Episode 110 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 110 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

لفظ …جی،آرمینیائی باشندوں کا قتل عام اور نسل کشی کی سیاست(تھامس ڈی وال)
(تھامس ڈی وال ، کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس میں ایک سینئر ایسوسی ایٹ اور آنے والی کتاب Great Catastrophe: Armenians and Turks in the Shadow of Genocide کے مصنف ہیں)
قریب ایک سو سال پہلے اپریل میں، سلطنت عثمانیہ نے اپنی نسلی آرمینیائی برادری کو تباہ اور ملک بدر کرنے کی ایک سفاکانہ مہم کا آغاز کیاجسے وہ پہلی جنگ عظیم کے دشمن، روس کی مدد کا الزام دیتی تھی۔
دس لاکھ سے زیادہ آرمینیائی باشندے مارے گئے۔ اس سانحہ کو یاد کرتے ہوئے امریکی حکومت اپنے طور پر،اب بھی اسی مخمصے کا شکار ہے جس میں وہ پچھلی تین دہائیوں سے لٹک رہی ہے…یعنی یہ کہ، کیا اسے آرمینیوں کے خلاف سلطنت عثمانیہ کے اقدامات بیان کرتے ہوئے ”نسل کشی“ کی اصطلاح کا استعمال کرنا چاہئے، یا اسے اپنے اتحادی، ترکی کے انتباہات کو سنجیدگی سے لینا چاہیے، جو اس اصطلاح کے استعمال کی سختی سے مخالفت کرتا ہے بلکہ اس نے دھمکی دی ہے کہ اگر یہ لفظ اسی طرح لاگو کیا گیا تو وہ اپنے سفیر کو واپس بُلا لے گا یاحتیٰ کہ امریکہ کو اپنے فوجی اڈوں تک رسائی دینے سے بھی انکار کردے گا؟۔

(جاری ہے)

پہلے راستے کا انتخاب ایک ملین مضبوط آرمینیائی امریکی کمیونٹی کے ساتھ ساتھ بہت سے مورخین کی خواہشات کو بھی پورا کردے گا، جو دلیل دیتے ہیں کہ اس اصطلاح کا استعمال واشنگٹن کا اخلاقی فرض ہے۔ دوسرا راستہ حکمت عملی کے ماہرین اور حکام کو مطمئن کرے گا جو کہتے ہیں کہ تاریخ ایک پیچیدہ چیز ہے اور مشورہ دیتے ہیں کہ ترکی جیسے وفادار اسٹریٹجک پارٹنرکو ناراض نہ کیا جائے۔
 
کوئی دوسرا تاریخی مسئلہ واشنگٹن کے لیے اس طرح کی اذیت کا سبب نہیں بنا ہے۔ محکمہٴ خارجہ کے ایک سابق اہلکار نے مجھے بتایا کہ 1992 میں، اعلیٰ ترین امریکی پالیسی سازوں کا ایک گروپ ، اس وقت صدر جارج ایچ ڈبلیو بش کے قومی سلامتی کے مشیر برینٹ سکاؤکرافٹ کے دفتر میں بیٹھ گیا،اور اس نے حساب لگایا کہ اس موضوع سے متعلق قراردادوں پر، کانگریس میں کسی بھی دوسرے موضوع کے مقابلے میں ان کے وقت کے زیادہ گھنٹے خرچ ہورہے تھے۔
گزشتہ کئی سالوں سے، بحث کا مرکز ایک لفظ”نسل کشی genocide“ بنا ہوا ہے، یہ ایسی اصطلاح ہے جس نے اس طرح کی طاقت حاصل کرلی ہے کہ بہت سے ارکان بلند آواز سے پورا لفظ نہیں بولتے اور اس کے بجائے”لفظ۔جی G-word“ کہتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ زیادہ تر آرمینیائی باشندوں کے نزدیک، کوئی دوسرا لیبل ممکنہ طور پر ان کے لوگوں کے مصائب کی وضاحت نہیں کر سکتا۔
اسی طرح ترکی کی حکومت کے لئے، غالباً اس کے سوادوسرا کوئی بھی لفظ قابل قبول ہوگا۔
امریکی صدر باراک اوباما نے 24 اپریل کے خاص دن کے حوالے سے دئیے گئے اپنے بیانات میں اس تعطل کو توڑنے کی کوشش کی ہے، اُس دن جب آرمینیائی باشندے روایتی طور پر آرمینی زبان کا جملہ”Meds Yeghern“ یا ”عظیم تباہی“کہہ کر سانحہ کی یاد مناتے ہیں۔ مثال کے طور پر،2010 میں، انہوں نے اعلان کیا تھا کہ”سلطنت عثمانیہ کے آخری دنوں میں 1.5 ملین آرمینیائی باشندوں کا قتل عام کیا گیا یا انھیں موت کے منہ میں دھکیل دیا گیاتھا…”Meds Yeghern“ آرمینیائی لوگوں کی تاریخ کا ایک تباہ کن باب ہے، اور ہمیں اس باب کو ان لوگوں کے احترام میں یاد رکھنا چاہیے جنہیں نے قتل کر دیا گیا تھا اور اس لیے تاکہ ہم اس طرح ماضی کی تاریک غلطیوں کا اعادہ نہ کریں“۔
 اپنے آباؤ اجداد کے مصائب کو تسلیم کیے جانے کے لیے کوشاں آرمینی نسل کے لوگوں کے لیے صدر اوباما کے بیانات میں سب کچھ موجود تھا، سوائے ایک بات کے :” نسل کشی“ کے لفظ کے۔اس بھول نے ایک ممتاز لابنگ گروپ،دی آرمینین نیشنل کمیٹی آف امریکہ کو صدر کے باوقار بیانات کی یہ کہہ کرمذمت پر مجبور کردیا کہ،”نئے الفاظ اور مائل بہ گریز اصطلاحات سے بھرپور،ترکی کی دھمکیوں کے سامنے ایک اور شرمناک شکست“۔
ایک لحاظ سے، اوباما اس تنقید کے خودذمہ دار تھے۔آخر، اپنی صدارتی مہم کے دوران، اپنے سے پہلے اکثر امیدواروں کی طرح، انہوں نے آرمینیائی نژاد امریکی ووٹروں سے وعدہ کیا تھا کہ منتخب ہونے کی صورت میں وہ ”نسل کشی“ کا لفظ استعمال کریں گے، لیکن اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد،انھوں نے ترکی کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دی تھی اوراپنا عہد توڑ دیا تھا۔
اپنے 2010کے خطاب میں اُنھوں نے اپنے پیش رو صدور کی نسبت یقیناً زیادہ آگے بڑھ کر بات کی تھی اور انھوں نے کھل کر یہ اشارہ دیا تھا کہ اُن کے ذہن میں ”لفظ۔جی“ تھا، جب انھوں نے کہا کہ”اس تاریخی حقیقت کے بارے میں میرے خیالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے“۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ وہ اس حد کے بالکل کنارے پر پہنچ گئے تھے، لیکن پھر بھی اسے پار کرنے سے رُک گئے تھے۔
تاریخ بطورمیدانِ جنگ 
 1915 میں واپس جائیں تو،اس تباہی سے بڑھ کر کوئی شے متنازعہ نہیں تھی جس کا سامنا سلطنت عثمانیہ میں نسلی آرمینیائی باشندوں کوکرنا پڑا تھا۔نئی ترک حکومت، محمد طلعت پاشا اور دو دیگر افرادکی سربراہی میں، جو بچی کچی ریاست پر حکومت کررہے تھے، اپنے دیرینہ دشمن روس کے خلاف لڑنے کے لیے، ایک سال پہلے جرمنی کی جانب سے عالمی جنگ میں شامل ہوگئی تھی۔
قیادت نے عیسائی آرمینیائی باشندوں پر… جو کہ بیس لاکھ کی آبادی پر مشتمل تھے ، جن میں سے زیاد تر اس جگہ آباد تھے جہاں آج مشرقی ترکی ہے …روس کے ساتھ ہمدردی رکھنے کا الزام لگایا اور انھیں ممکنہ پانچویں کالم کی نمائندگی کرنے والے قرار دیا۔ طلعت پاشا نے تقریباً ان تمام لوگوں کی شام کے بنجر ریگستان کی طرف ملک بدری کا حکم دے دیا۔ اس عمل میں، کم از کم مردوں کی نصف تعداد ترکی کی سیکورٹی فورسز یا حملہ آور کرد قبائلیوں کے ہاتھوں قتل ہوگئی۔
عورتیں اور بچے کافی زیادہ تعداد میں بچ گئے لیکن طویل مارچ کے دوران انھیں انتہائی لُوٹ مار، اغوا، اور عصمت دری کا سامنا کرنا پڑا۔
اُس وقت کے معروف سیاستدانوں نے آرمینیائی باشندوں کی ملک بدری اور قتل عام کو پہلی جنگ عظیم کے بدترین مظالم میں شمار کیا ہے۔ ان میں سے ایک، سابق امریکی صدر تھیوڈور روزویلٹ نے انسان دوست شخصیت کلیولینڈ ڈاج کو 1918 میں لکھے ایک خط میں دلیل دی کہ،” امریکہ کو سلطنت عثمانیہ کے ساتھ جنگ کرنی چاہیے، کیونکہ آرمینیائی باشندوں کا قتل عام سب سے بڑا جنگی جُرم تھا، اور ترکی کے خلاف کارروائی میں ناکامی ، اس سے چشم پوشی کے مترادف ہے“۔
ہولناک واقعات کے بہترین ذرائع میں سے کچھ امریکی تھے۔چونکہ امریکہ جنگ کے ابتدائی سالوں کے دوران غیر جانبدار رہا تھا ، اس لیے سلطنت عثمانیہ میں اس کے درجنوں سفارتی عہدیدار اور مبلغین زمین پر ٹھہرے رہے اور جو کچھ ہوا وہ انھوں نے خود دیکھا تھا۔ مئی 1915 میں، ترکی میں امریکی سفیر،ہنری مورگن تھاؤ نے سلطنت عثمانیہ کے تین اہم مخالفوں…فرانس، روس، اور برطانیہ کی طرف سے احتجاج پہنچایا، جنھوں نے آرمینیائی باشندوں کی ملک بدری کی مذمت کی تھی۔
بیان میں، سلطنت عثمانیہ کی حکومت کی ”انسانیت کے خلاف جُرائم“ پر مذمت کی گئی اور اس اصطلاح کا پہلی بار سرکاری طور پر استعمال کیا گیا۔ جولائی 1915 میں، مورگن نے واشنگٹن میں پیغام بھیجا کہ”وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے اضلاع سے آنے والی رپورٹوں سے پُرامن آرمینیائی آبادیوں کو اکھاڑنے کی منظم کوششوں کی نشاندہی ہوتی ہے“۔انھوں نے لکھا کہ،”ان کارروائیوں میں صوابدیدی گرفتاریاں، تشدد، اور آرمینیائی باشندوں کی بڑے پیمانے پر جلاوطنیاں شامل ہیں، نیز ان کے ساتھ عصمت دری ، لُوٹ مار، اور قتل کے بڑھتے واقعات بھی شامل ہیں ،جو قتل عام میں تبدیل ہو رہے ہیں“۔
سلطنت عثمانیہ کے دوسرے کونے پر، حلب میں امریکی قونصل جیسی جیکسن نے، لاغر آرمینیائی باشندوں کے قابل رحم قافلوں کو شام میں پہنچتے دیکھا۔ ستمبر 1916 میں، جیسی جیکسن نے واشنگٹن میں ایک پیغام بھیجا، جس میں آج کے شمالی شام کے ایک قصبے Maskanah کے قریب تقریباً 60 ہزار آرمینیائی باشندوں کی قبروں کا حال بیان کیا گیا تھا: ”جہاں تک نظر جاسکتی ہے ،اونچی نیچی زمین میں دفن 200 سے 300 لاشوں پر مشتمل مٹی کے ڈھیر نظر آرہے ہیں،مختلف خاندانوں سے تعلق رکھنے والی عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے مدفون“۔
عالمی جنگ کے اختتام تک، اُس وقت کے زیادہ تر اندازوں کے مطابق، تقریباً ایک ملین آرمینیائی باشندے مارے جاچکے تھے۔ اصل آبادی کابمشکل دسواں حصہ ہی اب سلطنت عثمانیہ میں اپنی آبائی زمینوں میں باقی رہ گیا تھا۔ باقی زیادہ تر آرمینیا، فرانس، لبنان، اور شام میں بکھرگئے تھے۔ بہت سوں نے، کئی سالوں کی نسبت زیادہ تعداد میں، امریکہ کی طرف رُخ کیا تھا۔
1920 کی دہائی سے، عظیم تباہی کے یہ واقعات عوامی ریکارڈ کے مقابلے میں نجی غم کا معاملہ بن گئے۔ عام آرمینیائی باشندوں نے اپنے لئے ایک نئی زندگی کی تعمیر پر توجہ مرکوز کرلی۔ آرمینیائی جلاوطنوں میں سرگرم اہم سیاسی جماعت، آرمینیائی انقلابی فیڈریشن، (جس نے ایک سوویت جمہوریہ بننے سے پہلے مختصر طور پر، 1918 سے 1920تک آزاد آرمینیاپر حکومت کی تھی )، نے اپنی زیادہ تر کوششوں کو ترکی کے بجائے سوویت یونین کے خلاف جنگ کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔
1960ء کی دہائی میں جاکر ہی آرمینیائی باشندوں نے اپنے آباؤ اجداد کے مصائب کی یاد کو سنجیدگی سے ایک عوامی سیاسی مسئلہ کے طور پر دوبارہ زندہ کیا تھا۔ انھوں نے ”ہولوکاسٹ شعور“ سے ترغیب حاصل کی تھی، یعنی اجتماعی یاد اور کارروائی کے لیے وہ تحریک جس نے نازی جنگی جرائم پر ایڈولف ایش مان کے خلاف 1961 کے مقدمے کی سماعت کے بعد یہودیوں کو متحد کردیا تھا۔
 
1923 میں مصطفی کمال کی طرف سے قائم کردہ ترک جمہوریہ، ایک ایسی ریاست تھی جس کی بنیادیں منظم طور پر ماضی کو بھول جانے پر استوار کی گئی تھیں… نہ صرف سابق سلطنت عثمانیہ کے دور میں آرمینیائی، اششوری، اور یونانی باشندوں کے خلاف روا رکھے جانے والے جنگی جُرائم کو، بلکہ 1923سے قبل اناطولیہ اور بلقان کی جنگوں کے سلسلے میں مسلمان آبادی کے مصائب کو بھی۔ ترکی کی نئی ریاست کے ترقی کرنے کے ساتھ ساتھ ، آرمینیائی باشندوں کا غائب ہونا ایک، سیاسی، تاریخی، اور اقتصادی طور پر تسلیم شدہ حقیقت بن گیا۔ ترکی میں، 1930سے 1970کی دہائی کے وسط تک اس مسئلے سے متعلق بحث پر مبنی صرف ایک ہی کتاب شائع ہوئی تھی۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط