اعداد و شمار مرتب کرنا
جنوری 2011 میں، گیٹس نے… عراق میں امریکہ کے سفیر جیمز جیفری؛چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈمرل مائیک مولن ؛ اور عراق میں امریکی افواج کے کمانڈر جنرل لائیڈ آسٹن، کے ساتھ ملاقاتیں کی تھیں۔ گیٹس اپنی یادداشتوں میں اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ، آسٹن نے دلیل پیش کی تھی کہ اُنھیں 2011کے بعد اس عبوری مدت کے لیے جو تین سے پانچ سال کے درمیان ہوگی، عراق میں رہنے کے لیے کم از کم 20 ہزار فوجیوں کی ضرورت ہوگی۔
اتنی بڑی بقایا فوج رکھنے کے خیال پر وائٹ ہاوٴس کی جانب سے مزاحمت کا اندازہ کرتے ہوئے، گیٹس نے آسٹن کو ہدایت کی کہ وہ 20 ہزار سے کم کا راستہ تیار رکھیں۔ اور واقعی، اپریل میں، صدر اوباما نے آسٹن کو ایک ایسا منصوبہ تیار کرنے کی ہدایت کی جس کے نتیجے میں صرف 8 سے 10ہزار فوجیوں پر مبنی بقایا فوج رکھنی پڑے اور ایسے منصوبے تشکیل دیں جن کو اس تعداد میں فوج حقیقت پسندانہ طور پرپورا کر سکتی ہو۔
(جاری ہے)
جون کے اوائل میں،صدر اوبا نے مالکی کے ساتھ ایک محفوظ ویڈیو کانفرنس میں شرکت کی…یہ ایک سال کے دوران عراقی وزیر اعظم کے ساتھ ان کی پہلی بات چیت تھی۔ ایک انتظامی عہدیدار کے مطابق، صدراوباما نے عراق کے ساتھ شراکت داری کو برقرار رکھنے کی امریکی خواہش کا اظہار کیا لیکن فوجیوں کی کسی مخصوص تعداد پر بات چیت نہیں کی تھی۔ دریں اثنا، فارن پالیسی میگزین کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران امریکہ کے لیے اس وقت کے عراقی سفیر سمیر الصمیدعیی کی طرف سے اگست 2011 میں دئیے گئے ریمارکس کے مطابق، مالکی دیگر عراقی رہنماوٴں کے ساتھ 8سے 20ہزار امریکی فوجیوں کے عراق میں رُکے رہنے کے خیال کے حوالے سے تبادلہٴ خیال کررہے تھے۔
ان لیڈروں میں سے زیادہ تر یہ بات سمجھتے تھے کہ عراق ابھی امریکی فوج کو مکمل طور پر بے دخل کرنے کے لئے تیار نہیں تھا، لیکن وہ ملک کی خودمختاری کی حقیقی یا تصوراتی کسی بھی طرح کی خلاف ورزی، سے بچنے کے لئے پختہ ارادہ کیے ہوئے تھے۔ مالکی اور امریکہ کے مذاکرات کاروں کے درمیان بات چیت میں بار بار سامنے آنے والا ایک موضوع عراقیوں کی طرف سے اپنے امریکی ”مہمانوں“ کو عراقی قانون کا ماتحت بنانے کی خواہش پر مبنی تھا…یعنی وہی ایشو جو 2008 میں مالکی اور بش کے درمیان مذاکرات کے دوران ایک ضد کے طور پر سامنے آیا تھا۔
جیفری کے مطابق، اگست میں، اوباما نے اُنھیں بتایا کہ وہ 5000امریکی خدمت گاروں کو عراق میں رکھنے کے حوالے سے عراقیوں کے ساتھ آزادانہ طور پر مذاکرات کرسکتے ہیں…3500لڑاکا فوجی جنہیں ایک سال کی مدت پر مبنی فرائض کی انجام دہی کے لیے تعینات کیا جائے گا، اور 1500سپیشل آپریشن فورسز جو ہر چار ماہ بعد تبدیل ہوتی رہیں گی۔ اس بقایا فورس میں الاسد ائر بیس پر کھڑے کیے جانے والے ایف۔
16طیاروں کے نصف سکواڈرن کے لیے معاون اہلکار بھی شامل ہونگے ۔صدر اوباما نے فوج کی طرف سے عراقی فوج کی تربیت جاری رکھنے کے لیے بڑے پیمانے پر امریکی فوجیوں کی موجودگی اور کرکوک کے قریب عرب کرد سرحدی علاقے کو محفوظ بنانے کے مطالبے کو مسترد کردیا تھا۔ اوباما کا خیال تھا کہ اُن کی طرف سے فوجیوں کی مجوزہ تعداد… امریکیوں کو انٹیلی جنس معلومات جمع کرتے رہنے، انسداد دہشت گردی کے حوالے سے عراقیوں کے ساتھ تعاون کرنے، عراقی فوج کے کچھ عناصر کو تربیت دینے، اورکرد سرحدی علاقے میں تین سال پہلے قائم کی جانے والی چوکیوں کی وقفے وقفے سے نگرانی کرنے… کے قابل بنائے گی۔
لیکن اوباما نے یہ بھی واضح کیا کہ اُن کے منصوبے کے تحت عراقی پارلیمنٹ کو باضابطہ طور پر درخواست کرنا ہوگی کہ امریکی فوج عراق میں ہی موجود رہے اوراُسے فورسز کی حیثیت کے معاہدے پر بھی اتفاق کرنا ہوگا جو 2011 کے بعد عراق میں موجود رہنے والے تمام امریکی فوجیوں کو قانونی استثنیٰ عطا کردے گا۔ستمبر کے اوائل میں، امریکی نائب وزیر خارجہ بل برنس نے ان دونوں مسائل کے حوالے سے مالکی پر دباؤ ڈالنے کے لیے عراق کا دورہ کیا۔
امریکی انتظامیہ کے ایک سابق اہلکار کے مطابق، جو بخوبی آگاہ تھے کہ ملاقات کے دوران کیا ہوا، مالکی نے برنس کو بتایا کہ اگرچہ وہ بقایا فوج کی درخواست کے لیے تو عراقی پارلیمنٹ کو قائل کرسکتے تھے،لیکن جو بھی یہ یقین رکھتا تھا کہ پارلیمنٹ فوجوں کی حیثیت کے معاہدے کی منظوری دے دی گی، جس میں مکمل استثنیٰ بھی شامل تھا، وہ عراقی سیاست کو قطعاً نہیں سمجھتا۔
اس کے بجائے، مالکی نے اعلیٰ سطحی یادداشت پر دستخط کرنے کی تجویز پیش کی، جس سے پارلیمانی منظوری حاصل کرنے کی ضرورت کے بغیر ہی استثنیٰ کی اجازت مل جاتی۔ وائٹ ہاوٴس کے وکلاء نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا، اور دلیل دی کہ ایسے کسی بھی معاہدے کو قانونی طور پر پابند بنانے کے لئے، عراقی پارلیمنٹ کی طرف سے اس کی باقاعدہ توثیق ضروری ہوگی۔
اکتوبر کے شروع میں، جیسا کہ مالکی نے پیش گوئی کی تھی ، پارلیمنٹ نے امریکی فوج کی موجودگی کو توسیع دینے کی درخواست کی منظوری دے دی، لیکن امریکی فوج کے اہلکاروں کو قانونی استثنیٰ دینے سے انکار کر دیا۔
بعد میں اسی مہینے، اوباما نے مالکی کو بتادیا کہ2008 میں بش انتظامیہ کی طرف سے دستخط شدہ معاہدے کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے تمام امریکی افواج 2011 کے آخر تک عراق سے نکل جائیں گی۔
مفسرین کی ایک بڑی تعداد نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اوباما انتظامیہ کے مذاکرات بدنیتی پر مبنی تھے، اور وہ ایسی پیشکش کررہی تھی جس کے بارے میں وہ جانتی تھی کہ یہ عراق میں سیاسی طور پر مہلک ثابت ہو گی۔
اگر اوباما عراق میں ایک بقایا فوج برقرار رکھنا چاہتے ، تو وہ مالکی کے سمجھوتے کی تجویز کو قبول کرسکتے تھے۔ اس سمجھوتے کے لیے، کچھ خطرہ تو مول لینا پڑتا کیونکہ عراقی قانون واضح طور پر پارلیمانی منظوری کو ضروری قرار دیتا ہے۔ تاہم،صدر بش کی جانب سے اسی طرح کے سمجھوتے پر اتفاق کے بعد، تقریباً تین سال میں، عراق میں تعینات کسی امریکی رکن یا سویلین اہلکار پر عراقی قانون کی خلاف ورزی کرنے کا الزام نہیں لگایا گیا تھا۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ آج عراق میں تعینات امریکی فوجی اہلکار استثنیٰ کے اس وعدے پر بھروسہ کیے ہوئے ہیں جو عراقی وزیر خارجہ کی طرف سے دستخط کردہ محض ایک سفارتی نوٹ پر مشتمل ہے…یہ ایسی ضمانت ہے جو مالکی کی جانب سے 2011 ء میں پیش کی گئی(اور جسے اوباما نے مسترد کر دیا تھا) ضمانت کی نسبت کم ٹھوس ہے۔
نیچا دکھاؤ اور تباہ کردو
صدراوباما کی طرف سے فیصلے کا اعلان کیے جانے کے بعد، عراق میں امریکی کمانڈروں نے اس بات کی تحقیق کے لیے کہ فوج نے اپنے مقاصد کس سطح تک حاصل کیے تھے، ایک جائزہ لینے کا آغاز کیا جسے ” جنگ کے اختتام کی تشخیص“ کا نام دیا گیا۔
تشخیص پر کام کرنے والے فوجی منصوبہ سازوں کے مطابق، ان مقاصد کی بڑی اکثریت کو بہترین طور پر نامکمل قرار دیا جاسکتا ہے ،اوران میں سے کچھ کی تکمیل کے لیے کئی برس…حتیٰ کہ ایک پوری نسل…بھی لگ سکتی ہے۔ مثال کے طور پر،عراقی فوج، تب بھی گزشتہ چار سال کے دوران حاصل کیے گئے ثمرات کوآزادانہ طور پر برقرار رکھنے کے قابل بننے سے تین سے پانچ سال کی دُوری پرتھا۔
بہت سے مقاصد عراق کی اندرونی تقسیم اور عراقی رہنماوٴں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے حاصل نہیں ہوسکے تھے… باقی مقاصد ایران جیسے ہمسایہ ممالک کی وجہ سے رُکے ہوئے تھے۔لیکن فوجی منصوبہ سازوں کے ”اسکورکارڈ“ نے ایک چیز کو بالکل واضح بنا دیا: 2011 تک، اتنی معلومات ضرور موجود تھیں جن سے یہ نتیجہ اخذ کرایا جاسکتا ، کہ معقول تعداد میں امریکی فوج کی عدم موجودگی کی صورت میں، چند سال کے اندر اندر، عراق میں صورت حال خراب ہونے کا امکان تھا ۔
شاید ناقابل تغیر طور پر۔
بے شک، اس نقطہ پر، بہت کم لوگوں نے شام کی خانہ جنگی کے اُن منفی اثرات کا اندازہ لگایا تھا جوجلد ہی عراق میں سیکورٹی صورتحال پر مرتب ہوں گے۔ تاہم،اگر ایک بقایا امریکی فوج 2011 کے بعد بھی عراق میں موجودرہتی، توامریکہ آئی ایس آئی ایس کے بڑھتے ہوئے خطرے سے بہتر طور پر آگاہ ہوتا اورگروپ(آئی ایس آئی ایس) کو اتنے زیادہ علاقے پر قبضے سے روکنے کے لیے عراقیوں کی مدد کرسکتا تھا۔
اس کے بجائے، آئی ایس آئی ایس نے پورے شمالی عراق میں مارچ کرتے ہوئے واشنگٹن کو تقریباً مکمل طور پر حیرت زدہ کردیا۔
عراق میں اب صدر اوباما کے لیے اب کوئی اچھے راستے نہیں بچے… جیسا کہ ان سے پہلے صدر بُش کے ساتھ ہوا تھا۔ اوباما کا منصوبہ ہے کہ امریکہ ایک بین الاقوامی اتحاد کی قیادت کرتے ہوئے آئی ایس آئی ایس کو ”نیچا دکھائے اور بالآخر تباہ کردے“۔
امریکی فوج انٹیلی جنس معلومات فراہم کریں گی، امریکی مشیروں کی ایک محدود تعداد موجود ہوگی، اور امریکہ زمینی افواج کو فضائی مدد فراہم کرے گا جودیگر ممالک سے آئیں گی۔ اس منصوبے کے کامیاب ہونے کا امکان نہیں ہے،کم سے کم اس لیے نہیں ہے کیونکہ،یہ منصوبہ اتحاد میں شامل دیگر شراکت داروں کے لئے بہت کم ایسی ترغیبات رکھتا ہے جن کی بناء پر وہ اُن خطرات اور قیمت کے بوجھ کو قبول کرلیں ، جنہیں امریکہ خود اُٹھانے کے لئے تیار نہیں ہے۔
جب تک ریاست ہائے متحدہ امریکہ کچھ امریکی لڑاکا فوج اور اسپیشل آپریشن فورسز کی تعیناتی کے ساتھ زیادہ براہ راست کارروائی کرنے کا فیصلہ نہیں کرتا، عراق میں دوبارہ شروع کیا گیا ” رضامندی ظاہر کرنے والوں کا اتحاد“دراصل غیرمخلص ممالک کے ایک اتحاد سے کچھ زیادہ ثابت نہیں ہو سکے گا۔
صورت حال،جس کا تجربہ پہلے بھی ہو جاچکا ہے
اس دوران،افغانستان میں،امریکی انتظامیہ کے پاس اب بھی اپنے عراق کے تجربے کو دُہرانے سے بچنے کا موقع ہے۔
بدقسمتی سے، یہ واضح نہیں ہے کہ، اس نے ابھی بھی مناسب طور پرسبق سیکھ لیا ہے یانہیں۔
مثال کے طور پر، افغانستان میں امریکی مقاصد اور واشنگٹن نے ان کو حاصل کرنے کے لئے اپنے فوجی دستوں اور سفارت کاروں کوجو وقت اور وسائل دیے ہیں، ان کے درمیان فرق بڑھتا جارہا ہے۔ نیٹو مشن کا بیان کردہ مقصد” ایسے حالات پیدا کرنا ہے جن کے تحت افغانستان کی حکومت پورے ملک میں اپنی عملداری کو بروئے کار لانے کے قابل ہوسکے،اور اس میں ایک پیشہ ورانہ اور قابل افغان نیشنل سکیورٹی فورسز کی تیاری بھی شامل ہے“۔
لیکن بہت کم ایسے شواہد موجود ہیں جو یہ ظاہر کرسکیں کہ نیٹو 2016 کے آخر تک، اس مقصد کو حاصل کرنے کے قابل ہو سکے گا،جب تمام امریکی اور نیٹو افواج کا افغانستان سے نکلنا طے ہے۔ سچ تو یہ ہے، کانگریس کی ہدایت پر سنٹر برائے بحری تجزئیات(Center for Naval Analyses) کی طرف سے جنوری2014 میں مکمل کیے گئے افغان سیکورٹی فورسز کے ایک آزاد تجزئیے میں اسی طرح کے صلاحیتوں کے فقدان کی نشاندہی کی گئی ہے جو 2011 میں عراقی سیکورٹی فورسز میں موجود تھا۔
سب سے زیادہ قابل اعتماد تخمینے ظاہر کرتے ہیں کہ صلاحیتوں کی اس کمی کے خلاء کو کم از کم 2018 تک نہیں بھرا جا سکتا۔
2016 میں نیٹو اور امریکی افواج کے مجوزہ انخلاء کے بعد، افغانستان میں سلامتی کی صورتحال ممکنہ طور پر ابتر ہوجائے گی اور بالآخر کابل میں قائم افغان حکومت کے وجود کے لئے ایک خطرہ بن سکتی ہے۔جب تک کہ کچھ تبدیلیاں نہیں کی جاتیں،وہی تباہی جس نے حالیہ مہینوں میں عراق کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے ، خود کو دُہرانے کی راہ پر گامزن ہے… اور چند سالوں میں، واشنگٹن کو ایک اورچکرادینے والے فیصلے کا سامنا کرنا ہوگا کہ آیا ایک ایسے جنگی زون میں فوج کو دوبارہ مصروف کیا جائے جسے امریکیوں نے اچھے نتائج کا سوچ کر چھوڑ دیا تھا۔
اس راستے پر جانے سے پہلے، اوباما انتظامیہ کو ایک جامع سٹریٹجک جائزہ مرتب کرنا چاہیے، جس میں اس بات کا تفصیلی تجزئیہ بھی شامل ہو کہ 2014سے 2018کے درمیان افغانستان میں سلامتی کا ماحول کس طرح پروان چڑھے گا۔اس دوران، پنٹاگان کو غور کرنا چاہیے کہ افغانستان میں امریکہ کے کونسے مقاصد حاصل کرلیے گئے ہیں، اور باقی مقاصد حاصل کیے بغیر امریکی فوجوں کے انخلاء سے پیدا ہونے والے خطرات کا اندازہ لگانا چاہیے،نیز اخراجات اور خطرات کو کم کرنے کے لئے افغانستان اور خطے کے لئے ایک نئی حکمت عملی تیار کرے۔
امریکہ کو اسی قسم کا تجزئیہ نیٹو کے اندر بھی کرنا چاہیے، اس بات کا تعین کرنے کے لیے کہ 2016 کے بعد بھی ملک میں ایک نیٹو تربیتی مشن برقرار رکھنا کس حد تک ضروری اور قابل عمل ہے۔
اگر صدراوباما اپنی 2016 کے آخر تک افغانستان سے انخلاء کی موجودہ منصوبہ بندی پر قائم رہنا چاہتے ہیں تو ان کی انتظامیہ کو ایک واضح حکمت عملی تیار کرنی ہوگا جو یہ ظاہر کرسکے کہ زمین پر امریکی اور نیٹو افواج کے بغیر، وہاں حاصل کیے گئے فوائد کو کیسے برقرار رکھا جاسکے گا۔
اس وقت، یہ غیر واضح ہے کہ امریکہ یا اس کے اتحادی کس طرح افغان حکومت کو اپنے طور پر سیکورٹی برقرار رکھنے میں مدد دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔مکمل طور پر انخلاء کا منصوبہ تبدیلی کے لحاظ سے بالکل ”اندھا“ لگتا ہے…اور تقریباً یقینی طور پر امریکہ اور نیٹو افواج اور ان کی صلاحیتوں کے چلے جانے کے بعد افغانستان کی داخلی سیاسی اور سلامتی کے حالات پر اس کا منفی اثرپڑے گا۔
اگر بڑی سطح پر سٹریٹجک جانچ پڑتال کا راستہ اختیار نہیں کیا جاتا،تب بھی امریکی انتظامیہ کو کم از کم کابل میں ایک نام نہاد عبوری سفارت خانہ قائم کرنے کا اہم قدم اُٹھانا چاہیے۔امریکی افواج کے انخلا کے بعد، امریکی سفارت خانے میں ”دُہری ذمہ داریاں انجام دینے والے“ چیف آف سیکورٹی اسسٹنس کی تقرری کی جانی چاہیے: ایک فوجی افسر جو افغانستان کو ہتھیاروں کی فروخت میں سہولت بہم پہنچانے میں محکمہ خارجہ کا کردار ادا کرے اور ساتھ ساتھ افغان سیکیورٹی فورسزکی مشاورت، تربیت، اور مدد بھی کرے۔
(2011 میں، امریکی فوجی حکام نے امریکی افواج کی واپسی کے بعد بغداد میں قائم امریکی سفارت خانے کے اندر ایسے عہدے کے قیام کی سفارش کی تھی، لیکن اس خیال کو محکمہ خارجہ اور وائٹ ہاوٴس کی طرف سے مسترد کر دیا گیا تھا)۔اس طرح کا عہدہ تخلیق کرکے امریکی فوج کے تھوڑے بہت بنیادی ڈھانچے کو قائم رکھا جاسکے گا، نہ صرف افغان سیکورٹی فورسز کی مدد کرنے کے لیے بلکہ منتقلی کے عمل میں گڑبڑ کی صورت میں امریکی افواج کی زیادہ تیزی سے دوبارہ تعیناتی کے لئے بھی۔
اہم معاملات میں، افغانستان آج بالکل ویسا ہی دکھائی دے رہا ہے جیسا کہ 2011میں عراق لگ رہا تھا۔امریکہ اپنی فوجیں واپس بُلانے کی تیاری کررہا ہے اور افغانستان میں ایک کمزور، منقسم اور بدعنوان مرکزی حکومت رال جھاڑ رہی اور ادھر اُدھر جھول رہی ہے۔ دریں اثنا، ایک انتہا پسند باغی گروپ سرحد پار ناخوشگوار، غیر مستحکم ریاست میں موجود محفوظ ٹھکانوں میں مضبوط ہورہا ہے۔
صرف بغداد کی جگہ کابل ، آئی ایس آئی ایس کی جگہ طالبان، اورشام کی جگہ پاکستان کو بدل دیں، اور تصویر بخوبی واضح ہوجاتی ہے۔اور حکمت عملی اور پالیسی میں ایک ڈرامائی تبدیلی کے بغیر، امریکی اور نیٹو افواج کے افغانستان چھوڑنے کے چند سال بعد،یہ ملک بھی بہت حد تک ویسا ہی نظر آئے گا جیسا کہ عراق آج نظر آتا ہے۔ اوباما انتظامیہ کو تیزی سے کام کرنا ہوگا، ورنہ اس کے لیے ایک بار پھر کام مکمل کرنے سے پہلے روانہ ہوجانے کی وجہ سے ایک دوسری جنگ ہارنے کا خطرہ ہوسکتا ہے۔