Episode 100 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 100 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

فوجی صنعتی کمپلیکس کا اختتام، پنٹاگان کس طرح گلوبلائزیشن سے خود کو ہم آہنگ کر رہا ہے(ولیم جے لِن سوم)
(ولیم جے لِن سوم سابق امریکی نائب وزیر دفاع اور ”فن میکانکا نارتھ امریکہ اینڈ ڈی آر ایس ٹیکنالوجیز“ کے سی ای او ہیں)
 2013کے اواخر میں، گوگل نے اعلان کیا کہ اس نے انجینئرنگ کا سامان اور روبوٹ تیار کرنے والی کمپنی بوسٹن ڈائنامکس خرید لی ہے، جو چار پیروں والاروبوٹ BigDog بنانے کے حوالے سے بہترین شہرت رکھتی ہے،جسے فوجی غیرہموار علاقے میں بھی اپنے ساتھ لے جا سکتے ہیں۔
اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی زیادہ تر دلچسپی کا مرکز انٹرنیٹ کی دنیا کا دیوقامت ادارہ(گوگل) تھا اور یہ بات بھی کہ آخر وہ کب مختلف قسم کے روبوٹ بنانے شروع کرتا ہے۔تاہم ،جو خبر گوگل کے لیے بہت اچھی تھی، وہ دوسری طرف امریکی محکمہ دفاع کے لئے ایک بڑے نقصان کو ظاہر کررہی تھی۔

(جاری ہے)

اگرچہ گوگل نے امریکی فوج، امریکی بحریہ، اور امریکی میرین کور کے ساتھ معاہدوں سمیت،بوسٹن ڈائنامکس کے تمام پہلے سے جاری دفاعی وعدوں کی پاسداری کرنے پر اتفاق کیا تھا،لیکن کمپنی نے اس بات کا بھی اشارہ دیا کہ وہ فوج کے لئے کسی بھی طرح کا اضافی کام انجام نہیں دے گی۔

عملی طور پر، اس کا مطلب ہے کہ محکمہ دفاع خود کار روبوٹکس، کے اُبھرتے ہوئے میدان میں اپنی برتری کھو سکتا ہے، جو کبھی تقریباً خصوصی طور پر اس کی پہچان بن گئی تھی۔
یہ کوئی تعجب کی بات نہیں تھی کہ گوگل کے پاس بوسٹن ڈائنامکس خریدنے کے لئے پیسے تھے: ٹیکنالوجی اسٹار کی ترقی کی صلاحیت اور تحقیق اور ترقی (آر اینڈ ڈی) میں سرمایہ کاری،کسی بھی دفاعی ادارے سے زیادہ ہے۔
اس کی مارکیٹ ویلیو، تقریباً 400 ارب ڈالر ہے، جو کہ جنرل ڈائنامکس، نارتھ روپ گرومین، لاک ہیڈ مارٹن اور ریتیان کو ملاکر بھی ان کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اور ہاتھ میں 60 ارب ڈالر کے ساتھ، گوگل ان میں سے کسی کے بھی تمام بقایا حصص خرید سکتا ہے۔
گوگل کو ہوسکتا ہے کہ دفاعی معاہدوں کی کوئی ضرورت نہ ہو، لیکن پنٹاگان کو گوگل جیسی کمپنیوں کے ساتھ زیادہ اور بہتر تعلقات کی ضرورت ہے۔
صرف نجی شعبہ ہی اس قسم کی جدید ٹیکنالوجی فراہم کرسکتا ہے، جس نے گزشتہ 70 سالوں سے امریکی فوجیوں کو ایک خاص برتری دلا رکھی ہے۔ چونکہ اہم دفاعی ٹیکنالوجیزپر اب صرف امریکی کمپنیوں کی اجارہ داری نہیں رہی، چنانچہ پنٹاگان کو تجارتی کمپنیوں سے تعلقات بنانے سے آگے بڑھ کر، تیزی سے فروغ پاتی گلوبل دفاعی صنعت کو اپنانے کی بھی ضرورت ہے۔
مثال کے طور پر، ایف 35 جوائنٹ اسٹرائیک فائٹر کو لے لیجئے، اس طیارہ کی تیاری، مالی اخراجات، اور اس کا آزمائشی تجربہ، نو ممالک نے ملکر انجام دیا: ان ممالک میںآ سٹریلیا، کینیڈا، ڈنمارک، اٹلی، نیدرلینڈ، ناروے، ترکی، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں۔
گوگل کی طرف سے بوسٹن ڈائنامکس کو خریدلینے کی طرح، ایف 35 کی تیاری بھی موقع اور چیلنج دونوں حیثیتوں کی حامل ہے۔ایک طرف واشنگٹن کو اپنے، تاریخ میں سب سے بڑے، ہتھیاروں کے ترقیاتی پروگرام کو برقرار رکھنے کے لئے بین الاقوامی اور تجارتی شراکت داری کی ضرورت ہے۔
مشاورتی فرم بوز اینڈ کمپنی (جو کہ اب اسٹریٹجی اینڈ کے نام سے جانی جاتی ہے) کی 2012 کی ایک تحقیق کے مطابق، پنٹاگان خریداری اور خدمات پر جو خرچ کرتا ہے اس میں سے ایک تہائی سے زیادہ حصہ ایپل اور ڈیل جیسی غیر روایتی کمپنیوں کو جاتا ہے۔
دوسری طرف، محکمہ دفاع کا خریداری کا فرسودہ عمل نئی کمپنیوں کے لیے امریکی مارکیٹ میں داخل ہونا مشکل بنادیتا ہے۔ پنٹاگان ایسی رکاوٹیں رکھنے کا متحمل نہیں ہو سکتا، خاص طور پر جبکہ امریکی فوج اپنے ممکنہ دشمنوں پر برتری حاصل کرنے کے لئے غیر روایتی سپلائرز پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔
 کمرشلائزیشن اور عالمگیریت(گلوبلائزیشن) نے ایک ساتھ… امریکی دفاعی اخراجات میں کمی کے ساتھ مل کر… امریکہ کی دفاعی صنعت کے لئے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے۔
ماضی میں، یہ صنعت خود کو تبدیلی کے ساتھ بخوبی ہم آہنگ کرتی آئی ہے، اور اس نے امریکی فوج کو اپنا غلبہ برقرار رکھنے کے قابل بنایا ہے۔تاہم موجودہ تبدیلی کے مطابق خود کو ڈھالنے کے حوالے سے، پنٹاگان کے آغاز کی رفتار خاصی سُست ہے۔
ابتداء میں
گزشتہ دو صدیوں کے دوران، امریکی دفاعی صنعت تین مختلف ادوار سے گزری ہے۔پہلے دور میں، جو 1787 سے 1941 تک جاری رہا، یہ شعبہ زیادہ تر سرکاری اسلحے اور بحری جہاز بنانے والی گودیوں پر مشتمل تھا،اور اسے صرف حقیقی تنازعات کی صورت میں ہی تجارتی صنعت کی طرف سے مدد ملتی تھی (مثلاً، پہلی جنگ عظیم کے دوران)۔
تاہم ،دوسری عالمی جنگ کے بہت بڑے پیمانے پر لڑے جانے اور اس میں نئی جنگی ٹکنالوجیز کے کثرتِ استعمال کے لیے ایک ڈرامائی تبدیلی کی ضرورت تھی۔ 1942 میں، صدر فرینکلن روزویلٹ نے جنگی سازوسامان کی پیداوار کا نگراں بورڈ(وار پروڈکشن بورڈ) قائم کیا،یہ ایک وفاقی ادارہ تھا جس کا کام سب سے بڑے امریکی صنعتی اداروں، خاص طور پر آٹو موبائل کی صنعت سے منسلک اداروں کو جنگ کے زمانے کے لیے خدمات انجام دینے پر مامور کرنا تھا۔
بیسویں صدی کے آغاز میں، دفاعی اخراجات اوسطاً جی ڈی پی کے تقریباً ایک فیصد کے برابر تھے، 1930 کی دہائی میں،ان کی شرح صرف تین فیصد تک بڑھی تھی۔تاہم،دوسری عالمی جنگ کے دوران، دفاعی اخراجات جی ڈی پی کے تقریباً 40 فیصد کے برابر، یعنی آسمان پر پہنچ گئے، اور دفاع کا شعبہ ملک کی سب سے بڑی صنعت بن گیا۔اس کے نتیجے کے طور پر، ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے اپنی صنعتی صلاحیت اور طاقت کے بل پر اپنے مخالفین پر غلبہ حاصل کرلیا۔
 جنگ ختم ہونے کے بعد بھی، واشنگٹن نے اپنی تیار کردہ دفاعی صنعت کو ختم نہیں کیا ۔ اس کے بجائے، بوئنگ اور جنرل موٹرز سمیت جنگ کے دوران دفاعی سازوسامان پیش کرنے والے مختلف صنعتی اداروں کے مجموعے نے، اپنے دفاعی شعبوں کو برقرار رکھا۔بعد کے سالوں میں ان کمپنیوں کے ساتھ اے ٹی اینڈ ٹی، جنرل الیکٹرک، اور آئی بی ایم جیسے ادارے بھی آملے اور مارکیٹوں کے درمیان ٹیکنالوجی کو روانی سے فراہم کیا۔
پنٹاگان کی طرف سے مالی حمایت اور طویل پیداواری گردش کے بل پر، انھوں نے ڈرون سے لیکر رات میں د یکھنے کے قابل بنانے والی عینکوں تک کئی طرح کی ٹکنالوجیز تخلیق کیں، جن میں سے بعض بالآخر شہریوں کی روز مرہ زندگی میں بھی شامل ہوگئیں۔مثال کے طور پر، آج،زیادہ تر گاڑیاں GPS ٹکنالوجی کے ساتھ آتی ہیں، اور بہت کم امریکی انٹرنیٹ کے بغیر رہ سکتے ہیں… ان دونوں اختراعات کے لیے ابتدائی طور پر پنٹاگان کی طرف سے فنڈز فراہم کیے گئے تھے۔
یہ دوسرا دور…جس کی خاص بات ایک ادارے جسے صدر ڈوائٹ آئزن ہاور نے معروف طور پر ”فوجی صنعتی کمپلیکس“ کا نام دیا تھا،کا اُبھر کر سامنے آنا تھا…سرد جنگ کے ساتھ ہی یہ دور ختم ہوگیا تھا، جب دیوار برلن کے انہدام اور وارسا پیکٹ اور سوویت یونین کی تحلیل نے امریکی فوجی اخراجات میں تیزی سے کمی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ 1993 میں، محکمہ دفاع نے پنٹاگان کے لیے ٹکنالوجی فراہم کرنے والے صنعتی رہنماؤں کو ”آخری عشائیہ“ کے لیے مدعو کیا، اور اس موقع پر اس وقت کے نائب وزیر دفاع ولیم پیری نے اُن پر زور دیا کہ وہ سُکڑتے بجٹ کے مطابق خود کو مضبوط بنائیں۔
یوں تیسرے دور کا آغاز ہوا جس میں یہ صنعت مختلف طرح کے ایسے بڑے کارپوریشن نما اداروں(conglomerates) سے جو اپنی تجارتی ٹکنالوجی کے بہت بڑے ذخائر میں سے کچھ مہیا کرسکتے تھے، ایسی مٹھی بھر کمپنیوں کی طرف منتقل ہوگئی جو خصوصی طور پر دفاع کی صنعت پر توجہ مرکوز کرتی ہیں اور آج صنعت پر غلبہ جمائے ہوئے ہیں۔1992 سے 1997 تک، صنعتوں کے درمیان 55 ارب ڈالر کا ادغام دیکھنے میں آیا۔
چند مستثنیات کے ساتھ، بڑے کارپوریشن نما ادارے(conglomerates) اپنے دفاعی آپریشنز کو بیچ کر صنعت سے الگ ہوگئے۔عین اسی وقت ،صرف دفاع پر توجہ مرکوز کرنے والی فرموں کے نئے گروپ نے مڈٹائردفاعی سپلائرز کی صفوں کو کم کرتے ہوئے اپنے تجارتی آپریشنزکو بیچنا اور چھوٹی دفاعی کمپنیوں کو حاصل کرنا شروع کردیا۔
بدلتی اقدار اور کم ہوتے بجٹ کے باوجود، محکمہ دفاع ایک دور سے دوسرے دور میں بغیر کسی خاص واقعے کے منتقل ہوتا رہا ہے۔
ہر تبدیلی سے گزرتے ہوئے، پنٹاگان نے اہم ٹیکنالوجیز کی حفاظت کی ہے اور امریکی فوج کی مدد کرنا جاری رکھا ہے۔ تاہم، آج کمرشلائزیشن اور عالمگیریت(گلوبلائزیشن) کی طرف سے دباوٴ نے صنعتی ڈھانچے میں سنگین غلطیوں کو آشکار کردیا ہے۔اگر امریکہ نے خود کو چوتھے دور سے ہم آہنگ نہ کیا تو، اس کی دفاعی صنعت کو جلد ہی اپنی طاقت ختم ہوتی نظر آئے گی۔
 پکڑنے کا کھیل
 ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سے ، امریکی دفاعی کمپنیاں ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کے حوالے سے بڑی تجارتی کمپنیوں کی نسبت مزید سے مزید تر پیچھے رہتی چلی جارہی ہیں۔اگرچہ پنٹاگان نے ماضی میں تجارتی شعبے کو بہت سی ٹیکنالوجیز برآمد کی ہیں،لیکن اب یہ ایک خالصتاً درآمد کرنے والا ہے۔ بے شک، تھری ڈی پرنٹنگ، کلاوٴڈ کمپیوٹنگ، سائبر سیکورٹی، نینو ٹیکنالوجی، روبوٹکس، اور دیگر شعبوں میں دفاعی صنعت جو کچھ تخلیق کرسکتی ہے تجارتی ٹیکنالوجی کی اگلی نسل اس سے بہت آگے چھلانگ لگاچکی ہے۔
اس کے علاوہ، تجارتی انفارمیشن ٹیکنالوجی آج قومی سلامتی کے شعبے پر اُتنا ہی غلبہ رکھتی ہے جتنا کہ اُسے نجی شعبے میں حاصل ہے۔ فوجی اہلکار اب ڈرونز سے نگرانی کی فوری معلومات اکٹھی کرنے اور ساتھی فوجیوں کو پیغامات بھیجنے کے لئے اسمارٹ فونز کا استعمال کرتے ہیں۔
تجارتی اختراعات کے عمل کو جاری رکھنا ، اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرورہو گا۔
امریکہ کے سب سے بڑے پانچ دفاعی کنٹریکٹرز کا مشترکہ آر اینڈ ڈی یعنی ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ بجٹ (تحقیقاتی فرم کیپٹل الفا پارٹنرز کے مطابق 4 بلین ڈالر) اس رقم کے نصف سے بھی کم ہے جو مائیکروسافٹ یا ٹویوٹاجیسی کمپنیاں ایک سال میں آر اینڈ ڈی پر خرچ کرتی ہیں۔ ایک ساتھ ملکر بھی، یہ پانچ دیوقامت امریکی دفاعی ادارے دنیا بھر میں درجہ بندی کے اعتبار سے سب سے آگے موجود 20 انفرادی صنعتی سرمایہ کاروں میں بھی نہیں آتے۔
تحقیق و ترقی پر سرمایہ کاری کے بجائے ، دفاعی کمپنیاں شےئر ہولڈرز کو منافع اور اسٹاک کی دوبارہ خریداری کی شکل میں اپنے پاس دستیاب نقد رقم میں سے زیادہ ترواپس لوٹا رہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں، کیپٹل الفا پارٹنرز کے مطابق 2000 سے 2012 تک، امریکہ کی سرکردہ دفاعی فرموں میں کمپنی کے پیسے سے چلنے والے آر اینڈ ڈی اخراجات 3.5فیصد سے کم ہوکر، فروخت کے تقریباً دو فیصد پر پہنچ گئے تھے۔
اس کے برعکس، معروف تجارتی کمپنیاں آر اینڈ ڈی کے شعبے میں اپنی آمدنی کا اوسطاً آٹھ فیصد خرچ کرتی ہیں۔ 
بے شک ،دفاعی مارکیٹ کمرشل مارکیٹوں سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس میں خریدار…پنٹاگان… آر اینڈ ڈی کے شعبے کے لیے زیادہ تر فنڈز فراہم کرتا ہے۔ لیکن یہ بجٹ بھی کم ہو گیا ہے۔ چنانچہ دفاعی کمپنیاں تحقیق کے شعبے میں خود اپنی نقد سرمایہ کاری کرنے سے اس لیے گریزاں ہیں کہ شاید پنٹاگان کے بجٹ کی غیر یقینی صورتحال کبھی بھی قابل عمل مصنوعات پیدا نہ کرنے دے۔
چنانچہ محکمہ دفاع کو اُن تجارتی کمپنیوں کے ساتھ تعلقات آگے بڑھانے چاہئیں جن میں سے کئی اپنے طور پر دفاعی معاہدوں کی تلاش نہیں کریں گی۔ اس کے بجائے، پنٹاگان نے دفاعی معاہدوں پر بولی کے عمل کو اتنا مشکل بنا دیا ہے کہ بہت سی کمپنیاں اس عمل کو اپنے لیے غیرمانوس اور مشکل تصور کرتے ہوئے اس سے دُور بھاگتی ہیں۔ بعض کمپنیاں اس لیے بھی بولی کے عمل سے دُور بھاگتی ہیں کہ اُنھیں اُن چیزوں کی پیروی کرنے میں بہت کم دلچسپی ہوتی ہے جسے وہ پنٹاگان کی غیر ضروری شرائط کے طور پر دیکھتی ہیں۔
مثال کے طور پر،سافٹ ویئر ڈویلپرز کی ایک بڑی تعداد نے دفاعی کام کرنے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ وہ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ وہ جو بھی تخلیق کریں گے اُنھیں اس کے حقوقِ املاک دانش کو چھوڑنا پڑے گا۔دوسرے کئی لوگوں کو ہتھیاروں کے حصول کے لئے امریکی حکومت کے وضع کردہ قواعد و ضوابط نے دُور کردیا ہے۔مثال کے طور پر، آڈٹ اور نگرانی کے قواعد و ضوابط کے تحت، کمپنیوں کو اپنے تجارتی کاروبار کے لئے جس چیز کی بھی ضرورت ہو ، اُنھیں نیا اور مہنگا اکاوٴنٹنگ کا نظام تشکیل دینا پڑتاہے۔
ان اضافی اخراجات کا ایسے پروگراموں کے لیے جواز پیش کرنا انتہائی مشکل ہے، جنہیں ترقی سے پیداوار کے مرحلے تک منتقلی کے لیے ایک دہائی یا اس سے زیادہ عرصہ لگ جاتا ہے۔
حکام نے کئی دہائیوں تک پنٹاگان کے بازنطینی پروکیورمنٹ نظام کو نئے سرے سے ترتیب دینے کے لیے بحث کی ہے اور انھوں نے آزاد لاگت کے تخمینے اور ہتھیاروں کے تجربات پر زیادہ انحصار سمیت معمولی اصلاحات، لاگو کی ہیں۔
لیکن ان اصلاحات کے فوائد تجارتی شعبے میں ہونے والی تیزرفتار تکنیکی اور صنعتی تبدیلی تک نہیں پہنچ پائے۔مستقبل میں اصلاحات کو تجارتی کمپنیوں کے داخلے کی رکاوٹوں کو کم کرنے کے لیے لاگت اور مدت سے آگے بڑھ کر کام کرنا ہوگا۔ پنٹاگان، اپنے سخت دانشورانہ املاک کے قوانین کو نرم کرکے، اپنی آڈٹ اور اکاوٴنٹنگ کی شرائط کو منظم ، اور ترقیاتی دائرے کے دورانیے کو کم کرکے گوگل جیسی کمپنیوں کو اپنی طرف متوجہ کر سکتا ہے۔ موجودہ سٹیٹس کوء کے ساتھ چمٹے رہنا، صرف واشنگٹن اور سلیکن ویلی کے درمیان مزید فاصلے پیدا کرے گا۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط