Episode 84 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 84 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

چیلنج اور اُن کا جواب
اگر موجودہ بحران کے ذمہ دار پوٹن ہوں تب بھی، پچھلی دو دہائیوں میں امریکی پالیسی کی غلطیوں کو تلاش کرنا اب بھی شاید ممکن ہو سکتا ہے۔ بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ روسیوں کو نیٹو کی توسیع اور سرد جنگ کے بعد ان کے ملک کا بین الاقوامی سطح پر کم حیثیت میں کھڑا رہنا پسند نہیں تھا۔مےئر شیمر کے نزدیک، مغرب نے بلاوجہ اس ناراضگی کو ہوا دی۔
جیسا کہ وہ اسے دیکھتے ہیں، سوویت یونین کے زوال کے بعد، روس اس قدر غیراہم تھا کہ اس کو قابو کرنے کی قطعاً ضرورت نہ تھی، کیونکہ”وہ ایک عمر رسیدہ آبادی اور ایک جہتی معیشت رکھنے والی ایک زوال پذیر عظیم طاقت تھی“۔ آج وہ، اس کی فوج کو ”اوسط معیار کی“ قرار دیتے ہیں۔نیٹو کی توسیع ایک ایسے مسئلہ کے حل کی کوشش تھی جو سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔

(جاری ہے)

یہ ایک حوالے سے مدلل کیس ہو سکتا ہے: 1990 کی دہائی کے آغازمیں، مےئر شیمر نے بذات خود سرد جنگ کے بعد دنیا کو کہیں زیادہ خطرے کی حالت میں دیکھا تھا۔لیکن اس وقت، کوئی نہیں جانتا تھا کہ مشرق و مغرب کے مقابلہ کے اختتام تک شیطانی قوتیں ہارنے کو کیا باقی چھوڑیں گی۔ جرمنی، جو عین اسی وقت دوبارہ متحد ہوا تھا، ایک بار پھر فوجی نظام کی طرف جا سکتا تھا۔
یوگوسلاویہ ایک خونی ٹوٹ پھوٹ سے گزر رہا تھا۔ بے ایمان سیاسی رہنماء مشرقی یورپ کی کئی قدیم نفرتوں کو بحال کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔اس خطرے میں اضافے کے طور پر روس خود موجود تھا، جو ایک باراپنی طاقت دوبارہ حاصل کرکے، اپنے ہمسایہ ممالک کی آزادی کے لئے خطرہ ہو سکتا تھا،اور شدید بحران میں پھنسے یورپ کا تصور کرنا مشکل نہیں تھا۔
مےئر شیمر اب ان مسائل کا ذکر نہیں کرتے، لیکن ایک وقت تھا، جب اُنھوں نے ان مسائل کو جیسے ہیں ویسے ہی انھیں دیکھا تھا۔
1990 میں ماہانہ ”اٹلانٹک“ کے ایک بہت زیادہ پڑھے جانے والے مضمون میں انہوں نے پیش گوئی کی تھی کہ” ہم سب جلد ہی ”سرد جنگ کو یاد کیا کریں گے۔“امن قائم رکھنے کے لیے وہ ایک انتہائی سخت جوابی اقدامات کی تجویز بھی دیتے ہیں، جیسے کہ ماسکو کو وسطی یورپ میں اپنی بڑی فوج رکھنے کی اجازت دے دی جائے اور جرمنی اور یوکرائن کی ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کی جائے۔
آج، یہ اقدامات غیر معمولی اور عجیب لگتے ہیں، لیکن ان کا مقصد جن مسائل کو حل کرنا تھا، وہ خیالی نہیں تھے۔
مےئرشیمر نے خاصے عرصہ سے اس خیال کو تضحیک کا نشانہ بنایا ہے ،اور ”فارن افےئرز“ میں شائع ہونے والے اپنے حالیہ مضمون میں بھی واضح کیا ہے کہ،”قانون کی بالادستی، باہمی معاشی انحصار ، اور جمہوریت جیسے لبرل اصولوں کی بنیاد پر،یورپ کو متحد اور آزاد رکھا جا سکتا ہے“۔
تاہم اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے وہ کچھ بنیادی باتوں کو نظرانداز کرگئے ہیں۔مغربی پالیسی کے مقاصد تو اُتنے ہی تخیل پرستانہ اور خیالی ہیں جیسا کہ وہ کہتے ہیں، لیکن ان مقاصد کے حصول کے لیے جو طریقے استعمال کیے گئے ہیں… یورپی ہم منصبوں کی طرف سے نہیں تو،کم ازکم امریکی رہنماؤں کی طرف سے…وہ بہت حد تک روایتی رہے ہیں۔ وہ مرض کے علاج کے لیے ویسی ہی ”دوا“ تھے جیسی کوئی بھی حقیقت پسند ”ڈاکٹر“ تجویز کرسکتا تھا۔
امریکہ نے سرد جنگ کے بعد مستحکم یورپی نظام میں اپنے مفادات کا دفاع ، مشترکہ اقدار کے حوالے سے غیرسنجیدہ اپیلوں کے ذریعے نہیں کیا، بلکہ پرانے انداز کی امریکی طاقت کے باقاعدہ اور موٴثر استعمال کے ذریعہ کیا ہے۔ صدر جارج ایچ ڈبلیو بش نے، جرمن خارجہ پالیسی کی آزادی کو محدود کرنے کی نیت سے، باہمی اتحاد کے ایسے نئے معاہدے کا مطالبہ کیا جو جرمنی کو نیٹو میں شامل رکھ سکے۔
صدر بل کلنٹن کو جب یقین ہوگیا کہ 1990 کی دہائی میں بلقان جنگیں یورپ میں امریکہ کی طاقت اور ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہیں، تو انھوں نے صدر سلوبودان ملازوچ کے تحت سربیا کو روکنے کے لئے دو بار فوجی طاقت کا استعمال کیا۔ صدر جارج ڈبلیو بش کی طرف سے مشرقی یورپ کے نئے جمہوری ممالک کی نیٹو میں شمولیت جاری رکھنے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ واشنگٹن یقین رکھتا تھا جمہوریت تنہاہی امن کو برقرار رکھ سکتی ہے۔
اس کا مطلب تھا واشنگٹن اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ ایک پائیدار لبرل نظام کی ضرورت تھی جو امریکی عزائم کا ترجمان ہو۔ (آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ درحقیقت امریکی پالیسی ساز اس بات پر یقین نہیں رکھتے تھے کہ جمہوریت اکیلے ہی امن کو یقینی بناسکتی ہے)۔
کسی کوبھی،کم از کم مےئرشیمر کو، یہ جان کر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ طاقت کا حساب ہی امریکی خارجہ پالیسی کو اصل تقویت پہنچاتا ہے۔
2001 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب”The Tragedy of Great Power Politics“ میں، انھوں نے وضاحت کی تھی کہ آزاد جمہوری ریاستیں اکثر اپنے بے رحم فیصلوں کا جواز بلند بانگ دعوؤں کی زبان میں پیش کرتی ہیں۔تاہم، اب، وہ سیاسی رہنماء جو بھی کہتے ہیں… چاہے وہ اوباما کی خدا ترسی ہو یا پوٹن کے جھوٹ…اسے ظاہری حیثیت کے مطابق دیکھتے ہیں۔
اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والا تجزیہ یہ فیصلہ کرنا مزید مشکل بنادیتا ہے کہ کس کی پالیسیاں کارآمد ہیں، اور آگے کیا کِیا جانا چاہیے۔
یوں لگتا ہے کہ مےئر شیمر بغیر کسی اعتراض کے اس بات کو قبول کیے ہوئے ہیں کہ پوٹن کے چیلنج سے دراصل امریکی حکمت عملی کی مکمل ناکامی ثابت ہوتی ہے۔ لیکن محض یہ حقیقت کہ روس پر ایک ایسا رہنما حکمران ہے جو ملک فتح کرنے کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے،بذات خود امریکہ پر فرد جُرم عائد نہیں کرسکتی۔ پوٹن یقینی طور پر اس طرح کے پہلے روسی رہنما نہیں ہیں، اور نہ ہی وہ آخری ایسے حکمران ہونگے۔
اور نہ ہی یوکرائن کے موجودہ مصائب جتنے بھی شدید اور غیرضروری ہیں وہ سب سے زیادہ شدید اور غیرضروری ثابت ہونگے، یہی اس بات کا تعین کرنے کا بہترین طریقہ ہے کہ نیٹو کی توسیع سے کیا حاصل ہوا ہے۔ دو دہائیوں کی امریکی پالیسی نے یورپ کو مستحکم بھی کیا ہے اور موجودہ بحران کے دائرہ کار کو بھی محدود رکھا ہے۔اگرنیٹو کے دائرہٴ کار میں موجودہ حجم اور سرحدوں تک اضافہ نہ کیا جاتا، تو یوکرائن کے ساتھ روس کا تنازعہ اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتا جتنا کہ آج ہورہا ہے۔
مغربی رہنماؤں پر گھبراہٹ کی حالت طاری ہوجاتی اگر اُنھیں محاذ آرائی کے عین درمیان یہ فیصلہ کرنا پڑتا کہ مشرقی یورپ کے کن ممالک کو سلامتی کی ضمانت دی جانی چاہیے اور کونسے ممالک اس کے حق دار نہیں۔ اچانک کشیدگی کی صورتحال میں، انھیں موقع کی مناسبت سے فیصلے کرنے پر مجبور ہونا پڑتا۔اس وقت غیرذمہ دار اور قابل قبول ممالک کے درمیان درست درمیانی راستہ تلاش کرنے کے لیے اُنھیں زندگی اور موت کے غیرمتوقع نتائج کے ساتھ محض اندازوں سے کام لینا پڑتا۔
پُرسکون یورپ
حالیہ برسوں میں بہت سے نئے نیٹو ارکان کی شمولیت کا مطلب یہ ہے کہ اتحاد کو احتیاط سے یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس نے جو وعدے کیے ہیں ان پر کیسے عمل درآمد کرنا ہے۔تاہم، مشرقی یورپ میں سلامتی کو فروغ دینے کا کام بہت آسان بنا دیا گیا ہے کیونکہ ایک بنیادی سٹریٹجک فریم ورک پہلے ہی موجود ہے۔ستم ظریفی یہ ہے، اپنی تمام تر شکایات کے باوجود ، پوٹن کو بھی اس سے فائدہ پہنچ رہا ہے۔
یوکرائن کے خلاف ان کی جارحیت کے سخت جھٹکے کے باوجود، مغربی حکومتیں اس صورت حال کے مقابلے میں بہت کم خوفزدہ ہیں جتنی وہ اس وقت ہوتیں اگر اُنھیں امریکی پالیسی کے نتیجے میں وجود میں آنے والے ایک وسیع تر نیٹو اتحاد اور نسبتاً مستحکم یورپی نظام کا تحفظ حاصل نہ ہوتا۔پوٹن کو آج کم حمایت حاصل ہے کیونکہ امریکہ 1990 کی دہائی کے مسائل کو حل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
 یوکرائن کو ”نیٹو اور روس کے درمیان ایک غیرجانبدار باڑ“ بنانے کی تجویز پیش کرکے مےئرشیمرموجودہ بحران کا ایسا حل پیش کرتے ہیں جو اس کے اصل ماخذ کو نظر انداز اوربحران کو موجودہ حالت سے بھی بُرا بناسکتا ہے۔وہ خاصی مضبوط بنیادوں پر قارئین کو یاددہانی کرواتے ہیں کہ، یوکرائن کو نیٹو میں شامل ہونے کا کوئی موروثی ”حق“ حاصل نہیں ہے۔
لیکن اچھی حکمت عملی وہ نہیں ہوتی جو صرف غلط اور صحیح کا تعین کرے بلکہ اچھی حکمت عملی نتائج کو مدنظر رکھتی ہے۔ نیٹو میں یوکرائن کی شمولیت کا راستہ ہموار نہ ہونے دینے کی بہترین وجہ یہ ہی ہوسکتی ہے کہ اس ملک کے حصے بخرے کرنے سے بچا جائے۔گزشتہ موسم خزاں میں یوکرائن کو یورپ کے ساتھ محض ایک آزاد تجارتی معاہدے کرنے سے انکار پر مجبور کرکے، پوٹن نے یوکرائن کو اس شدید ترین بحران کا شکار کردیا جو اُس نے اپنی آزادی کے 20 برسوں میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔
اب جبکہ دنیا اس چھوٹے سے تجربے کے نتائج دیکھ چکی ہے ، اب کوئی بھی یہ کیوں سوچے گا کہ یوکرائن کو بین الاقوامی سیاست کا ایک مستقل تصفیہ طلب علاقہ قرار دینے سے ملک میں حالات پُرسکون ہوجائیں گے؟
یوکرائن نیٹو کی رکنیت کے لیے کبھی بھی تیار نہیں رہا…اور نہ ہی ہے۔ صرف پوٹن نے ہی اس مسئلے کو ایجنڈے پر رکھنے پر زور دیا ہے۔ کسی بھی باشعور سیاستدان کے لیے اہم ترین مقصد یوکرائن کو متحد رکھنے کی راہ تلاش کرنا ہونا چاہیے۔
اگر عظیم طاقتیں اس پر کوئی مستقبل مسلط کرتی یا اس کا پابند بناتی ہیں… تو وہ اس کے موجودہ بحران کو مزید گہرا کردیں گی۔یوکرائن کے اندر انتہاپسند سیاسی تصادم کو بڑھنے سے بچانے کا بہترین طریقہ ، جغرافیائی سیاست کے بڑے مسائل کو حل کرنا نہیں بلکہ اُنھیں روکنا ہے۔
مےئرشیمر کا اصل موضوع یقیناً یوکرائن نہیں بلکہ امریکی خارجہ پالیسی ہے۔
گزشتہ ایک دہائی کے اقدامات کے بعد، کچھ تخفیف ناگزیر تھی۔لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ سرد جنگ کے بعد یورپ میں ایک جرات مندانہ اور سرگرم پالیسی کو منتخب کرنا واشنگٹن کی غلطی تھی، یا یہ کہ اُسے اب ایک زیادہ جُرأت مندانہ اور سرگرم پالیسی کی طرف آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔اپنی کتاب ”The Tragedy of Great Power Politics“ میں مےئرشیمر نے لکھا ہے کہ،”کسی طاقت کا نظام کے اندر غلبہ حاصل کرنے کے موقع کو یہ سوچ کر چھوڑ دینا بے وقوفی ہے کہ اس کے پاس پہلے ہی نظام میں وجود برقرار رکھنے کے لیے اچھی خاصی طاقت ہے“۔
وہ شاید اپنے ہی مشورے کو بھول گئے ہیں ، لیکن واشنگٹن نے، اپنے ہچکچاہٹ اور ڈگمگاہٹ پر مبنی طریقے سے، عام طور پر اس کی پیروی کی ہے۔ آج بھی، مغرب اسی لیے بہتر ہے کیونکہ اس نے یہی کیا تھا۔
اسٹیفن سیسٹانووچ خارجہ تعلقات کی کونسل کے سینئر فیلو، اور سکول آف انٹرنیشنل اینڈ پبلک افیئرز کولمبیا کے پروفیسر ہیں، اور وہ 1997 سے 2001 تک سابق سوویت یونین کے لیے امریکی سفیر بھی رہے تھے۔
نیز وہ کتاب ”Maximalist: America in the World From Truman to Obama“ کے مصنف ہیں۔
مےئرشیمر کے جوابات
 یوکرائن بحران کی وجہ کیا تھی،اس بارے میں میری رائے سے مائیکل میکفال اور اسٹیفن سیسٹانووچ کا اختلاف حیرت کی بات نہیں ہے۔امریکی حکومت میں ہوتے ہوئے انھوں نے جن دونوں پالیسیوں پر توجہ دی اور ان پر عمل کیا، نیز میرے آرٹیکل پر اُن کے جوابات آزاد خارجہ پالیسی پر اتفاق رائے کو ظاہر کرتے ہیں، جس نے دراصل بحران کو پیدا کرنے میں سب سے زیادہ مدد کی۔
اسی طرح، وہ مغرب کے کردار کے بارے میں میرے دعوؤں کو زیادہ تر یہ رائے ظاہر کرکے چیلنج کرتے ہیں کہ میں بحران کی واحد وجہ نیٹو کی توسیع کو قرار دیتا ہوں۔ مثال کے طور پر، میکفال کہتے ہیں کہ ”نیٹو کی توسیع کے حوالے سے میرا واحد جواز“ امریکہ اور روس کے تعلقات میں حالیہ اُتار چڑھاؤ کی وضاحت نہیں کرسکتا۔ دونوں یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ اتحاد(نیٹو) کی توسیع 2008 کے بعد ایک غیراہم مسئلہ بن چکا تھا۔
لیکن میکفال اور سیسٹانووچ دونوں نے میری بنیادی دلیل کو غلط طور پر بیان کیا ہے۔ میں نے نیٹو کی توسیع کو ”یوکرائن کو روس کے دائرہٴ اثر سے باہر نکالنے اور مغرب کے ساتھ ضم کرنے کی بڑی حکمت عملی کا مرکزی عنصر “ ضرور قرار دیا تھا۔لیکن اس کے ساتھ میں نے اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ اس حکمت عملی کے دو دیگر ”اہم عناصر“ بھی تھے: یعنی یورپی یونین کی توسیع اور جمہوریت کا فروغ۔
میرا مضمون واضح کردیتا ہے کہ نیٹو کی توسیع براہ راست اس بحران کی وجہ نہیں تھی جو نومبر 2013 میں شروع ہوا اور آج تک جاری ہے۔ یہ یورپی یونین کی توسیع تھی جس نے 22 فروری، 2014، کی بغاوت کے ساتھ مل کر آگ کو بھڑکایا۔ اس کے علاوہ، جسے میں”مغربی پالیسیوں کا ٹرپل پیکج“ کہتا ہوں، اورجس میں یوکرائن کو نیٹو کا حصہ بنانا بھی شامل تھا، اس نے بھی بحران کے لیے ایندھن فراہم کیا۔
 یہ تصور کہ یوکرائن کی نیٹو کی رکنیت کا مسئلہ،جیسا کہ سیسٹانووچ کہتے ہیں کہ، 2008 ء کے بعد”عملی طور پر ختم ہوچکا تھا“ بھی باطل ہے۔ کسی مغربی رہنما نے عوامی طور پر اتحاد کے اس اعلان پر سوال نہیں اُٹھایا تھا کہ جارجیا اور یوکرائن ”نیٹو کے رُکن بن جائیں گے“۔سیسٹانووچ اس تاثر کو اہمیت نہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ،”یہ درست ہے کہ یوکرائن، اتحاد کے چند ارکان کے لئے ایک پسندیدہ منصوبہ بنا رہا ہے، لیکن زیادہ تر ارکان اس کے مخالف تھے، اور بعض تو اس بات کے سخت مخالف تھے“۔
تاہم،جو بات انھوں نے نہیں کہی وہ یہ کہ، امریکہ اُن ممالک میں شامل تھا جو اس پسندیدہ منصوبے کی پشت پناہی کررہے تھے، اور واشنگٹن اب بھی اتحاد کے اندر بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ اور بالفرض بعض ارکان یوکرائن کی اتحاد میں شمولیت کی مخالفت بھی کر رہے تھے، ماسکو یہ اُمید نہیں کرسکتا کہ مخالفت کرنے والے ہمیشہ غالب رہیں گے۔
مزید برآں،جیسا کہ سیسٹانووچ کہتے ہیں،ایسوسی ایشن کا معاہدہ جس کے تحت یورپی یونین یوکرائن کو 2013 میں شمولیت کے لیے زور لگارہی تھی ” محض ایک آزاد تجارتی معاہدہ“ نہیں تھا؛بلکہ اس کا سلامتی کے حوالے سے بھی ایک اہم پہلو تھا۔
دستاویز تجویز کرتی تھی کہ تمام فریق ”یورپی سلامتی کے علاقے میں یوکرائن کی گہری شمولیت کے مقصد کے ساتھ خارجہ اور سلامتی کے معاملات پر بتدریج انضمام کو فروغ دیں گے“ اور ساتھ ہی مطالبہ کرتی تھی کہ ”تمام فریقین کے درمیان سفارتی اور فوجی ذرائع سے مکمل اور بروقت فائدہ اُٹھایا جائے“۔ یہ یقینی طور پر نیٹو کی رکنیت کے لئے ایک پس پردہ کوشش کی طرح لگتا ہے، اور کوئی بھی دانشمند روسی رہنما کسی بھی دوسرے طریقے سے اس کی تشریح نہیں کرے گا۔
ہوسکتا ہے میکفال اور سیسٹناوچ یہ یقین رکھتے ہوں کہ نیٹو کی توسیع کا معاملہ 2008 ء کے بعد واقعی غیراہم ہوگیا تھا، لیکن ولادی میر پوٹن اور ان کے ساتھیوں نے اس معاملے کو ہر گز اس طرح نہیں دیکھا تھا۔
یہ دلیل کہ نیٹو کی توسیع پر روس کا رد عمل ”نفرت“ پر مبنی تھا، جیسے کہ سیسٹانووچ یہ دلیل دیتے ہیں،دراصل روس کے محرکات کی قدر کو کم کرنے کے مترادف ہے۔
روس کے حزب اختلاف کے دلوں میں یوکرائن کے روس کی سرحد پر ایک مغربی گڑھ بن جانے کا خوف جڑ پکڑ چکا ہے۔ عظیم طاقتیں ہمیشہ اپنے آس پاس کے علاقوں میں طاقت کے توازن کے بارے میں فکر مند رہتی ہیں اور جب کبھی دوسری بڑی طاقتیں ان کی ”دہلیز“ تک آپہنچیں تو وہ اس کا جواب بھی ضرور دیتی ہیں۔ امریکہ نے اسی وجہ سے انیسویں صدی کے اوائل میں ”منرو ڈاکٹرائن“ کو اپنایا تھا اور اسی وجہ سے اُس نے مغربی نصف کرہ میں سیاسی واقعات کی مخصوص صورت گری کے لیے بار بار فوجی طاقت اور خفیہ کارروائی کے حربوں کو استعمال کیا ہے۔
1962 میں جب سوویت یونین نے کیوبا میں میزائلوں کی تنصیب کی، تو امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے، ایٹمی جنگ کا خطرہ مول لیتے ہوئے،زور دیا کہ اُنہیں ہٹا دیا جائے۔اُس وقت انھیں اس طرز عمل پر سیکورٹی خدشات لیکر گئے تھے، نہ کہ نفرت۔
یہی منطق روس پر لاگو ہوتی ہے۔جیسا کہ اس کے رہنماوٴں نے ان گنت مواقع پر واضح کیا ہے ، کہ وہ نیٹو میں یوکرائن کی شمولیت ہرگزبرداشت نہیں کریں گے۔
یہ نتیجہ اُنھیں خوفزدہ کرتا ہے،جیسا کہ روس جیسی صورت حال میں جو بھی ہو وہ اس سے خوفزدہ ہی ہوگا، اور خوف عظیم طاقتوں کو اکثر جارحانہ پالیسیاں اختیار کرنے کی طرف لے جاتا ہے۔اس بات کو سمجھنے میں ناکامی نے کہ نیٹو کی توسیع کے بارے میں روس کی سوچ کو خوف نے آگے بڑھایا تھا…ایک غلط اندازہ جسے میکفال اور سیسٹناوچ اب بھی گلے لگائے ہوئے ہیں… موجودہ بحران کو تیزی سے پھیلنے میں مدد کی تھی۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط