Episode 102 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 102 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

مزید چھوٹی جنگیں،انسداد بغاوت مہم جاری رہنے والی ہے!(میکس بوٹ)
(میکس بوٹ کونسل برائے خارجہ تعلقات میں نیشنل سیکورٹی سٹڈیز کے جین جے کرک پیٹرک سینئر فیلو اور کتاب ”Invisible Armies: An Epic History of Guerrilla Warfare From Ancient Times to the Present“ کے مصنف ہیں)
اگرچہ افغانستان اور عراق کی جنگیں قیمتی جانوں کے ضیاع یا اخراجات کے لحاظ سے امریکہ کی مہنگی ترین جنگیں نہیں ہیں لیکن ان کے لیے 1990کی دہائی کی فوجیوں کا خون بہائے بغیر لڑی جانے والی اُن جنگوں کی نسبت کہیں زیادہ قیمت ادا کرنا پڑی ہے،جن کے امریکی عوام عادی ہوچکے تھے۔
یہ تحریر لکھے جانے تک،2,344 امریکی فوجی افغانستان میں، جبکہ عراق میں4,486 ہلاک ہو چکے ہیں اور مزید ہزاروں زخمی ہوئے ہیں۔ نیزمالی اخراجات کھربوں ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔

(جاری ہے)

اس سرمایہ کاری کے باوجود ابھی تک ، نتائج معمولی نظر آتے ہیں۔ عراق اور الشام کی اسلامی ریاست(آئی ایس آئی ایس) جسے اسلامی ریاست کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، اس کے سُنّی انتہا پسندوں،، اور ایران سے تعلق رکھنے والے شیعہ انتہاپسندوں نے عراق کے اُن حصوں کو آپس میں تقسیم کرلیا ہے جہاں کرد موجود نہیں ہیں۔
دریں اثنا، طالبان اور حقانی نیٹ ورک افغانستان میں فوجی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ان غیر تسلی بخش چیزوں کو دیکھتے ہوئے، یہ نتیجہ اخذکیا جاسکتا ہے کہ امریکہ کو صرف اچھائی کے لیے اس طرح کے فاسد تنازعات سے دُور رہنے کی قسم کھالینی چاہیے۔
اے کاش کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ جیسی طاقتور اور اُس کے جیسی ہی کمزوریاں رکھنے والی ایک قوم کو اختیار حاصل ہوتا کہ وہ کس قسم کی جنگوں کے لیے سرمایہ خرچ کرنا چاہتی ہے۔
افسوس کے حقیقت میں ایسا شاذونادر ہی ہوتا ہے۔ صدیوں سے، تمام سیاسی طرزفکر رکھنے والے امریکی صدور نے… باربری قزاقوں سے لے کر فلپائنی مزاحمت کاروں، ہیٹی کے باغیوں(کاکوس) سے لیکر ویتنامی کمیونسٹوں، صومالی سرداروں سے لیکر سربیا کے ڈیتھ سکواڈز تک، اور طالبان چھاپہ ماروں سے القاعدہ کے دہشت گردوں تک… تمام دشمنوں کے خلاف فوجوں کو بھیجنا ضروری سمجھا ہے۔
روایتی فوجوں کے برعکس،یہ دشمن بہت کم امریکی فوجوں سے کھلے میدان میں مقابلہ کرتے تھے، جس کا مطلب تھا کہ اُنھیں جلدی شکست نہیں دی جا سکتی تھی۔ اس طرح کے مبہم دشمنوں کو شکست دینے کے لیے، امریکی فوج کو انتہائی وقت طلب اور مشکل کام انجام دینا تھا ، جسے اب انسداد بغاوت، انسداد دہشت گردی، اور قومی تعمیر کے طور پر جانا جاتا ہے۔
یہ سوچنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ مستقبل کسی بھی طرح مختلف ثابت ہوگا، کیونکہ ریاستوں کے درمیان تنازعات کی نسبت ، ریاستوں کے اندر تنازعات کہیں زیادہ کثرت سے بھڑک رہے ہیں۔
اگرچہ دنیا نے، 2008 میں جارجیا پر روسی حملے کے بعد سے، ایک خالصتاً روایتی جنگ نہیں دیکھی ہے،تاہم30 سے زائد ممالک…جن میں شامل چند نام… کولمبیا، عراق، اسرائیل، میکسیکو، نائیجیریا، پاکستان، صومالیہ، اور یوکرین ، ہیں… اب خود کو ایسے دشمنوں سے نبرد آزما پاتے ہیں جو چھاپہ مار یا دہشت گردی پر مبنی حکمت عملی پر انحصار کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک تنازع، یعنی شام کی خانہ جنگی کے نتیجے میں،2011 بعد سے170,000 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ کس قدر امریکی اتحادی یا مفادات ان تنازعات کی لپیٹ میں آجاتے ہیں ، یہ تصور کرنا اچھی سوچ ہے کہ امریکہ ان سے الگ تھلگ ہی رہے۔ بے شک، عراق میں جنگ کے خلاف مہم چلانے والے صدر باراک اوباما بذات خود، آئی ایس آئی ایس( ISIS )کے خطرے کی وجہ سے دوبارہ وہاں لڑنے کے لئے مجبور ہوگئے ہیں۔
حتیٰ کہ اگرامریکہ مستقبل قریب میں ایک اور جنگ کے لئے زمینی افواج کی بھاری تعداد نہیں بھیجتا،تب بھی وہ افغانستان اور عراق کی طرح کے تنازعات میں لڑنے کے لیے اپنے اتحادیوں کی مدد کرتا رہے گا، اور جیساکہ حالیہ مہینوں میں یہ واضح ہوگیا ہے کہ، یہ افغانستان اور عراق میں بھی بدستورملوث رہے گا۔
چونکہ واشنگٹن با آسانی انسداد دراندازی مہم کو ترک کرنے کی ”عیاشی“ نہیں کرسکتا،تو پھر، بہترین حکمت عملی یہ ہوگی کہ ان جنگوں کو بہتر طور پر لڑا جائے۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سے جاری جنگ کے تجزئیہ سے تیار کردہ، یہ وہ دس سبق ہیں جو بتاتے ہیں کہ یہ کام(یعنی ان جنگوں کو بہتر طور پر لڑنا) کیسے کیا جاسکتا ہے۔ آنے والے غیر منظم تنازعات سے نمٹنے کی کوشش کرتے ہوئے… امریکی پالیسی سازوں، فوجیوں، سفارتکاروں، اور جاسوسوں کو ان اسباق کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔
ترتیب دئیے گئے بہترین منصوبے
پہلا سبق ہوسکتا ہے کہ ایسا لگے جسے سمجھنے کے لیے زیادہ ذہنی کوشش کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن اسے عام طور پر، نظر انداز کردیا جاتا ہے: یعنی اُن چیزوں کے بارے میں منصوبہ بندی جو کسی حکومت کے خاتمے کے بعد اہم ہوتی ہیں۔ افغانستان اور عراق میں، جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ مناسب طور پر ،فتح کے فوری بعد کی مدت کے لئے…جسے فوجی اصطلاح میں ”چوتھا مرحلہ“ کہا جاتا ہے… تیاری کرنے میں ناکام رہی تھی…یہ ایک غفلت تھی جس نے دونوں ممالک میں امن و امان کی صورت حال بگاڑنے اور شورشوں کی تعداد میں کئی گُنا اضافہ کرنے کی اجازت دی۔
عراق جنگ میں صدر بُش کے طرزِعمل پر تنقید کرنے کے باجود صدراوباما نے وہی غلطی لیبیا میں دُہرائی ہے۔ 2011 میں، امریکی اور نیٹو افواج نے باغیوں کو معمرالقذافی کا تختہ اُلٹنے میں مدد فراہم کی تھی لیکن اس کے بعد اُنھوں نے لیبیا کی نئی حکومت کی اپنے علاقے کا کنٹرول سنبھالنے میں مدد کے لئے بہت کم کوششیں کی تھیں۔ اس کے نتیجے میں، لیبیا مختلف چھوٹی فوجوں میں تقسیم ہوکر رہ گیا ہے جس نے ملک کو تباہی میں غرق کردیا ہے۔
گزشتہ جولائی میں ہی… امریکی سفیر کرسٹوفر سٹیونز کے بن غازی میں ہلاک ہونے کے تقریباً دو سال بعد… محکمہ خارجہ کو اُس وقت اپنے سفارت خانے کے تمام تر عملے کو طرابلس سے نکالنا پڑا تھا،جب لڑائی وہاں کے ائیرپورٹ تک آ پہنچی تھی۔
یہ مسئلہ صرف صدر بُش یا اوباما تک ہی محدود نہیں ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی طرف سے جنگوں کے نتائج کے مرحلے پر غیرذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی طویل روایت رہی ہے، کہ یہ محدود فوجی مقاصد پر توجہ مرکوز رکھ کر سیاسی سرے پر موجود اُس ریاست کو نظر انداز کردیتا ہے، جس کے لیے فوج بظاہر لڑرہی ہوتی ہے۔
فرائض سے اس غفلت کی وجہ سے ہی… امریکی خانہ جنگی کے بعد آزاد کردہ غلاموں اور جنوب میں ان کے سفیدفام حامیوں پر ظلم و ستم ہوا، ہسپانیہ اور امریکہ کے درمیان جنگ کے بعد فلپائن میں بغاوت بھڑک اُٹھی، جرمنی میں نازیوں اور عالمی جنگ کے بعد روس میں کمیونسٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوا، دوسری عالمی جنگ کے بعد جنوبی کوریا اور جنوبی ویت نام کے حملے ممکن ہوئے، اور خلیجی جنگ کے بعد عراق جنگ کی راہ ہموار ہوئی۔
اکثر، امریکی حکام یہی تصور کرتے آئے ہیں کہ امریکہ کو محض بُرے لوگوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے اور جنگ کے بعد امن خود بخود اپنی جگہ لے لیگا۔ لیکن یہ اتنا آسان کام نہیں ہے۔ تباہی کی صورت حال میں نظم و ضبط پیدا کرنا کسی بھی ملک کے لیے مشکل ترین کام ہے، اور اس کے لیے اُس قسم کی بھرپور تیاری کی ضرورت ہوتی ہے جو امریکی فوج نے 1945 کے بعد جرمنی اور جاپان پر قبضے کے لئے شروع کی تھی… لیکن شاید ہی کبھی ایسی تیاری اس سے پہلے کی تھی اور شاذ و نادر ہی اس کے بعد کی ہے۔
پھر سے غوروفکر کیجئے
اتنی ہی اہمیت کا حامل ایک اور سبق یہ ہے کہ کسی بھی تنازعہ کے دوران پُرکشش مفروضات کو چیلنج کیا جائے۔ صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد، بش انتظامیہ نے عراق میں سب سے چھوٹی مدت کے ممکنہ راستوں کو منتخب کیا۔جس تیزی کے ساتھ امریکی افواج کو باہر نکالا گیا اور عراقیوں نے جس قدر زیادہ انتخابات منعقد کروائے…اُن کا مقصد یہ تھا کہ، اس طرح عراقیوں کے اپنے مسائل کی ذمہ داری خودلینے کے امکانات اُتنے زیادہ ہوجائیں گے۔
اور یہ حکمت عملی ناممکن اور غلط تھی۔ 2005 کے آخر تک، کم ازکم، صدربش،اُن کے سیکرٹری دفاع ڈونالڈ رمزفیلڈ، اور عراق میں اتحادی افواج کے کمانڈر جنرل جارج کیسی کو معلوم ہوجانا چاہیے تھا کہ، اُن کی حکمت عملی ناکام ہورہی تھی۔ اس کے باوجود صدربش نے 2006کے آخر تک ، آخری لمحے، جب شکست بالکل واضح ہوچکی تھی، اس حکمت عملی کا ازسر نو جائزہ نہیں لیا تھا۔
اسی طرح کی خام خیالی نے امریکہ کے ڈویژن، بریگیڈ، اور بٹالین کمانڈروں کو جھکڑ رکھا تھا، جوہمیشہ اسی بات پر یقین رکھتے تھے کہ وہ اپنے کارروائی والے علاقوں میں پیش رفت کر رہے ہیں۔ 2003 کے بعد سے میں نے باقاعدگی سے عراق کے دورے کیے ہیں، اور اس دوران میں نے کسی کو مختصراً بھی یہ کہتے نہیں سُنا کہ صورتحال خراب ہو رہی ہے… کمانڈروں نے چیلنجوں کا ایسا نقشہ پیش کیا تھا کہ جن پر وہ لازماً قابو پانے والے تھے۔
(عام طور پر کچھ ایسے جملے کہے جاتے تھے :”اس علاقے میں تعینات گزشتہ یونٹ نے واقعی چیزوں کو خراب کرکے رکھ دیا تھا، لیکن ہم اب صحیح سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں“۔)۔ایسی بات نہیں ہے کہ متبادل تجزئیات تک پہنچنا بہت مشکل تھا: بلکہ اس کے لیے آپ کو صرف یہ کرنا تھا کہ آپ نیویارک ٹائمز یا واشنگٹن پوسٹ اُٹھا کر پڑھ لیتے اور آپ کو اندازہ ہوجاتا کہ عراق خانہ جنگی کی طرف مائل بہ زوال تھا۔
بہت سے نچلے درجے کے سپاہیوں نے نجی طور پر اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔ لیکن چین آف کمانڈ(اختیارات کے سلسلے) میں اعلیٰ عہدوں پر موجود افراد نے ان بُری خبروں کو محض اعدادو شمار پر مبنی دلائل قرار دیکر مسترد کردیا، کیونکہ وہ ان کے خیال میں اُس ”خفیہ“ پیش رفت کو سمجھنے میں ناکام رہے تھے جس کی طرف عراق بڑھ رہا تھا۔
عراق جنگ کرنے کے لئے بش انتظامیہ کی سیاسی وابستگی کو بھی کچھ حد تک اس کا قصور وار ٹھہرایا جانا چاہیے جس نے فیصلہ سازوں کو وہ شہادتیں دیکھنے سے معذور بنائے رکھے جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ ان کے اقدامات ناکام ہورہے تھے۔
اسی طرح، جرنیلوں نے جن حکمت عملیوں پر عمل کیا اُن کے ساتھ جذباتی لگاؤ جوڑ دیا تھا۔ پنٹاگان کی ”ہم کرسکتے ہیں“ کی روایت بھی اس راستے کی طرف لیکر گئی۔امریکی فوج کی سب سے بڑی خوبیاں…یعنی احکامات کی پیروی کا عزم، اس کی ناکامی کے لئے بہانے قبول نہ کرنے کی خاصیت، تمام تر رکاوٹوں کے باوجودمقاصد کے حصول پراصرار… دراصل اس کی سب سے بڑی کمزوریاں بھی ہیں۔
یہ جونیئر فوجیوں کے لیے اپنے اعلیٰ افسران کو تکلیف دہ سچائیاں بتانا مشکل بناسکتی ہیں (اور حتیٰ کہ اس طرح کے خطرناک خیالات کے بارے میں سوچنا بھی)۔
عراق میں ”سرج آپریشنز“ کی کامیابی دراصل جنرل ڈیوڈ پیٹریاس…جنہیں 2007 ء کے اوائل میں عراق میں اتحادی افواج کا کمانڈر نامزد کیا گیا تھا… کی طرف سے اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر رضامندی کے بعد شروع ہوئی تھی کہ جنگ میں شکست کا خطرہ ہے۔
30ہزار اضافی فوجیوں کے ساتھ، انھوں نے ایک نئی، اور بالآخر زیادہ کامیاب حکمت عملی اختیار کی جس کے تحت عراقی عوام کی حفاظت پر توجہ مرکوز کی گئی۔ زمینی حقائق کی حقیقی تصویر حاصل کرنے کے لیے، جنرل پیٹریاس نے کمانڈ کے سلسلے کو نظر انداز کردیا اور نامہ نگاروں اور تھنک ٹینکرز سمیت جونیئر فوجیوں اور سویلین ماہرین، سے براہ راست معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔
فوج کو اسی طرح کے دوسری بار اندازہ لگانے (یا”سرخ ٹیم بنانے“) کے کلچر کو ادارہ کی شکل میں منظم کرنا چاہیے، اور کمانڈ کے سلسلے میں موجود ہمیشہ ”یس(ہاں)“ کہنے والوں کے ظلم سے بچنے کے لیے باہر کے ذرائع سے معلومات بھی حاصل کرنی چاہئیں۔
اسٹریٹجک عملے کا تقرّر
امریکہ کو فوجی اور سویلین دونوں شعبوں میں بہتر اسٹریٹجک مفکرین پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
ملک کے سب سے بہترین اور نمایاں مفکرین نے افغانستان اور عراق میں ویسی ہی غلطیاں کیں جو بالکل اُتنی ہی یادگار تھیں جتنی کہ اُن کے پیش روؤں کی طرف سے ویت نام میں کی جانے والی مشہور غلطیاں تھیں۔ایک دہائی کی جنگ نے… نائب صدر ڈک چینی، رمزفیلڈ، پال بریمر (عراق میں اتحادی عبوری اتھارٹی کے سربراہ)، اور رچرڈ ہالبروک (افغانستان اور پاکستان کے لئے خصوصی ایلچی) جیسے تجربہ کار، انتہائی مستند سویلین رہنماؤں…اور اسی طرح کیسی ،ٹومی فرینکس، ریکارڈو سانچیز، جان ابی زید، اور ڈیوڈ میکائرنن جیسے یکساں طور پر تجربہ کار اور مستندفوجی افسران… اور فوج چھوڑ کر سینئرسویلین بن جانے والے چند افسران، جیسے کہ(افغانستان میں امریکہ کے سفیر) کارل ایکنبری…کی غلطیوں کو بے نقاب کردیا ہے۔
ڈیوڈپیٹریاس اورعراق کے لیے امریکی سفیر ریان کرو،جنہوں نے 2007سے 2008تک سرج آپریشنز کے سویلین شعبے کی قیادت کی تھی…دونوں اُن چند سینئر حکام کی نمائندگی کرتے ہیں جو ان جنگوں سے ساکھ میں بہتری کے ساتھ اُبھر کر سامنے آئے ہیں۔ایسا اس لیے ممکن ہوا ہے کہ ان دونوں نے امریکی فوج میں بہت کم پائی جانے والی خوبی کا مظاہرہ کیا ہے:یعنی اسٹریٹجک فہم و فراست کا۔
حتیٰ کہ جنرل میک کرسٹل بھی،جو جوائنٹ سپیشل آپریشنز کمانڈ کو کامیابی سے چلانے کی وجہ سے افسانوی حیثیت رکھتے ہیں، افغانستان میں ایک تھیٹر لیول کمانڈر کی سطح تک تبدیلی برپا نہ کرسکے تھے؛ اُن کے عملے کی طرف سے رولنگ سٹون میگزین کے رپورٹر کے سامنے غیرمناسب تبصرے کرنے کی وجہ سے اُنھیں2010میں استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا گیا تھا۔
یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ پیٹریاس اور کروکر بھی غیر معمولی پس منظر رکھتے تھے۔
اکثر جرنیلوں کے برعکس، پیٹریاس نے مڈکیرئیر تعلیم کے لئے وار کالج میں تعلیم حاصل نہیں کی تھی…اس کے بجائے انہوں نے پرنسٹن یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں پی ایچ ڈی کی تھی۔ کروکر نے بھی، پرنسٹن یونیورسٹی سے ہی گریجویشن کی تعلیم حاصل کی تھی۔ انہوں نے ایک ٹرک ڈرائیور، ایک تعمیراتی کارکن، ایک بارٹینڈر، ایک کوچوان، اور ایک ویٹر کے طور پر بھی وقت گزارا، اور انہوں نے ایک بار کلکتہ سے ایمسٹرڈیم تک مفت (بذریعہ لفٹ)سفر بھی کیا تھا۔
انھوں نے اس بارے میں مجھے بتایا تھا کہ”اس سفرنے تقریباً مجھے مار ڈالا تھا لیکن ساتھ ہی مجھے خطہ کو اس طرح سے دیکھنے کا موقع فراہم کیا جو کسی سفارت کار کو کبھی نہیں مل سکے گا“۔ظاہر ہے، پنٹاگان اس بات کی اجازت نہیں دے سکتا کہ اس کے مستقبل کے تمام رہنماء ٹیکسیاں چلاتے، آئیوی لیگ سکولوں میں پڑھتے،یا یوریشیا بھر میں سفر کرتے ہوئے وقت گزاریں۔ لیکن اسے موجودہ اور آنے والے رہنماؤں کی ایک ہی طرز کے راستہ پر چلنے کے بجائے متنوع تجربات حاصل کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ اور اسے اپنے افسران کو محض اُن کی آپریشنل مہارت کی بنیاد پر ترقی دینے کے عمل کو ترک کر دینا چاہیے اور ان کی اسٹریٹجک سمجھ بوجھ پر بھی غور کرنا چاہیے۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط