Episode 106 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 106 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

اقوام متحدہ کو مشرقی تیمور، بلقان، افغانستان، اور عراق جیسے مقامات پر تنازعات کے بعد کی تبدیلیوں میں بھی عالمی جواز اور مہارت فراہم کرتے ہوئے اہم کردار ادا کرنا ہے۔ ان مصیبت زدہ علاقوں میں استحکام اور جمہوریت کے قیام میں مدد کے لیے بہت بڑے پیمانے پربین الاقوامی کوششوں کی ضرورت ہے۔مخصوص حالات میں امریکہ ان کوششوں کی قیادت کرسکتا ہے اور اسے ضرور کرنی بھی چاہیے، لیکن عقل مندی اسی میں ہوگی کہ اس طرح کی کارروائیوں کے اختیار کے ساتھ ساتھ ان کا بوجھ، اخراجات، اور خطرات…بھی دوسروں کے ساتھ بانٹ لیے جائیں۔

امریکہ کے اتحادی نیٹ ورک میں سب سے اہم چیز ٹرانس اٹلانٹک(بحراوقیانوس کے دونوں طرف کے ممالک پر مشتمل) شراکت داری کے لیے تجدید عہد ہونا چاہیے۔

(جاری ہے)

امریکہ اور یورپ کے مشترکہ مفادات سرد جنگ سے پہلے کے ہیں۔جیسے کہ صدر جیرالڈ فورڈ نے یورپ میں سلامتی اور تعاون کے موضوع پر ہیلسنکی میں ہونے والی 1975 کی کانفرنس میں کہا تھا کہ،”ہم آپس میں سب سے زیادہ طاقتور بندھن کی وجہ سے بندھے ہوئے ہیں…اور وہ بندھن ہے آزادی اور خودمختاری کے لیے ہمارا بے انتہا پیار، جسے کسی وطن کی نہیں بلکہ انسان کے دل کی ضرورت ہوتی ہے“۔

 امریکی عالمی حکمت عملی میں نیٹو ہی، مرکزی اتحاد رہنا چاہیے۔ سرد جنگ کے خاتمے کا مطلب ہے کہ نیٹو کی اسٹریٹجک توجہ یورپ کے دفاع سے عظیم تر مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیا اور افریقہ کی طرف تبدیل ہوگئی ہے۔چنانچہ اسے اکیسویں صدی کے لیے ایک نئی حکمت عملی پر مبنی نظریے کی ضرورت ہوگی۔جب نیٹو نئے ارکان اور نئے سٹرٹیجک حالات سے ہم آہنگ ہوجائے، تو اس کے ارکان کو فوجی صلاحیتوں اور اخراجات میں فرق کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔
امریکہ سے مزید یہ توقع نہیں رکھی جانی چاہیے کہ وہ اخراجات کا بڑا حصہ اپنے کندھوں پر اُٹھاناجاری رکھے گا۔اس کا مطلب ہے کہ ہمارے اتحادیوں کو” اتحاد“ کے لئے اپنے عزم کی وضاحت نئے سرے سے کرنی پڑے گی۔اگرچہ فوجی طاقت ایک اہم اور مرکزی کردار ادا کرتی رہے گی، لیکن نیٹو کی مستقبل کی کامیابیوں کا انحصار اس کے ارکان کی… کمانڈ اینڈ کنٹرول، انٹیلی جنس، قانون کے نفاذ، اقتصادی ، سفارتی اور انسانی ہمدردی کے شعبوں میں تعاون کو وسعت دینے اور مضبوط بنانے کی ان کی صلاحیت پر ہوگا۔
ریپبلکن پالیسی کا چوتھا اصول یہ ہے کہ ،امریکہ کو جمہوری اور اقتصادی اصلاحات کی حمایت جاری رکھنی چاہیے، خاص طور پر عظیم ترمشرق وسطیٰ میں۔ ہم نظرئیات کی جنگ نہیں ہار سکتے۔بہت سے ترقی پذیر ممالک اور پوری مسلم دنیا میں، ہم تہذیبوں کے مابین کشمکش کا مظاہرہ دیکھ رہے ہیں، جس کی کچھ حد تک وجہ آبادیات اور ترقی کے نسل در نسل چلے آرہے چیلنج ہیں۔
سیموئیل ہنٹنگٹن کے الفاظ میں یہ تہذیبوں کے درمیان تصادم نہیں ہے، بلکہ یہ طرزِ حکمرانی (گورننس) کے ماڈل کے بارے ثقافتوں اور معاشروں کے اندر جاری لڑائی ہے۔ ریاستوں کی تعمیر باہر سے اندر کی جانب نہیں کی جاتی، بلکہ وہ اندر سے باہر کی طرف پروان چڑھتی ہیں۔ بہت سے اسلامی معاشرے ایسا راستہ تلاش کررہے ہیں جو… جدیدیت، روایات، اور زیادہ سے زیادہ سیاسی آزادی و اقتصادی مواقع فراہم کرنے کے لئے نوجوان نسل کے مطالبات کے درمیان توازن پر مبنی ہو۔
ایران، پاکستان، سعودی عرب، افغانستان، انڈونیشیا، اور عراق سب اسی جدوجہد کے علمبردار ہیں۔
سیاسی اصلاحات کو فروغ دینے کے لئے اقدامات … نظریاتی قدامت پسندی پر مبنی نہیں…بلکہ ہر ملک کی ضروریات اور تبدیل ہوتے حالات، کے حقیقت پسندانہ جائزوں پر مبنی ہونے چاہئیں۔جیسا کہ ہنری کسنجر نے کہا تھا کہ ،”جمہوریت کے فروغ کے لیے خارجہ پالیسی کو مقامی یا علاقائی حقائق کے مطابق ڈھال لینا ضروری ہے، وگرنہ یہ ناکام رہے گی۔
جمہوریت کے قیام کے لیے اختیار کی جانے والی پالیسی… جیسا کہ دیگر سلطنتوں میں بھی دیکھا گیا… ممکن چیزوں کو ہی مقصد بنانے کا فن ہے۔“
ہمیں دوستانہ حکومتوں اور بیرون ملک موجودجمہوریت پسندوں کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے جمہوری تبدیلی کی حمایت کرنی چاہیے، اور اس شراکت داری کو… مشاورت، سفارتکاری، اقتصادی ترغیبات ، انسانی حقوق کے معیار، اور کارکردگی پر مبنی اقدامات کے ذریعے کامیابی کے لئے پروان چڑھانا چاہیے۔
اس حوالے سے خارجہ پالیسی کی کامیابی کا ایک ماڈل جارجیا، ہے، جہاں امریکہ کی طرف سے جمہوری اداروں اور انسداد بدعنوانی اقدامات کے لئے حمایت سے وقت کے ساتھ، 2004 کے ”روز انقلاب“ کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرنے میں مدد ملی۔
مشرق وسطیٰ میں شراکت داری کے اقدامات اور جمہوریت کے لئے قومی اینڈوومنٹ فنڈز میں اضافے سمیت، عظیم تر مشرق وسطیٰ کے لئے بش انتظامیہ کی ”آزادی کے لیے آگے بڑھنے کی حکمت عملی“، اس خطے میں جُرات مندانہ اور عملی پروگرام پر مبنی تبدیلی کے لئے ایک اچھا آغاز ہے۔
پائیدار جمہوریت کا انحصار… تعلیم، خواتین کے حقوق، اور نجی شعبے کی ترقی کی حمایت کرنے والے اداروں پر ہوگا۔ لیکن اس کا انحصار طویل عرصے سے چلے آرہے علاقائی تنازعات کے حل کی طرف پیش رفت پر بھی ہوگا، جیسے کہ اسرائیل فلسطین تنازع۔ یہ مسئلہ جُوں کا تُوں نہیں رہتا، بلکہ یہ مزید بِگڑتا جاتا ہے… اور جب ایسا ہوتا ہے تو، اس سے خطے اور دنیا بھر میں بنیاد پرست سیاست اور تشدد پر مبنی انتہا پسندانہ کارروائیوں کے امکانات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
چنانچہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو عظیم تر مشرق وسطیٰ کے لئے علاقائی تحفظ کا نظام تشکیل دینا چاہیے، جس میں اسرائیل، ہمارے عرب اتحادی، عراق، ترکی، پاکستان، اور ایران بھی شامل ہوں۔ علاقائی سلامتی ایران کے ساتھ امریکی مذاکرات کے لیے ایک پُل ثابت ہوسکتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ ایران کی دہشت گردی کے لئے حمایت اور اس کے ایٹمی پروگرام سے نمٹنے کے لئے ایک اور ذریعہ بھی ہوسکتی ہے۔
عظیم تر مشرق وسطیٰ میں علاقائی سلامتی کے لیے، اور خاص طور پر، ایران اور عراق کے ساتھ نمٹنے کے لیے ہمیں ہمارے یورپی اور علاقائی اتحادیوں کا بہت زیادہ تعاون درکار ہو گا۔ لیبیا کے رہنما معمر قذافی کی طرف سے اپنے جوہری عزائم سے باز رہنے اور قوموں کی برادری میں شامل ہونے کا فیصلہ ایران اور مشرق وسطیٰ و دنیا کے دیگر مقامات میں ممکنہ طور پر ہتھیار پھیلانے والوں کے لئے ایک مثال بن سکتا ہے۔
پانچواں اصول یہ ہے کہ، مغربی نصف کُرّہ کو امریکی خارجہ پالیسی کی صف اول میں منتقل کیا جا نا چاہیے۔ اقتصادی انضمام کا عمل، جو شمالی امریکہ کے آزاد تجارت کے معاہدے(NAFTA) کے ساتھ شروع ہوا ہے،اُسے پورے مغربی کُرّہ کے لیے جامع پروگرام میں تبدیل کیا جانا چاہیے۔ توانائی، تجارت، نقل و حمل، اور امیگریشن کے ساتھ ساتھ دہشت گردی اور غیر قانونی منشیات،جیسی تمام چیزیں بھی ہماری قومی سلامتی کے مفادات کے لئے اہم ہیں۔
میکسیکو کے ساتھ تعلقات، خاص طور پر، امریکی خارجہ پالیسی میں اُتنے ہی اہم ہیں جتنے کہ دوسرے کسی بھی ملک کے ساتھ تعلقات۔ میکسیکو کے باشندوں کی تعداد تقریباً 100 ملین ہے اور یہ امریکہ کے ساتھ 2 ہزار میل پر مشتمل سرحد رکھتا ہے؛ یہ شمالی اور جنوبی امریکہ کے درمیان ایک پُل ہے اور مغربی نصف کُرّہ میں ہمارے اقتصادی اور سلامتی کے تعلقات کے لئے ایک اسٹریٹجک محور کی حیثیت رکھتا ہے۔
اسی لیے امریکہ کو میکسیکو کے غیر ملکی سرمایہ کاری کے قوانین،خاص طور پر توانائی کے شعبے میں قوانین، کی آزادی سمیت، وہاں اصلاحات کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ میکسیکو میں اصلاحات کے لیے عزم کو، ہماری مشترکہ سلامتی اور خوشحالی کے ضمن میں ایک سرمایہ کاری کے طور پر دیکھا جانا چاہیے، نہ کہ بیرونی امداد کے طور پر۔
جن لوگوں نےNAFTA(نارتھ امریکن فری ٹریڈ ایگریمنٹ) پر تنقید کی ہے، انھوں نے گزشتہ ایک دہائی کے دوران امریکی خارجہ پالیسی کی سب سے اہم بات کو نظرانداز کردیا ہے۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ، میکسیکو، اور کینیڈا کے درمیان دو طرفہ تجارت… NAFTA کے پہلے دس سالوں میں ہی دوگنی سے زیادہ ہو گئی ہے۔ ہمیں اس پیش رفت کو لازماًجاری رکھنا چاہیے۔ امریکہ اور چلّی کے درمیان فری ٹریڈ ایگریمنٹ جیسے کثیر فریقی تجارتی معاہدے… قانون کی حکمرانی، نجی املاک کے حقوق، آزادانہ حکومت اور علاقائی تعاون کی حکمرانی کو فروغ دے کر NAFTA کی کامیابی کو آگے بڑھائیں گے۔
سنٹرل امریکن فری ٹریڈ ایگریمنٹ (CAFTA) اور فری ٹریڈ ایریا آف دی امریکہ (FTAA) مغربی کُرّہ کی تمام 34 قوموں کے درمیان گہرے سیاسی اور اقتصادی انضمام کے لئے اہم اقدامات ہیں۔
مغربی کُرّہ کے ساتھ امریکہ کا ثقافتی انضمام کئی سال سے آگے بڑھ رہا ہے۔ امریکہ میں موجود تارکین وطن میں سے 50 فیصد سے زائد لاطینی امریکہ سے ہیں۔ 2050 تک،توقع ہے کہ امریکی آبادی کا تقریباً 25 فیصد حصہ ہسپانوی لوگوں پر مشتمل ہوگا۔
اس بڑے ایجنڈے کے تحت، امریکہ اور میکسیکو کو ایسی امیگریشن پالیسیوں پر مل کر کام کرنا ہوگا جوطاقت پر مبنی ہیں ، نہ کہ خوف پر مبنی۔ امیگریشن امریکی طاقت اور قوت کا ایک اہم حصہ ہے۔ ایک زیادہ خوشحال اور مستحکم میکسیکو اور لاطینی امریکہ سے غیر قانونی امیگریشن کی روک تھام میں مدد ملے گی اور پورے خطے میں تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے ماحول بہتر ہوسکے گا۔
چھٹا اصول یہ ہے کہ، ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو غربت اور دنیا بھر میں بیماریوں کے پھیلاوٴ کو روکنے کے لیے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔ یہ ترقی پذیر دنیا میں گورننس کے بنیادی چیلنجوں میں سے ایک ہے۔ برڈ فلو، ایکیوٹ ریسپریٹری سنڈروم (سارس)، ایچ آئی وی / ایڈز، تپ دق، ملیریا، اور دیگر ممکنہ وبائی امراض افریقہ اور ایشیا میں شدید بحرانوں کے طور پر شروع ہوسکتے ہیں لیکن فوری طور پر عالمی رسائی اور مضمرات حاصل کر سکتے ہیں۔
مورخ ولیم میک نیل نے اپنی کتاب ”Plagues and Peoples “ میں لکھا تھا کہ، ”انفیکشن پھیلانے والی بیماری انسانی تاریخ کے بنیادی پیرامیٹرز اور فیصلہ کُن عناصر میں سے ایک ہے“۔بین الاقوامی سفر کرنے کی آج کی رفتار، برڈ فلو یا SARS کے ایک بار پھر پھیلنے کے ممکنہ وقت کو کم کر دیتی ہے۔ اور افریقہ ایک تاریخی اقدام کے بغیر ایڈز پر قابو پانے اور اس کا خاتمہ کرنے کے لیے پائیدار ترقی حاصل نہیں کرسکے گا، جو پورے صحارا افریقہ میں نمبر ایک قاتل بن چکا ہے۔
ایک ریپبلکن خارجہ پالیسی کا ساتواں اور آخری اصول مضبوط اور تخیلی عوامی سفارت کاری کی اہمیت ہے۔ قیادت کے دائرے کا سکّہ ،اعتماد اور بھروسہ ہے۔اور امریکہ کی خارجہ پالیسی کے ارادوں پر عام لوگوں کا عدم اطمینان اور پوچھ گچھ… دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری کوششوں کی اہمیت کو کم اور عظیم تر مشرق وسطیٰ کے لیے ہمارے اقدامات کو کمزور کرے گا۔
عوامی سفارت کاری کے اقدامات کو خاص اسٹریٹجک سمت کی ضرورت ہوتی ہے۔لیکن اس کا جواب یہ نہیں ہے کہ میڈیا پر زوردار مہم شروع کردی جائے یا پھر ہائی پروفائل امریکی اداکاروں کے لئے زیادہ وقت مخصوص کردیا جائے۔ اس کے بجائے، زیادہ تعداد میں فارن سروس پبلک افیئرز افسران کی ضرورت ہوگی، جو میزبان ممالک میں عوام کے ساتھ رابطے کرسکیں، اُن سے زیادہ سے زیادہ گھُل مِل سکیں، اور اُن کے منہ سے سُنیں کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں، اور پھر ان معلومات کو ایک موٴثر عوامی سفارت کاری کی حکمت عملی کی تشکیل کے لیے استعمال کریں۔
اس دوران ،پیشہ ورانہ اور تعلیمی تبادلے کے پروگرام… جو سالہا سال سے عوامی سفارت کاری کی بنیاد رہے ہیں…اُنھیں نائن الیون کے بعد ہوم لینڈ سیکورٹی اور ویزہ پالیسیوں نے سخت نقصان پہنچایا ہے۔ مختصر مدت کے لیے تو یہ ایک قابل فہم رد عمل تھا، لیکن اب پھر تبادلے کے پروگرام اور امیگریشن اصلاحات کی تجدید کی ضرورت ہے جو،سلامتی اور کشادگی دونوں ہی کو مناسب اہمیت دے سکیں۔
پبلک ڈپلومیسی دراصل امریکی پالیسیوں اور اس کے مقصد کے احساس کے درمیان پُل کی حیثیت رکھتی ہے۔ عالمی امور میں امریکی مقصد کا اظہار ہمیشہ اس کے مفادات اور اقدار پر مبنی ہی ہونا چاہیے لیکن اُنھیں اس افہام و تفہیم کے ساتھ متوازن بھی بنایا جانا چاہیے کہ امریکی مفادات دوستوں اور اتحادیوں کے باہمی مفادات سے الگ نہیں ہیں۔صدر ڈوائٹ ڈی آئزن ہاور نے اسی بات کو قوم سے اپنے الوداعی خطاب میں بخوبی بیان کیا تھاکہ:
”آزاد حکومتوں کے لیے امریکہ کی تمام تر مہم کے دوران، ہمارے بنیادی مقاصد… امن برقرار رکھنا، انسان کامیابی میں پیش رفت کو فروغ دینا، اور لوگوں اور اقوام کے درمیان آزادی، وقار، اور ہم آہنگی کو بڑھانا…رہے ہیں۔
آزاد اور مذہبی لوگوں کے لیے اس سے کم کسی چیز کے لئے کوشش کرنا بے کار ہوگا۔ تکبر پرمبنی کوئی بھی ناکامی، جس کی وجہ ہمارے اندر قربانی پر آمادگی یا اس کے فہم و ادراک کا فقدان ہو، وہ ملک میں اور بیرون ملک بھی ہم پر دردناک ضرب مسلط کردے گی۔“

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط