Episode 95 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 95 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

زیرِ زمین نشانیاں، زمین دوز جنگ و جدل کی طویل تاریخ(آرتھر ہرمن)
(آرتھر ہرمن،ہڈسن انسٹی ٹیوٹ میں ایک سینئر فیلو اور کتاب :Freedom's Forge: How American Business Produced Victory in World War II کے مصنف ہیں)
 اسرائیل اور غزہ کے درمیان حالیہ جنگ کی سب سے زیادہ حیرت انگیز پیش رفت غالباً سرنگوں کے اُس جدید ترین نیٹ ورک کی دریافت تھی جو حماس نے خاموشی سے پچھلے برسوں میں تیار کی تھیں۔
غزہ کے نیچے بنی یہ تاریک ،سادہ سرنگیں، اسرائیل کی طرف سے زمین کی سطح پر تعینات کردہ جدید توپ خانے کے لیے بالکل برابری کا مقابلہ پیش کرتی ہیں۔
لیکن اگرسرنگوں سے جنگ کا قدیم تصور اُبھرتا ہے، تب بھی اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اُنھیں ایک فوجی مہم کے طور پر یکسر مسترد کر دیا جائے۔ آج استعمال کیے جانے والے سب سے زیادہ جدید ہتھیاروں کے نظام سے تقابل میں، سرنگیں وقت کی کسوٹی پر پوری اُترتی ہیں: صدیوں سے، وہ فوجی یونٹوں کو، نظروں میں آئے بغیر دشمن تک پہنچنے کے قابل بناتی رہی ہیں اور انھوں نے کمزور جنگجوؤں کو میدان جنگ کا نقشہ اپنے حق میں کرنے کے قابل بنایا ہے۔

(جاری ہے)

یہ جاننے کاکوئی راستہ نہیں کہ ڈرون یا لیزرز یا اینٹی میزائل دفاعی نظام کب تک باقی رہیں گے ۔ لیکن جب تک جنگ و جدل ہوتا رہے گا، سرنگیں تقریباً یقینی طور پر لڑائی کا حصہ ہوں گی۔
زمانہٴ قدیم سے جدید دور تک
سرنگوں اور غاروں، جو کہ سرنگوں ہی کی ارضیاتی پیشرو ہیں، کی ایک طویل تاریخ ہے جو بائبل کے زمانے سے چلی آرہی ہے۔کم از کم 3ہزار سال پہلے ، برسرپیکار آبادیاں خود کو چھپانے، اور، مضبوط دشمنوں پر حملہ کرنے کے لئے ان کو استعمال کرتی رہی ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے، اس علاقے میں بھی خاص طور پر ایسا ہی ہوتا رہا ہے، جہاں آج اسرائیل اور فلسطین واقع ہیں۔ آثار قدیمہ کے ماہرین نے مقدس سرزمین میں 450 سے زائد قدیم غاروں کے نظام دریافت کیے ہیں، جن میں بہت سی ایسی بھی شامل ہیں جوپہاڑوں کی ڈھلوانوں میں بنائی گئی تھیں،جنھیں 66سے 70عیسوی میں عظیم یہودی بغاوت کے دوران یہودیوں نے، روم کے فوجی دستوں پر گوریلا طرز کے حملے کرنے کے لیے استعمال کیا تھا۔
رومیوں کو بھی تقریباًاسی وقت یورپ میں رائن اور ڈینیوب سرحدوں کے قریب جرمن قبیلوں کے خلاف اپنی جنگ میں ایسے ہی حربے کا سامنا کرنا پڑا تھا، جو سُرنگوں سے منسلک خفیہ خندقیں کھودتے اور پھر رومی سپاہیوں پر گھات لگا کر حملہ کرنے کے لئے اچانک زمین سے باہر نکل آتے تھے۔ 
لیکن سرنگوں کا استعمال صرف دراندازی تک محدود نہیں رہاہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ رومی سلطنت نے جنگ کے دوران محاصرے میں ایک جارحانہ ہتھیار کے طور پر ان کا استعمال شروع کردیا۔
کسی شہر کی دیواروں تک ایک خفیہ خندق کھودکر، اور اس کے بعد دیواروں کو کمزور کرنے اور ان میں شگاف ڈالنے کے لیے نیچے سُرنگ بناکر، رومیوں نے جان لیا تھا کہ اس طرح، شہر کی آبادی کو ناکہ بندی کے ذریعے فاقہ کشی کا شکار کرنے اور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے سے کہیں پہلے ہی محاصرے کا خاتمہ ممکن تھا۔ 
شاید، اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں تھی کہ، اس انداز میں سرنگوں کے استعمال نے جلد ہی متوازی سُرنگیں بنانے کی حوصلہ افزائی کی۔
قدیم رومن موٴرخ Polybius، 189 قبل مسیح کے ایک یونانی شہر Ambracia کے محاصرے کا احوال بیان کرتے ہیں، جہاں رومیوں نے شہر کی دیوار کے ساتھ ایک متوازی سرنگ کی کھدائی شروع کی تھی:
خاصے دنوں تک محصورین کو معلوم نہ ہوسکا کہ (رومی) زمین کی کھدائی کررہے ہیں۔لیکن جب مٹی کے ڈھیر اتنے اونچے ہوگئے کہ انھیں شہر کے اندر موجود لوگوں سے مخفی رکھنا ممکن نہ رہا تو، محصور چوکی کے کمانڈر، شہر کے اندر دیوار کے متوازی خندق کھودنے کے کام میں بھرپور طریقے سے جُت گئے…جب خندق کو مطلوبہ گہرائی تک کھود لیا گیا، تو انھوں نے اس کے بعد دیوار کے نزدیک ترین خندق کی تہہ میں قطار در قطار انتہائی مضبوط برتن لا رکھے، جنہیں بہت باریک بنایا گیا تھا… اور وہ باہر ہونے والی کھدائی کا شور سُننے لگے۔
یہ مضبوط برتن جو غیرمعمولی طور پر حساس تھے اور باہر سے آنے والی آواز پر ہلنے لگتے تھے، ان میں سے کسی کے ذریعے، اشارہ ملتے ہی وہ جگہ کا تعین کرلیتے اور اندر کی جانب خندق کھودنا شروع کردیتے…اور اس طرح اس بات کا حساب رکھتے کہ وہ بالکل دشمن کی سرنگ کے سامنے ہو۔
یہ ایک مقابل سُرنگ بناکر ایک سُرنگ بنانے والے دشمن کو روکنے اور اس کی کو ششوں میں رکاوٹ ڈالنے کا بہت موثر بیان ہے۔
(یہ سرنگوں کا پتہ لگانے کے لیے صوتی صلاحیتیں استعمال کرنے کا بھی پہلا بیان ہے ،یہ وہ حکمت عملی ہے جو وقت کے ساتھ اگرچہ زیادہ موثر تو نہیں، لیکن پہلے سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ شکل اختیار کر گئی ہے )۔سلطنت فارس کی جانب سے 256 عیسوی میں رومن شہر دورا اروپوس (Dura-Europos ) کا محاصرہ کرنے سے ایک اور پیش رفت ہوئی:جب شہر کی دیواروں کے نیچے سلطنت فارس کی فوجوں کی بنائی سُرنگیں رومیوں کی متوازی سُرنگ سے آٹکرائیں، تو اُنھوں نے اندر موجود دشمن فوجیوں کو دم گھٹنے سے ہلاک کرنے کیلئے سُرنگ کوپچ اور گندھک سے بنائی گئی ایک زہریلی گیس سے بھر دیا…یہ جنگ میں گیس کے استعمال کی پہلی معلوم مثال ہے۔
سرنگ اور متوازی سُرنگ بنانے کا فن سارے قرون وسطیٰ کے دور میں جاری رہا، جبکہ فوجیں مسلسل برتری حاصل کرنے کے نئے طریقے تلاش کرتی رہیں۔ شتو گیلارڈ( Chteau Gaillard) نامی محل جو کہ انگریز بادشاہ رچرڈشیردل نے تعمیر کروایا تھا، اس کے ( 1203سے1204تک جاری رہنے والے)محاصرے کے دوران، فرانسیسی فوجیوں کو تین مضبوط دفاعی دیواروں کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ بالآخر ایک غسل خانے سے پانی کے نکاس کا راستہ دریافت کرلینے کی وجہ سے نقب لگانے میں کامیاب ہوگئے ، یہ راستہ محل کے اندر ایک عبادت گاہ میں لے جاتا تھا۔
سولہویں صدی میں، جب سرنگوں کی مدد سے لڑی جانے والی جنگ میں بارود کو بھی شامل کرلیا گیا ، تو اس کے نتائج حقیقتاً تباہ کن اور انتہائی ہلاکت خیز تھے۔ یورپی فوجوں نے دشمن کی قلعہ بندی کو کمزور یا دھماکے سے اُڑادینے کے لیے خفیہ خندقوں میں بارود کے بیرل نصب کرنے کے جدید طریقے اختیار کیے جسے ”سیپ Saps“ یعنی بتدریج کمزور یا تباہ کرنے کے عمل کا نام بھی دیا جاتا ہے (اور اسی سے سیپر کی اصطلاح بنی ہے جو اس انجینئر کے لیے استعمال کی جاتی ہے جس نے خطرناک قسم کا کام کیا ہو)۔
یہ تکنیک امریکی خانہ جنگی کے دوران، جولائی 1864 میں پیٹرز برگ کے محاصرے میں انتہائی عروج پر پہنچ گئی، جب یونین کے فوجیوں نے خفیہ طور پرکنفیڈریٹ لائنز کے نیچے ایک سرنگ کھود لی،لیکن انھوں نے اسے بارود کے اس قدر زیادہ بیرل رکھ کر بھر دیا کہ وہ اس کے نتیجے میں ہونے والے آتشی دھماکے کی وجہ سے باہر ہی نہ نکل سکے۔اس جنگ میں جسے اب آتشی دھماکے crater کی جنگ کا نام دیا گیا ہے ،کنفیڈریٹ Confederate فوجی محض سرنگ کے کناروں کے ارد گرد کھڑے ہوئے اور انھوں نے اندر بارود سمیت موجود اپنے بے بس دشمن پر ہلاکت خیز آگ انڈیل دی۔
پہلی عالمی جنگ کے آغاز تک، سرنگ بنانے والے انجینئرز کااہم کام صرف شہروں کو محفوظ بنانے کے لئے سرنگوں کی تعمیر ہی نہیں رہ گیا تھا ، بلکہ اب انھیں مغربی محاذ پرطویل خندقیں بھی تعمیر کرنا تھیں۔ خندقیں بنیادی طور پر سرنگوں کے مضبوط نظام کا حصّہ تھیں جو چاروں طرف کے اگلے مورچوں کے طور پر کام آتا تھا؛ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ جب فوجوں نے دشمن کی خندقوں کو اُڑانے کی کوشش کرنے کے لئے سرنگوں کی تعمیر شروع کردی۔
برطانوی اس کام میں سب سے زیادہ ماہر ثابت ہوئے۔ 1916 میں ہونے والی سوم Somme کی لڑائی میں، انھوں نے جرمن فوج کی بنائی خندق کے نیچے بچھی بارودی سُرنگ کو کامیابی سے اُڑادیا تھا۔ 1917 میں، معرکہٴ میسینز میں، برطانوی فوج نے ایک وسیع حکمت عملی وضع کی اور18 ماہ کے دوران جرمن لائنوں کے نیچے 22 مختلف سرنگیں یا بارودی راستے کھود دئیے۔ جرمنوں نے ایک بارودی راستے کو تلاش کرلیا تھا جسے برطانوی ترک کرچکے تھے، لیکن باقی اکیس کا جرمنوں کو بالکل پتا نہ چلا اور یہ 450ٹن ٹی این ٹی سے بھرے ہوئے تھے۔
30 مئی کو، دھماکہ خیز مواد پھٹنے سے تھوڑی دیر پہلے ، برطانوی جنرل ہربرٹ پلومر نے اپنے ماتحتوں کو بتایا کہ ”ساتھیو، ہم کل شاید نئی تاریخ تو رقم نہ کرسکیں، لیکن ہم یقینی طور پر جغرافیہ تبدیل کرکے رکھ دیں گے“۔دھماکے نے اس زوردار طریقے سے میسینز کی پوری پہاڑی کو اُڑا کر رکھ دیا کہ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ لائیڈ جارج نے10 ڈاوٴننگ سٹریٹ لندن میں اس کو سُننے کا دعویٰ کیا تھا۔
دس ہزار جرمن فوجی فوری طور پر ہلاک یا زندہ دفن ہوگئے تھے۔تاہم ،پلومرکا کہنا درست تھا۔اگرچہ برطانویوں نے میسینز رج میں جو باقی بچا تھا اس پر قبضہ کرلیا تھا لیکن ، اس نے جنگ کے نقشے کو تبدیل نہیں کیا تھا۔ اس کے بجائے، یہ ڈیڑھ سال تک مزید چلتی رہی۔
اچھی جنگ کے زیرِ سایہ
پہلی عالمی جنگ میدان جنگ میں تین نئی اختراعات کا سبب بنی… زمینی ٹینک ،انتہائی دھماکہ خیز مواد کے گولے فائر کرنے والا توپ خانہ ، اور ہوائی جہاز…ان تینوں چیزوں نے کھلے آسمان تلے بیٹھی دشمن فوجوں کو انتہائی کمزور بنا کر رکھ دیا۔
جنگ کے بعد، فوجی حکمت عملی کے بعض ماہرین نے سرنگوں سے منسلک گہرے احاطوں کو ناقابل تسخیر پناہ گاہیں اور ٹھکانے تصور کرتے ہوئے ،پوری فوج کو زیرِزمین رکھ کر اس کا توڑ کرنے کی کوشش کی۔ ان کوششوں میں سے سب سے مشہور (اور سب سے زیادہ لاحاصل) فرانس کی نام نہاد میجینوٹ لائن تھی،یہ دراصل بنکروں اور سپلائی ڈپوؤں کا ایک وسیع زیر زمین نظام تھا جو زمین کے اوپر تعمیرشدہ 22بڑے اور 36چھوٹے قلعوں کو مدد فراہم کرتا تھا، یہ قلعے آپس میں ایک ڈیزل انجن سے چلنے والے ریلوے نظام سے منسلک تھے جو سرنگوں کے جال سے گزرتی تھی۔
تاہم،1940میں، جرمنی کی mobile blitzkrieg (زمینی اور فضائی افواج کی مدد سے تیز اور اچانک حملہ کرنے )کی حکمت عملی نے فرانس کی میجیونوٹ لائن کو مکمل طور پر بے اثر کردیاتھا اور فرانس نے قلعہ میں موجود ہزاروں فوجیوں کی طرف سے ایک بھی گولی چلائے جانے سے پہلے ہی جنگ ہار دی تھی۔
امریکی فوج نے بھی منیلا کی خلیج میں کوریجی ڈور نامی جزیرے پر ایک ایسی ہی لیکن چھوٹے پیمانے پرچیز بنائی تھی، جو 831 فٹ طویل، تقریباً 24فٹ وسیع اور 18فٹ اونچی سُرنگ کے ساتھ بنی تھی، اور اس کے ذریعے ٹھوس چٹان پر بنے توپ خانے کے پیچیدہ مقامات پر گولہ بارود اور سپلائی فراہم کی جاتی تھی۔
24 اضافی بغلی سرنگیں اسٹوریج اور فوجیوں کے لئے سونے کے کواٹرز فراہم کرتی تھیں۔یہی وہ جگہ تھی جہاں امریکی جنرل ڈگلس میک آرتھر، ان کے خاندان و عملے، اور فلپائن کے صدر مینوئل کوئیزون نے دسمبر1941 میں فلپائن کے جزیرے لوزاون پر جاپانی حملے کے بعدپناہ لی تھی۔لیکن اپنے میجی نوٹ نامی ہم عصر کی طرح کوریجی ڈور پر بنی سُرنگ بھی ناقابل تسخیر قلعے کی بجائے ایک فریب ثابت ہوئی کیونکہ دوسری جنگ عظیم کے متحرک جنگ کے طریقوں نے اسے بے کار اور متروک طریقہ بناکر رکھ دیا۔
آج یہ دونوں مقامات سیاحوں کی دلچسپی کے سامان اور فوجی حماقت کی علامت کے سوا کچھ نہیں۔
لیکن اسی دور میں جب یہ بہت بڑے زیر زمین احاطے تعمیر کیے جارہے تھے، سرنگیں بھی مزاحمت کاروں کے خلاف ایک آلہ کے طور پر نئے سرے سے کام میں آنے لگیں۔اس بارسرنگوں کے استعمال کو دوبارہ عام کرنے والے چینی تھے، جنہوں نے چین اور جاپان کی جنگ میں اسے استعمال کیا، خاص طور پر صوبہ ہیبی کے گاؤں رانزو آنگ میں 1937سے 1938تک ہونے والی لڑائی کے دوران۔
چین کے چھاپہ ماروں نے گاؤں کے گھروں سے لیکر میدان جنگ کے گڑھوں تک 9میل طویل سُرنگیں کھود دی تھیں، تاکہ وہ جاپانی فوجیوں پر عقب سے حملہ کرسکیں۔سرُنگوں کا آغاز یا اختتام کسی گھر یا کنویں میں ہوتا تھا، جس سے چھاپہ مار گوریلا فوجی نظروں میں آئے بغیر ان میں داخل ہوسکتے اور باہر نکل سکتے تھے۔
 تاہم جاپانیوں نے جلد ہی انھیں پکڑلیا، اور سُرنگوں میں پانی یا زہریلی گیس بھی بھرنا شروع کر دی۔
چینیوں نے اس کا جواب فلٹرنگ نظام نصب کرکے دیا جو پانی اور گیس کو بے اثر کردیتا تھا۔چوہے بلی کا یہ کھیل… جو اب سرنگ پر مبنی جنگ کا اہم حصہ بن چکا ہے…اس وقت تک جاری رہا جب بالآخر جاپانیوں نے جنگ سے ہاتھ کھینچ لیا۔ران زوآنگ کی سُرنگ جنگ کے نتیجہ کے ضمن میں کس حد تک اہم تھی، یہ تو ایک بحث طلب بات ہے۔لیکن چینیوں کے لیے وہ جاپانی حملہ آوروں کے خلاف ایک بے خوف مزاحمت کی علامت ہے اور، وہ میجی نوٹ کی طرح سیاحوں کی توجہ کا مرکز بھی ہے۔
تاہم،جاپانیوں نے چین کے خلاف سرنگوں پر مبنی جنگوں سے جو کچھ سیکھا تھا،وہ دوسری عالمی جنگ میں امریکی میرینز کے خلاف جنگ میں اُن کے لیے بے حد فائدہ مند ثابت ہوا۔ انھوں نے اسی طریقے کو اختیار کرتے ہوئے پہلے پیلیلیو Peleliu کے جزیرے پر اور پھر ایوو جیما میں، مخفی بنکرز بنائے اور انھیں سرنگوں کے ایک وسیع نیٹ ورک سے جوڑدیا۔وہاں، انھوں نے ایک پوری پہاڑی ”ماؤنٹ سری بچی“کو کنکریٹ سے جُڑے بنکرز اور سُرنگوں کے چھتے میں بدل دیا ، ان سُرنگوں سے باہر نکلنے کے کئی راستے بنائے گئے تھے تاکہ میرینز جب سُرنگ کے ایک سرے کو خالی کرنے لگیں تو خود کو اچانک دوسرے سرے سے حملے کی زد میں پائیں۔
جاپانی سُرنگیں صاف کرنا ایک بے حد مشکل کام تھا۔ خون کے آخری قطرے تک لڑتے رہنے کا عزم کیے ہوئے جاپانی فوجیوں کا سامنا کرتے ہوئے، امریکی میرینز نے اُن کے خلاف آگ کے شعلے پھینکنے، دھماکہ خیز حملوں، اور دستی بموں کے استعمال کو ترجیح دی (لڑائی کے امریکی قوانین کے مطابق، زہریلی گیس کا استعمال نہیں کیا جاسکتا تھا)۔پیلیلیو میں لڑنے والے میرینز فوجیوں کو ٹراوا میں لڑنے والوں کی نسبت دوگنا ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑا، جس کی بڑی وجہ یہ سرنگیں ہی تھیں۔
ایوو جیما کے جزیرے کی تباہی کے دو ماہ بعد بھی میرینز جزیرے کو ان سُرنگوں سے پاک کرنے کے کام میں مصروف تھیں۔
جاپانی فوجیوں کے پاگل پن کے پیچھے ایک وجہ موجود تھی۔ وہ یہ اُمید کررہے تھے کہ جس قدر ممکن ہوسکے امریکی فوجیوں کو ہلاک کرکے…امریکہ کی فتح کو ہر ممکن حد تک، سُست، دردناک، اور مہنگی بنا کر… وہ واشنگٹن کو جاپان کے اندرونی جزائر پر بھرپور حملے کی کوشش کرنے سے باز رکھ سکیں گے۔ اُن کی یہ حکمت عملی کام کرگئی، لیکن اس طریقے سے نہیں جیسے کہ جاپانی اُمید کررہے تھے۔ ایک بھرپورحملہ کرنے سے بچنے کے لیے، امریکی صدر ہیری ٹرومین نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا کر جنگ ختم کرنے کا راستہ منتخب کیا۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط