Episode 93 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 93 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

بھیجنے والے کی طرف واپسی؟
میں نے کئی سال پہلے لوور میں پہلی بارجس چھوٹے سنگ مرمر کے مجسمہ کو دیکھا تھا، وہ اگر آج دریافت ہوتا تو، یقینی طور پر اس کی قومی ملکیت کا دعویٰ ایران کی طرف سے کیا جائے گا۔ فرانس کے ایک آثار قدیمہ کے وفد نے بیسویں صدی کے آغاز میں، اسے سوسا سے کھدائی کے دوران دریافت کیا تھا جو آج جدید ایرانی شہر شوش کے طور پر جانا جاتا ہے۔
اس وقت، فارس کی حکومت کے ساتھ خاص انتظامات کے تحت، فرانسیسی ٹیم، اس کھدائی کے نتیجے میں ملنے والی تمام چیزوں کی حق دار تھی، بشرطیکہ وہ ان کے بدلے میں مقامی حکومت کو سونے یا چاندی کی صورت میں معاوضہ ادا کردیتی۔تاہم ملک میں نادر اشیاء کو محفوظ کرنے کے حوالے سے 1930میں نافذ ہونے والے ایکٹ میں ان شرائط کو تبدیل کر دیا گیا۔

(جاری ہے)

اس ایکٹ کے مطابق: اگرریاست یہ اشیاء براہ راست کھدائی کے ذریعے خوددریافت کرتی ہے تو وہ ان تمام اشیاء کا انتظام خود کرسکتی ہے؛ اگرغیر ملکی کھدائی کرنے والے ان اشیاء کو دریافت کرتے ہیں تو، ریاست ان میں سے دس قیمتی اشیاء کو اپنے لیے منتخب اور باقی تمام اشیاء کو کھدائی کرنے والی ٹیم کے درمیان برابر تقسیم کرسکتی ہے۔

1972 میں، نئی قانون سازی نے اس طرح کی تقسیم کو بھی کالعدم قرار دے دیا اور ملک میں ہونے والی تمام تر کھدائی کا اختیار آثار قدیمہ کی تحقیق کے لیے قائم ایرانی سنٹر کے حکام کو دے دیا گیا۔ 1985 میں، حکومت نے ایران کے ثقافتی ورثے کی تنظیم قائم کی اور،اسے ملک میں موجود آثار قدیمہ کے تمام مقامات اور نمونوں کا سروے ، اندراج اور انھیں محفوظ کرنے کا کام سونپ دیا۔
1998 میں، حکومت نے مزید آگے بڑھتے ہوئے ایک قانون منظور کیا جس نے تنظیم کو یہ اختیار دے دیا کہ وہ”قومی اور عالمی سطح پر، ایران کی ثقافتی املاک کو شناخت کرنے اور ملک میں واپس لانے کے لئے ضروری اقدامات کرے“۔
 مصر، اٹلی، ترکی، اور بہت سی دیگر ریاستوں نے ایک صدی یا اس سے زیادہ عرصہ قبل آثار قدیمہ کے ماہرین کے ساتھ اسی طرح کے قانونی انتظامات کئے…تقسیم کی مشق پر عمل پیرا ہوئے، یا ملنے والی اشیاء کا اشتراک کیا گیا … اور پھر انھوں نے اپنی ثقافتی املاک کے بارے میں قوانین میں اسی طرح کی تبدیلیوں کا تجربہ کیا جیسا کہ ایران نے کیا تھا۔
یہ جدید قوانین اکثر آج کی جدید قومی ریاستوں اور ان سے طویل عرصہ پہلے موجود قدیم تہذیبوں کے درمیان تعلقات کو زندہ کرنے پر زور دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، 1971 میں، ایران کے آخری شاہ محمد رضا پہلوی نے، پرسپولیس (تخت جمشید) کے قدیم شہر میں 2500سال پہلے کی،سائرس اعظم کے زمانے کی ایرانی شہنشاہیت کے آثار دریافت ہونے کی سالگرہ کے موقع پر ایک شاندار جشن کا انعقاد کیا تھا ، واضح طور پر اس لیے کہ اس قدیم سلطنت کی عظمت کے ساتھ اپنے زوال پذیر اقتدار کا تعلق ظاہر کرسکیں۔
اقوام متحدہ کے 192 رکن ممالک میں سے آدھے سے زیادہ نے ایسے قوانین بنا رکھے ہیں جو یا تو ملک کی سرحدوں کے اندردریافت ہونے والی قدیم اشیاء کی ملکیت ریاست کو سونپتے ہیں یا پھر ریاست کی منظوری کے بغیر ان کی برآمد پر پابندی لگاتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ ترقوانین کو 1970 کے بعد منظور کیا گیا تھا، یعنی اُس سال جب یونیسکو نے آثار قدیمہ کے نمونوں کی غیر قانونی تجارت کے خلاف ایک کنونشن منظور کیا تھا۔
وطن واپسی کے متنازعہ ترین حالیہ دعوؤں میں سے دو ،بالترتیب یونان اور مصر سے نکالی جانے والی اشیاء سے متعلق ہیں، جنہیں 1970 سے طویل عرصہ پہلے نکالا گیا تھا: پہلا دعویٰ پارتھینون سنگ مرمر (جسے ایلگن سنگ مر کے طور پر بھی جانا جاتا ہے) سے متعلق ہے، یہ دراصل یونانی مجسمے اور فن تعمیر کے ٹکڑوں کا ایک مجموعہ ہیں، انھیں ایک برطانوی سفیر نے 1801 سے 1812 کے درمیان حاصل کیا اور پھر لندن بھیج دیا تھا اور اب یہ برٹش میوزیم میں موجود ہیں، اور دوسرا دعویٰ نفرتیتی (مصر کے فرعون کی ملکہ ) کی مورتی سے متعلق ہے، اسے 1912 میں جرمن آثار قدیمہ کے ماہرین نے دریافت کیا تھا اور بعدازاں برلن لایا گیا تھا۔
اب یہ برلن کے NEUES میوزیم میں نمائش کے لیے رکھی گئی ہے۔
پارتھینون سنگ مرمر کے مجموعے کوسلطنت عثمانیہ کے حکام کی اجازت سے پارتھینون اور ایتھنز کے ایکروپولس کمپلیکس کی دوسری عمارتوں سے اُتارا گیا تھااور یہ 1817سے برٹش میوزیم میں نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔ یونان نے 1834 تک نوادرات اور قدیم اشیاء کے انتظامات سے متعلق قانون منظور نہیں کیاتھا۔
جب یونان نے 1829 میں سلطنت عثمانیہ سے آزادی حاصل کی، تو یونان نے ایکروپولسAcropolis کو اپنی قومی علامت بنالیا، اور پھر بازنطینی چرچ کی باقیات، ایک قدامت پسند اور رومن کیتھولک گرجا گھر، اور ایک مسجد سمیت قلعے کی عمارتوں پر تمام غیریونانی اضافوں کو ہٹادیا گیا۔ (منصوبے کے انچارج جرمن معمار نے عہد کیا تھا کہ”بربریت کی تمام باقیات کو ہٹا دیا جائے گا“)۔
پھر بھی، یونانی حکومت مسلسل دعویٰ کرتی آئی ہے کہ،سنگ مرمر کے مجموعے کی واپسی پارتھینون کو ”ایک بار پھر یکجا“ کردے گی۔
نفرتیتی کی مورتی 1913سے برلن میں موجود ہے، جب مصر…سلطنت عثمانیہ کی طرف سے اسے اپنا ایک صوبہ قرار دئیے جانے کے باوجود، عملی طور پر برطانیہ کے زیرِ حکومت تھا۔ مصر کی حکومتوں نے 1920 کی دہائی کے بعد سے مورتی کی واپسی کے لئے جرمنی کو درخواستیں دی ہیں۔
جرمنی نے ہمیشہ انکار کیا ہے، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ مورتی کو قانونی طور پر جرمن کھدائی کرنے والی ٹیم اور مصری حکام کے درمیان طے شدہ تقسیم کے حصے کے طور پر لے جایا گیا تھا۔ دسمبر 2009 میں، برلن کے مصری میوزیم (جس کی نادر اشیاء کا مجموعہ، NEUES میوزیم کا حصہ ہے)کے ڈائریکٹر نے…مورتی لے جانے کے اختیار، جرمن کھدائی کرنے والوں اور مصری آثار قدیمہ سروس کی طرف سے دستخط کئے گئے ایک پروٹوکول سمیت، تمام تاریخی دستاویزات پیش کردی تھیں۔
مصری حکام الزام لگاتے ہیں کہ کھدائی کرنے والی جرمن ٹیم نے پروٹوکول میں مورتی کی اہمیت کو غلط طور پر پیش کیا تاکہ مصر کے حکام کو دھوکہ دیکر اسے مصر سے باہر لے جاسکیں…جرمن حکومت اور میوزیم کے حکام نے اس الزام کی مسلسل تردید کی ہے ۔
ان اور ایسے دیگر تنازعات میں، 1970 کے یونیسکو کنونشن نے وطن واپسی کے لئے مختلف ممالک کے مطالبات کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
لیکن یہ کنونشن 1970 سے پہلے موجود قومی ثقافتی ورثے کے قواعد و ضوابط کی جگہ نہیں لے سکتا، اور نہ ہی یہ بذات خود کوئی قانون ہے۔ یہ دراصل نوادرات کی تجارت کو ضوابط کا پابند بنانے اور ان کی لوٹ مار اور غیر قانونی تجارت کو روکنے کے لئے ،اس پر دستخط کرنے والے 115 ممالک کے درمیان ایک معاہدہ ہے۔ابتدائی برسوں کے دوران کنونشن کی شرائط کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی، کیونکہ عجائب گھر اور انفرادی طور پر نادر اشیاء جمع کرنے والے ان کی مناسب قانونی حیثیت یا مصدقہ ہونے کے بارے میں احتیاط سے غور کیے بغیر ان نوادرات کو حاصل کرلیتے تھے۔
2008میں ایک بڑی تبدیلی اُس وقت آئی جب آرٹ میوزیم ڈائریکٹرز ایسوسی ایشن نے نوادرات کے حصول سے متعلق اپنی پالیسیوں کو یونیسکو کے چارٹر سے ہم آہنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ، کینیڈا، اور میکسیکو نے اس بات پر اتفاق کرلیا کہ”عجائب گھروں کو آثار قدیمہ پر مبنی اشیاء اور قدیم آرٹ کو معمول کے مطابق یہ ظاہر کیے بغیرحاصل نہیں کرنا چاہیے کہ وہ اشیاء قانونی طور پر اس کے اصل ملک سے باہر لے جائی گئی ہیں یا پھر 17نومبر 1970سے پہلے ملک سے باہر لے جائی گئی تھیں۔
یہ فیصلہ بڑی حد تک چوری شدہ نوادرات کے اسکینڈلوں کا جواب تھا، جو وطن واپسی کے دعوؤں کے لئے ایک طاقتور دلیل فراہم کرتے ہیں۔ 1990 کی دہائی کے آخرمیں، سوئس اور اطالوی پولیس نے اطالوی آرٹ ڈیلرجیاکومو میڈیسی کے جنیوا میں واقع گودام پر چھاپہ مارا، اور وہاں ایسی تصاویر اور دستاویزات برآمد کیں جن سے اُس کے نوادرات کی غیر قانونی فروخت میں بہت زیادہ ملوث ہونے کا انکشاف ہوا۔
میڈیسی کے ذریعے اشیاء حاصل کرنے والے امریکی عجائب گھروں کی ایک بڑی تعداد کو بھی جرم میں ملوث قرار دیا گیا تھا۔ اصل میں، یہ میڈیسی سکینڈل ہی تھا جس نے بالآخر 2007میں، میٹروپولیٹن میوزیم آف آرٹ، میوزیم آف فائن آرٹس بوسٹن ، جے پال گیٹی میوزیم لاس اینجلس، اور پرنسٹن یونیورسٹی آرٹ میوزیم ، جیسے عجائب گھروں کو 69 نادر اشیاء روم واپس بھیجنے پر مجبور کیا۔
دعوؤں کا کھیل 
اگرچہ یونیسکو کنونشن نے نوادرات کی غیر قانونی تجارت کے خلاف کریک ڈاوٴن میں مدد کی ہے اور غیرقانونی طور پرحاصل کیے گئے آرٹ کے نمونوں کی ان کے اصلی وطن کو واپسی کی وجہ بنا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے کئی حکومتوں کو نوادرات کی واپسی کے جارحانہ اور بعض دفعہ مشکوک دعوے کرنے پر بھی مائل کیا ہے۔ جیسا کہ مصر کے اس وقت طویل عرصہ سے خدمت انجام دیتے چلے آرہے نوادرات کے وزیر زاھی حواس نے 2010میں کہا تھا کہ،”ہم نادر اشیاء کو ان کے اصل وطن واپس بھیجنے سے انکار کرنے والے عجائب گھروں کے لئے جینا مشکل کردیں گے“۔
اور ریاستیں ہی تنہا یہ کوششیں نہیں کررہیں۔یونیسکو، ثقافتی تبدیلیوں کے بارے میں جو بھی کہتا ہے اس کے باوجود ،، وہ ثقافتی اشیاء کی وطن واپسی میں مدد کے لیے قومی ریاستوں کے ساتھ شامل ہوگیا ہے،اس بنیاد پر کہ وہ ملکوں کے خصوصی قومی ورثے کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اس کی اصل وطن کی نشاندہی کرنے اورنادر اشیاء کو واپس بھیجنے والی کمیٹی کو”کسی بھی ایسی ثقافتی ملکیت“ کی واپسی کے لئے دو طرفہ مذاکرات کی سہولت کے لئے ایک وسیع مینڈیٹ حاصل ہے، جس کے بارے میں ریاست سمجھے کہ وہ”اس کے لوگوں کی روحانی اقدار اور ثقافتی ورثے کے نقطہ نظر سے بنیادی اہمیت“ رکھتی ہے۔
ان دعووٴں کا اطلاق کسی بھی ایسی چیز پر ہوسکتا ہے جسے ”نوآبادیاتی یا غیر ملکی قبضے یا پھر غیر قانونی ملکیت کے نتیجے میں“ ملک سے باہر لے جایا گیا ہو۔” عجائب گھروں کی بین الاقوامی کونسل، جو کہ یونیسکو اور اقوام متحدہ کی اقتصادی و سماجی کونسل کے ساتھ رسمی تعلقات رکھنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ہے، وہ بھی اسی طرح کے ہر چیز کا احاطہ کرنے والے رہنما اصول رکھتی ہے۔
کونسل ہر اُس عجائب گھر کو جس کے نوادرات کے مجموعے میں ایسی اشیاء موجود ہوں جن کی اصل وطن واپسی کے لیے دعویٰ کیا گیا ہو،ہدایت کرتی ہے کہ”وہ اس کی واپسی میں تعاون کرتے ہوئے فوری طور پر اور ذمہ دارانہ اقدامات کرے“۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب کوئی شے ان کے ثقافتی ورثے کا حصہ ہوتی ہے تو مختلف ممالک انفرادی طور پر اکیلے ہی اس کا فیصلہ کرتے ہیں:کیونکہ فیصلہ کرنے کا اختیار رکھنے والا کوئی بین الاقوامی ادارہ موجود نہیں ہے۔
کوئی قومی حکومت یا حکومتی حمایت رکھنے والا ادارہ ، کسی سابقہ ریاست یا حکومت کی خود ساختہ قومی ثقافتی املاک کو بُت پرستانہ قرار دے سکتا ہے اور اس کو تباہ کرسکتا ہے، اور کوئی دوسرا ملک یا بین الاقوامی ایجنسی اسے روکنے کے لئے کچھ نہیں کر سکتے۔ 2001 میں، یونیسکو نے بامیان بدھا کے مجسموں کے انہدام سے طالبان کو روکنے کے لئے بیکار کی کوشش کی تھی، یہ مرکزی افغانستان کے ایک پہاڑ میں کھدے ہوئے چھٹی صدی کے دو یادگار مجسمے تھے ۔
یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان ملاقات بھی مجسموں کو نہیں بچا سکی۔
اس بدنام زمانہ حملے کے بعد سے، دنیا کے ثقافتی ورثے کو لاحق خطرات زیادہ عام ہوئے ہیں۔ یونیسکو نے ایسے مقامات کی فہرست مرتب کر رکھی ہے جہاں اس کے مطابق ثقافتی ورثے کی حفاظت کے لئے ”ہنگامی اقدامات“ کی ضرورت ہے؛ فہرست میں فی الحال مصر، ہیٹی، عراق، لیبیا، مالی، اور شام جیسے مقامات شامل ہیں جہاں ثقافتی املاک کو یا تو مسلح تصادم سے خطرہ ہے یا ہیٹی کے معاملے میں قدرتی آفات کی صورت میں یہ خطرات سے دوچار ہیں۔
یونیسکو کی قیادت میں یہ اقدامات نقصان کی حد اور شدت کا جائزہ لیتے اور ان کا اندراج کرتے ہیں، مثال کے طور پر شام میں واقع قدیم صحرائی شہر تدبرکے رومن دور کے کھنڈرات، اور حلب کا پرانا شہر، دونوں یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ کے طور پر نامزد کردہ مقامات ہیں اور دونوں کو 2012 میں شام میں جاری خانہ جنگی کے دوران شامی فوج اور باغیوں کے درمیان لڑائی کی وجہ سے نقصان پہنچا تھا، اور مصر کا قاہرہ میں واقع اسلامی آرٹ کا عجائب گھر، جسے جنوری میں اسلامی عسکریت پسندوں کی طرف سے کیے گئے ایک بم دھماکے میں نقصان پہنچا تھا۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط