Episode 103 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 103 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

تربیت کا دن
ایک اور سبق جو پنٹاگان کو دل سے یاد کرنا چاہیے وہ محض مختصر روایتی کارروائیوں سے زیادہ تربیت کی اہمیت ہے۔امریکی حکومت کو افغانستان اور عراق کے بڑے حصے میں مشکلات کا سامنا اس لیے کرنا پڑا تھا کہ وہ قومی تعمیر اور انسداد بغاوت جیسے امور انجام دینے کے لیے تیار نہیں تھی۔ اپریل 2003میں صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب یہ واضح ہوگیا کہ عراق خود بخود حکومتی انتظامات سنبھالنے کے قابل نہیں ہوسکے گا،تو پہلے یہ کام تعمیر نو اور انسانی امداد کے محکمے کو اور اس کے بعد اتحادی عبوری اتھارٹی کو سونپا گیا تھا…یہ دونوں ہی اُن اہم چیلنجوں کے لئے انتہائی ناقص تیاری رکھتے تھے، جن کا اُنھیں سامنا کرنا تھا۔
جہاں ایک طرف فوجی یونٹوں کو صدام حسین جیسی حکومتوں کو ختم کرنے کے لیے کئی سال تربیت دی جاتی ہے، وہاں ان کے سویلین ساتھیوں کو اجنبی ملک میں حکومت کے بہت زیادہ مشکل کام کی تیاری کے لئے زیادہ سے زیادہ چند ہفتے ملے تھے۔

(جاری ہے)

صورت حال افغانستان میں بھی زیادہ بہتر نہیں تھی۔ اگرچہ طالبان حکومت ختم ہونے کے چندہفتوں بعد ہی ایک عارضی حکومت قائم کردی گئی تھی، لیکن اسے بہت ہی کم اختیار حاصل تھا۔
صدر حامد کرزئی عملی طور پر کابل کے میئر سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے تھے، اس کے باوجودبھی بش انتظامیہ اور امریکی فوج نے ان کے اختیارات میں اضافے کو اپنا کام نہیں سمجھا۔اس کا نتیجہ طاقت کے خلاء کی صورت میں برآمد ہوا، جسے کرپٹ سرداروں اور باغی طالبان نے بھر دیا۔ افغانستان اور عراق دونوں میں امریکی فوج نے مزاحمت کاروں کو ان کے مقصد کے لیے اہم وجہ فراہم کرنے سے روکنے کے بجائے اُنھیں پکڑنے کے مقصد تک خود کو محدود کیا ہے۔
اور یوں اُنھیں مزید حمایت دلائی ہے کیونکہ ان کا نتیجہ بہت سے بے گناہ افراد کی قید یا موت کی صورت میں نکلا ہے۔
آزمائشوں اور غلطیوں کے ذریعے، امریکی فوج نے محض طاقت کے بل پرشدید کاروائیاں کرنے کی بجائے انسداد بغاوت پر رقم خرچ کرنے اور فعال ریاستوں کی تعمیر کرنا سیکھ لیا ہے۔تاہم ایک حقیقی خطرہ موجود ہے کہ یہ اس مہارت سے محروم ہوسکتی ہے، کیونکہ یہ پرانے فوجیوں کو بجٹ میں کٹوتیوں کی وجہ سے فارغ کر دیتی ہے اور اپنے اصلی جنون کی طرف لوٹ جاتی ہے ؛یعنی روایتی جنگوں کے لیے تیاریاں کرنا جو اب کبھی نہیں ہوتیں۔
یہ سیکھنا زیادہ اطمینان بخش نہیں ہے ، مثال کے طور پر،اکتوبر میں،فوج نے فورٹ لیون ورتھ، کینساس، میں فوج کے غیررسمی وار سینٹر کو بند کرنے کا فیصلہ کیا، جسے 2006 میں فوج کے طرز فکر میں انسداد بغاوت کو دوبارہ شامل کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ انسداد بغاوت مہم کو فوجی نصاب کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے، اور پنٹاگان کو گورننس(حکومتی نظم و نسق چلانا) سیکھانے کے لئے وقف ایک سکول کا آغاز کرنا چاہیے۔
(اس موضوع کے لیے وقف ایک نیا انسٹی ٹیوٹ حال ہی میں فورٹ بریگ، شمالی کیرولینا میں امریکی فوج کے جان ایف کینیڈی سپیشل وارفیئر سینٹر اور سکول، میں تیار کیا جا رہا ہے، تاہم ایک مکمل سکول کافی عرصہ پہلے ہی کھول دیا جانا چاہیے تھا)۔
سویلین شعبہ اس سے بھی بدتر شکل میں ہے۔ افغانستان اور عراق میں ایک ”سویلین سرج“ کے بارے میں باتوں کے باوجود، امریکی محکمہٴ خارجہ اور دیگر حکومتی ادارے گورننس او اقتصادی ترقی جیسے شعبوں میں، فوج کی کوششوں کی تکمیل کیلئے کبھی بھی موزوں ہنر مند اہلکار فراہم نہیں کرسکے؛ فوجی تناؤ کی حالت میں بہت سے کام خود کرتے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ امریکی حکومت کی کوئی بھی ایجنسی قومی تعمیر کو اپنا کام تصور نہیں کرتی۔اس حوالے سے جو ایجنسی معیار کے قریب ترین آتی ہے وہ بین الاقوامی ترقی کا امریکی ادارہ ہے، لیکن اس کا مشن غیرواضح ہے اوراس کے پاس وسائل بھی بہت کم ہیں۔ یہ یو ایس ایڈ کو بہتربنانے کا انتہائی مناسب وقت ہے،اسے ایسی تنظیم کی شکل دی جائے جو صرف اپنے لیے ہی ترقیاتی کام نہ کرے بلکہ… مالی سے لیکرپاکستان تک، سٹریٹجک طور پرتشویشناک حالات کے شکار ممالک میں ریاستی تعمیر کے کام پربھی توجہ مرکوز کرسکے۔
تبدیلی کے حصہ کے طور پر، یو ایس ایڈ کواُن فوجیوں میں سے کچھ کی خدمات حاصل کرنی چاہئیں جنہیں امریکی فوج اور میرین کور فارغ کررہی ہیں اور جو قومی تعمیر کے کام میں کافی مہارت رکھتے ہیں۔
مقامی زبانوں میں گفتگو پر عبور رکھنے والے
قومی تعمیر کے کام انجام دینے کی تیاریوں کے لیے امریکی حکومت کو اپنی ثقافتی اور لسانی مہارتوں میں بھی اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔
افغانستان اور عراق میں امریکی افواج کی سب سے بڑی کمزوری، ان کی مقامی لوگوں اور علاقے کے بارے میں کم علمی تھی، اس مسئلہ کو میرے ایک ذاتی تجربہ نے بھی بالکل واضح کردیا تھا جو مجھے اگست 2003 میں جنوب مغربی بغداد کے ایک علاقے میں حاصل ہوا تھا۔ میں میرینز کے ایک گروپ کے ساتھ سفر کر رہا تھا جب ہمارے قافلے کے بالکل قریب ایک دیسی ساختہ بم دھماکہ سے پھٹ گیا۔
جب میرینز مجرم کو تلاش کررہے تھے، ایک عراقی شخص ہمارے پاس آیا اور اس نے ہمیں کچھ بتانے کی کوشش کی، لیکن وہ انگریزی میں بات نہیں کرسکتا تھااور ہم عربی نہیں بولتے تھے۔ فوج نے جزوی طور پر بہت سے ایسے مفسرین اور نام نہاد ثقافتی مشیروں کی خدمات حاصل کرکے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی ہے جو افغانستان اور عراق کے لوگوں کے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں۔
لیکن یہ ممالک اسلامی انتہا پسندی کے خلاف وسیع تر جدوجہد میں شامل بہت سے محاذوں میں سے صرف دو کی نمائندگی کرتے ہیں۔ آج، ایران، لیبیا، مالی، نائیجیریا، پاکستان، اور شام کے بارے میں امریکی حکومت کا ثقافتی اور لسانی علم اُتنا ہی ناقص ہے جتنا کہ کبھی افغانستان اور عراق کے بارے میں تھا۔امریکہ کے پاس ایسے بہت سے فوجی، سفارت کار اور انٹیلی جنس افسران نہیں ہیں جو، عربی، فارسی، پشتو، اور اردو جیسی زبانوں میں روانی سے گفتگو کرسکتے ہوں، افریقہ اور جنوبی ایشیا کے زیادہ تر حصوں میں بولی جانے والی مقامی بولیوں کی تو بات ہی چھوڑئیے۔
اورپھر یہ صرف غیر ملکی زبانیں جاننے کا ہی سوال نہیں ہے؛ بلکہ کئی طرح سے اس سے بھی زیادہ اہم کسی ملک کی طاقت کے ڈھانچے، رسم و رواج، اور طرزِفکر کے بارے میں آگاہی رکھنا ہے۔
2012 ء میں امریکی فوج کی طرف سے علاقائی اتحاد پر مبنی بریگیڈز کی تخلیق کا فیصلہ، جس میں سے ہر ایک دنیا کے کسی ایک خاص حصہ پر توجہ مرکوز رکھے ، درست سمت میں ایک چھوٹا سا قدم قرار دیا جاسکتا ہے، لیکن یہ بات یقین کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی کہ زیادہ تر فوجیوں کے پاس ثقافتی و لسانی تعلیم پر وقف کرنے کے لئے مناسب وقت اور توانائی بھی موجود ہو گی، کیونکہ انھیں بے شمار دیگر کام بھی لازمی انجام دینے ہوتے ہیں۔
فوج کی مسلسل تبدیل کرتے رہنے کی پالیسی معاملات کو مزیدبدتر بناتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ فوجیوں کو شاذ و نادر ہی حقیقی مہارت حاصل کرنے کے لئے کافی وقت تک ایک یونٹ یا ایک علاقے میں رہنے کا موقع ملتا ہے۔
فوج کے پاس پہلے ہی ”فارن ایریا آفیسرز“ کے نام سے ایک کور ہے، جو علاقائی مہارت رکھتے ہیں، لیکن انھیں بہت کم اہم اختیارات کا حامل کام سونپا جاتا ہے۔
پنٹاگان کو چاہیے کہ وہ ان افسران کو ان کی مہارت کا زیادہ صلہ ترقیوں اور کام سونپنے کے عمل کی صورت میں دیکر اُنھیں مرکزی دھارے میں شامل کرے ، اور اسے ان میں سے بعض کو ان کے علم اور اثر و رسوخ میں اضافے کا موقع دینے کے لیے، سال، یہاں تک کہ کئی دہائیوں تک بھی ایسے مقامات میں رہنے کی اجازت دینی چاہیے جہاں محاذ گرم ہو۔ ان میں سے بعض رضاکارغیرممالک میں پیدائش رکھنے والے ہونے چاہئیں؛ پنٹاگان کو قومی مفاد کے لیے ناگزیر فوجی معاہدوں کو وسیع کرنا چاہیے ، یا MAVNI جیسے پروگرام کو مزید موثر اور وسیع بنانا چاہیے، جو ایسے تارکین وطن کو شامل کرنے کی اجازت دیتا ہے جن کے پاس امریکی شہریت نہیں ہے لیکن وہ ضروری صلاحیتوں کے مالک ہیں۔
اس اقدام نے بہت سے اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل فوجیوں کی فراہمی میں اہم کردار ادا کیا ہے، جن میں سارجنٹ سارل شریستھابھی شامل ہیں، ایک نیپالی تارک وطن، جنہیں فوج نے2012 میں بہترین فوجی کا اعزاز دیا ہے۔لیکن صرف1500فوجی (جن میں سے اکثر تکنیکی عہدوں کے لئے مخصوص ہیں ) فی سال فراہم کرتے ہوئے ، MAVNI ابھی بہت چھوٹے لیول پر کام کررہا ہے۔ پنٹاگان کو ایک ایسی تنظیم بھی بنانی چاہیے جو غیر ملکی ہم منصبوں کو مشورہ دینے کے لئے وقف ہو…خاص طور پر آنے والے برسوں کے اہم ترین مشن کے بارے میں، لیکن یہ تنظیم ایسی ہو جسے آج ایسے نچلے درجے کے افسران کو سونپ دیا جاتا ہے جنہیں اکثر باقاعدہ لڑائیوں کی صورت حال سے بے دخل کیا جاچکا ہوتا ہے۔
 کونے میں کھڑارائفل مین 
جب مستقبل میں ا نسداد بغاوت مہمات کا سامنا ہو، تو امریکی فوج کو یہ بھی سیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ ہائی ٹیک فائر پاور اور خصوصی آپریشن فورسز پر بہت زیادہ انحصار نہیں کر سکتی۔ افغانستان اور عراق میں جنگوں نے… ہدف کو بالکل درست نشانہ بنانے والے بموں، ڈرون حملوں، اور کمانڈو حملوں کی خامیوں کو ننگا کرکے رکھ دیا ہے۔
عراق میں، یہ تمام صلاحیتوں اہم ثابت ہوئیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی حالات کا رُخ موڑنے کے لیے کافی نہیں تھی؛ صورت حال اس وقت تک بہتر ہونا شروع نہیں ہوئی جب تک کہ امریکی فوج نے 2007 میں عوام کی حفاظت پر مبنی حکمت عملی نہیں اپنائی۔یہی بات افغانستان میں سچ ثابت ہوئی، جہاں اس نے2010 سے پہلے انسداد بغاوت حکمت عملی پر عملدرآمد نہیں کیا۔اس سے پہلے، سپیشل آپریشنز پر مبنی اچانک چھاپوں کا کوئی دیرپا اثر نہ تھا؛ نئے باغی فوری طور پر گرفتار یا ہلاک ہونے والوں کی جگہ لے لیتے تھے۔
امریکی اور افغان فورسز کے بڑی تعداد میں ہلمند اور قندھار جیسے صوبوں میں داخل ہونے کے بعد ہی وہ اُن اضلاع کو مکمل طور پر محفوظ بناسکیں جوطویل عرصہ سے طالبان کے کنٹرول میں تھے۔
جب حکومت کی تبدیلی کے نفاذ کا مرحلہ آتا ہے، تو اب بھی ایک گلی کے کونے پر کھڑے رائفل مین کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ ڈرون حملے اور اچانک چھاپے دہشت گرد رہنماوٴں کو ختم کر سکتے ہیں، لیکن وہ ساری دہشت گرد تنظیموں کی بیخ کنی نہیں کر سکتے۔
اس ضمن میں کافی علاقہ کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ شورش پسند تنظیمیں خود کو اُس طرح دوبارہ منظم نہ کرسکیں جیسے کہ دیگر کئی تنظیموں کے علاوہ القاعدہ، حماس، حزب اللہ، آئی ایس آئی ایس،اورپاکستانی طالبان نے اپنے رہنماوٴں کو کھودینے کے بعد خود کو منظم کیا ہے۔
اس کے باوجود امریکی حکومت ایک بار پھر زمینی افواج میں کمی اور ڈرون حملوں اور خصوصی آپریشن فورسز پر حد سے زیادہ انحصار کر رہی ہے۔
اصل میں،پالیسی ساز وہی غلطی دہرا رہے ہیں جو رمزفیلڈ نے نائن الیون سے پہلے کی تھی، جب اُنھوں نے کھُلے عام فوج میں دو ڈویژن کی کمی کا عندیہ دیا تھا… اب، وہ جنگی طاقت میں اس بھی زیادہ کمی کر رہے ہیں۔کانگریس کو حاضر سروس فوجیوں کی تعداد میں تباہ کُن کمی کے عمل کا رُخ واپس موڑنے کی ضرورت ہے، جو اگر انتہائی سخت بجٹ میں کمی پر عملدرآمد ہو تو، اگلی دہائی کے دوران 2011میں زیادہ سے زیادہ 5لاکھ70ہزار سے 4لاکھ 20ہزار تک کم ہوسکتی ہے۔
گزشتہ دہائی میں، حتیٰ کہ 5لاکھ 70ہزار فوجی بھی معمولی صلاحیت رکھنے والے دشمنوں کے خلاف دو محدود جنگوں کے لیے کم ثابت ہوئے ہیں، جن کے پاس اُس طرح کے ہائی ٹیک ہتھیاروں کی بھی کمی تھی جو مستقبل کے حریفوں کے پاس ممکنہ طور پر ہوسکتے ہیں۔اگر فوجیوں کی تعداد 4لاکھ 20ہزار تک کم کردی جاتی تو فوج کو ایک میدان میں جنگ لڑنا بھی مشکل ثابت ہوتا، کیونکہ کسی ایک خاص وقت میں تمام فوجیوں میں سے ایک تہائی سے کم کو ہی جنگ کے لئے بھیجا جا سکتا ہے (باقی فوجیوں میں سے بیشتر یا تومیدان جنگ میں تعیناتی کے بعد بحالی کے عمل سے گزر رہے یا تعیناتی کی تیاری کررہے ہوتے ہیں)۔
ایک ہی وقت میں دو جنگیں لڑنا…جو کبھی امریکی فوجی حکمت عملی کا ”گولڈ سٹینڈرڈ“ تھا… بالکل ناممکن ہو گا۔ جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ امریکہ ایک اور زمینی جنگ کبھی نہیں لڑے گا، اُنھیں یاد رکھنا چاہیے کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد بھی بہت سے لوگ ایسا ہی سوچتے تھے ، اور اس کے بعد دوسری عالمی جنگ، کوریا کی جنگ، ویت نام کی جنگ اور خلیج کی جنگ کے بعد بھی یہی کہا گیا تھا۔
بنیادی خصلتیں
اگلا سبق ہوسکتا ہے کہ مشکل ثابت ہو لیکن درحقیقت یہ اعلیٰ سطحی اثرات رکھتا ہے: وہ سبق یہ ہے کہ،لاجسٹکس کی بنیاد پر حکمت عملی چلانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ امریکی فوج نے افغانستان اور عراق میں بڑے پیمانے پرفوجی انتظامات کے راستے متعین کیے، امریکیوں کے چھوٹے چھوٹے بھاری قلعہ بند علاقوں کا سلسلہ کھڑا کرکے جہاں فوجیوں کو بڑی سکرین والے ٹی وی سے لیکر آئس کریم تک سب کچھ مہیا کیا جاتا تھا۔
ان کمپاؤنڈز کو سامان کی سپلائی بہت مہنگی ثابت ہوئی۔ 2006 کے موسم گرما میں،جب دونوں تنازعات عروج پر تھے، امریکی مرکزی کمان کو سامان رسد کے 3ہزار سے زائد ٹرک اور ان کے علاوہ مزید 2400ٹرک اپنے اڈوں کو ایندھن کی فراہمی کے لیے پہنچانے پڑتے تھے، اور ان ٹرکوں کے قافلوں کی حفاظت فوجیوں یا ٹھیکیداروں کے ذریعے کی جانی تھی۔ چنانچہ فوج کچھ ایسی چیز بن گئی جسے سپاہی بعض اوقات ”خود کو چاٹنے والی کون آئس کریم “ کا نام دیتے ہیں…یعنی ایک ایسی تنظیم جو کسی مقصد کے حصول کی بجائے اپناوجود برقرار رکھنے کے لیے لڑ رہی تھی۔
یہ بات یقینی طور پر نہیں کہی جاسکتی کہ سینئر کمانڈروں نے کبھی ان لاجسٹک ضروریات کو زیادہ اہمیت دی تھی؛ وہ کم یا زیادہ خودکار طور پر کام کرتی تھیں۔ایک ستائشی رُجحان یہ ہوتا کہ، ہر بیس کمانڈر فوجیوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے چند مزید سہولیات لے کر آئے گا۔ لیکن اس عمل میں، کمانڈروں نے نہ صرف سپلائی لائن کے لیے خطرات پیدا کیے بلکہ کسی بھی کامیاب انسداد بغاوت مہم کے اہم ترین حصے کو نظر انداز کرتے ہوئے ، فوجیوں کو عوام سے دُور کردیا۔
مستقبل میں پنٹاگان کو بڑے اڈوں کی تعمیر کے رجحانات کی مخالفت کرنی چاہیے، سوائے اس صورت کے کہ ایسا کرنے سے جنگی مقاصد پورے ہوتے ہوں۔
کرائے کے سپاہیوں کا انتظام
ایک اور مخصوص لیکن اہم سبق یہ ہے کہ امریکی حکومت کو میدان جنگ میں ٹھیکیداروں پر اپنے اختیارات کو زیادہ بہتر طور پر استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ سرد جنگ کے بعد تعداد گھٹانے سے، فوج کے پاس افغانستان اور عراق دونوں کو کنٹرول کرنے کے لئے کم فوجی تھے۔
چنانچہ پنٹاگان کو قافلوں کی حفاظت سے لیکر فوجی اڈوں پر کپڑے دھونے تک ہر چیز کے لئے ٹھیکیداروں پر بہت زیادہ انحصار کرنا پڑا۔اگرچہ ان میں سے زیادہ تر مسلح نہیں تھے، تاہم ان کی اہم اقلیت (2013 کے آخر تک افغانستان میں موجود ٹھیکیداروں میں سے 16 فیصد) مسلح تھی، اوران کی مبینہ زیادتیوں کے بارے میں بہت سی شکایات بھی سامنے آتی رہیں۔ بکتر بند سیاہ SUV گاڑیاں چلاتے، یہ ٹھیکیدار افغانستان اور عراق کے شہروں میں اکثر سفر کرتے ہیں، عام شہریوں کی گاڑیوں کو راستے سے ہٹنے پر مجبور کرتے اور بعض اوقات زیادہ قریب آنے والی گاڑیوں کو چلّا کر دُور ہٹنے کی ہدایت کرتے ہیں۔
سب سے زیادہ بدنام مسائل پیدا کرنے والی بلیک واٹر تھی، جس کے ملازمین نے 2007 میں بغداد کے نائی سور اسکوائر میں 17 افراد کو ہلاک کردیا تھا۔
اگرچہ سیکورٹی کنٹریکٹرز نے عام طور پر اپناکام بخوبی انجام دیا ہے، بعض اوقات تو بہت بہادری کے ساتھ،لیکن جس طرح ان کے کام کی وضاحت کی گئی وہ بذات خود ایک مسئلہ تھا۔ امریکی حکومت نے اُنھیں کسی ایک مقام سے دوسرے مقام تک سامان یا لوگوں کو منتقل کرنے کے لیے ان کی خدمات حاصل کی تھیں،خواہ اس کے نتائج کچھ بھی ہوں۔
فوجیوں کے برعکس، جنہیں لوگوں کے دل و دماغ جیتنے کے لئے کہا گیا تھا ، ٹھیکیداروں کو اپنے محدود مقاصد حاصل کرنے کے لئے بظاہر مکمل آزادی حاصل تھی۔ انہیں یونیفارم کوڈ آف ملٹری جسٹس کے تحت اور نظم و ضبط کی کم ترین شکلوں میں بھی قانونی کارروائیوں سے پوری طرح استثنیٰ حاصل تھا۔
 ان تمام مسلح، جارحانہ مردوں کو ڈھیلا چھوڑنے کا ناقابل تردید نتیجہ، زیادتیوں کے ایک سلسلے کی صورت میں برآمد ہوا، جس نے مقامی لوگوں کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کو سخت نقصان پہنچایا۔
افغان صدر حامد کرزئی اور عراقی وزیر اعظم نوری المالکی دونوں کو وقت کے ساتھ ٹھیکیداروں کے رویے کا سامنا کرنا پڑا اور انھوں نے ان ٹھیکیداروں کو نکال باہر کرنے کی دھمکی دی تھی۔کانگریس نے اس پر 2004میں ردعمل کا اظہار کیا اور امریکی کنٹریکٹرز کے خلاف امریکی عدالتوں میں مقدمہ چلانے کی اجازت دینے کے لیے امریکی قانون میں ترمیم کی۔تاہم، اب تک، صرف 12 افراد کو ان قوانین کے تحت سزا دی گئی ہے، جن میں نائی سور سکوائر فائرنگ میں ملوث بلیک واٹر کے چھ محافظ بھی شامل ہیں۔
ان میں سے ایک کو مجرم قرار دیا گیا، دوسرے کے خلاف الزامات واپس لے لیے گئے ، جبکہ باقی چار پر 2014کے موسم گرما میں…ان کے خلاف فرد جرم کے الزامات سے بھرپور چھ سال بعد… واشنگٹن ڈی سی کی وفاقی عدالت میں ان پرمقدمہ چلا۔
 ڈاؤن سائزنگ جاری رکھنے کا مطلب یہ ہوگا کہ فوج مستقبل کے تنازعات میں بھی ٹھیکیداروں پر انحصار کو روکنے کے قابل نہیں ہوسکے گی۔
لیکن یہ کم ازکم ان کو بہتر طریقے سے کنٹرول تو کر سکتی ہے۔اس کا ایک ممکنہ ماڈل وہ ہے، جس طرح امریکی کمانڈر غیر ملکی افواج پر اختیار کو استعمال کرتے ہیں۔بالکل اسی طرح جیسے حصہ دار ممالک کی طرف سے بھیجے گئے فوجی امریکی قیادت کی کمان کے ڈھانچے میں جُڑ جاتے ہیں، اسی طرح، ٹھیکیدار، بھی کر سکتے ہیں۔ مستقبل میں، امریکی حکومت کو اپنے معاہدے مختلف طریقے سے لکھنے چاہئیں۔
سیکورٹی فرمز، جو محکمہ خارجہ اور یو ایس ایڈ سمیت امریکی حکومت کی کسی بھی شاخ کے لئے کام کررہی ہوں ، اور ایسے میدان جنگ میں کام کررہی ہوں جہاں امریکی فوج موجود ہو، تو اسے ایک سینئر امریکی فوجی افسر کے آپریشنل کنٹرول میں ہونا چاہیے جو ان کے معاہدوں کو منسوخ کرنے کی طاقت رکھتا ہو اور غلط کاموں کی صورت میں ان کے ملازمین کے خلاف قانونی کارروائی کرسکے۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط