غلطیوں کی مرتکب طاقتیں، یوکرائن کا بحران کس نے شروع کیا ؟؟
(مائیکل میکفال۔ اسٹیفن سیسٹانووچ۔ جان جے مےئرشیمر)ماسکو کا فیصلہ
(جان مےئرشیمر(تحریر:”یوکرائن بحران مغرب کی غلطی کیوں ہے“ ستمبر / اکتوبر 2014) بین الاقوامی تعلقات کے حقیقت پسند طرزفکر رکھنے والوں میں سب سے زیادہ مستقل مزاج اور قائل کرلینے والے نظریہ سازوں میں سے ایک ہیں، لیکن یوکرائن بحران کے بارے میں ان کی وضاحت realpolitik( حقائق اور مادّی ضروریات سے سروکار رکھنے والی عملی سیاست نہ کہ اخلاقی اصول یا آدرش پر مبنی) کی خامیوں کا ثبوت ہے۔
مےئر شیمر کا حقیقت پسندی کا برانڈ،بہترین طور پر، پچھلے 30 سال کے دوران امریکہ اور روس کے تعلقات کے صرف بعض پہلووٴں کی ہی وضاحت کرتا ہے۔ اور ایک پالیسی نسخے کے طور پر، یہ غیر معقول اور خطرناک ہو سکتا ہے…جیسا کہ روسی صدر ولادی میر پوٹن کی طرف سے اسے اپنانے سے ظاہر ہوا ہے)
مےئر شیمر کے مطابق، روس نے کریمیا پر قبضہ اور مشرقی یوکرائن میں مداخلت دراصل نیٹو کی توسیع کے جواب میں کی ہے، جسے وہ”مصیبت کی اصل جڑ“ قرار دیتے ہیں۔
(جاری ہے)
روس کے ریاستی کنٹرول میں کام کرنے والے ذرائع ابلاغ نے یقینا (نیٹو) اتحاد کی توسیع کو پوٹن کے اعمال کے لئے ایک وضاحت کے طور پر استعمال کیا ہے۔ لیکن روسی ٹیلی ویژن کی کوریج اور مےئر شیمر کا مضمون دونوں ہی اس بات کی وضاحت کرنے میں ناکام رہتے ہیں کہ روس نے، نیٹو کی توسیع جو 1999میں شروع ہوئی اور 2014میں یوکرائن میں حقیقی مداخلت کے درمیانی ایک دہائی سے زیادہ عرصہ کے دوران اپنی فوجوں کو یوکرائن سے باہر کیوں رکھا۔
اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ روس بہت کمزور تھا… اس نے چیچنیا میں دو جنگوں کا آغاز کیا تھا، جن کے لیے کریمیا سے الحاق کے مقابلے میں کہیں زیادہ فوجی طاقت کی ضرورت تھی۔
مےئر شیمر کے لیے اس سے بھی زیادہ مشکل امریکہ اور روس کے تعلقات کی نام نہاد تجدید نو کی وضاحت ہے،یعنی اُس تعاون پر مبنی دور کی جو 2009 کے موسم بہار سے شروع ہوکر جنوری 2012 تک جاری رہا۔
امریکی صدر باراک اوباما اور اس وقت کے روسی صدر دیمتری مدویدیف دونوں نے ہی ان اقدامات پر اتفاق کیا تھا جنہیں وہ اپنے اپنے ملک کے مفاد میں سمجھتے تھے۔ دونوں رہنماوٴں نے (نئے آغازNew START ) نامی معاہدہ پر دستخط کئے اور اس کی توثیق کی تھی، دونوں نے ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پابندیوں کے سب سے زیادہ جامع سیٹ کی حمایت کے حق میں ووٹ دیا، اور افغانستان میں امریکی فوجیوں کے لیے سپلائی روٹ کو کافی وسعت دی گئی، جو روس کے کچھ حصوں سے گزر کر سفر کرتے ہیں۔
انھوں نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں روس کی رکنیت کے لئے مل کر کام کیا، اور ایٹمی توانائی سے لیکر انسداد دہشت گردی تک ہرچیز پر تعاون کو فروغ دینے کے لیے دو طرفہ صدارتی کمیشن کی تخلیق کی، اور زیادہ آزاد ویزا نظام کی بنیاد رکھی۔ 2010 میں، عوامی رائے شماری کے سروے سے معلوم ہوا کہ 60 فیصد سے زیادہ روسی باشندے امریکہ کے بارے میں مثبت رائے رکھتے ہیں۔
اس صدی کے آغاز کے بعد سے روس نے امریکہ کے ساتھ تعاون اور محاذ آرائی دونوں طرح کے روئیے اختیار کیے ہیں۔مےئر شیمر کی طرف سے بیان کردہ ایک ہی عنصر، یعنی نیٹو کی توسیع دونوں طرح کے نتائج کی وضاحت نہیں کر سکتا۔حقیقی کہانی کے لئے، ہمیں اُن عناصر کو چھوڑ کرجو جُوں کے تُوں رہے، اُس چیز پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جو تبدیل ہوئی ہے: یعنی روسی سیاست۔
حکمت عملی کے بعض ماہرین
اگرچہ ’حقیقت پسند‘ طرز فکر رکھنے والے، تجزیہ کرتے ہوئے یونٹ کے طور پر ریاست پر توجہ مرکوز کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ، مگر مےئر شیمریوکرائن کے بحران کی وضاحت کرتے ہوئے، انفرادی رہنماوٴں اور ان کے نظریات پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔وہ پوٹن کو ”ایک اعلیٰ درجے کے ماہرِ حکمت عملی “ کے طور پر پیش کرتے ہیں، جوایک صحیح تجزئیاتی طرزِ فکر رکھتا ہے…یعنی وہی جو کہ مےئر شیمر کا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ”پوٹن اور ان کے ہم وطن، حقیقت پسند ہدایات کے مطابق سوچ اور کام کر رہے ہیں، جبکہ ان کے مغربی ہم عصر بین الاقوامی سیاست کے بارے میں لبرل خیالات کے مطابق عمل کررہے ہیں۔اسی کا نتیجہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے نادانستہ یوکرائن پر ایک بڑا بحران کھڑا کردیا ہے۔“
اپنے تجزیہ میں مختلف رہنماوٴں اور ان کے خیالات کو متعارف کرواکے، مےئر شیمر اس امکان کو قبول کرتے ہیں کہ مختلف نظریات رکھنے والے مختلف سیاستدان ، مختلف خارجہ پالیسیاں تخلیق کرسکتے ہیں۔
مےئرشیمر شاید یہ یقین رکھتے ہیں کہ اگرامریکی رہنما اُن کے حقیقت پسند سیاسی نظرئیات کو پوری طرح اپنالیں تو امریکہ اور دُنیا بہتر ہوجائیں گے، مگر میرا خیال ہے کہ یہ دونوں بہتر ہوجائیں گے اگر پوٹن اور مستقبل کے روسی رہنما ء لبرل ازم کو قبول کرلیں۔لیکن ہمیں یہ خواب دیکھنے کی ضرورت نہیں کہ یہ غیرحقیقی صورتحال کیسی ہوگی، کیونکہ ہم مدویدیف کے دور میں اس کا مشاہدہ کرچکے ہیں۔
اپنی صدارت کے ابتدائی مہینوں میں، مدویدیف بہت زیادہ اپنے حقیقت پسند سرپرست، پوٹن کی طرح ہی لگ رہے تھے۔ انہوں نے جارجیا میں روسی فوجی مداخلت کی حمایت کی اور سابق سوویت یونین کے اس علاقے میں روس کی بالادستی پر زور دینے کے لیے ایک انتہائی عجیب حقیقت پسند اصطلاح استعمال کی، ”استحقاقی مفادات کا دائرہٴ کار“۔ اوباما نے مدویدیف کی حقیقت پسندی کی تشریح کو مسترد کر دیا تھا۔
اپریل 2009 میں،لندن میں مدویدیف کے ساتھ ملاقات میں، اوباما نے اس بات پر زور دیا تھاکہ امریکہ اور روس بہت سے مشترکہ مفادات رکھتے ہیں، حتیٰ کہ روس کے پڑوس میں بھی۔
جس وقت ، اوباما انتظامیہ کرغیزستان میں امریکی فوج کی ماناس ائر بیس کو جاری رکھنے کے لئے جان توڑ کوشش کر رہی تھی۔ اس سے کئی ہفتوں قبل، کرغیز صدر کرمنبیک بکائیف نے ماسکو کا سفر کیا تھا اور اقتصادی امداد کی صورت میں 2 ارب ڈالر کی رشوت حاصل کی تھی، اور اس کے فوراً بعد انہوں نے ائربیس کو بند کرنے کے ارادہ کا اعلان کردیا تھا۔
مدویدیف کے ساتھ ملاقات کے وقت اوباما اس طاقت کے توازن کی سیاست کو بخوبی جانتے تھے جو کریملن(ماسکو) کھیل رہا تھا، لیکن اُنھوں نے پھر بھی پوچھا کہ کیا ائربیس کا بند کیا جانا واقعی روس کے قومی مفاد میں ہے۔ آخرکار، اس ائربیس سے پرواز بھر کر جانے والے امریکی فوجی افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف لڑنے کے لیے جارہے تھے، جنہیں امریکہ اور روس دونوں دشمن تصور کرتے تھے۔
اوباما نے دلیل دی کہ ، ائر بیس کو جاری رکھنا روس کے ”استحقاقی مفادات کے دائرہ کار“ کی خلاف ورزی نہیں ہے، بلکہ امریکہ اور روس دونوں کے لیے فائدے کی بات ہے۔
کوئی ’حقیقت پسند‘ رہنما ہوتا تو اوباما کی منطق کو مسترد کر دیتا اور ائربیس کو بند کرنے کے راستے پر ہی آگے بڑھتا…جیسا کہ پوٹن نے آخر اس سال کے اوائل میں کردیا۔ تاہم، 2009 ء میں اوباما مدویدیف کی ملاقات کے بعد کے مہینوں میں، کرغیزستان کی حکومت …کریملن کی خاموش حمایت کے ساتھ…ائربیس کو جاری رکھنے کے امریکی حکومت کے حقوق میں توسیع کرنے پر متفق ہوگئی تھی۔
مدویدیف نے آہستہ آہستہ صدر اوباما کے باہمی مفادات پر مبنی تعلقات کے نقطہٴ نظر کو اپنالیا۔تعلقات کی تجدید نو کے دوران کی گئی پیش رفت کچھ حد تک روسی خارجہ پالیسی میں اس تبدیلی ہی کی وجہ سے ہوئی تھی۔ مدویدیف امریکہ کے ساتھ تعاون اور بین الاقوامی اداروں کی حمایت کی افادیت پر اس قدر قائل ہوگئے کہ ،انھوں نے حتیٰ کہ 2011میں لیبیا میں معمر القذافی کی حکومت کے خلاف طاقت کے استعمال کی اجازت دینے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر ووٹنگ (بجائے ویٹو کرنے کے) سے پرہیز کرنے پر بھی اتفاق کرلیا …یہ رویہ ’حقیقت پسندی‘ کے ساتھ بہت کم مطابقت رکھنے والا تھا۔
مارچ 2012 میں جنوبی کوریا میں، روسی صدر کے طور پر اوباما کے ساتھ اپنی آخری ملاقات کے بعد، مدویدیف نے پریس کو بتایا کہ، ”تعلقات کی تجدید نوایک انتہائی مفید مشق رہی تھی۔ہم نے ان تین سالوں کے درمیان شاید امریکہ اور روس کے درمیان تعلقات کے سب سے بہترین دور کا لطف اُٹھایا ہے جو پچھلی کئی دہائیوں کے دوران کبھی نہیں اُٹھاسکے تھے۔“
جس چیز کا انہوں نے ذکر نہیں کیا، وہ نیٹو کی توسیع تھی۔
اصل میں، ان پانچ برسوں میں جب میں نے اوباما انتظامیہ کے ساتھ خدمات انجام دیں،صدر اوباما جب بھی پیوٹن اور مدویدیف کے ساتھ ملے میں وہاں موجود تھا۔ اور اُن تین برس کے دوران جو میں نے وائٹ ہاوٴس میں کام کرتے گزارے ہیں، میں نے فون پر کی جانے والی ہر گفتگو بھی سُنی ہے ، اور مجھے یاد نہیں پڑتا کہ نیٹو کی توسیع کے بارے میں کبھی بات کی گئی ہو۔
یہاں تک کہ کریمیا کے ساتھ پوٹن کے الحاق سے کئی ماہ پہلے تک بھی، مجھے نیٹو کی توسیع کے خطرناک نتائج کے بارے میں کسی سینئر روسی سرکاری عہدیدار کی طرف سے انتباہ یاد نہیں ہے۔اس کی وجہ بہت سادہ سی ہے… اور وہ یہ کہ … گزشتہ کئی سال کے دوران، نیٹو کی توسیع مشرق کی جانب نہیں ہورہی تھی۔
امریکی پالیسی کے دیگر حقیقت پسند ناقدین بھی اسی طرح کی غلطی کرتے ہیں جب وہ یہ کہتے ہیں کہ اوباما انتظامیہ نے کریملن کے معاملے میں کمزوری کا مظاہرہ کیا تھا،اور پوٹن کو اس سے فائدہ اٹھانے کی دعوت دی تھی۔
مےئرشیمر کے تجزئیے کی طرح،یہ دلیل بھی باہمی تعلقات کے معاملے میں غیرواضح ہے۔مثال کے طور پر یہ واضح نہیں ہے کہ،تجدید نو کے معاہدے پر دستخط سے انکار یا ایران کے خلاف پابندیوں کے حق میں ووٹ دینے کیلئے روس پر دباؤ ڈالنے سے انکار، کیسے اس بات کے امکانات کو کم کرتا کہ روس یوکرائن پر حملہ کر ے گا۔اس کے علاوہ، 2012 کے بعد، صدر اوباما نے اپنا طریقہٴ کار تبدیل کرلیا اور پوٹن کے رویے کے رد عمل میں زیادہ محاذ آرائی پر مبنی لائحہ عمل اختیار کیا۔
انھوں نے میزائل ڈیفنس سسٹم پر مذاکرات ختم کردئیے، ہتھیاروں پر کنٹرول کا کوئی نیا معاہدہ نہیں کیا، روس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف پابندیاں عائد کیں، اور 2013میں روسی صدر پوٹن کے ساتھ طے شدہ سربراہی ملاقات بھی منسوخ کردی۔ 2008میں جارجیا پر روس کے حملے کے بعدصدر جارج ڈبلیو بش نے جو کیا تھا ، اوباما نے اس سے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے امریکی اتحادیوں کے ساتھ ملکر روس کے انفرادی قائدین اور کمپنیوں پر پابندیاں عائد کردیں۔
انہوں نے نیٹو کے ساتھ سلامتی کے وعدوں کو مضبوط بنایا، یوکرائن کو امداد فراہم کی، اور روس کی جارحیت پر مغرب کے ردعمل کو بین الاقوامی اصولوں کے تحفظ اور جمہوری اقدار کے دفاع کے لئے ضروری اقدام کے طور پر نمایاں کیا۔
ان اقدامات کو ہر گز کمزور یا غیر حقیقی نہیں کہا جا سکتا۔لیکن اس کے باوجود یہ اقدامات روس کی حالیہ جارحیت کو نہیں روک سکے، بالکل اُسی طرح جیسے 1956 کے بعد سے تمام امریکی صدور مشرقی یورپ اور افغانستان میں روسی مداخلت کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔
’حقیقت پسند‘ جو صدر اوباما پر یہ تنقید کرتے ہیں کہ وہ پوٹن کا راستہ روکنے میں ناکام رہے، اُنھیں ایک ایسی دلیل ضرور فراہم کرنی چاہیے جو قائل کرسکے کہ اگر ایک مختلف پالیسی اختیار کی جاتی تو نتائج مختلف ہو سکتے تھے۔صرف ایک ہی متبادل پالیسی ایسی ہے جو یقینی طور پر روس کو روک سکتی تھی: اور وہ یہ کہ کئی سال پہلے ہی یوکرائن کو نیٹو کی رکنیت دے دی جاتی۔
لیکن اس حقیقت سے برعکس دلیل کو اطمینان بخش بنانے کے لیے تاریخ کو کافی حد تک واپس بُلانے کی ضرورت ہوگی۔گزشتہ کئی سالوں کے دوران، نہ تو یوکرائن کی حکومت اور نہ ہی نیٹو ارکان یہ چاہتے تھے کہ کیف جلد ہی اتحاد میں شامل ہوجائے۔ یہاں تک کہ 2010 میں صدر وکٹر یانوکووچ کے انتخاب سے پہلے، یوکرائن کے رہنماء رکنیت کے لئے دباوٴ ڈال رہے تھے اور نہ ہی یوکرائن کے عوام یہ چاہتے تھے۔