Episode 76 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 76 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

 سوشلزم کب کام کر سکتا ہے؟(مارٹن ہوچنسن)
(مارٹن ہوچنسن ممتاز ماہرِ اقتصادیات، کالم نگار اور معاشی تجزئیہ کار ہیں۔ وہ کتاب ”Great Conservatives: A Perspective on British History“ کے مصنف اور ”Alchemists of Loss“ کے شریک مصنف ہیں۔)
بولیویا کے صدر ایوو مورالیزEVO Morales نے حال ہی میں ہونے والے دوبارہ انتخاب میں بڑے واضح مارجن سے فتح حاصل کرلی ہے۔ اُن کے آٹھ سالہ دور نے بولیویا میں جائیداد کے حقوق کو کمزور کیا ہے، اداروں کو قومیانے کا عمل بار بار دہرایا گیا اور سرمایہ دارانہ نظام کو خطرے کی علامت بناکر رکھ دیا گیا۔
تاہم اس دور میں بولیویا کی ترقی کی شرح پچھلی کئی دہائیوں کے لحاظ سے بہترین رہی ہے، بلکہ یہ شرح 1985سے 2003کے دوران جاری رہنے والی قابل ستائش اور روایتی پالیسیوں سے بھی بہتر ہے۔

(جاری ہے)

چنانچہ مورالیز کی طرف سے بولیویا میں گھڑیوں کو پیچھے کی طرف چلانے کی پالیسی اُن کے معاشی نظرئیات میں بظاہر کامیاب سرکشی سے اخذ کردہ لگتی ہے۔تاہم حقیقت میں اس کی وضاحت کافی آسان ہے، اور اس میں دوسرے غریب ممالک کے لیے ایک اہم سبق مضمر ہے۔
بولیویا کے پہلے ”مقامی“ صدر مورالیزMorales ، ایک لاطینی امریکن سوشلسٹ ہیں۔وہ سرمایہ دارانہ نظام کی مذمت خوش ہوکر کرتے ہیں، لیکن معیاری انداز میں نہیں۔ ان کی تلون مزاجی کچھ مہینوں پہلے اُس وقت سامنے آئی تھی جب اُنھوں نے بولیویا کانگریس کی گھڑیوں کو پیچھے کی طرف چلانے کی ہدایت کی، اور اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ”گھڑی کی سوئیوں کی حرکت کا روایتی ”کلاک وائس clockwise“ طریقہ ”شمالی نصف کرہ“ والوں نے اپنے نصف کرہ میں سورج کے سایہ کو ظاہر کرنے والی دھوپ گھڑیوں (Sundials) کی پیروی کرتے ہوئے ترتیب دیا تھا جہاں دھوپ گھڑی (Sundial) کے سائے گھڑی کی سوئی کی حرکت کے روایتی طریقے ”کلاک وائس clockwise“کے مطابق سفر کرتے ہیں، اور اسی وجہ سے وہ جنوبی کرہ کے لیے مناسب نہیں ہیں جہاں دھوپ گھڑی (Sundial) کے سائے مخالف انداز( انٹی کلاک وائس) میں تبدیل ہوتے ہیں۔
اُن کا کہنا بہت حد تک درست ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر گھڑی کی ایجاد آسٹریلیا میں یا پیٹاگونیا میں ہوتی تواُس کی سوئیاں دوسری سمت میں حرکت کرتی ہوتیں۔ تاہم وہ یہ بات بولیویا کے تناظر میں کررہے ہیں جس کا دارالحکومت لاپاز خط استوا کے کافی قریب ہے، جہاں سال کے زیادہ عرصہ کے دوران دھوپ گھڑیاں (Sundials) اسی طرح کام کرتی ہیں جیسے کہ وہ شمال میں کرتی ہیں۔
اُن کی اقتصادی پالیسیوں کی بھی بالکل ایسے ہی اپنی ایک مخصوص منطق ہوتی تھی۔ اداروں کو قومیانے اور معاہدوں کو توڑ کر اُنھوں نے بولیویا کی ریاست کو معدنیات اور توانائی کے ذرائع سے اپنی آمدنی چوگنی کرنے کے قابل بنایا، ایک ایسے وقت میں جب قیمتیں بلند تھیں اور کان کنی اور توانائی کے ذرائع مہیا کرنے والی کمپنیاں دوسری صورت میں اپنے عروج سے بہت زیادہ منافع کما سکتی تھیں۔
اس عمل کے نتیجے میں مورالیز بجٹ میں زیادہ واضح عدم توازن پیدا کیے بغیر بولیویا کے بطور فلاحی ریاست کردار میں اضافہ کرنے میں کامیاب ہوسکے ہیں۔
بلاشبہ، وسائل سے حاصل ہونے والی آمدنی میں غیرمعمولی اضافے کی مدد سے، اُن کی بجٹ پالیسیاں اخراجات کو محدود رکھنے کے حوالے سے بہترین ماڈل رہی ہیں، دیگر لاطینی امریکہ کے ممالک ،بلکہ درحقیقت یورپ کے امیر ممالک، امریکہ اور جاپان سے بھی کہیں بہتر رہی ہیں۔
خالصتاً ان کی بجٹ پالیسیوں کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کیا جائے تو، ہم شاید اُن کے لیے امریکی سیکرٹری خزانہ جیک لیو یا، خزانے کے برطانوی چانسلر جارج اوسبورن کے جانشین کے طور پر بعداز صدارت کیرےئر پر غور کرسکتے ہیں۔ 
بولیویا کی پالیسیوں کے نتائج شاندار رہے ہیں۔ 2006 میں ان (مورالیز) کے عہدہ سنبھالنے کے بعدسے بولیویا کی اوسط شرح ترقی 5 فیصد سے زائد رہی ہے، اور اس نے 2008-09کی کساد بازاری کے اثرات سے بھی خود کو محض ایک ہچکی لیکر بچالیا۔
بجٹ کے قریب متوازن ہونے کے ساتھ ، بولیویا کے عالمی قرضے بھی معمولی ہیں،اگرچہ ایک موقع پر واجب الادابین الاقوامی بانڈز پر 2008 کی نادہندگی نے ملک کے لیے قرضوں کا حصول مشکل کردیا تھا۔ تاہم، 2012 کے اواخر میں،عالمی بانڈ مارکیٹ کی غیریقینی صورتحال نے بولیویا کو ایک بار پھر قرضے لینے کا موقع فراہم کردیا، اور اس نے دس سالہ مدت کے لیے 500 ملین ڈالر کی رقم صرف 4.878کی شرح پر حاصل کرلی۔
یہ کامیابی اُن ”نئی لبرل“ پالیسیوں کے نتائج سے قطعی اُلٹ تھی، جن پر 1985سے 2003کے دوران عمل کیا گیا۔ اس دور کے دوران جب بولیویا کو افراط زر کی انتہائی زیادہ شرح، صرف 3.1 فیصد اوسط شرح ترقی… جو آبادی میں 2.3فیصد سالانہ اضافہ کے لیے بمشکل کافی تھی… جیسے مسائل کا سامنا تھا اور بے شمار پیس کر رکھ دینے والے کساد بازاری کے دور بھی اس پر مسلط تھے۔
چنانچہ یہ آزاد منڈی کی پالیسیوں کے حامیوں کے لئے ایک بہت اہم معمہ ہے کہ: آخر مورالیز کی ریاستی بالادستی کی پالیسیوں کو اس قدر کامیابی کیوں ملی۔جبکہ ان سے پہلے اختیار کی جانے والی کہیں بہتر پالیسیوں کے نتائج اوسط معیار سے زیادہ نہیں تھے؟
اس میں اشیاء کی قیمتوں کے اثر کا کچھ حصہ ہے، اور اسی طرح مورالیز کی طرف سے کان کنی اور توانائی کے معاہدوں کے حوالے سے ازسر نو تجدید تھی۔
اگر اگلے پانچ سال کے دوران اجناس اور توانائی کی قیمتیں کم رہتی ہیں، تو بولیویا کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دوسرے ممالک میں جہاں مارکیٹ مخالف پالیسیاں اختیار کرنے کی کوشش کی گئی، مثال کے طور پر ارجنٹائن میں، وہاں کم و بیش وسائل کی قیمتوں نے ہی ملک کی متعلقہ کامیابی کی مکمل بنیاد فراہم کی ہے۔ ارجنٹائن میں، اشیاء کی قیمتیں 1990 کی دہائی کے دوران کم تھیں، چنانچہ نسبتاً ٹھوس پالیسیوں سے بھی بہت کم کامیابی حاصل ہوسکی اور قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔
2003 کے بعد سے، اجناس کی قیمتوں میں اضافے اور2005میں قرضوں کی جزوی نادہندگی نے ملکر(ارجنٹائن کے کیس میں، اس کے نجکاری شدہ زرعی شعبے کے ذریعے شاندار نتائج مہیا کرتے ہوئے، حکومتی محصول کی بڑھتی مشکلات کے باوجود) دولت مہیا کی ہے۔ ارجنٹائن پہلے ہی تجارتی سرپلس پیدا کررہا تھا، لیکن اس کا زیادہ تر حصہ قرضوں کی ادائیگیوں پر استعمال ہورہاتھا۔
چنانچہ جب قرضوں کی ادائیگی ختم ہوگئی تو پیسے کا بہاؤ شروع ہوگیا۔اب جبکہ کرچنر اورفرنانڈیز کی حکومت زیادہ عیاش پسند ثابت ہوئی ہے تو ارجنٹائن کی پوزیشن خراب ہوگئی ہے، تاہم 2003سے 2013تک یہ بہت اچھی چل رہی تھی۔
لیکن یہ صورت حال مکمل طور پر بولیویا میں لاگو نہیں ہوتی جہاں قرضوں کی ادائیگی 2008کی نادہندگی سے پہلے بھی زیادہ گراں نہیں تھی۔
تاہم، یہاں ایک اور عنصر بھی ہے جو ہوسکتا ہے کہ فرق کا باعث بنا ہو۔ بولیویا کے پہلے مقامی صدر کے طور پر مورالیز نے مقامی لوگوں … جو اس وقت بولیویا کی آبادی کا 40 فیصد ہیں… کی رسمی معیشت میں شمولیت کے لیے بے حد کوششیں کی ہیں، اور ان کی شراکت بڑھانے کے لیے اُنھیں فلاحی ادائیگیاں اور ملازمتیں دونوں فراہم کی ہیں۔
یہ برازیل کی لوئز انیسیو لولا دا سلوا، کی پالیسی کے متوازی ہے جنھوں نے ”بولسا فامیلیاBolsa familia“نامی فلاحی پروگرام کے ذریعے برازیل کی انتہائی غیر مساوی معاشرے کے غریب ترین اراکین پر توجہ مرکوز کی ہے، اور انتہائی غریب لوگوں کو اپنے بچوں کو سکولوں میں داخل کروانے کے بدلے میں معقول ادائیگیوں کے ساتھ ساتھ اقتصادی شرکت کے دیگر بنیادی عناصر بھی فراہم کیے ہیں۔
موریلز کے بولیویا کی طرح ،لولا کے برازیل نے بھی لویتھین ریاستوں کے مسلسل پھیلاؤ اور وسائل نگلنے کی وجہ سے مشکلات میں پڑنے سے پہلے، غیر متوقع مضبوط ترقی کے کئی سال کا لطف اٹھایا ہے۔ چنانچہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ،ایسی صورتوں میں جب آبادی کا بڑا حصہ اتناغریب ہو کہ مناسب طریقے سے معاشی عمل میں شریک نہ ہوسکتا ہو، تو ان لوگوں کو مکمل شراکت دیکر ”ترقی کی یکساں تقسیم“ کا حصول ممکن ہے۔
جب وہ پوری اقتصادی سرگرمی کا حصہ بنتے ہیں، تو ان کی کوششیں معیشت کو نمایاں طور پر آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہیں،اضافی پیداوار اور اضافی ٹیکس آمدنی پیدا کرتی ہیں اور مجموعی طور پر معیشت کو مضبوط بناتی ہیں۔
یہ اصول،ارجنٹائن جیسے امیر ممالک پر لاگو نہیں ہوتا، امیر مغرب کو تو چھوڑ ہی دیں۔ لیکن بولیویا جیسے غریب اور غیر مساوی معاشرے والے دونوں طرح کے ممالک میں بہترین معاشی پالیسیاں…جیسے کہ 1985سے 2003کے درمیان جن پالیسیوں پر عمل کیا گیا…بھی اس وقت اچھے نتائج پیدا نہیں کرپاتیں اگر وہ افرادی قوت کے کچھ حصہ کو غیرفعال ہی چھوڑ دیں۔
اسی طرح برازیل میں، 1994 سے2002 تک کارڈوسوحکومت کے دور اور 2002 سے 2010تک لولاحکومت کے دور میں بھی ترقی میں بہتری اچھی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے نہیں تھی، مارکیٹ کے زیادہ اعتماد کی تو بات ہی رہنے دیں، بلکہ اس کی وجہ برازیل کے غریب ترین لوگوں کی معاشی عمل میں شرکت اور ان کی کاوشوں کے کئی گنا ثمرات تھے ۔
چنانچہ ان صورتوں سے دو سبق حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
پہلا یہ کہ، افریقہ میں خاص طور پر یہ ضروری ہوگا کہ، جب ملک امیر ہونے لگیں تو ایسا میکانزم تشکیل دیا جانا چاہیے جس سے اس کے غریب شہری فائدہ اُٹھاسکیں۔ یہ اصول خاص طور پر جنوبی افریقہ جیسے ملک پر لاگو ہوتا ہے، جہاں انتہائی زیادہ عدم مساوات اور ایک ایسا غیر معمولی بدعنوان ریاستی نظام پایا جاتا ہے جس نے اپنے افریقی ساتھی شہریوں کی محض معمولی سی تعداد کو ہی غربت سے باہر نکالا ہے۔
بلاشبہ جنوبی افریقہ میں غیر متوقع خراب اقتصادی ترقی کی شرح کوبراہ راست اس کے غریب شہریوں کی رسمی معیشت میں کم شرکت سے منسلک کیا جاسکتا ہے، کیونکہ ملک میں بے روزگاری کی شرح 25فیصد ہے۔
دوسرا یہ کہ ، حتیٰ کہ مناسب انداز میں چلنے والی سرمایہ دار حکومتوں کو بھی اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ان کی خوبصورتی سے ترتیب دی گئی مارکیٹ پر مبنی معیشتیں پوری طرح نچلی سطح تک پہنچ رہی ہیں۔
لڈوگ وون مائسز (ماہر معاشیات، جس نے آزاد مارکیٹوں کانظرئیہ پیش کیا ہے) کی پیروی کرنے والی معیشت رکھنے کا بہت کم فائدہ ہوگا اگر اس کے ثمرات صرف آمدنی کی تقسیم کے بالائی نصف طبقہ تک محدود رہتے ہیں، جبکہ نیچے والا نصف حصہ گندی جھونپڑ بستیوں میں پھنس کر رہ جاتا ہے اور اُن کے پاس اپنی حالت بہتر بنانے کے مواقع بھی نہیں ہوتے۔
 بہت غریب ترین لوگوں کو اوپر لے جانے کے لیے، سادہ شرائط کے ساتھ براہ راست نقد رقم کی منتقلی انتہائی موٴثر رہتی ہے۔
بولسا فیمیلیا جیسے پروگرام پر جی ڈی پی کے محض دو فیصد ہی خرچ ہوتے ہیں، یعنی یہ بنیادی ڈھانچے کے بڑے بڑے منصوبوں سے کہیں کم ہے، اس کے باوجود یہ پروگرام معاشرے کے غریب ترین لوگوں تک موثر طور پر پہنچ جاتا ہے۔ ضروریات کو مختصراً پورا کرنے کے لئے ترتیب دئیے گئے پیچیدہ پروگرام، جو بڑے پیمانے پر انتظامی اخراجات اور تمام سطحوں پر کرایہ وصول کرنے کی چاہت کے باوجود ، عام طور پر غریب ترین اور سب سے زیادہ ضرورت مند لوگوں کو نظرانداز کردیتے ہیں، اورشاذو نادرہی پھول کر کپا ہونے والے بیوروکریٹک لوگوں کو ہی شامل کرتے ہیں۔
تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ فلاح و بہبود کے کاموں میں بہت سادگی سے نقد رقم کی منتقلی کے طریقہ کار پر عمل در آمد بہتر کام کرتا ہے۔ 1834 سے پہلے برطانیہ میں، غریبوں کو نقد رقم یا کھانے کی امدادی اشیاء کی صورت میں ”بیرونی امداد“دی گئی تھی اور اس وجہ سے وہ معیشت میں سرگرم رہے۔ تاہم 1834 میں متعارف کروایا گیا غربت کا قانون،جسے بے وقوف نظرئیاتی وگز(وگز پارٹی کے پیروکاروں) نے متعارف کروایا۔
اس کے تحت ”ورک ہاؤس“ ایجاد کیا گیا، جس نے غریبوں کو معاشرے کے دیگر حصوں سے ایک ایسے ادارے میں الگ کردیا جسے خاص طور پر ”کم اہل“ بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا اور وہ اپنے احاطہ میں آنے والوں کے لیے زیادہ ترناخوشگوار اثرات کا حامل تھا۔
اس کا نتیجہ بائیں بازو کے لوگوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر پراپیگنڈہ تھا، جو چارلس ڈنکنز کی ”اولیور ٹوئسٹ“ سے شروع ہوا۔
اس سے فلاح و بہبود کی تحویل کی قیمت میں ایک نہ رُکنے والا اضافہ دیکھنے میں آیااور نچلی سطح پر معیار زندگی میں بگاڑ پیدا ہوا ۔ چنانچہ جب 1889میں چارلس بوتھ نے لندن میں”لائف اینڈ لیبر آف دی پیپل“ لکھی،عمومی طور پر معیار زندگی بہتر ہونے کے باوجودبہت سے شہری علاقوں کے غریب لوگ اس سے کہیں زیادہ غلیظ زندگی گزا ر رہے تھے جتنا کہ ان کے آباوٴاجداد ایک صدی پہلے گزار رہے تھے۔
سرمایہ دارانہ نظام کو اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ ملک کی پوری آبادی کو شامل کرے، اور اسے ایسا سادہ انداز کے نقد ہینڈ آؤٹس کے ذریعے کرنے کی ضرورت ہے، نہ کہ وسیع اور غیر موثر سماجی انجینئرنگ کے ذریعے۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط