واپس گھر کی جانب؟واپس لوٹتے جہادیوں کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش نہ کریں! (ڈینیل بائی مین۔ جیریمی شاپیرو)
(ڈینیل بائی مین ،جارج ٹاوٴن یونیورسٹی کے ایڈمنڈ اے والش سکول آف فارن سروس میں سیکورٹی سٹڈیز پروگرام کے پروفیسر اور بروکنگز انسٹی ٹیوشن میں مرکز برائے مشرق وسطیٰ پالیسی میں سینئر فیلو ہیں…جبکہ جیریمی شاپیرو، بین الاقوامی نظام اور حکمت عملی پراجیکٹ اور بروکنگز انسٹی ٹیوشن میں مرکز برائے امریکہ اور یورپ کے فیلو اور امریکی محکمہ خارجہ کے پالیسی پلاننگ سٹاف کے سابق رکن ہیں)
24 مئی، 2014 کو، ایک شخص نے برسلز میں واقع یہودی عجائب گھر میں فائرنگ کردی اور شہر کی گلیوں میں غائب ہونے سے پہلے فوری طور پر تین افراد کو ہلاک اور چوتھے کو بُری طرح زخمی کردیا۔
مبینہ مجرم، مہدی نموچی نامی فرانسیسی شہری تھا جسے بعدازاں گرفتار کر کے قتل کا مقدمہ درج کرلیا گیا ، اُس نے پچھلا سال شام میں حزب اختلاف کے جہادی گروپوں کے ساتھ لڑتے ہوئے گزارا تھا۔
(جاری ہے)
اس کے حملے نے پہلی بار یہ عندیہ دیا کہ شام کی خانہ جنگی پھیل کر یورپی یونین تک جا پہنچی ہے۔ یورپ اور امریکہ میں بہت سے سیکورٹی حکام نے اس خوف کا اظہار کیا کہ یہ حملہ دہشت گرد حملوں کے ایک سلسلے کا پیش خیمہ ہے، جو شام… اور اب عراق میں…جاری افراتفری کے ماحول سے زور پکڑ سکتے ہیں۔
شام کے تنازعہ نے تصورات کو اسیر کر لیا ہے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکاتے ہوئے، ہزاروں افراد کو بشارالاسد کی حکومت کے خلاف مزاحمت کرنے والے زیادہ تر سنی باغیوں میں شامل ہونے کی ترغیب دی ہے۔ رضاکاروں کی بڑی تعداد میں آمد سے جہادی گروپوں کو تقویت مل رہی ہے، جیسے کہ دولت اسلامیہ عراق و الشام (آئی ایس آئی ایس) جسے اسلامی ریاست کے نام سے بھی جانا جاتا ہے،یہ ایک عسکریت پسند تنظیم ہے جس نے گزشتہ موسم گرما میں شام کی سرحد کے پار عراق میں بھاری کامیابی حاصل کی اور اسلامی خلافت کے قیام کا اعلان کردیا ہے۔
اگرچہ،شام اور عراق میں سب سے زیادہ غیر ملکی جنگجو عرب دنیا سے آتے ہیں،تاہم، ایک قابل ذکر تعداد میں دستے مغرب کے بڑے مسلم گروہوں کی طرف سے بھی آتے ہیں؛ 19 لاکھ مسلمان یورپی یونین میں رہتے ہیں، اور دو ملین سے زیادہ امریکہ کو اپنا گھر قرار دیتے ہیں۔ امریکہ کی سیکورٹی امور سے متعلق مشاورتی فرم،سوفان گروپ کے مطابق، شام کی خانہ جنگی کے آغاز کے بعدسے، ان مقامات(اور ان کے ساتھ ساتھ آسٹریلیا، کینیڈا، اور نیوزی لینڈ) سے قریب 2500افراد شام میں لڑنے کے لیے جا پہنچے ہیں۔
انٹیلی جنس حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ رضاکار میدان جنگ سے ایسے دہشت گرد بن کر لوٹیں گے جنہیں اپنے ہی ملکوں کے خلاف جہاد کی تربیت دی گئی ہوگی۔ان خدشات سے آواز ملاتے ہوئے، سلامتی اور انسداد دہشت گردی کے برطانوی محکمے کے ڈائریکٹر،چارلس فار نے اس موسم گرما میں شام کی جنگ کو یورپ کے لیے انتہا پسندی کے خطرے کے حوالے سے”ایک بہت ہی تشویش ناک گیم چینجر“ قراردیا تھا۔
اسی طرح، ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمز کومے نے مئی میں خبردار کیا تھا کہ، اس تنازع کے مضمرات ”اس قدر شدید اور ان مضمرات کی نسبت کہیں زیادہ بُرے ہوسکتے ہیں جو، 1980 اور 1990 کی دہائیوں کے دوران افغانستان میں شورش کے نتیجے میں پیدا ہوئے تھے،اور جنھوں نے القاعدہ کی تشکیل کی راہ ہموار کی تھی“۔ اور امریکی صدر باراک اوباما نے ، 10 ستمبر کو قوم سے اپنے انتہائی اہم خطاب کے دوران ان سے بھی زیادہ واضح طور پر خبردار کیا تھا کہ، ” یورپی اور بعض امریکیوں سمیت… ہزاروں غیر ملکی، آئی ایس آئی ایس کے عسکریت پسندوں میں شامل ہوگئے ہیں اور یہ کہ ”تربیت یافتہ اور جنگ سے سخت جان بن چکے، یہ جنگجو‘ اپنے ممالک میں واپس جانے اور مہلک حملے کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
“
لیکن اصل میں غیر ملکی جنگجووٴں کی طرف سے درپیش خطرہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے، بالکل اسی طرح جیسے حالیہ برسوں میں کئی دیگر تنازعات کے دوران بھی ایسا کیا گیا تھا۔ گزشتہ دہائی میں، خاص طور پر عراق جنگ کے دوران ممکنہ ردعمل کے بارے میں اسی طرح کی تنبیہ کی حوصلہ افزائی کی گئی، لیکن آخر میں تنبیہ کرنے والے اسے حقیقت کاروپ دینے میں ناکام رہے۔
سچ تو یہ ہے کہ، اُن مغربی مسلمانوں میں سے اکثر جو آج مشرق وسطیٰ میں لڑنے کے لئے نکلے ہوئے ہیں، دہشت گرد بن کر اپنے ملکوں کو واپس نہیں آئیں گے۔ ان میں سے زیادہ تر کبھی گھر واپس نہیں جائیں گے، بلکہ اس کے بجائے لڑائی میں مرنے یا کسی اور جگہ نئی فوجی مہمات میں شامل ہونے کو ترجیح دیں گے، یا پھر وہ منحرف ہو کر واپس آجائیں گے اوراپنے ساتھ تشدد بھی لانے میں دلچسپی نہیں رکھتے ہونگے۔
یہاں تک کہ اس طرح کے ارادے رکھنے والے معدودے چند افراد میں سے بھی، زیادہ تر اتنے خطرناک نہیں ہونگے جتنا اُن سے خوف محسوس کیا جارہا ہے کیونکہ اس سے پہلے کہ وہ حملہ کرسکیں، حکام ان کی طرف متوجہ ہوچکے ہونگے۔ یہ بتایا گیاہے کہ،محض گزشتہ دو سالوں میں، یورپی سلامتی کے حکام نے کوسوو سے لیکر برطانیہ تک، کئی مقامات میں، کم از کم پانچ ایسے دہشت گردی کے منصوبوں کو ناکام بنایا ہے، جن میں شام کے غیر ملکی جنگجووٴں کا ممکنہ کردار تھا۔
بہرحال، اس حقیقت کے باوجود کہ واپس لوٹنے والے مغربی جہادیوں کی طرف سے پیش کیا جانے والا خطرہ اتنا قیامت خیز نہیں ہوگا جتنا کہ عام طور پر تصور کیا جاتا ہے،اس کا مطلب یہ نہیں کہ حکام مطمئن ہوکر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں۔ دہشت گردی ایک چھوٹی تعداد پر مبنی افرادکے نظرئیات کا ہی نتیجہ ہے: حتیٰ کہ چند حملہ آور بھی اگرتربیت رکھتے ہوں اور ان کے پاس محرک ہو تو وہ ہولناک تشدد برپا کرسکتے ہیں۔
اس کے علاوہ، مغرب کو نشانہ بنانے کے حوالے سے انتہا پسندوں کی خواہش کسی بھی وقت زور پکڑ سکتی ہے، جسے آئی ایس آئی ایس کے اہداف کے خلاف اگست 2014میں شروع ہونے والی امریکی بمباری سے مزید ایندھن ملے گا۔اور چونکہ شام اور عراق میں ماضی کے کسی بھی دوسرے جنگ زدہ علاقے کے مقابلے میں بہت زیادہ رضاکاروں نے ان ملکوں کا رُخ کیا ہے، اس لیے ماضی کے مقابلے میں، ان میں سے بہت سے بالآخر واپس آ جائیں گے۔
بہر حال، واپس لوٹنے والے جنگجووٴں کی طرف سے درپیش خطرہ جانا پہچانا ہے اور اس کا بندوبست بھی کیا جاسکتا ہے۔ کئی اقدامات اسے مزید کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں، جن میں ممکنہ رضاکاروں کواپنا نام جنگ کے لیے درج کروانے سے روکنے کی کوششیں بھی شامل ہیں اور وہ جو واپس لوٹنے پر معاشرے میں شامل ہونا چاہیں اُنھیں دوبارہ معاشرے میں ضم کرنے کے لیے پروگرام ہونے چاہئیں۔
مغربی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بھی عام آمدورفت کے راستوں میں خلل ڈالنے کے لیے مزید اقدامات کرنے چاہئیں اوران عسکریت پسندوں پر نظر رکھنی چاہیے جو یہ راستہ استعمال کرتے ہیں۔ اور ان کی نگرانی کی صلاحیت کو برقرار رکھنے کے لیے، حکومتوں کو اپنے سیکورٹی فراہم کرنے والے اداروں کومناسب طور پر فنڈز فراہم کرنا اور ہتھیاروں سے لیس کرنا ضروری ہے۔
اس طرح کے اقدامات ایک ساتھ مل کر، شام اور عراق میں جاری تشدد کو مغرب تک پہنچنے سے روکنے میں مدد دیں گے۔
وہاں پہنچنے والے اور ان کی دوبارہ واپسی
دُور دراز جنگ زدہ علاقوں تک سفر کرکے پہنچنے والے مغربی جنگجو، عام طور پر اسی طرح کے راستہ کی پیروی کرتے ہیں،جس طرح اُن کے اندر تخیل پرست رضاکار سے عسکریت پسندبننے کی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔
اس سفر کا آغاز کرنے والے زیادہ تر اسے مکمل نہیں کرتے؛ پھر بھی، تھوڑے بہت تو سفر مکمل کرلیتے ہیں، اور پورا سفر مکمل کرنے والے ان چند افراد کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے مغربی حکام ہر قدم پر رکاوٹ کھڑی کرسکتے ہیں۔
سب سے اہم اور نازک ترین لمحہ اُس وقت آتا ہے جب یورپ یا امریکہ میں رہنے والا ایک مسلمان، جو اکثر ایک جوان آدمی ہوتا ہے، کسی دُور دراز علاقے کی فوجی مہم میں شامل ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔
اس کے اس عمل کے محرکات میں عام طور پر ایڈونچر کا شوق اور مسلم دنیا کی مقامی اور علاقائی شکایات کا ازالہ کرنے کی خواہش ہوتی ہے، نہ کہ مغربی ممالک کے لیے نفرت کے جذبات۔ شام میں، ابتدا میں دیگر ممالک سے آنے والے رضاکاروں کی اکثریت وہاں عالمی جہاد میں حصہ لینے نہیں، بلکہ بشار الاسد کی حکومت کے مظالم کے خلاف مقامی آبادی کے دفاع کے لئے گئی تھی۔
2013 ء میں یہ طرز عمل تبدیل ہونے لگا جب جنگ کو فرقہ وارانہ رنگ دے دیا گیا، چنانچہ آج، زیادہ تررنگروٹ مذہبی دشمنی کی بنیاد پر اس جنگ میں شامل ہورہے ہیں۔ تنازعہ نے سُنی تعصبات کو شیعہ مسلمانوں کے خلاف بھڑکا دیا ہے…یعنی وہی پرانے جذبات جو عراق میں امریکی جنگ کے دوران بھڑکے تھے اور اب نئی شدت سے پھیل رہے ہیں۔2013کے آخر میں، شام میں عسکریت پسند اسلامی گروپوں کی صفوں میں نمایاں اضافہ ہوا، جب مصری عالم یوسف القرضاوی جیسے ممتاز مذہبی رہنماؤں نے تمام مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ بشارالاسدکی حکومت اور اس کے ایرانی اور شیعہ لبنانی اتحادیوں کے خلاف شام کے سُنّی مسلمانوں کے دفاع کے لئے اُٹھ کھڑے ہوں۔
2014 کے موسم گرما میں، آئی ایس آئی ایس کی میدان جنگ میں شاندار فتوحات نے تنظیم کی ساکھ کو مضبوط کیا اور مغرب کی چھوٹی مگر اہم نوجوان انتہا پسند برادری کے لیے اس کی رغبت میں اضافہ کیا، اسی کی وہ طلب گار تھی۔ ایک اسلامی امارت کے قیام کے لیے گروپ(آئی ایس آئی ایس) کے مطالبے اور اس کی واضح طور پر فرقہ وارانہ بیان بازی نے تنازعے کو مزید انتہا پسند رنگ دے دیا ہے۔
اس طرح کے پیغامات کو سوشل میڈیا ویب سائٹس کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے ،جیسے کہ فیس بک اور ٹویٹر، جہاں جہادیوں کو اکثر بڑی تعداد میں سامعین حاصل ہوتے ہیں۔ خاص طور پر آئی ایس آئی ایس تواتر کے ساتھ بھرتیوں کے لیے انگریزی میں پُرکشش ویڈیوز جاری کرتی رہتی ہے۔
میدان جنگ کا سفر کرنے والے غیر ملکی جنگجوؤں کے لیے اپنی راہ کے دوسرے مرحلے کو پورا کرنا غیرمعمولی طور پر آسان ہو گیا ہے۔
ماضی میں لڑائی کے کئی مقامات،جیسے کہ افغانستان، تک پہنچنے کا مطلب تھا کہ مغربی رضاکاروں کو بہت سے اخراجات اور اہم خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا، جبکہ،عملی طور پر شام تک پہنچنے کے لیے بہت کم قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔رنگروٹوں کو صرف ترکی تک آنا پڑتا ہے …جو گاڑی، ٹرین، یا ہوائی جہاز کا ایک آسان سفر ہے اور یورپی یونین اور امریکی شہریوں کے لئے کسی ویزا کی بھی ضرورت نہیں ہے… اور پھر وہ اس کی وسیع اور غیر محفوظ سرحد پار کرکے شام میں داخل ہو سکتے ہیں۔
اس حوالے سے سوشل میڈیا بھی مدد کرتا ہے: آئی ایس آئی ایس اوردیگر انتہا پسند گروپ، جن میں آئی ایس آئی ایس کے حریفوں میں سے ایک، شام کی القاعدہ سے منسلک تنظیم جبہت النصرہ بھی شامل ہے، انھیں رابطہ کرنے کے حوالے سے کافی آن لائن تجاویز پیش کرتے ہیں ،بشمول اس کے کہ انھوں نے اپنے سفر کے سہل کار سے ملنے کے لیے ترکی میں کس ہوٹل کا انتخاب کرنا ہے۔
فرقہ وارانہ پیغام کی طاقت،معلومات اور لوگوں کے سرحد پار آزادانہ آنے جانے جیسے عوامل… یادداشت میں موجود کسی بھی سابقہ تنازعہ کے مقابلے میں ،شام اور عراق میں غیر ملکی جنگجووٴں کی غیر معمولی تعداد کی وضاحت میں مدد کرسکتے ہیں۔ ناروے کی ڈیفنس ریسرچ اسٹیبلشمنٹ کے تھامس ہیگ ہیمر اور بنیاد پرستی پر برطانوی ماہر پیٹر نیو مین سمیت اس موضوع کے معروف ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ، شام میں جنگ نے گزشتہ 20 سال کے دوران تمام دیگر غیر ملکی جنگوں کی مجموعی تعدادسے زیادہ یورپی اسلام پسندوں کو متحرک کیا ہے۔
امریکہ کی طرف سے آنے والوں کی تعداد اگرچہ کم ہے، لیکن انٹیلی جنس حکام اس کے باوجود یقین رکھتے ہیں کہ 2011سے اب تک کم از کم 100 امریکی شام کی جنگ میں شامل ہو چکے ہیں۔
نئے آنے والوں کی راہ پر تیسرا قدم ان کی تربیت اور پھر اصل میدان جنگ میں لڑنا ہے۔ تربیت نہ صرف بھرتی ہونے والے کی عملی مہارت کو نکھارتی ہے؛ بلکہ یہ اس کے اندر ایک بڑے مقصد کے ساتھ اظہار یکجہتی کا احساس بھی اُجاگر کرتی ہے۔
یہ تجربہ، ماہر جہادیوں کی رہنمائی میں اس(رنگروٹ) کے عقیدہ کو گہرا کردیتا ہے: مغربی سیکورٹی حکام خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ نئے آنے والے کو، جو ہوسکتا ہے ابتدا میں مغرب مخالف نہ ہو، انتہا پسنداپنے خیالات تبدیل کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں، جیسا کہ 1980 اور 1990کی دہائیوں میں افغانستان جانے والے بہت سے جنگجووٴں کے ساتھ ہوا تھا۔اس کے بعد ہونے والی سفاکانہ جنگ اس کے نظرئیات کو مزید سخت بنادیتی ہے۔
چوتھے مرحلے میں، جنگجو اپنا سلسلہ جاری رکھنے کے لئے گھر واپس لوٹتا ہے۔ جنگ سے تجربہ کار بن جانے کے باعث، اسے اپنے آس پاس کے لوگوں اور سوشل میڈیا پر پیروکاروں کے درمیان ایک نیا اہم مقام حاصل ہوجاتا ہے،ایک گلیوں کی نمایاں شخصیت کی حیثیت مل جاتی ہے، جو اسے دوسروں کو بھرتی کرنے اور ان کو انتہا پسند بناکر میدان میں بھیجنے کے قابل بنادیتی ہے۔
آخر میں، ہوسکتا ہے کہ یہ تجربہ کار عسکریت پسند ، غیر ملکی اسباب سے توجہ ہٹا کرحقیقی یا محض تصوراتی ملکی نا انصافیوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے …جن میں مثال کے طور پر ، اسلام کے خلاف توہین، اس کے ملک کا بیرون ملک سُنّی مسلمانوں پر فرضی جبر، یا مسلمانوں کو درپیش روزانہ کا امتیازی سلوک شامل ہوسکتا ہے…اپنے ہی ملک پر دہشت گردی پر مبنی حملہ کرنے کا فیصلہ کرلے۔ مغرب کے خلاف دہشت گردوں کی سازشوں کی تاریخ کا تجزیہ کرتے ہوئے، ہیگ ہیمر نے معلوم کیا ہے کہ جب اس طرح کے حملوں میں واپس لوٹنے والے جہادی ملوث ہوں، تو یہ اُن حملوں کی نسبت کہیں زیادہ کامیاب اور مہلک ہوسکتے ہیں جواُن مقامی دہشت گردوں کی طرف سے کیے گئے جنھوں نے بیرون ملک جنگ نہیں کی تھی ۔