Episode 98 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 98 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

ہم آگے نہیں جا سکتے، ہم چلتے جائیں گے
 2009 میں اقتدار سنبھالنے کے ایک ماہ سے کچھ ہی زیادہ عرصہ بعد ، صدراوباما نے کیمپ لوح جرن میں ایک اہم تقریر کرتے ہوئے عراق میں امریکی جنگ ختم کرنے اور صدر بُش کی طرف سے 2011کے اختتام تک عراق سے تمام امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کے معاہدے کے عین مطابق واپسی کے لیے ٹائم ٹیبل دینے سے متعلق اپنی انتخابی مہم کے عہد کادوبارہ اعادہ کیا۔
تاہم، عین اسی وقت، پنٹا گان کے حکام عراق میں امریکی فوجی لیڈروں سے یہ کہہ رہے تھے کہ اگر حالیہ سالوں میں حاصل کردہ فوائد کو محفوظ بنانے کے لئے ضروری ہو تو صدر نے 2011کے بعد بھی غیر جنگی مقاصدکے لیے وہاں فوجیں رکھنے کے خیال کا راستہ کھلا رکھا ہے۔ نتیجے کے طور پر، فوج کو صدر بش کے 2008 کے معاہدے کی سختی سے پاسداری (اور اس طرح امریکی جنگ ختم کرنے کے اوباما کے انتخابی وعدے کو پورا کرنے ) کے لیے منصوبہ بندی کرنا تھی، اور ساتھ ہی خاموشی سے ایسی صورت حال کے لیے دوسرے راستوں کو بھی تیار کرنا تھا کہ صدر اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرتے اور معاہدے پر دوبارہ گفت و شنید کے راستے کا انتخاب کرلیتے ہیں۔

(جاری ہے)

 
2009 ء کے آخر تک، عراق میں امریکی افواج کے کمانڈر جنرل ریمنڈ اوڈیرنو اس نتیجے پر پہنچے کہ عراق میں امریکی پالیسی کے مقاصد 2011کے آخر تک حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ انہوں نے اپنے ان اندازوں کو امریکی مرکزی کمان اور پنٹاگان کے حکام، اورقومی سلامتی کونسل کے عملے تک بھی پہنچایا۔انھوں نے اور ان کے عملے نے کانگریس کے ارکان کو بھی، خفیہ اور غیر مرتب شدہ کھلی رپورٹس اور بریفنگز، فراہم کیں۔
تاہم اوڈیرنو اور دوسروں کی کوششوں کے باوجود، اوباما انتظامیہ کی طرف سے سونپے گئے سٹریٹجک مقاصد اور ان کی تکمیل کے لیے جو وقت اور وسائل وائٹ ہاوٴس دینے پر آمادہ تھا،ان کے درمیان ایک بڑا فرق پیدا ہوچکا تھا۔
عراق کی اندرونی سیاست نے بھی تصویر کو پیچیدہ کیا۔ پارلیمانی انتخابات مارچ 2010 میں ہونے والے تھے، اور اوباما انتظامیہ نے امریکی افواج رکھنے کے بارے میں عراقی حکام کے ساتھ بات چیت کو ملک میں ایک نئی حکومت کی تشکیل تک ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا۔
لیکن انتخابات صورت حال واضح کرنے والا لمحہ ثابت نہیں ہوئے، جیسا کہ اوباما انتظامیہ اُمید کررہی تھی: اس کے بجائے، وہ ایک متنازع قانونی اور سیاسی لڑائی میں تبدیل ہو گئے جسے حل ہونے میں نو ماہ کا عرصہ لگ گیا۔بالآخر ، نومبر2010 میں، عراق کی پارلیمنٹ نے مالکی کو بطوروزیر اعظم دوسری مدت کے لئے منتخب کرلیا۔ لیکن سیاسی لڑائی نے عراق کے سیاسی نظام میں باہمی دشمنی اور اعتماد کے فقدان کو گہرا کردیا تھا، اورپارلیمنٹ کے اندر بھی گہری فرقہ وارانہ تقسیم کو فروغ دیا تھا۔
حکومت کے قیام کے بعد جلد ہی، مالکی نے وہ بہت سے وعدے توڑ دئیے جو انھوں نے اپنے انتخاب کو محفوظ بنانے کے لیے کیے تھے۔اس کا نتیجہ سیاسی طور پر مفلوج ہوجانا تھا، یعنی ایسی حالت جس نے بعدازاں،2011 کے بعد عراق میں امریکی موجودگی کے سوال کو حل کرنے کے امکانات کو نقصان پہنچایا۔
آپ مجھے اب چھوڑ دیتے ہیں تو
 ستمبر 2010 میں،جب بغداد میں تکرار جاری تھی،میں نے امریکی فوجی منصوبہ سازوں کے ایک گروپ کو ملک میں سیاسی، اقتصادی، اور سیکورٹی کی صورت حال کا اندرونی جائزہ لینے میں مدد کی تھی۔
ان کی رپورٹ سے ایک ایسے ملک کی کافی سنگین تصویر سامنے آئی جو 2008کے انتشار سے اُبھر نے کے بعد بھی بہت سے طویل خطرات اور دباوٴ کے سامنے انتہائی کمزور تھا۔ جائزے میں بیان کیا گیا کہ زیادہ تر عراقی رہنماوٴں نے سیاست کے ذریعے اپنے ایجنڈے کو جاری رکھا اور تشدد کی طرف لوٹنے کے خلاف مزاحمت کی تھی۔ لیکن تقسیم کا شکار کردینے والے 2010 کے انتخابات اور مالکی کی طرف سے اپنے سیاسی مخالفین کو غیراہم بنانے کی کوششوں اور طاقت کے غلط استعمال نے اس حوالے سے سنگین خدشات پیدا کردئیے کہ کیا مالکی فرقہ وارانہ مفادات کو ایک طرف رکھ کر ایک جامع حکومت کے قیام کی طرف لے جاسکتے ہیں۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ اگر فرقہ وارانہ مفاہمت ممکن نہ ہوسکی تو، عراق اور شام کے سنیوں کے کنٹرول والے حصے دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ کے طور پر اُبھر کر سامنے آسکتے ہیں اور سُنّی شورش کے دوبارہ منظم ہونے کے لیے زرخیز زمین کا کام دے سکتے ہیں۔
عراق نے اہم اقتصادی پیش رفت کی تھی، لیکن عوامی توقعات ،ضروری خدمات کی فراہمی اور معاشی استحکام و ترقی کو فروغ دینے کے لیے مرکزی حکومت کی صلاحیتوں سے کہیں بڑھ کر تھیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ،عراقی معیشت تیل کی آمدنی پر ہی حد سے زیادہ انحصار کررہی ہے، اور بغداد مستقبل کی ترقی کے غیر حقیقی تخمینوں کی بنیاد پر مستقبل کے اخراجات کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔اگرچہ تیل کی صنعت حکومت کے لئے فنڈنگ کا ایک بڑا ذریعہ، اور اس طرح سے عوامی شعبے میں روزگار کی فراہمی کے لیے مالی امداد مہیا کرتی تھی،لیکن یہ براہ راست عراقی ورک فورس کے صرف دو فیصد کو ملازمتیں فراہم کرتی تھی،اور 45 سے 60فیصد کے درمیان باقی ورک فورس کو یا تو معمولی ملازمتوں سے وابستہ اور یا پھر بالکل بے روزگار چھوڑ دیتی تھی۔
روزگار کی کمی خاص طور پر فوجی عمر کے نوجوان مردوں میں، سماجی عدم اطمینان اور بے چینی کا بڑا ذریعہ پیداثابت ہوئی۔
تجزیہ سے ظاہر ہوا کہ عراق میں سلامتی کا ماحول مستحکم لیکن پھر بھی کمزورہے، یہ ایسا اندازہ تھا جس پر پنٹاگان میں فوجی اور سویلین دونوں طرح کے رہنماوٴں کا وسیع پیمانے پر اتفاق پایا جاتا تھا۔ اگرچہ اے کیو آئی کو عراق میں مکمل طور پر شکست ہوئی تھی، لیکن 2009 کے آخر تک، اس نے شام میں ایک محفوظ پناہ گاہ قائم کرلی تھی اور اپنی تعمیر نو اور خود کو نئے سرے سے استوار کرنا شروع کردیا تھا (یہ نوٹ کرنا اہم ہے کہ فوجی منصوبہ سازوں کو، جو اگرچہ اے کیو آئی کے بارے میں گہری تشویش رکھتے تھے، اس گروہ کے جہادی فوج میں تبدیل ہوجانے کی توقع نہیں تھی، جسے آج آئی ایس آئی ایس کے طور پر جانا جاتا ہے …یہ تبدیلی 2012 اور 2014 کے درمیان، کچھ حد تک، شام کی خانہ جنگی کے نتیجے میں رونما ہوئی)۔
دریں اثنا، شیعہ ملیشیاز…جنہیں ایران کی طرف سے اسلحہ، تربیت اور سازوسامان فراہم کیا جارہا تھا… عراقی شیعہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ مضبوط تعلقات کا لطف اُٹھارہی تھیں اور انھوں نے ایک اس طرح کی شیڈو حکومت تشکیل دی ، جس کے بارے میں رپورٹ کا کہنا تھا کہ وہ ”ایک دن عراق کی حکومت کے وجود کے لیے ایک خطرہ بن سکتی تھی“۔ امریکی فوجی منصوبہ ساز اُس متنازعہ علاقے میں عربوں اور کردوں کے درمیان تشدد کے امکانات کے بارے میں بھی فکر مند تھے ، جسے کرد اپنا آبائی وطن تصور کرتے تھے اور جہاں اُنھیں خاصی خود مختاری حاصل تھی؛ یعنی تیل سے مالا مال شہر کرکوک کے کنٹرول کے لئے جدوجہد بہت بڑے تنازعہ کا سبب بن جائے گی۔
یہاں تک کہ امریکی مشیروں کی طرف سے امداد اور کئی سال تک تربیت حاصل کرنے کے باوجود، عراقی حکومت اور سیکورٹی فورسز اس طرح کے خطرات کا سامنا کرنے کے لیے بہت کم تیار تھے۔ 2005 سے 2011 کے درمیان، امریکی فوج نے کانگریس کو سہ ماہی رپورٹس فراہم کرتے ہوئے خبردار کیا کہ کہ عراقی فوج بہت سی ایسی خامیوں میں مبتلا ہے جو اس کی بیرونی خطرات کے خلاف ملک کا دفاع کرنے کی صلاحیت کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔
عراقی سیکورٹی فورسز… انٹیلی جنس معلومات جمع کرنے ، اُن کے تجزیہ، اور اشتراک کے لحاظ سے کمزوری؛ جنگی کارروائیوں کو برقرار رکھنے کی صلاحیت کے فقدان؛ سامان اور ہتھیاروں کی بحالی کے بُرے نظام؛ تربیت کے موثرپروگرام، یا تربیت کی روایت کے فقدان؛ فوج کے کمانڈ اینڈ کنٹرول کے بُرے انتظام؛انٹیلی جنس، نگرانی، اور نگرانی کے اثاثوں کی کمی؛ اور امریکی سپیشل فورسز سے براہ راست مدد کے بغیر دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کو منظم کرنے کی بہت ہی محدود صلاحیت…جیسی کمزوریوں کی وجہ سے مفلوج ہوچکی تھیں۔
عراقی فضائیہ کی حالت اس سے بھی بدتر تھی۔ اس کے پاس جنگ کے دوران عراقی زمینی افواج کو دشمن کے خلاف مہلک مدد فراہم کرنے کی کوئی صلاحیت نہیں تھی؛ یہ فوجیوں کو ایک ہوائی اڈے سے دوسرے تک پہنچانے کے سوا کچھ نہیں کرسکتی تھی۔
ان تمام شواہد نے عراق میں موجود امریکی فوجی منصوبہ سازوں کو ایک واضح نتیجے پر پہنچادیا: اگر امریکی افواج کو 2011 ء کے آخر تک مکمل طور پرواپس نکال لیا گیا تو،عراقیوں کے لیے 2007کے بعد حاصل کیے گئے نازک فوائد کو برقرار رکھنا بہت مشکل ہوجائے گا۔
2010کے اندرونی جائزے نے حتمی نتیجہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ سٹریٹجک ناکامی ٹل ضرور گئی تھی لیکن اب بھی ”ممکن تھی“۔ امریکی افواج اور واشنگٹن کی طرف سے مضبوط سیاسی دباوٴ کی غیر موجودگی میں، بغداد کی مرکزی حکومت پہلے سے کہیں زیادہ، بدعنوان فرقہ وارانہ، اورتہران کی طرف جھکاؤ رکھنے والی بن جائے گی اور سنی شورش کی بحالی، اے کیو آئی کے دوبارہ جنم، اور اُس متعلقہ استحکام کے خاتمے کی راہ ہموار کردے گی جسے فروغ دینے کے لیے امریکہ نے اس قدر محنت کی تھی۔
اگر یہ بات کچھ جانی پہچانی لگتی ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ یہ دراصل عراق کی موجودہ صورتحال کی بالکل درست وضاحت ہے۔کھل کر بات کی جائے تو، امریکی فوجی منصوبہ سازوں نے عجیب درستگی کے ساتھ معاملات کی اس لرزہ خیز حالت کا اندازہ لگایا تھا جو آج وہاں موجود ہے۔
ایک درمیانے درجے کا خطرہ
صدر اوباما کی سابق انتظامیہ کے حکام کی طرف سے شائع کردہ بیانات سمیت متعدد رپورٹوں کے مطابق، امریکی فوجی منصوبہ سازاس بات پر یقین رکھتے تھے کہ اس تباہی سے بچنے کے لیے جو عراق کو لپیٹ میں لے سکتی تھی، اگر 2011 کے بعد مرکزی حکومت کو اپنے پیروں پر خود کھڑا کرنا تھا تو، اس کے لیے امریکی افواج کی ایک اچھی خاصی تعداد…تقریباً 24ہزار کے آس پاس… کو 2011کے بعد بھی عراق میں رُکنا پڑے گا۔
یہ مجوزہ منصوبہ فوج سے مطالبہ کرتا تھا کہ وہ 2014 اور 2016 کے درمیان حالات کا ازسر نو جائزہ لیکر فیصلہ کرے کہ کیا صدر بُش اور اوباما دونوں کی طرف سے منظور کردہ مقاصد کی تکمیل کے لیے فوجوں کی عراق میں موجودگی جاری رکھنا ضروری ہے یا نہیں۔ منصوبہ ساز اس نتیجے پر پہنچے کہ اس راستے میں امریکی افواج کو نقصان پہنچنے اور مشن کی ناکامی کا ایک ”درمیانے درجے کا خطرہ“ موجود ہ تھا…یعنی اس سطح کی غیریقینی صورتحال جسے وہ مقاصد کی اہمیت کے پیش نظر قابل قبول سمجھتے تھے۔
منصوبہ ساز ایک ایسے مقام پر مسلسل سرمایہ کاری کی درخواست کر رہے تھے، جس کے بارے میں پورے نظریاتی حلقہٴ اثرمیں شامل سیاسی اشرافیہ سمیت زیادہ تر امریکی یہ اُمید کرتے تھے کہ وہاں، ایک بار پھر واشنگٹن کا وقت، توانائی، یا پیسے خرچ نہ کرنے پڑیں۔لیکن منصوبہ سازوں کا خیال تھا کہ عراق کو جس قدر وسیع و سنگین مسائل درپیش تھے…اور بدترین صورت حال کی خوفناک نوعیت کے تناظر میں…یہ اخراجات جائز تھے۔
 
وہ دلیل دیتے تھے کہ،عراق کی سیکورٹی کے شعبے میں پیش رفت کو برقرار رکھنے کے لئے، امریکی افواج، کو مشورے، تربیت، اور عراق کی سیکورٹی فورسز کے تمام عناصر کی مدد جاری رکھنے کی ضرورت ہو گی۔ منصوبہ ساز یہ دلیل بھی دیتے تھے کہ امریکہ کو بغداد کے لیے واشنگٹن کے عزم کا اظہار کرنے، 2010کے جائزے میں بیان کردہ ”ایران کے نقصان دہ اثر و رسوخ “ کو روکنے،اور مالکی کے فرقہ ورانہ رجحان پر ایک معتدل اثر ڈالنے کے لیے بھی ، عراق میں اپنی فوجیں رکھنے کی ضرورت ہے۔
امریکی فوج کو عراق کی فضائی حدود کا کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے بھی اس کی مدد کرنے کی ضرورت تھی، اُس وقت تک جب تک کہ وہ اپنے طور پر ایسا کرنے کی صلاحیت نہ حاصل کرلیتا۔ 2003 کے بعد سے، امریکہ نے ہی عراقی فضائی حدود کی حفاظت کی تھی، اور منصوبہ سازوں کا خیال تھا کہ امریکی افواج کو صوبہ الانبار میں واقع الاسد ائر بیس پر، ایک ایف۔16 سکواڈرن تعینات کرتے ہوئے ایسا کرتے رہنا چاہیے۔
اگرچہ امریکی منصوبہ ساز عراقی سپیشل آپریشنز فورسز کو علاقائی معیار کے مطابق اعلی صلاحیتوں کا حامل تصور کرتے تھے، تاہم وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ ان کے انسداد دہشت گردی مشن کو، خاص طور پر رات کے آپریشن کے لئے، اب بھی انٹیلی جنس اور فضائی امداد کی صورت میں امریکی مدد کی ضرورت ہے۔
امریکی فوجی منصوبہ ساز اس بات پر بھی یقین رکھتے تھے کہ امریکی افواج کو عراقی سیکورٹی فورسز اور پیش مرگہ کے نام سے مشہور کرد فورسز کے درمیان تصادم روکنے میں مدد کے لیے کرد علاقے کی سرحد پر رہنا پڑے گا۔
منصوبہ سازوں نے مزید بتایا کہ القاعدہ کے عسکریت پسند اکثر شمالی عراق میں واقع، موصل نامی شہر ، اورملک کے مشرق میں واقع، دیالی صوبے کے درمیان موجود گزرگاہ کے ذریعے سفر کرتے ہیں۔ اس علاقے کو محفوظ بنانے کے لیے فوجی منصوبہ سازوں نے سفارش کی کہ امریکی افواج عراقی اور کردش فورسز کے شانہ بشانہ کام کرنا جاری رکھتے ہوئے مشترکہ طور پر اس راستے کے ساتھ ساتھ 22 انسانی چوکیاں قائم کریں۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط