سرحدوں کے پار بڑھتے ہوئے
جُوں جُوں تکنیکی اختراعات زیادہ تجارتی ہوئی ہیں ، وہ زیادہ عالمگیر (گلوبل) بھی ہوئی ہیں۔ نجی شعبے میں، کوئی ایک شے…مثال کے طور پر آئی فون… اکثر سپلائرز کے ایک عالمی نیٹ ورک سے حاصل کردہ ٹیکنالوجی پر مشتمل ہوتی ہے۔ اسی طرح، کچھ ہتھیاروں کے نظام،جیسے کہ ایف 35 ، اب اپنے وجود کے لیے بین الاقوامی تعاون کے مرہون منت ہیں۔
لیکن امریکی دفاعی صنعت نے، اس تبدیلی کا کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا ہے، کچھ حد تک تو اس وجہ سے کہ بعض سرکاری حکام اس بات سے ڈرتے ہیں کہ گلوبلائزیشن امریکی شہریوں کو ملازمتوں سے محروم اور اہم دفاعی ٹیکنالوجیز پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور کردے گی۔ یہ خدشات غیر اندیشی پر مبنی ہیں۔ ایک زیادہ عالمی سطح کی امریکی دفاعی صنعت زیادہ بڑی اور مضبوط ہو جائے گی، اور یہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو معروف ٹیکنالوجیز تک کم نہیں زیادہ، رسائی دے گی۔
(جاری ہے)
موازنے کے لئے، امریکی آٹو موبائل صنعت کی رفتار پر غور کیجئے۔ جاپانی کار کمپنیوں نے 1980 کی دہائی میں امریکہ میں مینوفیکچرنگ پلانٹس لگانے شروع کیے تھے ،آج، امریکی سرزمین پر غیر ملکی کمپنیوں کی طرف سے جاری آٹو پلانٹس کی تعداد تقریباً امریکی کار ساز اداروں کے برابر ہے۔ہونڈا کمپنی اب جاپان کی نسبت امریکہ سے زیادہ کاریں برآمد کرتی ہے۔
اور ایک امریکی یا ایک غیر ملکی گاڑی کی تعریف غیرواضح ہوکر رہ گئی ہے، اور اس نے ایک ایسی صنعت کو جنم دیا ہے جس میں غیر ملکی مینوفیکچررز ہزاروں امریکیوں کو ملازم رکھتے ہیں اور امریکی کمپنیاں بیرون ملک اپنی اشیاء کی فروخت میں وسیع اضافہ دیکھ رہی ہیں۔ مثال کے طور پر،ہونڈا اور ٹیوٹا، اب اُن دس میں سے سات ماڈلز کی گاڑیاں بنارہی ہیں جن میں امریکی ساختہ پُرزوں کا تناسب سب سے زیادہ ہے، اور جنوبی کیرولینا کی BMW فیکٹری امریکی ساختہ کاروں کی سب سے بڑی برآمد کنندہ بن چکی ہے۔
امریکی دفاعی صنعت نے خود کو اس طرح آزادانہ طور پر عالمگیریت (گلوبلائزیشن) میں شامل نہیں کیا۔ میدان جنگ میں، امریکی فوج اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملکر لڑتی ہے، جہاں فوجی ملکر ٹریننگ کرتے اور انٹیلی جنس کا تبادلہ کرتے ہیں۔لیکن محکمہ دفاع اس کے باوجود اکثر دیگرملک میں تیار کی گئی ٹیکنالوجی اور مصنوعات کو نظر انداز کرتا ہے… کبھی کبھی تو امریکی ٹیکس ادا کرنے والوں کو اس کی اچھی خاصی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔
مثال کے طور پر،اس صدی کے ابتدائی سالوں میں، پنٹاگان ”کروسیڈر“نامی ایک نیا توپخانے کا نظام تیار کرنا چاہتا تھا، بجائے اس کے کہ پہلے سے موجود مضبوط جرمن ڈیزائن کو اپنانے کی کوشش کرتا جو امریکہ کی تمام نہیں تو زیادہ تر ضروریات پوری کرسکتا تھا۔محکمہ دفاع نے آخر کار اس پروگرام کو2002 میں منسوخ کردیا جب اس یونٹ کے اخراجات کا بوجھ ناقابل برداشت ہوگیا، اُس وقت تک اس پر 2 ارب ڈالر برباد کیے جاچکے تھے اور اس کے بعد امریکی فوج کو توپ خانے کے ایک عمر رسیدہ ماڈل کو اپ گریڈ کرنے پر انحصار کرنا پڑا۔
اپنے اتحادیوں کی سرمایہ کاری اوراختراعات سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے، پنٹاگان کو ٹیکنالوجی اور ڈیزائن کے غیر ملکی ذرائع کے لئے خود کو کشادہ رکھنا چاہیے۔ امریکہ کو اب فوجی ٹیکنالوجی میں تمام تر ترقی کا ذریعہ بننے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ درحقیقت، غیرملکی کمپنیوں کو اس کام میں شریک کرکے ترقیاتی اخراجات کا بوجھ تقسیم کرنے میں مدد ملے گی، جیسے کہ ایف 35 کے معاملے میں ہوا تھا۔
وجود برقرار رکھنے کے لیے اپنائیے
امریکی دفاعی صنعت کے باہر ہونے والی تمام تر تبدیلیوں میں، اس کے اندر بھی ایک چیز نمایاں ہے: سُکڑتا دفاعی بجٹ۔ افغانستان اور عراق میں فوجوں کی واپسی، اور اس کے ساتھ ساتھ عالمی اقتصادی بحران نے بھی، گزشتہ پانچ سال کے دوران امریکی دفاعی اخراجات میں تقریباً 20 فیصد کمی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
صرف اخراجات میں کمی تو صنعتی ڈھانچے میں کسی بڑی تبدیلی کا باعث نہیں بنے گی؛ لیکن جب کمرشلائزیشن اور دفاعی ٹیکنالوجی کی عالمگیریت بھی اس میں شامل ہوجا ئیں تو پھر تبدیلی ناگزیر ہوجاتی ہے۔ اس تبدیلی میں صنعت کو مضبوط بنانا اور سپلائرز کے درمیان مقابلہ میں یکساں کمی جیسے اقدامات بھی شامل ہوں گے۔ اصل میں، دفاعی معاہدوں کے لئے مقابلہ میں تاریخی کمی واقع ہوئی ہے جس سے پنٹاگان کے لیے ٹیکس دہندگان کی رقم کا بہترین استعمال مشکل ہو گیا ہے۔
جہاں کبھی پنٹاگان اسلحہ پروگرام کے لئے دو یا تین مسابقتی کمپنیوں کی خدمات حاصل کیا کرتا تھا، اب اکثر اسے ایک سے زائد سپلائرز کے ساتھ معاہدوں کا خرچ برداشت کرنے کے لئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نتیجے کے طور پر، 2012 میں، بحریہ اور فضائیہ دونوں نے ہی اپنے نصف سے زیادہ معاہدے بغیر کسی مقابلے کے ہی کیے تھے۔
اگر پنٹاگان تجارتی اور غیر ملکی کمپنیوں کے لیے صنعت میں داخل ہونا آسان تر بنادے، تو اس سے باہمی مقابلے کی فضا میں اضافہ کرنے میں بہت مدد ملے گی۔
مثال کے طور پر، برطانوی دفاعی کمپنی بی اے ای( BAE) سسٹمز، جو کہ پنٹاگان کے سب سے بڑے سپلائرز میں سے ایک بن گئی ہے ، اُس نے پہلے ہی جنگی گاڑیوں کے شعبے میں درکار تنوع بخوبی فراہم کیا ہے۔ اسی طرح، ایک نئے ہوائی ٹینکر کی تلاش کے ضمن میں، یورپی طیارہ مینوفیکچرنگ کمپنی ”ائربس“ نے بوئنگ طیاروں کا ایک موثر متبادل پیش کیا ہے۔ مقابلے میں اضافہ، پنٹاگان کے لیے سب سے کم قیمت پر بہترین ٹیکنالوجی کا حصول یقینی بنائے گا اور ساتھ ہی امریکہ کو ایک ایسے وقت میں اپنی مارکیٹ کی کشادگی کا مظاہرہ کرنے کے قابل بنائے گا جبکہ کم ہوتے بجٹ نے پہلے ہی امریکی کمپنیوں کو مصنوعات کی فروخت کے لیے بیرون ملک رُخ کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
اب جبکہ واشنگٹن میں حکام اصلاحات کا جائزہ لے رہے ہیں، ضائع کرنے کے لیے وقت بہت کم بچا ہے۔ دفاعی صنعت اور بڑے پیمانے پر دنیا، دونوں میں ہی، تبدیلی کی رفتار بہت تیز ہو چکی ہے۔ امریکی دفاعی صنعت کا پہلا دور 150 سے زائد سال تک جاری رہا، دوسرا تقریباً 50 سال، اور تیسرا صرف 20سال تک۔پنٹاگان کو غیرملکی کمپنیوں کو بھرتی کرنے میں زیادہ فعال کردار ادا کرنا ہوگا ، یہ بات مدنظر رکھتے ہوئے کہ ان کا مستقبل پیچیدہ انداز میں ایک دوسرے کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔
امریکہ کے پاس موقع ہے کہ اس چوتھے دور کو اپنے لیے فائدہ مند بنانے کے لیے اپنی سرحدوں سے آگے دیکھے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد سے، ملک کی تکنیکی برتری نے ہی اس کی قومی سلامتی کی حفاظت کی ہے۔ اس برتری کو برقرار رکھنے کے لیے، امریکہ کواُن رُجحانات سے خود کو ہم آہنگ کرنے …اور بالآخر اُنھیں اپنانے کی ضرورت ہے…جو اس کے مستقبل کی وضاحت کریں گے۔