Episode 83 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 83 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

اصلی کہانی
روسی خارجہ پالیسی میں جارحانہ اقدامات کا اضافہ امریکی پالیسیوں کے ردعمل میں نہیں ہوا؛ بلکہ یہ روس کے اندرونی سیاسی محرکات کے نتیجہ میں تبدیل ہوئی۔یہ تبدیلی اُس وقت شروع ہوئی جب پوٹن اور ان کی حکومت پہلی بار حملے کی زد میں آئے۔ پوٹن کی طرف سے تیسری صدارتی مدت کے لئے انتخاب میں حصہ لینے کے اعلان کے بعد، روس نے دسمبر 2011 میں ویسے ہی دھوکہ دہی پر مبنی پارلیمانی انتخابات منعقد کروائے جیسے کہ گزشتہ انتخابات تھے۔
لیکن اس بار، نئی ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا نے…جن میں ویڈیو کیمرے، ٹویٹر، فیس بک، اور روسی سوشل نیٹ ورک ’کونتیکت‘ کے ساتھ اسمارٹ فونز بھی شامل تھے… حکومت کے ظلم کو بے نقاب اور ایسی سطح کے احتجاجی مظاہروں کو جنم دیا جو سوویت یونین دورکے آخری مہینوں کے بعد سے نہیں دیکھے گئے تھے۔

(جاری ہے)

انتخابات میں دھاندلی کی وجہ سے لوگوں کی ناپسندیدگی پوٹن کی کریملن میں واپسی کے ساتھ ہی فوری طور پر عدم اطمینان میں تبدیل ہوگئی تھی۔

حزب اختلاف کے بعض رہنماوٴں نے تو انقلابی تبدیلی کا بھی مطالبہ کردیا تھا۔
پوٹن نے مظاہرین کو اُن کی بے وفائی کی وجہ سے حقیر جانا۔ ان کا خیال تھا، کہ وہ اُن(پوٹن) کی وجہ سے امیر ہوئے تھے۔ وہ اب ان سے نظریں کیسے پھیر سکتے تھے؟ لیکن وہ ان سے خوفزدہ بھی تھے، خاص طور پر مشرقی یورپ میں ”رنگوں کے انقلاب“ (خاص طور پریوکرائن میں 2004 کے اورنج انقلاب) اور بہار عرب کے تناظر میں۔
اپنے ووٹروں کو متحرک کرنے اور اپوزیشن کو بدنام کرنے کی کوشش میں، پوٹن نے امریکہ کو پھر سے دشمن بنادیا۔ اچانک، ریاستی کنٹرول میں کام کرنے والے ذرائع ابلاغ امریکہ کو روس کے اندر بدامنی پھیلانے والا قرار دیکر پیش کرنے لگے۔ روسی پریس نے مجھ پر بھی ایک ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا، جسے صدر اوباما نے ایک اور رنگ دار انقلاب برپا کرنے کے لیے بھیجا تھا۔
روس کے بارے میں امریکی پالیسی میں، پارلیمانی انتخابات اور پوٹن کے دوبارہ انتخابات کے درمیان کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔اس کے باوجود مئی 2012 میں جب پوٹن نے اپنا عہدہ سنبھالا، پوٹن کی تقاریر یا روسی ٹیلی ویژن دیکھنے والا کوئی سادہ سا مبصر بھی یہ اندازہ لگاسکتا تھا کہ سرد جنگ کا زمانہ واپس آگیا ہے۔
روسی سیاست کے بعض مبصرین کا خیال تھا کہ روس کے صدارتی انتخابات ختم ہونے کے بعد امریکہ مخالف پراپیگنڈہ کے اس حملے میں کمی ہوجائے گی۔
مجھ سمیت…بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ مدویدیف اور پوٹن کے کاموں میں تبدیلی سے روس کی خارجہ پالیسی میں بہت ہی کم فرق پڑے گا، کیونکہ جب مدویدیف صدر تھے تو پوٹن ہی بڑے فیصلے کیا کرتے تھے۔ لیکن وقت کے ساتھ ثابت ہوگیا کہ، پوٹن روس کے قومی مفاد کے بارے میں مدویدیف کی نسبت مختلف طرح سوچتے ہیں۔ مدویدیف کے برعکس، پوٹن امریکہ کے ساتھ برابری کی سطح پر مقابلہ کو توجہ کا مرکز بنائے ہوئے ہیں۔
اندرون ملک اپنے قانونی جواز کو برقرار رکھنے کے لیے، پوٹن کے لیے امریکہ کو اپنادشمن بنائے رکھنا ضروری تھا۔وہ کھلے عام اس یقین کا اظہار کرتے تھے کہ امریکہ عالمی امور میں ایک بد شگون طاقت کی نمائندگی کرتا ہے۔
پھر یوکرائن میں شورش کا آغاز ہوگیا۔ نومبر 2013 میں،یانوکووچ کی طرف سے یورپی یونین کے ساتھ الحاق کے معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کے بعد، یوکرینی عوام سڑکوں پر نکل آئے۔
امریکی حکومت نے احتجاج کو بھڑکانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا، لیکن اس نے یانوکووچ اور حزب اختلاف کے رہنماوٴں دونوں کوایک عبوری منصوبہ کے لیے متفق ہونے پر زور دیا،جس کے لیے دونوں فریقین نے 21 فروری 2014کو دستخط کردئیے۔ اگلے دن یانوکووچ کے یوکرائن چھوڑ کر فرار ہونے کے حیران کن فیصلے سے بھی واشنگٹن کاکوئی تعلق نہیں تھا۔
پوٹن نے ان واقعات کی تشریح مختلف طریقوں سے کی… انھوں نے مظاہروں ، 21 فروری کے معاہدے کی ناکامی، اور بالآخر حکومت کی تبدیلی کے لیے امریکہ کو ذمہ دار ٹھہرایا، جسے انھوں نے بغاوت کا نام دیا۔
پوٹن کے نظریات نے انھیں ان واقعات کو امریکہ اور روس کے درمیان ایک کشمکش سے تعبیر کرنے پر مجبور کردیا۔ اس تجزئیاتی طرز فکرسے مجبور ہوکر، انہوں نے یک طرفہ طور پر ایسے رد عمل کا اظہار کیاجس نے ان کے خیال کے مطابق طاقت کا جھکاؤ اُن کے حق میں کردیا…یعنی کریمیا پر قبضہ کرلیا اور مشرقی یوکرائن میں مسلح دہشت گردوں کی حمایت کی۔ وہ یقیناً نیٹو کی طویل عرصہ پہلے ہوئی توسیع کے ردعمل میں یہ سب نہیں کررہے تھے۔
پوٹن کا نقصان
اس بارے میں فیصلہ کرنا قبل از وقت ہوگا کہ پوٹن کا ’حقیقت پسندی‘ کا مخصوص برانڈ، روس کے قومی مفاد کے تناظر میں منطقی ہے یا نہیں۔ تاہم، اب تک، اس کے فوائد بہت کم نظر آتے ہیں۔ یوکرائن میں ان کے نام نہاد عملی اور حقیقت پسندی پر مبنی اقدامات نے صرف یوکرینی عوام کے اندر پہلے سے زیادہ مضبوط، زیادہ جامع، اور زیادہ مغرب نواز تشخص قائم کرنے کا کام کیا ہے۔
انھوں نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ یوکرائن کبھی بھی اُن(پوٹن) کے سب سے اہم منصوبے، یعنی یوریشیائی اقتصادی یونین کے منصوبے میں شامل نہیں ہو گا، اور اس کی بجائے ملک کو یورپی یونین کی جانب آگے بڑھایا ہے۔ دریں اثنا، بیلاروس اور قازقستان اب یوریشیائی اقتصادی یونین کے نسبتاً ہچکچاہٹ کا شکار، کم پُرجوش شراکت داروں میں تبدیل ہوگئے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ، پوٹن نے نیٹو کو مضبوط، روسی معیشت کو کمزور، اور خودمختاری اور عدم مداخلت کے بین الاقوامی چیمپئن کے طور پر ماسکو کی شہرت کو مجروح کیا ہے۔
یہ بحران… روس، نیٹو، اور حقیقت پسندی کے حوالے سے نہیں ہے بلکہ پوٹن اور ان کی بے لگام، اور غیر یقینی مہم جوئی کے بارے میں ہے۔ آپ اس کے نقطہٴ نظر کو حقیقت پسند کا نام دیں یا لبرل،مغرب کے لئے چیلنج یہ ہے کہ اس طرح کے رویے سے کس طرح اتنی طاقت سے نپٹا جائے جو اس کا راستہ روک سکے،اور ساتھ ہی اس میں ایسی حکمت عملی بھی شامل ہو کہ وہ معاملات کو ڈرامائی طور پر آگے بڑھنے سے روک سکے۔
مائیکل میکفال سٹینفورڈ یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر، ہوور انسٹی ٹیوشن میں پیٹر اور ہیلن بنگ سینئر فیلو، اور فری مین سپوگلی انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل سٹڈیز میں بھی سینئر فیلو ہیں۔ انہوں نے 2009 سے 2012 تک قومی سلامتی کونسل کے لیے صدر کے معاون خصوصی اور 2012 سے 2014 تک روس کے لیے امریکی سفیر کے طور پر خدمات انجام دی ہیں۔

مغرب فتح یاب کیسے ہوا؟
جان مےئر شیمر دلیل دیتے ہیں کہ،امریکہ نے روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو اس بُری طرح آگے بڑھایا ہے کہ، یوکرائن میں بحران کا ذمہ دارولادی میر پوٹن کو نہیں بلکہ امریکہ کے اس عمل کو قرار دیا جانا چاہیے۔وہ لکھتے ہیں کہ،یوکرائن کو نیٹو میں شامل کرنے کی کوشش کر کے، مغربی حکومتوں نے روس کی سلامتی کے بنیادی مفادات کو چیلنج کیا تھا۔
کریملن(ماسکو) جوابی کارروائی کے لیے مجبور ہوگیا تھا۔ دریں اثنا، بیوقوفانہ نظرئیات نے امریکہ اور یورپی رہنماؤں کو یہ احساس ہی نہیں ہونے دیا کہ وہ کس طرح کی مصیبت پیدا کررہے ہیں۔
یہ دیکھنے کے لیے کہ اس تنقید میں کیا غلط ہے ، ہمیں اس کا موازنہ مےئر شیمر کے 1993میں ”فارن افےئرز“ میں شائع ہونے والے آرٹیکل، "The Case for a Ukrainian Nuclear Deterrent." سے کرنا چاہیے۔
اس وقت بھی، مےئر شیمر روس اور یوکرائن کے درمیان جنگ، کے بارے میں فکر مند تھے ، جسے انھوں نے ”ایک تباہی“ قرار دیا تھا۔ لیکن انھوں نے مسئلے کی بنیادی وجہ کے طور پر امریکہ کی طرف ہرگز کوئی اشارہ نہیں کیا تھا۔مےئرشیمر نے لکھا تھا کہ،”روس نے دو صدیوں سے زیادہ عرصہ سے غیر رضامند اورناراض یوکرائن پر غلبہ جما رکھا ہے، اور اس نے یوکرائن کے خود شناسی کے احساس کو کچلنے کی کوشش کی ہے“۔
اس تاریخ کو دیکھتے ہوئے، دونوں ممالک کے درمیان مستحکم تعلقات پیدا کرنا انتہائی مشکل تھا۔مےئر شیمر نے اس خدشہ کا اظہار کیا تھا کہ انتہاپسند قوم پرستی حالات کو اور بھی زیادہ قابو سے باہر کر دے گی۔ 1993 میں، صورت حال کے بارے میں ان کا اندازہ (خواہ پالیسی کے حوالے سے ان کا نسخہ نہ بھی ہو) درست تھا۔ اسے اس یاددہانی کے طور پر لیا جانا چاہیے کہ آج کی جارحانہ روسی پالیسی، غلط تصور کی جانے والی مغربی پالیسیوں سے طویل عرصہ قبل ہی موجود تھی، جس کی وضاحت مےئرشیمر کی تحریر سے ہوجاتی ہے۔
یوکرائن کے لیے نیٹو کی ممکنہ رکنیت نے شاید، یا یقینا، ایک بُرے مسئلہ کو بہت بُرا بنا دیا ہے۔ مےئرشیمر اشارہ کرتے ہیں کہ، 2008 میں، نیٹو نے اعلان کردیا تھا کہ یوکرائن کسی موڑ پر اتحاد میں شامل ہوسکتا ہے۔ لیکن آگے جو ہوا وہ اسے تسلیم نہیں کرتے۔ نصف دہائی سے زیادہ عرصہ سے،صرف وکٹر یانوکووچ جیسے روس نواز لوگوں نے ہی نہیں بلکہ تقریباً تمام یوکرائنی سیاستدانوں نے اس مسئلہ کو واضح انداز میں دیکھا ہے۔
انھوں نے جان لیا تھا کہ نیٹو کی رکنیت کے لیے مضبوط مقامی حمایت کا فقدان ہے اور، اگر اس صورت حال کو غلط انداز میں قابو کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ قومی یکجہتی کے لئے خطرہ بن سکتی ہے۔ نیٹو نے بذات خود اس معاملے کو ایک طرف ہٹادیا۔ یہ درست ہے کہ اتحاد کے چند ارکان کے لئے یوکرائن ایک پسندیدہ منصوبہ رہا ہے، لیکن زیادہ تر اس کے مخالف تھے، اور بہت سے تو سخت ترین مخالف تھے۔
اوباما انتظامیہ، نے بھی اپنے طور پر، اس موضوع پر کوئی توجہ نہیں دی، اور یوں یہ معاملہ عملی طور پر غائب ہو گیا۔
مےئر شیمر دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ صورت حال یانوکووچ کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی تبدیل ہوگئی۔ مےئر شیمر اس واقعہ کو پوٹن کی طرف سے ”بغاوت“ کا نام دینے کی توثیق کرتے ہوئے کہتے ہیں:”یہ مغربی حمایت پر مبنی اشتعال تھا جس نے ماسکو کے خدشات کو پھر سے زندہ اور جارحانہ پالیسی کے لیے جواز فراہم کردیا۔
“ لیکن حقائق اس تشریح کی حمایت نہیں کرتے۔ بہت کم منتخب صدور نے اس تیزی اور مکمل انداز میں اپنا قانونی جواز کھویا ہے جس قدر تیزی سے یانوکووچ نے کھودیا تھا۔ "Euromaidan" احتجاج کے دوران انھوں نے ہر قدم پر،طاقت استعمال کرنے کا راستہ اختیار کرکے محاذ آرائی کو جاری رکھا۔فروری 2014 میں،پولیس کی طرف سے کیف شہر کے مرکز میں مظاہرین کی بڑی تعداد کو ہلاک کیے جانے کے بعد ، پورا ملک اُن کے خلاف ہوگیا، اور موٴثر طریقے سے ان کے سیاسی کیریئر کا خاتمہ ہوگیا۔
پارلیمنٹ نے متفقہ ووٹ کے ذریعے اُ نھیں ہٹا دیا، اور اس عمل میں اُن کی اپنی پارٹی سمیت ہر ڈپٹی نے شرکت کی۔ اس صورت حال کو کبھی کوئی شخص ”بغاوت“ قرار نہیں دے سکتا۔
یانوکووچ کے اقتدار کا خاتمہ ایک تاریخی واقعہ تھا، لیکن اس سے، روسی دعوؤں کے باوجود، نیٹو کی رکنیت کے لئے یوکرائن کا امیدواری کا حق بحال نہیں ہوا تھا۔ یوکرائن کے سیاستدانوں اور حکام نے بار بار کہا کہ یہ مسئلہ ایجنڈے پر نہیں تھا۔
اور نہ ہی کریمیا میں روس کا بڑا بحری اڈہ ہی خطرے میں تھا، روسی مبصرین کے بے جا الزامات خواہ کچھ بھی رہے ہوں۔ پوٹن کی طرف سے اس دلیل کو بنیاد بنالینے… اور یہ الزام لگانے کہ”فاشسٹ“ نے یوکرائن پر قبضہ کر لیا ہے …کا روس کی قومی سلامتی سے کچھ لینا دینا نہیں تھا، بلکہ اس کے پس پردہ اُن کی سیاسی ذلت سے بچنے کی خواہش کارفرما تھی۔ ماسکو نے عوامی سطح پر یانوکووچ پر زور دیا تھا کہ وہ مظاہرین پر سختی سے کریک ڈاؤن کریں۔
جب یوکرائنی رہنما نے اس پر عمل کیا، تو ان کی صدارت کا خاتمہ ہوگیا، اور اس کے ساتھ ہی یوکرائن کے لیے روس کی ساری پالیسی کا بھی۔ پوٹن کا کریمیا پر قبضہ، دراصل سب سے پہلے اور سب سے اہم طور پر ان کی اپنی سنگین غلطیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش تھی۔
یہ افسوس ناک ریکارڈ مےئرشیمر کی طرف سے پوٹن کو ”ایک اعلیٰ درجے کا حکمت کار“ قراردینے کی قبولیت کو مشکل بنادیتا ہے۔
یہ درست ہے کہ روسی جارحیت نے پوٹن کی حمایت کرنے والے رائے دہندگان کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔ لیکن کریمیا میں کامیابی کے بعد مجموعی طور پر مسلسل غلط اندازے لگائے جاتے رہے…جیسے کہ مشرقی یوکرائن میں علیحدگی پسندوں کی حمایت کی حد کے بارے میں، یوکرائن کی فوجی صلاحیتوں، روسی مداخلت کو پوشیدہ رکھنے کے امکان، پابندیوں پر اتفاق رائے کے حوالے سے مغرب کی صلاحیت، اور یورپی رہنماؤں کے رد عمل کے بارے میں، جنہیں کبھی روس سے ہمدردی تھی۔
اور یہ سب کس لئے کیا گیا؟ پوٹن ہمیشہ کے جی بی کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے بل پر،احترام حاصل کرتے ہیں ، اور یہ تصور اکثر ان کے بخوبی کام آیا ہے۔لیکن یوکرائن کے بحران نے فیصلہ سازی کے ایک مختلف انداز کو نمایاں کیا ہے۔ پوٹن نے ایسے غیرمنطقی فیصلے کیے، جنھوں نے روس کے قومی مفادکو اُن کے ذاتی سیاسی محرکات کے تابع کردیا۔ انہوں نے ایک ہوش مند ’حقیقت پسند‘ کی طرح کام نہیں کیا۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط