو ، زی کی قوم پرست بیان بازی اور تحکمانہ فوجی انداز ، خطے میں امریکی مفادات کو براہ راست خطرات لاحق کرتا اور ایک زوردار جواب کی دعوت دیتا ہے۔ایشیاء کے لیے واشنگٹن کی ” ازسر نو توازن“،یا ”محور“ کے نام سے جاری حکمت عملیاں صرف چین کے زیادہ جارحانہ رویے کے لیے ہی جواب کی نمائندگی نہیں کرتیں بلکہ یہ امریکہ کی سب سے زیادہ مضبوط خارجہ پالیسی اقدار کی بھی عکاسی کرتی ہیں: سمندر، ہوا اور خلا کی آزادی؛ آزاد تجارت؛ قانون کی حکمرانی؛ اور بنیادی انسانی حقوق۔
ایک مضبوط محور کے بغیر، ایک علاقائی طاقت کے طور پر امریکہ کا کردار کم ہو جائے گا ، اور واشنگٹن کودنیا کی سب سے زیادہ متحرک معیشتوں کے ساتھ گہرے روابط کے فوائد سے محروم کردیاجائے گا۔چنانچہ امریکہ کوچینی جارحیت کو روکنے یا اس کا توڑ کرنے کے لئے ایشیا پیسفیک میں مضبوط فوج کی موجودگی کے ساتھ ’محور“ کو مضبوط کرنا چاہئے؛ ٹی پی پی پر اتفاق رائے تک پہنچا جائے اور پھر اس کی توثیق کی جائے؛ اور ایسے امریکی پروگراموں کی حوصلہ افزائی کی جائے جو… کمبوڈیا، ملائیشیا، میانمار، اور ویت نام، جیسے مقامات میں، جہاں جمہوریت ابتدائی سطح پر لیکن آگے بڑھ رہی ہے،جمہوری اداروں اور سول سوسائٹی کی حمایت کرتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی، واشنگٹن کو احساس ہونا چاہیے کہ ہوسکتا ہے زی جن پنگ عین اُس طرح سے چین کو تبدیل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں جیسے کہ اُنھوں نے بیان کیا ہے۔ انہوں نے اپنا نقطہ نظر واضح کردیا ہے، لیکن چین کے اندر اور باہر دونوں طرف سے دباوٴ غیر متوقع طور پر ملک کی آگے کی راہ کی صورت گری کرے گا۔ اجناس کی دولت سے مالا مال بعض ممالک، سماجی ذمہ داری کے کمزور ریکارڈ سے پریشان ہوکر چینی فرموں کے ساتھ کام کرنے سے پیچھے ہٹ گئے ہیں، جس نے بیجنگ کو کاروبار کرنے کے نئے طریقے تلاش کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
بیجنگ کی اکڑ سے فکر مند چین کے ہمسایہ ممالک نے سیکورٹی کے نئے تعلقات قائم کرنے کے لئے کام شروع کر دیا ہے۔ حتیٰ کہ چین کے اندر بھی خارجہ پالیسی کے ممتاز ماہرین، جیسے کہ پیکنگ یونیورسٹی کے وانگ جی سی اور ریٹائرڈ سفیر وو جیان من نے بھی ، زی کی خارجہ پالیسی پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
آخر میں، اگرچہ زی جن پنگ کی ملکی خارجہ پالیسی میں امریکہ کے ساتھ گہرے روابط کے لیے نیک خواہشات کا بہت کم ا ظہار ہوتا ہے، تاہم، واشنگٹن کو چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو مقابلہ کی شکل میں تشکیل پانے کو روکنا چاہیے۔
چین کو ایک مدمقابل یا دشمن تصور کرنے سے محض، زی جن پنگ کی مغرب مخالف افسانوں کو تقویت ملتی ہے،اور چین کے اندر موجود وہ لوگ کمزور ہوتے ہیں جو اعتدال کے لئے زور دے رہے ہیں، اور یہ دو طرفہ تعاون کو آگے بڑھانے میں بہت کم اور امریکہ کے قد کو کم کرنے میں بہت زیادہ کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے بجائے، وائٹ ہاوٴس کو زی جن پنگ کی پالیسیوں کے ارتقاء پر خصوصی توجہ دینی چاہئے، اور ان میں سے جو اس کے چین کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بناسکتی ہیں، اُن سے فائدہ اُٹھائے اور جو ان تعلقات کو کمزور کرتی ہوں، اُنھیں پیچھے ہٹادے۔ چین کے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرتے ہوئے، امریکہ کے پالیسی سازوں کو لچکدار اور پیروں پر مضبوطی سے جمے رہنا چاہیے۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط