Episode 80 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 80 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

آگ سے زیادہ دُھواں
جیسا کہ بتایا جاچکا ہے کہ کیسے چند رکاوٹوں نے دُور دراز کی لڑائیوں میں شمولیت اختیار کرنے اور دہشت گردوں کے طور پر گھر واپس لوٹنے سے مغربی مسلمانوں کو روکا تھا، یہ بات خلاف قیاس لگ سکتی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں زیادہ تر تنازعات نے بمشکل ہی ایسے جنگجوؤں کو پیدا کیا ہے جنھوں نے شروع سے آخر تک اس راہ کی پیروی کی ہو۔
یہ سچ ہے کہ،شام کے خلاف جنگ بہت سی منفرد خصوصیات کی حامل ہے جونمایاں طور پر خطرے میں اضافہ کرتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ انتہائی ضروری ہے کہ اس خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش نہ کیا جائے جیسا کہ حکومتوں اور تجزیہ کاروں نے بارہا ماضی میں کیا ہے، اور سنگین پیش گوئیوں کو تبدیل کرنے کے لیے تاریخی اور موجودہ دور کی خفیہ معلومات کا مطالعہ کرنا بھی بہت ضروری ہے۔

(جاری ہے)

عراق کی گزشتہ جنگ اس حوالے سے سب سے زیادہ واضح مثال پیش کرتی ہے۔ 2003 اور 2011 کے درمیان، یورپ اور امریکہ سے درجنوں مسلمانوں نے مغربی افواج سے لڑنے کے لئے عراق کا سفر کیا۔ان میں سے کچھ نے القاعدہ کی حمایت کی ، جس کے بعد اس نے 2004 میں اپنی ایک مقامی شاخ ( ایک گروپ جسے عراق میں القاعدہ کے طور پر جانا جاتا تھا، اور جو آئی ایس آئی ایس کا پیش رو ثابت ہوا) قائم کی، اور ان میں سے بہت سے اپنے قیام کے دوران زیادہ انتہا پسند بن گئے۔
2005 میں، اس وقت کے سی آئی اے کے ڈائریکٹر پورٹر گوس نے انٹیلی جنس پر سینیٹ کی منتخب کردہ کمیٹی کو خبردار کیا کہ”اسلامی انتہا پسند عراقی تنازعہ کو نئے امریکہ مخالف جہادیوں کو بھرتی کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں “۔
لیکن ایسی سنگین پیش گوئیوں کے باوجود، عراق کے تجربہ کار جہادی مغرب میں کامیاب دہشت گردانہ کارروائیاں کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
چند معاملات میں ہی عراق جنگ سے تعلق کی بالواسطہ شہادتیں مل سکی تھیں، جن میں جون 2007 کو گلاسگو ایئر پورٹ پر ہونے والا ناکام حملہ بھی شامل ہے؛ تفتیش کاروں کو معلوم ہوا تھا کہ حملہ آوروں کے سیل فونز میں عراق میں القاعدہ سے منسلک کئی کارندوں کے نمبر موجود تھے۔ لیکن اس معاملے میں بھی، امریکی حکام بالآخر اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ منصوبہ ”القاعدہ سے تعلق رکھنے والوں“ نے بنایا تھا نہ کہ ”القاعدہ کے احکامات کے نتیجے میں“ بنایا گیا تھا۔
شام اور عراق آج ممکنہ طور پر اسی تاریخی ریکارڈ کی بازگشت ثابت ہونگے۔ ایک میں تو، بہت سے غیر ملکی رضا کار لڑائی میں مارے جائیں گے۔ پہلے شام اور اب عراق میں لڑائی کی بربریت… جبکہ انتہا پسند دونوں ممالک کی حکومتوں، شام کے مرکزی دھارے میں شامل حزب اختلاف، اور، بہت زیادہ ایک دوسرے کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں… دیگر حالیہ تنازعات سے کہیں زیادہ ہے۔
محققین یقین رکھتے ہیں کہ شام میں غیر ملکی رضاکاروں کے مرنے کی تعداد پہلے ہی عراق جنگ سے زیادہ ہوچکی ہے،جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ تمام مغربی جنگجووٴں میں سے پانچ فیصد مارے جاچکے ہیں۔جو زندہ بچ گئے ہیں، ان میں سے بہت سے گرفتاری کے ڈر سے یا کسی دوسرے غیرملک میں جہاد کرنے کا عزم لیکر کبھی بھی گھر واپس نہیں لوٹیں گے۔مئی 2014میں ہمارے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران ایک یورپی انٹیلی جنس عہدیدار نے اندازہ لگایا کہ غیر ملکی جنگجووٴں میں سے قریب دس سے بیس فیصداپنے سابق ملکوں میں موجود رہائش گاہوں کو واپس لوٹنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے(عہدیدارنے حساس سرکاری معلومات پر بات چیت کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی تھی)۔
مزید برآں، آئی ایس آئی ایس سمیت شام اور عراق میں سرگرم اسلام پسند گروپ، یورپ یا امریکہ پر حملوں میں خاص دلچسپی نہیں رکھتے۔ اس کے بجائے، وہ شیعہ برادری اور مقامی حکومتوں کے خلاف لڑائی پر زیادہ توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ بہت سے ممتاز سنی علماء جو مقدس جنگجووٴں کو کارروائی پر اُکسانے کے حوالے سے جانے جاتے ہیں، وہ بھی مغرب پر حملے کا سوچنے سے پہلے اس طرح کے مقامی مقابلوں میں فتح حاصل کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔
شام میں پہلا خودکش بم حملہ کرنے والے امریکی، مونر محمد ابو صالح کا معاملہ اس رُجحان کی وضاحت کرتا ہے۔ فلوریڈا سے تعلق رکھنے والے، ابوصالح نے 2013کے اواخر میں شام جاکر جبہت النصرہ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اور اس کی موت نے امریکی حکام کے اپنے ملک پر دہشت گرد حملے کے خوف کو مزید پختہ کردیا تھا۔ ابو صالح، ایک امریکی شہری ہونے کے ناطے امریکہ پر حملہ کرنے کے لئے ایک بہترین انتخاب ہوسکتا تھا۔
لیکن جبہت النصرہ نے اسے شام کی حکومتی فوجوں پر حملہ کرنے کا حکم دیا…اور ان کے اس انتخاب نے گروپ (جبہت النصرہ) کی موجودہ ترجیحات کا واضح طور پر اظہار کردیا تھا۔اس سال اگست اور ستمبر میں امریکی صحافیوں جیمز فولی اور سٹیون سوٹ لوف کے قتل میں ملوث برطانوی شہری پر بھی یہی منطق لاگو ہوتی ہے… صحافیوں کا قاتل ممکنہ طور پر لندن یا یورپ میں کہیں بھی بڑی تباہی مچا سکتا تھا، تاہم آئی ایس آئی ایس نے اسے مقامی سطح پر ہی ایک لرزہ خیز کام سونپا، جس نے اسے دنیا کے مطلوب ترین افراد میں شامل کرادیا ،اور اب وہ کبھی لوٹ کر اپنے وطن نہیں آسکے گا۔
آئی ایس آئی ایس کے ٹھکانوں پر امریکی بمباری گروپ کی ان ترجیحات کے احساس کو تبدیل کر سکتی ہے۔ اگر امریکہ باضابطہ طور پر آئی ایس آئی ایس کے خلاف میدان جنگ میں کود پڑتا ہے اورلڑائی شدت اختیار کرلیتی ہے تو، گروپ(آئی ایس آئی ایس) بدلے یا سرکشی کے جذبے سے مجبور ہوکر، امریکی سرزمین، یا عمومی طور پر مغرب پر حملوں کے لیے اپنی ترجیحات کو تبدیل کر سکتا ہے۔
لیکن فی الوقت، آئی ایس آئی ایس کی توجہ شام اور عراق کی سرکاری فوجوں کے خلاف اپنی مہم پر مرکوز ہے۔
جہادی گروپوں کے درمیان آپس کی لڑائی سے غیر ملکی رنگروٹوں کی تعداد مزید کم ہو جائے گی۔ اس برس کچھ عرصہ پہلے، جب آئی ایس آئی ایس کے جنگجووٴں نے عراق میں پیش قدمی کی، اسے شام میں جبہت النصرہ کے ساتھ ایک تلخ لڑائی کا سامنا تھا۔اگرچہ دونوں تنظیمیں سلفی جہادی نظریے پر عمل پیرا ہیں،تاہم آئی ایس آئی ایس نے القاعدہ کی قیادت اور اس کے ایجنڈے کو مسترد کردیا تھا،جس کے بعد فروری 2014میں دونوں گروہوں کے درمیان باقاعدہ علیحدگی ہوگئی تھی۔
اور اس علیحدگی کے نتیجے میں ہونے والی دشمنی سے قدیم طریقہٴ کار پر مبنی اندازوں کے مطابق، اس سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران شام میں پہلے ہی 3 ہزارسے زیادہ ہلاکتیں ہوچکی ہیں، جن میں شام جانے والے پانچ برطانوی رضاکاروں میں سے چار کی ہلاکت بھی شامل ہے ۔ مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے علاوہ، اس قسم کی اندرونی رسہ کشی غیر ملکی رنگروٹوں میں ناپسندیدگی کو جنم دیتی ہے۔
یورپی انٹیلی جنس حکام کو معلوم ہوا ہے کہ ممکنہ رضاکاروں میں سے بعض، اکثر اندراج کے خیال پر تلخ ہوجاتے ہیں جب انھیں بتایا جاتا ہے کہ عین ممکن ہے انھیں بشار الاسد کے وفاداروں یا مبینہ مرتدین کے بجائے سڑک پار موجود بوڑھے ہمسائے کو گولی مارنی پڑے۔
ناپسندیدگی کی ایک اور عام وجہ وہ ہولناک مناظر ہیں جومغربی جنگجو جنگ زدہ علاقوں میں دیکھتے ہیں، خاص طور پر شام اور عراق میں جاری مسلمان بمقابلہ مسلمان پُرتشدد لڑائیوں میں۔
جن یورپی انٹیلی جنس حکام کا ہم نے انٹرویو کیا،اُن کے مطابق …رنگروٹ اکثر ”ٹی شرٹ اور تصاویر“ کے حصول کے لیے نکلتے ہیں، لیکن وہاں جس تجربے سے گزرتے اور جو کچھ دیکھتے ہیں اس کی وجہ سے انتہائی خوفزدہ اور حتیٰ کہ مجروح حالت میں واپس وطن لوٹتے ہیں۔
بہت چند مستثنیات کے ساتھ،جو مغربی مسلمان وطن واپس لوٹ کر آتے ہیں وہ اپنے ملک کی پالیسیوں اور اقدار کی مخالفت جاری رکھنے کے باوجود شاذ و نادر ہی دہشت گرد بننے کی طرف سفر کو مکمل کرتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے، کہ ان کی اکثریت بڑی حد تک عام زندگی گزارنے کی طرف مائل ہوجاتی ہے۔ ہیگ ہیمر کے مطابق، 1990 سے 2010 کے درمیان بیرون ملک جانے والے 9جنگجوؤں میں سے صرف ایک ایسا تھاجو واپس آنے کے بعد اپنے ملک پر حملہ کرنے میں دلچسپی رکھتا تھا۔ جس لڑائی میں وہ حصہ لیتے ہیں اس کی نوعیت بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ شام سے واپس آنے والے جنگجو، پاکستان میں القاعدہ کی تربیتی سہولتوں سے ماہر دہشت گرد بن کر نکلنے والوں کی نسبت بہت کم خطرہ کا باعث بن سکتے ہیں؛ کیونکہ آئی ایس آئی ایس کی نسبت القاعدہ کے مقاصد واضح طور پر مغرب مخالف ہیں، القاعدہ کے جنگجو یورپ اور امریکہ میں حملوں کے منصوبوں میں زیادہ حصے دار ہوں گے۔
 شام اور عراق سے واپس آنے کے بعد بھی تشدد کی طرف مائل رہنے والے چند افراد ، محکمہ انسداد دہشت گردی کے حکام کے لئے آسان اہداف ہوں گے۔ کم از کم، سوشل میڈیا پر ان کا بھاری انحصار خود ان کے لیے ایک دودھاری تلوار بن جائے گا۔ کھلے عام تشہیر اور اپنی سرگرمیوں کے بارے میں آن لائن شیخی بگھار کر، یہ لوگ سیکورٹی سروسز حکام کو اپنی طرف متوجہ کرلیتے ہیں، اور بعض اوقات قیمتی خفیہ معلومات فراہم کردیتے ہیں: مثلاً وہ کس گروپ سے وابستہ ہیں، ان کے ارادے کیا ہیں، اور ان کے ساتھی کون کون ہیں۔
حکام ان کے دوستوں اور پیروکاروں کی فہرستوں کا مشاہدہ کرکے بھی مفید معلومات جمع کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ یورپی حکام نے ہمیں وضاحت کی کہ، کچھ ممکنہ دہشت گردحکام کی نظروں سے صرف اس وقت تک ”مکمل طور پر پوشیدہ“ رہتے ہیں، جب تک کہ وہ شام اور عراق کے لیے روانہ ہوتے ہوئے خود کو آن لائن بے نقاب نہیں کردیتے۔
مزید براں، اپنے ملک میں تشدد پر غور کرنے والے سابق غیر ملکی جنگجوؤں پر …یہ بات آشکار ہوجائے گی کہ شام اور عراق میں ان کے تجربے نے انھیں اس کام کا اہل نہیں چھوڑا۔
اگرچہ ان میں سے کئی گوریلا جنگ کی مہارت سیکھتے ہیں، مگر وہ اکثر کامیاب دہشت گرد حملے کرنے کے لیے درکار موثر علم کی کمی کا شکار ہوتے ہیں: جیسے کہ نگرانی کا عمل کیسے انجام دینا ہے، نظروں میں آنے سے کیسے بچنا ہے، اور ایک خفیہ نیٹ ورک کی تعمیر کیسے کرنی ہے۔ اور جب وہ گروپ کی صورت میں کام کرتے ہیں…جو بڑے پیمانے پر حملہ کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے…تو اُن کے سیکورٹی سروسز حکام کی نظروں میں آنے کے اور زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔
حتیٰ کہ برسلز میں واحد کامیاب حملے نے بھی اسی بات کا اظہار کیا کہ شام کی جنگ سے واپس آنے والے جنگجو کیوں اتنے خطرے کا باعث نہیں، جتنا انھیں سمجھا جاتا ہے۔حملہ کرتے ہوئے،نموچی Nemmouche نے تنہا کام کیا، جس کی وجہ سے وہ حکام کی نظروں سے بچنے میں کامیاب رہا، لیکن ساتھ ہی اس بات نے اس کے نقصان پہنچانے کی اہلیت کو بھی محدود کردیا تھا۔
اور اگرچہ نموچی نے شام میں کچھ جنگی مہارت حاصل کی تھی ،مگر اس کے پاس چھپنے یا دھوکہ دینے کی صلاحیتوں کا فقدان واضح طور پر دکھائی دیا۔اس نے گولیاں چلانے کے بعد اپنی کلاشنکوف رائفل سے چھٹکارا حاصل کرنے کی قطعاً کوشش نہیں کی؛ اس کے بجائے، اس نے اسے آئی ایس آئی ایس کے پرچم میں لپیٹا اور ایمسٹرڈیم سے مارسیل جانے والے روٹ پر بس میں سوار ہوگیا، جو حشیش کی سمگلنگ کی وجہ سے پولیس کی نگرانی کا مرکز ہے اور یہی اس کی فوری گرفتاری کا سبب تھا۔
آخر میں، غیر ملکی جنگجو ایک سادہ سی وجہ سے اپنے ملک میں تشدد لانے کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہو سکتے ہیں…اور وہ یہ کہ ایسا کرنے سے ان کے دوست اور رشتہ دار خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔نیو یارک ٹائمز کے ساتھ ایک انٹرویو میں،مینی سوٹا سے تعلق رکھنے والے ایک صومالی نژاد امریکی عبدی سلان حسین علی،جس نے موغادیشو میں افریقی یونین کے فوجیوں پر 2011 کے حملے میں خود کو دھماکے سے اُڑا لیا تھا، کے ایک دوست نے علی کے ایک بیان کا دوبارہ حوالہ دیا جو اُس نے صومالیہ جانے سے دو سال پہلے دیا تھا۔
علی نے کہا تھا،”میں کبھی امریکہ پر حملہ نہیں کروں گا، کیونکہ ہوسکتا ہے وہاں میری ماں کسی سڑک پر چلی جارہی ہو۔“ 
سلسلے کو بدل دیں
شام اور عراق میں لڑنے کے لئے جانے والے مغربی جنگجوؤں کے سفرکا … اور اس کے ساتھ ساتھ ان عوامل کا بھی جو انھیں اپنے ملک پر حملے کرنے سے روکتے ہیں… مرحلہ وار تجزئیہ کرنے سے کئی پالیسی اقدامات کا پتا چلتا ہے جو خطرے کو مزید کم کرسکتے ہیں۔
سب سے پہلے، مغربی سیکورٹی سروسز کو رضاکارانہ خدمات انجام دینے کے لیے بھرتی ہونے والوں کوروکنے کی اپنی کوششوں کو تیز کرنا چاہیے۔ ایسا کیسے کیا جائے، اس حوالے سے ایک ماڈل ڈنمارک میں جاری ایک سرکاری پروگرام ہے جو عہدیداروں کو ممکنہ رنگروٹوں کو تلاش کرنے اور اکثر خاندان کے افراد اور مقامی کمیونٹی کے رہنماوٴں کے ساتھ مل کر ، غیر رسمی ماحول میں بات کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
اس طرح کی بات چیت کا مقصد ہمیشہ قائل کرنا ہوتا ہے نہ کہ مجبور کرنا۔ چونکہ خاندانوں اور برادریوں کا تعاون اس کام کے لئے بہت اہم ہے، لہٰذا حکام ملکی پریس کو یہ پیغام دینے سے محتاط رہتے ہیں کہ مسئلہ کے بجائے ،مسلم آبادی حل کا ایک قابل قدر حصہ ہے۔ اور اگر افراد رضاکارانہ طور پر عسکریت پسندوں کے ساتھ لڑنے کے لئے بیرون ملک چلے جاتے ہیں، تو حکومتیں ان کی واپسی کو روکنے کے لئے اقدامات کر سکتی ہیں؛ ستمبر میں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اسی مقصد کو پورا کرنے کے حوالے سے ایک پروگرام کی تجویز دی تھی ،کہ مشتبہ بنیاد پرست جنگجووٴں کے پاسپورٹ ضبط کرلیے جائیں۔
مغربی حکومتوں کو، ممکنہ جہادیوں کے لئے ترکی کے راستے شام اور عراق پہنچنے کومشکل بنانے کے لئے بھی مزید کام کرنا چاہیے۔ کچھ عرصہ پہلے تک، بشار الاسد حکومت کے لیے انقرہ کی مخالفت نے ترکی کو اپنی سرحد کے اس پار جانے والے جنگجووٴں کا ایک خاموش حامی بنایا ہوا تھا۔ لیکن آئی ایس آئی ایس کے عروج اور ترکی کی اپنی سرزمین پر انتہا پسندی کے بڑھتے خطرے نے اس کی حکومت کو بہاؤ روکنے کے مغربی مطالبہ پر توجہ دینے کی طرف زیادہ مائل کیا ہے۔
امریکہ اور یورپی ممالک کو، ترک انٹیلی جنس اور پولیس ایجنسیوں کے ساتھ معلومات کا اشتراک کرکے ایک بہتر نظام وضع کرنے کے لئے اس موقع کو استعمال کرنا چاہیے۔ اس کے آغاز کے طور پر، مغربی حکام مخصوص افراد کے لئے سفر کا انتباہ جاری کرسکتے ہیں اور ترکی کی حوصلہ افزائی کرسکتے ہیں کہ وہ انھیں ملک میں داخل ہونے یا اس کے علاقے سے شام میں داخل ہونے سے روکے۔
مغربی سیکورٹی ایجنسیوں کوشام اور عراق کے انتہا پسند رہنماوٴں کے ذہنوں میں مغربی مسلم رضاکاروں کی سچی وفاداری کے حوالے سے شک بونے کی خاطر بھی جو وہ کر سکتے ہیں سب کرنا چاہئے۔ یہ کام خفیہ معلومات کی تشہیر کے ذریعے تکمیل تک پہنچایا جاسکتا ہے، جو یا تو سابق رنگروٹوں سے حاصل کردہ ہوں اور یا پھر حکام کی طرف سے خود ہی غلط طور پر تخلیق کی گئی ہوں ، اس سے یہ ظاہر ہوگا کہ مغربی سیکورٹی سروسز کس حد تک جہادیوں کی صفوں میں سرایت کرچکی ہیں۔
اگر انتہا پسند ملیشیا نے غیرملکیوں کو ممکنہ جاسوس یا فاسد اثرات کے حامل مبلغین کے طور پر دیکھنا شروع کردیا تو عین ممکن ہے کہ وہ مغربی رضاکاروں کو غیر جنگی فرائض تفویض کردیں،انہیں خودکش حملوں کے یک طرفہ ٹکٹ کی پیشکش کرکے ان کی اطاعت کی جانچ کریں، یا پھر ان کا اندراج کرنا ہی یکسر بند کردیں۔
مغربی ایجنسیوں کو واپس آنے والے جنگجوؤں کی نگرانی اور ان افراد کی نشاندہی کے لیے جو سب سے بڑا خطرہ ہیں، اپنے موجودہ غیرمستقل طریقوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، اور اس کے ساتھ ہی ساتھ آپس میں اپنی کوششوں کو ہم آہنگ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
سب سے خطرناک واپس آنے والے جنگجوؤں کی باریک بینی سے نگرانی کی جائے اور اگر ممکن ہو تو جیل بھیج دیا جائے۔ ( مخصوص الزامات کی نوعیت ملک کے اعتبار سے مختلف ہوگی، اور اس میں کئی چیزیں شامل کی جاسکتی ہیں، مثال کے طور پر،ایک ممنوعہ دہشت گرد گروپ کی رکنیت)۔ لیکن بیرون ملک لڑنے والے تمام مغربی مسلمانوں کے خلاف فوجداری مقدمات قائم کرنے کا اُلٹا اثر ہوسکتا ہے۔
اگرچہ یہ اقدام عارضی طور پر سابق جنگجووٴں کو بے اثر کرے گا، لیکن یہ ان کو مزید الگ تھلگ بھی کرسکتا ہے… اور یورپ میں، انھیں سخت جان جہادیوں، کے اثر و رسوخ کے سامنے بے نقاب کرسکتا ہے، جو اچھی خاصی تعداد میں یورپ کی جیلوں میں موجود ہیں۔ یہاں تک کہ جیل جانے کا معمولی سا خطرہ بھی سابق جنگجو کو یہ باور کراسکتا ہے کہ اس کے پاس ہارنے کو بہت کم بچا ہے اور اسے تشدد کی طرف لے جاسکتا ہے۔
اندھا دھند مقدمات بھی مسلم آبادیوں کو حکومت کے خلاف کردیں گے،اور اس بات کے امکان کو بھی کم کردیں گے کہ وہ اپنے اندر موجود متشدد انتہاپسندوں کی نشاندہی کریں۔
مغربی حکومتوں کو اسکی بجائے سابق جنگجووٴں کی معاشرے میں دوبارہ شمولیت پر توجہ دینی چاہیے،ایسے لوگوں پر سرکاری وسائل خرچ کرنے کی سیاسی مشکلات کے باوجود، جنہیں بہت سے لوگ دہشت گرد سمجھتے ہیں۔
بعض واپس لوٹنے والے جنگجوؤں کو نفسیاتی مشورے اور ”پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر“ کی شکایت کے لئے علاج کی ضرورت ہوگی؛ یہ چیزیں فراہم کرنے میں ناکامی انھیں دوسری صورت کے مقابلے میں کہیں زیادہ خطرناک بناسکتی ہے ۔اگرمقدمہ کا خوف سابق جنگجووٴں کومشاورت اور علاج پر آمادگی سے روکتا ہے تو، وہ شہری زندگی میں دوبارہ ضم اور اپنے پُر تشدد ماضی کو پیچھے چھوڑنے کے زیادہ قابل نہیں ہوسکیں گے۔
آخری بات یہ کہ، اگرچہ واپس آنے والے جہادیوں کے خطرے کو حد سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے، تاہم پھر بھی، مغربی حکومتوں کو اب بھی اس مسئلہ کے لئے کافی وسائل وقف کرنے کی ضرورت ہے۔ مشتبہ افراد کی وسیع فہرست کا ٹریک ، جسے انٹیلی جنس ایجنسیوں کی نگرانی کے تحت برقرار رکھنا لازمی ہے، کسی بھی وقت یہ بجٹ اور اہلکاروں دونوں کے لیے مشکل ثابت ہوسکتا ہے۔
لیکن چونکہ شام اور عراق میں غیر ملکی جنگجووٴں کی آمد پچھلے تنازعات سے تجاوز کرچکی ہے، اس لیے مسئلہ کے لیے وقف انٹیلی جنس اور پولیس حکام کی تعداد بھی اسی کے حساب سے ہونی چاہیے۔سرکاری ایجنسیوں کے لئے، اکثر واپس لوٹنے والے جہادیوں تک رسائی حاصل کرنا یا ان کے بارے معلومات جمع کرنا مشکل نہیں ہوتا،بلکہ ان کے لیے اصل مسئلہ ردعمل ظاہر کرنے سے پہلے تیزی سے اس پر کام کرنا اور اس کا تجزئیہ کرنا ہوتا ہے۔
مغربی حکومتوں کو شام اور عراق میں عام شہریوں کی مشکلات دُور کرنے کے طریقے تلاش کرنا بھی جاری رکھنا چاہیے۔ بہت سے غیر ملکی جنگجو اب بھی بشارالاسد حکومت کے مظالم کے خلاف شامی باشندوں کے دفاع کی ایک حقیقی خواہش کے ذریعے تحریک پارہے ہیں، حالانکہ فرقہ واریت حریف گروپوں پر پوری طرح غلبہ حاصل کرچکی ہے۔ خیراتی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی،انسانی امداد کی فراہمی کے لیے جائز راستوں کی نشاندہی، اور دوسری صورت میں انسانی جانوں کے غیرضروری نقصان کو روکنے میں مدد کے ذریعے، جنگ زدہ علاقے میں غیر ملکیوں کے بہاوٴ کو روکنے کی طرف ایک طویل سفر طے کیا جا سکتا ہے۔
 تاہم،جب تک شام کی خانہ جنگی اور عراق میں آئی ایس آئی ایس کی جارحیت جاری رہے گی، اس کے کچھ اثرات سے مغرب کا متاثر ہونا ناگزیر دکھائی دیتا ہے۔ دہشت گردی ،جدید زندگی کی ایک ایسی بدقسمت خصوصیت ہے، جس کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا ؛ اسے صرف کم کیا جا سکتا ہے۔ بے شک، اوباما انتظامیہ کا آئی ایس آئی ایس کے خلاف مداخلت کا فیصلہ، گروپ کو ممکنہ طور پراپنے اہداف کی فہرست کو فوری طور پر وسعت دینے کی کوشش پر تیار کرسکتا ہے۔
پھر بھی، یہ ضروری ہے کہ گھبراہٹ سے بچا جائے اور اس بات کو یاد رکھا جائے کہ امریکہ اور یورپی یونین دونوں نے ماضی میں بدترین نتائج کا راستہ روکا ہے اور ممکنہ طور پر وہ ایسا کرتے رہیں گے۔
 دہشتگردی کے خطرات کو کم کرنے کے لئے اقدامات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے اور بنایا جانا چاہیے۔ لیکن کامیابی کا معیار، اس خطرے کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ اگر ایسا ہے تو، مغربی حکومتیں یقینی طور پرناکام ہونے جارہی ہیں، یا اس سے بھی بدتر صورت میں، بے جا ردعمل ظاہر کرنے والی ہیں، جو کہیں زیادہ خطرناک پالیسی کی غلطیوں کو جنم دے گا۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط