Episode 90 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 90 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

جینیاتی امراض،ڈی این اے سائنس میں انقلاب …اور اس ضمن میں کیا کِیا جائے؟(جیمی ایف میزل)
( جیمی ایف میزل ایک عالمی سرمایہ کاری کرنے والی فرم کے ساتھ کام کررہے ہیں اور اٹلانٹک کونسل کے ٹیکنالوجی اور قومی سلامتی کے لئے غیر مقیم سینئر فیلو ہیں۔ وہ 2014 میں شائع ہونے والے ناول”Genesis Code“ کے مصنف ہیں۔ انہوں نے صدر بل کلنٹن کے دور حکومت میں قومی سلامتی کونسل اور امریکی وزارت خارجہ میں خدمات انجام دی تھیں)
جینیاتی انجینئرنگ میں وہ انقلاب پہلے سے ہی برپا ہونا شروع ہوچکا ہے جو بنی نوع انسان کی تاریخ میں پہلی با ر ہمارے ارتقائی عمل کو فعال طور پر منظم کرنے میں مدد دے گا۔
دنیا بھر کی لیبارٹریوں اور کلینکوں میں، جین تھراپی پر مبنی طریقہٴ علاج کامیابی سے مدافعتی کمی کی کچھ اقسام، رٹینا کے اندھے پن، لیوکیمیا،ہڈی کے گودے کے ناسور myeloma، ہیموفیلیا، اور پارکنسن سمیت، کئی طرح کی بیماریوں کے علاج میں معاونت کررہا ہے۔

(جاری ہے)

یہ حیرت انگیز پیش رفت صرف ایک آغاز ہے۔ وہی پہلے سے موجود ٹیکنالوجیز جو جلد ہی ہزاروں سال سے انسانوں کو نشانہ بنانے والی بہت سی بیماریوں کا خاتمہ کردیں گی،اُنھیں ہی یقیناً آخرکار ہماری نسلوں کو زیادہ ہوشیار،مضبوط، اور صحت مند بنانے کے لئے استعمال کیا جائے گا۔

جینیاتی انجینئرنگ کے امکانات ، کچھ لوگوں کے نزدیک بے حد خوش کُن،دوسروں کے لیے خوفزدہ کر دینے والے، اور سب کے لیے چیلنج ثابت ہونگے۔ اگر ان کا انتظام مناسب طریقے سے نہ کیا گیا، تو یہ معاشروں کے اندر اور عالمی سطح پر بھی بڑے تنازعہ کی طرف لے جائیں گے۔لیکن اگرچہ انسانی جینیاتی انجینئرنگ کی سائنس ایک غیرمعمولی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے ،مگر عالمی سطح پر ایسا کوئی فریم ورک موجود نہیں ہے جو اس بات کو یقینی بناسکے کہ سائنسی ترقی عدم استحکام کا شکار کردینے والے تنازعہ کی طرف نہ لے جائے۔
وقت آگیا ہے کہ انسانی جینیاتی انقلاب کے قومی سلامتی پر مضمرات کے حوالے سے نتیجہ خیز بات چیت کا آغاز کیا جائے جو کہ مستقبل کے خطرناک تنازعہ اور اس ٹیکنالوجی کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے مستقبل کی عالمی پالیسی کی ساخت کی تصوراتی بنیاد رکھ سکے۔ 
انسانی جینیات کے شعبے میں حالیہ ترقی کی شرح حیران کن رہی ہے۔ صرف 61سال کے مختصر عرصہ پہلے کی بات ہے جب ڈی این اے ہیلکس دریافت ہوا تھا اور اس کے محض 50برس بعد 2003میں، انسانی جینوم مکمل طور پر ترتیب دیا گیا تھا۔
ایک مکمل انسانی جینوم ترتیب دینے کی لاگت 2001 میں تقریباً 100 ملین ڈالر تھی اور آج صرف 10ہزار ڈالر سے بھی کم ہے۔ اگرکمی کی اس شرح کو تھوڑا بہت بھی برقرار رکھا جاتا ہے، جس کو برقرار رکھے جانے کا بہت زیادہ امکان ہے، تو لاگت ایک دہائی سے بھی کم مدت میں برائے نام رہ جائے گی ،اور ذاتی نوعیت کی ادویات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا جہاں زیادہ تر علاج ہر شخص کے جینیاتی رُجحان کی بنیاد پر کیا جائے گا۔
اس طرح کے عمل مستقبل میں انتہائی تیز رفتار ، وسیع اور گہرے ہوں گے۔
یہ پہلے ہی (اگرچہ تمام علاقوں میں یہ عمل قانونی نہیں ہے) ممکن ہے کہ،”ان وٹرو فرٹلائزیشن(آئی وی ایف)“ کے لیے منتخب کیے جانے والے ہر فرٹیلائزڈ انڈے کو ماں کے اندر رکھنے سے پہلے کوئی مخصوص جنس منتخب کرنے کے لیے یا کوئی مخصوص موروثی اثر نہ لے جانے کے لیے اس کا ایک مکمل جینیومک تجزئیہ کیا جائے۔
اور ہم ہر روز اس بارے میں مزید سیکھ رہے ہیں کہ بہت زیادہ وسیع، مگر بے انتہا نہیں، پیچیدہ جینوم ہمیں کیا بتاتے ہیں۔ جب یہ واضح ہوجائے گا کہ جینیاتی انتخاب کا عمل بچوں میں جینیاتی وراثت کو بہتر بناسکتا ہے، اور زیادہ باخبر والدین امپلانٹیشن سے پہلے اپنے ہی ”قدرتی“ جنین میں سے ہی مخصوص جنین کو منتخب کرنے لگیں گے تو دنیا بھر میں زیادہ سے ز یادہ والدین بھی اس عمل کو اختیار کرنا شروع کردیں گے۔
جب یہ عمل زیادہ سستا ہوجائے گا،تو حکومتوں اور انشورنس کمپنیوں کے لیے اس مد میں اخراجات کی ادائیگی کے بجائے جسے اس وقت تک قابل بچاؤ زندگی بھر کی جینیاتی معذوریوں کے طور پر دیکھا جائے گا، ایک متبادل کے طور پر اس عمل کو اپنانے پر زوردینے کے لیے مضبوط ترغیب موجود ہوگی ۔
اور جب جنین کے حامل مرکزی خلیات کو نکالا اورمحفوظ کیا جانے لگے گا، یا بالغ خلیات کو ”انڈیوسڈ پلیوری پوٹنٹ اسٹیم(آئی پی ایس)“ خلیات کی صورت ری پروگرام کرنے کا عمل مرکزی دھارے میں شامل ہوجائے گا، تو ہم کسی بھی سٹیم سیل کو انڈے کے سیل میں اور پھر بالآخر انڈے میں تبدیل کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔
چونکہ انسانی انڈے ایک محدود تعداد میں ہوتے ہیں لیکن سٹیم سیل(اور ان سے تیار کیے گئے انڈوں) کا معاملہ ایسا نہیں ہے ،چنانچہ یہ عمل ممکنہ والدین کو اگر وہ چاہیں(اور استطاعت رکھتے ہوں) تو ان کے اپنے ہی سینکڑوں یا ہزاروں(پانچ سے پندرہ کے بجائے، جیسا کہ اس وقت صورت حال ہے) جنین میں سے انتخاب کرنے کے قابل بنادے گا۔ ہوسکتا ہے بعض والدین یہ عمل اختیار نہ کریں، لیکن جو لوگ اسے اختیار کریں گے، ان کی اولاد کو عمومی طور پر اپنے اُن ساتھیوں پر واضح برتری حاصل ہوگی جو اس عمل کے ذریعے پیدا نہیں ہونگے۔
چنانچہ یہ صرف تھوڑے ہی وقت کی بات ہے کہ ٹیکنالوجی کی مدد سے افزائش نسل دنیا کے سب سے زیادہ فائدہ مند لوگوں کے درمیان اولاد کے انتخاب کا مقبول طریقہٴ کار بن جائے گا،اور جنسی عمل کے ذریعے افزائش نسل کی جگہ لے لیگا جسے اُس وقت ایک پُر خطر طریقہٴ کار تصور کیا جائے گا، حالانکہ بے شک جنسی عمل تب بھی تفریح ،جوڑوں کے درمیان مضبوط تعلق، اور دوسرے مقاصد کے لئے باقی رہے گا۔
درمیانی مدت میں، اس بات کا امکان ہے کہ سائنسی ترقی ہمیں جینیاتی انتخاب سے آگے جینیاتی صلاحیتوں میں اضافے کی طرف لے جائے، جسے اشتمال ( میوٹیشن) کے نقائص دُور کرنے،عرصہ حیات بڑھانے،دماغی افعال اور حواس کو بہتر بنانے،برداشت میں اضافہ، اور بیماری سے اپنی حفاظت کے لئے ترتیب دیا جائے گا۔
مثال کے طور پر نئے اتصال سے تشکیل پانے والے ڈی این اے کی تکنیکیں جو پہلے سے ہی پودوں اور جانوروں میں کامیابی سے استعمال کی جارہی ہیں، انھیں انسانی جنین پر مبنی خلیات کی جینیات تبدیل کرنے کے لئے استعمال کیا جائے گا۔
ایک خلیے میں ڈی این اے کے حصوں کو دوسرے انسانوں کے جین کے ساتھ جوڑا اور تبدیل یا جوڑا جاسکتا ہے ، یا مصنوعی طور پر پیدا کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، والدین میں سے دونوں ہی نقصان دہ اشتمال(mutation ) رکھتے ہیں اور یہ امپلانٹیشن سے پہلے اُن کے تمام جنین میں ظاہر ہوجاتا ہے، تو، اس اشتمال کے لئے جین کسی اور کے جینوم سے لیے گئے جین سے تبدیل کیا جا سکتا۔
چنانچہ یہ کچھ ہی وقت کی بات ہے کہ بعض لوگ جانوروں کی دنیا سے ہمارے جین میں اضافی صلاحیتوں کو شامل کرنا شروع کردیں گے۔ بالکل اسی طرح جیسے AquAdvantage سالمن مچھلی میں، دیگر سالمن نسلوں سے حاصل کردہ چھوٹی جینیاتی تشکیل پائی جاتی ہے جو اُنھیں زیادہ تیزی سے بڑھنے کے قابل بناتی ہے، اسی طرح کچھ انسان بھی ایسی ہی چھوٹی جینیاتی تشکیل کو حاصل کرسکتے ہیں جو انھیں اضافی صلاحیتیں عطا کرے ۔
اس کے بعد، مصنوعی، لیب سے تخلیق کردہ جینیاتی تشکیل زیادہ بڑے پیمانے پر اور یقین کے ساتھ اسی مقصد کو پورا کرے گی۔
اگر جینیاتی طور پر ترمیم شدہ (GM) فصلوں کے گرد گھومنے والی موجودہ بحث کسی طرح کا اشارہ ہے، تو سالمن کی طرح بسنے والے جینیاتی طور پر ترمیم شدہ لوگوں کا خیال ہم میں سے بہت سُوں کو ڈھال کے پیچھے چھپ جانے پر مائل کردے گا، خواہ سائنس اسے بالآخر محفوظ ہی ثابت کردیتی ہے۔
حالانکہ کئی دہائیوں کی ٹیسٹنگ کے باوجود، سائنس بہت کم یہ ثابت کرپائی ہے کہ جینیاتی طور پر ترمیم شدہ فصلیں کسی بھی طرح روایتی فصلوں کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہیں، مگر پھر بھی عالمی سطح پر ترمیم شدہ( GM) فصلوں کی شدید مخالف تحریک اُبھر کر سامنے آئی ہیں (اوراس تحریک نے بیجوں کی ملکیت اور حیاتیاتی نظام جیسے مسائل پر کچھ اہم پوائنٹس بنائے ہیں)۔
انسان دس ہزار سال سے گھریلو سطح پر فصلوں کی جینیات میں تبدیلیاں کرتا آرہا ہے۔لیکن سائنس کے ذریعے تیز جینیاتی تبدیلیاں بہت سے لوگوں کے لیے کم از کم جذباتی سطح پر زیادہ پریشان کُن ہیں،بہ نسبت سُست تبدیلیوں کے اس عمل کے جس نے تقریباً وہ تمام پھل اور سبزیاں پیدا کی ہیں جنہیں ہم استعمال کرتے ہیں۔ اور اگرچہ جینیاتی طور پر ترمیم شدہ (جی ایم) فصلیں، حشرات کُش ادویات کے استعمال کو کم، ضروری غذائی اجزاء کو متعارف کرانے، بے چین، آب و ہوا سے پریشان کسانوں کے معیار زندگی کی حفاظت، اور متوقع طور پر 2050 تک ہمارے سیارے پر قابض 9 ارب لوگوں کے لیے کھانا فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، مگرترمیم شدہ جینیات پر مبنی فصلوں(جی ایم) کی مخالفانہ تحریک کے ساتھ جذباتی وابستگی بلا روک ٹوک جاری ہے۔
انسانی جینیاتی تبدیلیوں کے بارے میں اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور اہم چیزوں پر مبنی بحث میں، مخالفین … غیر ارادی نتائج، نسلی امتیاز، اور سماجی تقسیم سے متعلق انتہائی اہم اور بہت ہی اصل مسائل کو اُٹھائیں گے۔ کچھ لوگ ایک طرف تو علاج کی وجوہات کے لیے جسمانی جینیاتی تبدیلیوں کو قابل قبول بنانے اوردوسری طرف جراثیم سے متعلق یا وراثتی حوالے سے جینیاتی تبدیلیوں پر پابندی کے درمیان امتیاز کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں گے۔
اسی طرح کچھ لوگ گِنی چُنی پابندیوں کا مطالبہ کریں گے۔اور ان میں سے کچھ،نام نہاد انسانی جینیاتی صلاحیتوں میں ترامیم کے ذریعے اضافے کے حامی (ٹرانشو مانسٹ transhumanists)، جینیاتی انجینئرنگ بشمول وراثتی اشتمال کو ،ہماری موجودہ حیاتیات کی قید سے انسانیت کو آزاد کرانے اور کسی بھی پابندی سے آزاد رہنے کا حق دار بنانے کے طور پر دیکھیں گے۔تاہم یہ متنازعہ بحث جُوں جُوں آگے بڑھے گی، تو اس کے حلقہٴ اثر کے لیے سماجی طور پر قبولیت اور قانونی طور پر منظوری وسیع ہوتی جائے گی۔
 فطرت کے بارے میں ہمارے کرشماتی قوت کے تصور کے باوجود، وہ ہماری نسلوں کے لئے ایک ظالم مالکن کی طرح رہی ہے۔ جس لمحہ انسانوں نے کاشتکاری کا آغاز کیا ،یا ادویات تیار کرنا شروع کیں، اسی وقت سے ہم اس نام نہاد قدرتی عمل کے خلاف لڑرہے ہیں جو ہمارے عرصہ حیات کو 40سال تک محدود، خوراک کی تلاش میں سرگرداں اور غاروں میں روپوشی کی صورت گزرتا دیکھنا چاہتا ہے۔
لیکن اگراپنی حالت بہتر بنانے کے لئے انسانی علم کے اطلاق کو قدرتی کہا جا سکتا ہے …کیونکہ ہم خود فطرت کا حصہ ہیں… تو یہ جاننا بہت مشکل ہے کہ قدرتی عمل کہاں ختم ہوتا ہے اور غیر فطری عمل کہاں شروع ہوتا ہے۔اسی طریقے سے،جُوں جُوں جینیاتی ٹیکنالوجی پختہ ہوتی جائے گی، یہ تعین کرنا بے حد مشکل ہوتا جائے گا کہ ایک علاج کہاں ختم ہوتا ہے اور جینیاتی صلاحیتوں میں اضافہ کہاں شروع ہوتا ہے۔
جیسے جیسے جینیاتی طریقہٴ علاج جینیاتی بیماریوں کا علاج یا اُنھیں ختم کرنا ممکن بناتا جائے گا،ابتدا میں ڈاوٴن سنڈروم اور پارکنسن جیسی ایک ہی اشتمال(mutation) والی بیماریوں کو، اور اس کے بعد، وقت کے ساتھ، اعصاب کی ٹوٹ پھوٹ اور عارضہٴ شکم جیسی کثیرالاصل بیماریوں کو، تو پھر یقیناً ہم لوگ اس طریقہٴ علاج سے انکار نہیں کریں گے۔لیکن جینیاتی رُجحان کو ختم کرنے ،مثال کے طور پر ذیابیطس کے لیے، یا زیادہ موثر انسولین کی ضروریات کے لئے ایک مضبوط جینیاتی فطرت پیداکرنے کے درمیان کیافرق ہو گا؟
اس جیسے سوالات پر مختلف خیالات کی وجہ سے اور ان کے باوجود،مختلف ممالک کے اندر اور ان کے درمیان مقابلے سے اس ٹیکنالوجی اور اس کے استعمال کو فروغ حاصل ہوگا۔
معاشروں کے اندر، ایک بار جب سائنس کو محفوظ تصور کرلیا جائے گا، تو والدین اپنے بچوں کو دوسروں سے پیچھے ہرگز نہیں دیکھنا چاہیں گے۔مثال کے طور پر، جب کولوریڈو کی ایک کمپنی نے اعلان کیا کہ وہ ایک ایسا جینیاتی ٹیسٹ کرسکتی ہے جو اس بات کا تعین کرسکتا ہے کہ کونسے بچے وہ خاص جین رکھتے ہیں جو این ایف ایل کے کوارٹر بیک کھلاڑیوں میں پایا جاتا ہے ، تو والدین نے اپنے بچوں کے ٹیسٹ کا مطالبہ کرتے ہوئے اس کمپنی کا محاصرہ کرلیا تھا۔
تو کیا کم ازکم دنیا کے کچھ حصوں میں اس وقت بھی والدین کی قطاریں لگ جائیں گی، اگر جینیاتی ٹیسٹ اندازاً یہ پیش گوئی کرسکے کہ ان کے پری امپلانٹڈ جنین میں سے کونسا، ایک صحت مند اور ہونہار بچے کے حصول کے انکے امکانات کو بڑھاسکتا ہے …اس بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے؟ جب یہ پوچھا گیا کہ کیا سائنسدانوں کے لیے بچوں کو وراثتی بیماریوں کے اثرات سے بچانے کے لیے انسانی خلیات کی بناوٹ میں تبدیلی کرنا ٹھیک ہے ، تو امریکہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور جاپان کے رائے دہندگان کی اکثریت کا جواب ”ہاں“ میں تھا۔
اگرچہ رائے شماری کے نتائج اس وقت کم سازگار ہوتے ہیں جب، لوگوں سے ذہانت کو بڑھانے یا دیگر ”خاص“ صفات کو بہتر بنانے کے لیے جینیاتی تبدیلی کے بارے میں پوچھا جاتا ہے ، لیکن ان کے حق میں رائے دینے والوں کی تعداد بھی وقت کے ساتھ بڑھ رہی ہے اور اُمید ہے کہ جُوں جُوں جینیاتی طریقہٴ علاج اور علاج کے دیگر طریقے مرکزی دھارے میں شامل ہوتے جائیں گے، ان حمایت کرنے والوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوتا جائے گا۔
معاشروں کے اندر،جینیاتی عمل سے صلاحیتوں میں اضافے کے بارے میں متنازعہ بحث کو بین الاقوامی اختلافات اور زیادہ پیچیدہ بنادیں گے۔ آج بھی، انسانی جینیات سے متعلق قوانین مختلف ممالک کے درمیان بہت مختلف ہیں۔ یورپی ممالک میں سے، جرمنی نے جنین کے انتخاب پر پابندی لگارکھی ہے، جبکہ برطانیہ آئی وی ایف کے عمل سے گزرنے والی بعض عورتوں کے لئے تولیدی خلیوں کی منتقلی کے ذریعے وراثتی جینیاتی تبدیلیوں کی اجازت دینے کی طرف بڑھ رہا ہے،۔
بھارت نے صنفی انتخاب پر پابندی لگا دی ہے، لیکن امریکہ اس کی اجازت دیتا ہے۔اور یہ فہرست ایسے ہی بڑھتی جاتی ہے۔
جب خدشات بڑھتے جائیں گے، تو اس طرح کے اختلافات میں محض مزید اضافہ ہوگا۔ جیسا کہ اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے، امریکہ جیسے عیسائی اکثریت والے ممالک مضبوط پابندیوں پر زور دینے والے ویٹی کن اور دوسروں کے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں، اور جرمنی جیسے ممالک کو تاریخی وجوہات کی بناء پر تحفظات ہوسکتے ہیں، لیکن چین اور کوریا جیسے دوسرے ممالک، جن کا دنیا کے بارے میں نظرئیہ بہت زیادہ خدائی منصوبے کے تصور پر مبنی نہیں ہے، وہ انسانی جینیاتی انجینئرنگ کے ساتھ آرام سے آگے بڑھتے رہیں گے۔
آج اس عالمی انتشار کی ایک مثال ملاحظہ کرنے کے لئے، صرف چین کی بی جی آئی شینزین نامی کمپنی کا دورہ کرلینا کافی ہے،جس نے دنیا میں سب سے زیادہ جینوم ترتیب دینے والے حاصل کر لیے ہیں اور جو ادراکی جینوم کے حوالے سے ہرممکن حد تک کام کررہی ہے۔وائرڈ میں شائع ہونے والے ایک حالیہ مضمون میں چینی دانشمندوں کی اگلی نسل کی تخلیق کے لئے ایک بنیاد کے طور پر ذہانت کے جینیاتی اثرات کا پتہ لگانے کے ضمن میں بی جی آئی شینزین کی کوششوں کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔
مضمون کے مطابق، بی جی آئی کی ٹیم اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ وہ آئی وی ایف / جینیاتی انتخاب کے طریقے کے ذریعے بچوں کے آئی کیو کو 20پوائنٹس تک بڑھاسکتی ہے۔ذہانت ایک انتہائی پیچیدہ اور کثیرالاصلی ٹرین ہے، چنانچہ اس کوشش نے خاصے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔لیکن جب مستقبل کی دنیا میں جہاں بہت زیادہ لوگوں کے جینوم نئے سرے سے ترتیب شدہ ہونگے،اعداد و شمار کے بڑے اوزار زیادہ وسیع پیمانے پرلاگو ہونے لگیں گے، تو یہ کچھ ہی وقت کی بات لگتی ہے کہ اس طرح کا جینیاتی انتخاب اور تبدیلیاں ممکن ہو جائیں گی۔
اور یہ سمجھنے کے لیے کسی بہت بڑے دانشور کی ضرورت نہیں کہ اگر چین اپنی آبادی کی صلاحیتوں میں اضافہ شروع کر دیتا ہے اور امریکہ ایسا نہیں کرتا، تو اس کے سنگین مسابقتی مضمرات ہو سکتے ہیں۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بین الاقوامی مسابقتی دباوٴ معاشروں کو اپنی مرضی کے خلاف جینیاتی صلاحیتیں بڑھانے پر مجبور کرے گا، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ جو معاشرے اپنے لوگوں کی صلاحیتوں میں اضافہ نہیں کریں گے انھیں بھی اُن معاشروں کی طرح جو اپنے لوگوں کی صلاحیتوں میں اضافہ کریں گے، نتائج کا سامنا کرنے کی ضرورت ہو گی۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط