Episode 78 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 78 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

مکمل منظر نامہ
تاہم ،افراد کے فیصلوں پر خصوصی توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ، اس طرح سیاق و سباق کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ان مصنفین میں سے میکملن سب سے زیادہ، وسیع تر عوامل اور اس وقت موجود رویوں کو بیان کرتی ہیں،جبکہ اوٹے ”غیر حساس ،متحارب قوتوں “ کو مجرم قرار دینے پر سب سے زیادہ مائل نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ حکومتیں زیادہ فوری فیصلے کرنے کی اہل نہیں تھیں۔
وہ خوب ترقی یافتہ اتحاد ی ذمہ داریوں، جنگ کی منصوبہ بندی، اور بحرانوں کو حل کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے۔مزیدبراں، وہ عمررسیدہ عالمی نظام کی نئی کمزوریوں پر ردعمل ظاہر کررہے تھے، جو اُس وقت اقتدار میں تبدیلیوں،جارحانہ قوم پرست تحریکوں، اور اندرونی خلفشار کے بوجھ سے لڑکھڑا رہا تھا۔

(جاری ہے)

دوسرے الفاظ میں، اہم بنیادی عوامل واضح طور پر رہنماوٴں کے فیصلوں کی راہ میں رکاوٹ تھے۔

آخرکاربین الاقوامی تعلقات کے ماہرین بہت حد تک 1914کی طرف لے جانے والے دور میں اسی لیے پلٹ کر واپس آتے ہیں کہ یہ وہ دور تھا جب ریاستیں نظرئیات کے اصولوں پر عمل کیا کرتی تھیں، ان کی باگ دوڑ الگ طبقہ اشرافیہ کے ہاتھ میں تھی جو حقیقت پسندانہ طور پر سوچا کرتے تھے، اور ان ریاستوں پر سلامتی کے تحفظات کا غلبہ رہتا تھا۔
آخر میں، گہری جڑیں رکھنے والی سلامتی کی پالیسیاں جولائی 1914 میں انتہائی اثرانگیزطور پر لچک دار (کچھ حد تک خطرناک بھی) ثابت ہوئیں۔
اعلیٰ سطح پر کافی لڑکھڑاہٹ کے بعد، جس میں زار نکولس دوم اور قیصر ولہیم دوم کے درمیان ہونے والی غیرمعمولی”پیارے ولی/پیارے نکی“ نامی غیر معمولی خط و کتابت بھی شامل ہے، جس میں تیسرے کزن نے جنگ روکنے کی کوشش کی… اتحاد بڑی حد تک ایک دوسرے کے ساتھ اُلجھ کر رہ گئے تھے، صرف اٹلی ہی اپنی جگہ ڈٹا رہا تھا۔ حکومتوں نے اپنی جنگی منصوبہ بندی پرعملدرآمد کیا۔
اسی طرح، اشرافیہ کا جنگی جنون جو، نسل، طاقت، عزت، اور قربانی کے حوالے سے واضح تفاخر اورجنگ کی جذباتی خصوصیات کے بارے میں احمقانہ دعوؤں کے ذریعے اگلے برسوں میں بے نقاب ہوا، اس نے بہت حد تک عوام کو جنگ کے لیے تیار کردیا۔جب ان ممالک کو اصل لڑائی کے امکان کا سامنا کرنا پڑا، تو جنگی جنون ختم ہوگیا اور دارالحکومتوں کے موڈ پر سکوت طاری ہوگیا۔
حکومتیں شان و شوکت کے بجائے کسی گریزاں اتحادی کی طرف سے تنہا چھوڑ دئیے جانے یا بہت آہستہ آہستہ فوجیں متحرک کرنے کی وجہ سے کمزور چھوڑ دیے جانے کے بارے میں زیادہ فکر کرنے لگیں۔ چنانچہ، یہ تنازعہ غیرپختہ جنگی جنون کا نتیجہ نہیں تھا۔ بلکہ یہ اُن منظم عناصر کے درمیان پیچیدہ باہمی عمل سے اُبھر کر سامنے آیا، جن کے ساتھ فیصلہ سازوں کے کسی بھی مجموعہ کو نبرد آزما ہونا پڑتا،نیز رہنماوٴں کے اس مخصوص مجموعہ میں شامل ہر فرد کے مزاج اور موقع کے حالات کا بھی اس میں کردار تھا۔
جولائی میں شروع ہونے والے اس بحران کے اندر اتحاد کے معنی پوشیدہ ہیں۔ نکولس نے سربوں کے ساتھ سلاوی قوم کی یکجہتی کا اعلان کر دیا تھا، اور فرانسیسیوں نے اپنے روسی اتحادیوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔جیسا کہ کلارک نے رقم کیا ہے، ”اس طرح روس اور فرانس نے دنیا کی دوسب سے بڑی طاقتوں کی قسمت کو انتہائی غیر متناسب انداز میں ایک ہنگامہ خیز اور وقفے وقفے سے پُرتشدد حالات کی غیریقینی کیفیت سے جوڑ دیا۔
“ اسی طرح، جرمنی …آسٹریا۔ہنگری کی غیرفعالیت کا سبب بن گیا، جب ولہیم نے زخم خوردہ ریاست کے حکام سے کہا کہ وہ فرڈیننڈکے قتل پر جیسے چاہیں جواب دے سکتے ہیں، یہ گویا ایک ”بلینک چیک“ تھا جس نے اُن کی سربیا پر چڑھ دوڑنے کے لیے حوصلہ افزائی کی۔ اوٹے اس پر بسمارک کے قول کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ،”ہر اتحاد میں ایک گھوڑا اور ایک سوار شامل ہوتے ہیں“ اور کہتے ہیں کہ اس معاملے میں گھوڑے پر کاٹھی ڈال دی گئی تھی۔
یہ رُجحان زیادہ غیرمعمولی نہیں ہے۔مثال کے طور پر، آج کے دور میں بھی، امریکہ کے کمزور اتحادی مسلسل واشنگٹن سے یقین دہانیوں کا مطالبہ کرتے ہیں، حتیٰ کہ اس وقت بھی جب وہ لاپرواہ رویوں کا مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں، اور واشنگٹن کو اکثر ایسی یقین دہانیاں کرانا پڑتی ہیں، اس ڈر سے کہ ایسا کرنے میں ناکامی اس کی ساکھ کو نقصان پہنچائے گی۔
عظیم طاقتوں کے لئے ہمیشہ سب سے اہم چیلنج کمزور اتحادیوں کو اس قدر آسانیاں فراہم کرنا ہوتا ہے کہ وہ خود کو محفوظ تصور کرسکیں، ساتھ ہی ان پر اتنااثرورسوخ بھی قائم رکھا جائے کہ وہ جنگ کی طرف راغب نہ ہوسکیں۔
اس بات کے پیش نظر کہ عظیم طاقتوں اور ان کے کمزور شراکت داروں کے درمیان مفادات کس قدر متصادم نظر آرہے تھے، جولائی 1914 میں، اس بات کی کوئی ضمانت نہ تھی کہ یورپ کے سب اتحادی متحد رہیں گے۔ روس ، فرانس پر بغور نظریں جمائے ہوئے تھا،جسے اس بات پر قائل کیے جانے کی ضرورت تھی کہ صورتحال جنگ کی متقاضی ہے۔جبکہ فرانس پریشانی کے عالم میں برطانیہ کی طرف دیکھ رہا تھا، جو پُریقین نہیں تھا کہ جرمنی کے ساتھ بہتر تعلقات کی بنیاد رکھنے کے بعد اسے زار روس کی حمایت کرنے کی کوئی ضرورت ہے۔
چنانچہ مرکزی طاقتوں اور اتحاد میں شامل ممالک کے اندر اس احساس نے کہ ہوسکتا ہے اتحادوں کا خاتمہ ہوجائے بد اعتمادی اور بے یقینی کو جنم دیا…اسی وجہ سے بہت زیادہ توانائی قریب آتے تنازعات کو پُرامن طریقے سے طے کرنے پر لگانے کے بجائے اتحادوں کو بچانے پر خرچ کرنا پڑی۔
مورخین ،پہلی عالمی جنگ کے پھیلنے میں ایک اور عنصر کو قصوروار ٹھہراتے ہیں،اور وہ عنصر ہے :جارحیت کا جنون۔
اس نقطہٴ نظر کے تحت، جو اس وقت مقبول تھا، جنگیں بہترین طور پر جتنی جلد ممکن ہو پہل کرنے اور حوصلے اور طاقت پر بھروسہ کر تے ہوئے فوجوں کے ذریعے راہ میں حائل دفاعی رکاوٹوں کو روند کر جیتی جاتی تھیں۔چونکہ جلد عمل کرنے سے فتح مل سکتی تھی، اور تاخیر یقینی عذاب سے دوچار کر سکتی تھی، دوسرے لفظوں میں، لڑائی کے لیے جتنی بھی جلدی کی جاتی کم تھی۔
یہ اعتقاد ظاہر کرتا ہے کہ اس وقت فوجوں کو حرکت میں لانا اتنا اہم کیوں تھا، خاص طور پر جرنیلوں کے لیے،جنھوں نے اپنے جلدی عمل کرنے کے احساس کو سویلین رہنماوٴں پر تھوپ دیا۔ اپنے وسیع حجم اور بوجھل بنیادی ڈھانچے کی بنا پر، روس نے سب سے پہلے فوجوں کو متحرک کیا۔میک میکن،نکولس کے نوحے کا حوالہ دیتے ہیں،یہ بتاتے ہوئے کہ اس کے ایسا کرنے کے فیصلہ کا ممکنہ مطلب تھا”ہزاروں آدمیوں کو اُن کی موت کی طرف بھیجنا“۔
نکولس پوری طرح سچ بیان نہیں کرسکے…آخر میں روس کو دو لاکھ فوجیوں کی ہلاکت کا نقصان اُٹھانا پڑا تھا۔
یورپ بھر میں اشرافیہ کا خیال تھا کہ انتہائی مہنگی جنگ بھی جلد ختم ہونے والی اور فیصلہ کن ثابت ہوگی۔ چند ایک تباہ کُن لڑائیوں کے بعد، سوچ اس طرف چلی گئی کہ، تنازعہ ختم ہو گا اور براعظم(یورپ) اپنے نئے سیاسی حقائق کے مطابق خود کو ڈھال لے گا۔
جو چیز حیران کُن ہے، وہ یہ کہ اسٹریٹجک بحث کس قدر کم کی گئی تھی۔ فیصلہ سازوں نے اپنی جنگ کی منصوبہ بندی کے قابل عمل ہونے کے بارے میں چھان بین کی اور نہ ہی اُنھیں سیاسی مقاصد کے ساتھ منسلک کیا۔ برلن میں، منصوبہ سازوں نے صرف عارضی طور پر ہی بیلجئیم کے راستے فرانس کی جانب پیش قدمی کرنے کی حکمت کے حوالے سے سوال اُٹھایا، حالانکہ یہ راستہ، برسلز کے لیے لندن کی ذمہ داریوں کے معاہدے کو اُجاگر کرکے، جنگ میں برطانیہ کی شرکت کی ضمانت بن سکتا تھا۔
طویل جنگ
”نیند میں چلنے والے“ قرار دیکر تنقید کرنے والوں کا یہ خیال ہے کہ اگرچہ جنگ عظیم کا پھیلنا ناگزیر نہیں تھا ، لیکن اس کا طول پکڑنا اور تباہ کن کردار یقیناً ناگزیر تھا۔ میکملن بتاتی ہیں کہ کیسے افواج نے روسی صنعتکار اور مفکر آئیون بلوچ، جیسی شخصیات کے انتباہ کو لاپرواہی سے مسترد کر دیا تھا، جنھوں نے خبردار کیا تھا کہ مضبوط دفاع کا نتیجہ محض بے نتیجہ جنگ کی صورت میں برآمد ہوگا۔
ہیسٹنگز قائل کرنے والے انداز میں جرمنی کی جارحیت کو اس میں شامل پیچیدہ منصوبہ بندی کے باوجود،بنیادی غلطی قرار دیتے ہیں (حکمت عملی کا انحصار اس بات پر تھا کہ اس سے پہلے روس اپنی فوجی طاقت کا ظہار کرے، فوج کو تیزی سے بہت آگے بڑھاتے ہوئے فرانس پر فیصلہ کن ضرب لگادی جائے، لیکن اس منصوبہ بندی نے جرمن لاجسٹکس اور ریزرو وسائل کے ناتجربہ کار نگرانوں پربہت زیادہ بوجھ ڈال دیا تھا)۔
میک میکن یہ کہتے ہوئے بہت آگے بڑھ جاتے ہیں کہ جرمنوں کی شکست کے امکانات تھے، لیکن وہ یقینی طور پر جانتے تھے کہ حملہ ایک جُواء ہے۔ وہ صرف اس فکرمیں تھے کہ وہ جتنی زیادہ تاخیر کریں گے، یہ اتنا ہی بڑا جُواء بن جائے گا۔
اس کے باوجود برلن کی شرط تقریباً کامیاب ہوگئی تھی۔ اگرچہ بیلجئیم کی غیر متوقع مزاحمت نے جرمن فوج کی پیش قدمی کو روکے رکھا تھا مگر قیصر کی افواج نے فرانسیسیوں کو بہت دُور تک پیچھے دھکیل دیا تھا، تاوقتیکہ یہ سلسلہ ”مارنے“ کی پہلی جنگ کے بعد اُلٹ نہیں ہوگیا، جو 5 ستمبر 1914کو شروع ہوئی تھی۔
اس لڑائی نے جنگ کے جلد کسی نتیجے پر پہنچنے کے حوالے سے تمام جرمن اُمیدوں کا خاتمہ کردیا۔ فتح کی پیروی کرنے میں اتحادیوں کی ناکامی، مغربی محاذ کی اہم ترین پہچان بن گئی تھی۔ایک ہفتہ قبل،خود کو اہم فوجی طاقت کی شکل میں دوبارہ تعمیر کرنے کے روس کے دعوے Tannenberg کی تباہ کن جنگ میں ملیامیٹ ہوگئے تھے۔ خندقوں کی کھدائی اور طویل تعطل کے آغاز سے پہلے دونوں اطراف کی قوتوں کو مایوسی کے لمحات کا سامنا کرنا پڑا۔
اس وقت جب حکومتیں یہ سوچ رہی تھیں کہ کیا وہ فیصلہ کن فتح حاصل کر سکتی ہیں، اتحادوں کے استحکام کے بارے میں سوالات ایک بار پھر اُٹھ کھڑے ہوئے۔کیا ان کے شراکت دارجنگ میں ثابت قدم رہے ہیں یا ایک علیحدہ امن کے لالچ میں مبتلا ہوگئے ہیں؟۔ آخر میں، جنگی جنونیوں نے جنگ جاری رکھنے کی لاگت کے مقابلے میں ، کبھی بھی مذاکرات کے لئے مختلف تجاویز کو زیادہ پُرکشش نہیں پایا۔
لیڈرز کبھی بھی بے لچک لوگوں کے ان اعتراضات کو مسترد نہیں کرسکے کہ صرف مکمل فتح ہی پہلے ملنے والی تکلیف کا جواز پیش کر سکتی ہے۔
ایک بار لڑائی شروع ہوگئی تو جیسا اکثر ہوتا ہے ، مفادات سُکڑتے گئے اوراس وقت موجود مفادات میں تبدیل ہوگئے۔اور جب رہنماوٴں نے جغرافیائی و سیاسی خدشات کے مقابلے میں تخیل پرستانہ نظرئیات پر زیادہ توجہ دی تو، ان کے مقاصد زیادہ پُرعزم ہوگئے۔
اپنے ایک جملے میں جو بعدازاں اپنے دعویٰ اور معصومیت کی وجہ سے تمسخر کا نشانہ بن گیا،انگریزی ناول نگار اور فن مستقبلیت کے ماہرایچ جی ویلز نے اگست 1914 میں لکھا تھا”جنگ ،جو جنگ کا خاتمہ کردے گی۔“ ایک طویل عرصہ تک ایک عالمی حکومت کو تباہ کن جنگوں کا واحد متبادل قرار دیتے رہنے کے بعد، اب اُن کا خیال تھا کہ ایک بار اگر ”شیطانی خیالات کے گھونسلے“ یعنی جرمنی کو شکست دے دی جائے تو ہر طرف اچھے جذبات کا راج ہوگا۔
اگرچہ خوش اعتقادی کا غلط جگہ استعمال کیا گیا، تاہم جذبہ حقیقی تھا۔ جیسا کہ ولیم ملیگن اس وقت کارفرما نظریاتی رجحانات کے بارے میں مستند تحقیق میں ظاہر کرتے ہیں کہ، اگرچہ ان ملکوں نے ظالمانہ سرکشی پر مبنی جنگ کی وکالت کی تھی، مگر یورپی حکومتوں کے پیش نظر جنگ کے بعد قائم ہونے والا امن تھا۔
انھوں نے غیرمسلح ہونے کا وعدہ کیا تھا، اور ایک ایسی عالمی تنظیم کا مطالبہ کیا تھا جو”چھوٹی اور بڑی ریاستوں کو یکساں طور پر سیاسی آزادی اور علاقائی سالمیت کی ضمانت دے گی“(امریکی صدر ووڈرو ولسن کے چودہ نکات میں سے آخری کے حوالہ سے)۔
بین الاقوامی برادری نے 1920 کی دہائی میں حیران کن رفتار کے ساتھ ان خیالات کو اپنایا،اس کا نتیجہ 1925کے معاہدہٴ لوکارنو کی صورت میں سامنے آیا،جس کے تحت یورپ کی نئی سرحدوں کو حتمی صورت دی گئی۔ تین سال بعد، کیلوگ۔برائنڈ معاہدے کے تحت، جو امریکی اور فرانسیسی وزرائے خارجہ کے ذہنوں کی پیداوار تھا،جنگ کو پالیسی کا ہتھیار تصور کرنے کے نظرئیہ کو رد کردیا گیا۔
اس کے بعدجو ہوا، حقیقت نگار حالت جنگ کے زمانہ کا اس کی بھولے پن کی وجہ سے مذاق اُڑاتے ہیں۔ محققین جس طرح 1914سے پہلے کی جنگ کے لیے کوششوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، اسی طرح وہ اُن امن کو آگے بڑھانے کی کوششوں کو رد کرنے کی طرف مائل ہیں جو 1918کے بعد شروع ہوئی تھیں۔ملیگن قارئین پر زور دیتے ہیں کہ وہ یہ تصور نہ کریں کہ امن منصوبے کی بربادی کی وجہ وہ سب تھا جو 1930کی دہائی میں ہوا ، اور نہ ہی یہ کہ اس کوشش کے بنیادی موضوعات کا خاتمہ دوسری عالمی جنگ کے میدان جنگ میں ہی ہوگیا تھا۔
وہ موضوعات جنگ کے خاتمے کے بعد دوبارہ اُبھر کرسامنے آئے البتہ ذرا محتاط انداز میں، اس بار ایسے سیاستدانوں کے ساتھ جنہوں نے پہلی بار ان کے بارے میں 1920کی دہائی میں سُنا تھا، جیسے کہ مغربی جرمنی کے چانسلر کونارڈ اڈینائر اور فرانسیسی سفارت کار جین مونیٹ۔ اس اعتبار سے،پہلی جنگ عظیم کا پھیلنا صدی کی سب سے اثرانگیز تباہی نہیں تھی۔تباہی کی بنیاد بعد کے فیصلوں نے رکھی تھی: جیسے کہ، دونوں اطراف کی قوتوں کی جانب سے جنگی جاری رکھنے پر اصرار اور ان کا جنگ سے نکلنے کے لیے سفارتی طریقے تلاش کرنے سے انکار،اور اس کے ساتھ ساتھ فاتح ممالک کی جانب سے جرمنی پر سخت فیصلے مسلط کرنا اور پھر ایڈولف ہٹلر کی تشفی۔
آخر میں، 1914سے حاصل کردہ سبق یہ ہے کہ یقینی اسباق کوئی نہیں ہوتے۔ جنگ کے، قابل اعتماد حل نہیں ہیں کیونکہ سیاق و سباق بدلتے رہتے ہیں۔ کسی ایک صورت حال میں جو چیز تنازعات کو حل کرتی ہے، وہی دوسری جگہ جارحیت کے لیے بہانہ بن جاتی ہے، وہ اقدامات جو کچھ حالات میں جارحیت کو روکتے ہیں، وہی دوسرے وقتوں میں اسے پروان چڑھائیں گے۔اس کے باوجود بہرحال راستے موجود ہوتے ہیں،اور حکومتوں کے لیے 1914 کی کہانی سے اُبھر کر سامنے آنے والا بہترین مشورہ یہ ہے کہ ان راستوں کا احتیاط سے انتخاب کریں:بنیادی مفادات کے بارے میں بالکل واضح ہوں، بہترین ممکنہ معلومات حاصل کریں، ایک پُرامن حل کے لئے مواقع تلاش کریں، اور فوجی منصوبوں کو ہمیشہ شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھیں۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط