شدید تعطل
کانگریس، اس دوران، اپنی ہی دھن میں مگن تھی۔ 1970 کی دہائی تک ، ایک ملین آرمینیائی امریکہ میں رہ رہے تھے۔ نوجوان نسل اب اپنے آباوٴ اجداد کی ہلاکت کے حوالے سے بات چیت کو، اتوار کی شب کھانے کی دعوت پر، کسی کی آخری رسومات کے موقع پر یاپھرکم اشاعت والے اخبارات تک محدود کرنے کے لئے تیار نہیں تھی۔میسا چوسٹس کے تاجر اسٹیفن میوگر جیسے سیاسی سمجھ بوجھ اور مال و دولت رکھنے والے بہت سے آرمینیائی نژاد امریکیوں نے کانگریس میں لابی کرنے کا آغاز کر دیا۔
انھیں ایوان نمائندگان کے اسپیکر ٹپ اونئیل کی صورت میں ایک ساتھ دینے والا بھی مل گیا، جن کے کانگریسی انتخاب کے ضلع میں آرمینیائی امریکی کمیونٹی کا اصل مرکز… واٹر ٹاؤن، میساچوسٹس بھی شامل تھا۔ 1975 کے اوائل میں،میوگر اور دوسروں کے اصرار پر اونئیلایوان نمائندگان سے ایک قرارداد منظور کروانے میں کامیاب ہوگئے ، جس کے تحت صدر کو اختیار دیا گیا کہ وہ اس سال سے 24 اپریل کو” انسان کے خلاف انسان کی انسانیت سوز کارروائی کی یاد کا قومی دن“ قرار دیں،اوراسے نسل کشی کا شکار ہونے والے تمام لوگوں”خاص طور پر آرمینیائی نسل سے تعلق رکھنے والے اُن لوگوں کو جو 1915میں ہونے والی نسل کشی کا نشانہ بنے“ کے احترام میں منایا جائے۔
(جاری ہے)
یہ وہ واحدموقع تھا کہ جب کانگریس نے آرمینیائی باشندوں کی نسل کشی کو تسلیم کرنے کے حوالے سے کسی بھی قسم کی کوئی قرارداد منظور کی تھی۔ 1990 میں، سینیٹ نے اس موضوع پر شدید بحث میں دو دن سرف کیے کہ، 24 اپریل کو ایک بار پھر سرکاری طور پر یاد میں منایا جانے والاقومی دن قرار دیا جانا چاہیے یا نہیں، اس بار ”1915سے 1923تک کی آرمینیائی باشندوں کی نسل کشی“ کے حوالے سے۔
کینساس سے تعلق رکھنے والے سینیٹر باب ڈول نے تحریک کے حق میں دلائل کی قیادت کی، لیکن مخالفین اسے روکنے میں کامیاب رہے۔جب سے وائٹ ہاوٴس نے ”آرمینی نسل کشی“ کے جملے کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کی مخالفت کی ہے، اس قسم کی قراردادیں ناکام ہی رہی ہیں۔وہ ایک بہت زیادہ تھکادینے والی پہلے سے قابل اندازہ سرگرمی بن کر رہ گئی ہیں…تاہم آرمینیائی لابی کرنے والے اپنے کیس کی حمایت میں جس قدر تاریخی ثبوت پیش کرتے ہیں…ترک اُن کے مقابلے میں قومی سلامتی کے حوالے سے ایک ہی ٹرمپ کارڈ کھیلتے ہیں، ہلکے پھلکے انداز میں دھمکی دیتے ہوئے کہ معاملے کے حق میں ووٹ امریکہ کے لیے انکرلیک ائر بیس کو مستقل استعمال کرنا خطرے میں ڈال دے گا، جوکہ ترکی کی سرزمین پر ہے، اور خطے میں امریکی فوجی کارروائیوں کے لیے سپلائی کا ایک اہم ترین مرکز ہے۔
2007 میں، جب نسل کشی سے متعلق ایک قرار داد کی ایوان سے منظوری بالکل یقینی ہوچکی تھی ، ریاست کے کم از کم آٹھ سابق سیکرٹریوں نے ایک مشترکہ خط کے ساتھ مداخلت کی اور کانگریس کو قرارداد مسترد کرنے کا مشورہ دیا…جو بالآخر اُس نے مسترد کردی۔
نسل کشی کو تسلیم کرنے کی جنگ اب دونمایاں آرمینی امریکی تنظیموں… آرمینین اسمبلی آف امریکہ اور آرمینین نیشنل کمیٹی آف امریکہ… کے لئے اہم ترین مقصد بن چکا ہے۔
وہ اس بات کو نہیں چھپاتے کہ یہ مہم انھیں ملک بدر آرمینیائی باشندوں…آپس میں بہت حد تک ضم ہوچکا گروپ جو، آرمینیائی زبان اور آرمینیائی مقدس چرچ میں ہونے والی عبادت میں حاضری جیسے دوسرے مشترکہ بندھن کھورہا ہے…کے درمیان ایک اجتماعی تشخص کو محفوظ رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ لیکن وہ یہ تسلیم کرنا پسند نہیں کرتے کہ مہم نے اُن کے اصل مقصد کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔
بہت سے امریکیوں کے لیے، ”آرمینیائی نسل کشی“ کا جملہ اب خوفناک انسانی مصائب کی کہانی کی یاد نہیں دلاتا بلکہ لابنگ اور کانگریسی سودے بازی کی چشم کشا کہانی ہے۔ لامحالہ، اس موضوع پر کسی قرارداد کے لئے ووٹوں کو محفوظ بنانے کی ضرورت کا مطلب ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے آرمینیوں کی یاد کو کانگریسی کاروبار کی دیگر اشیاء سے منسلک کرکے حقیر بنالیا جائے۔
وہاں کیا نتائج ہوتے ہیں یہ معمول کی ہارس ٹریڈنگ پر منحصر ہے، جیسے کہ”آپ فارم بل کے لئے ووٹ دیں، اور میں نسل کشی کی قرارداد پر آپ کی حمایت کروں گا“۔
چند فکرمند آرمینی انہی بنیادوں پر”نسل کشی“کو تسلیم کرانے کے لیے لابنگ پر مبنی مہمات پر اعتراضات کرتے ہیں کہ وہ اُن کے آباؤ اجداد کی اموات کو محض قتل کے ایک بڑے مقدمے میں تبدیل کردیتی ہیں۔
وہ اپنے ساتھی آرمینیائی باشندوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ اموات پر سوگ میں کم دلچسپی رکھتے ہیں اور لاشوں کی تصاویر…جتنی زیادہ لرزہ خیز ہو اُتنی ہی بہتر ہے… کے ساتھ ترکی کے سفارت خانے کے باہر مظاہرہ کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں… اور اُس چیز کو ثابت کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں، جسے وہ پہلے ہی سچ جانتے ہیں۔فرانسیسی آرمینی فلسفی مارک نچانین یہ دلیل دیتے ہیں کہ” نسل کشی کے اعتراف کے لیے جنون، ماتم سے روک دیتا ہے“۔
آرمینیائی مہم چلانے والوں کی بات میں وزن ہوتا ہے جب وہ اس بارے میں دلائل دیتے ہیں کہ نسل کشی کو تسلیم کرانے کی ان کی مہم کا فائدہ ترکی کی توجہ کو ایک ایسے معاملے پر مرکوز کیے رکھنا تھا جسے دوسری صورت میں وہ بالکل بھلا دیتا۔لیکن ان کی مہم سے، ترکی کے جذبات میں بھی اضافہ ہوا ہے ، کیونکہ ان کی کوششوں نے بالواسطہ طور پر پہلی جنگ عظیم سے متعلق ترک قوم پرست کہانی کے بیان کو مضبوط کیا ہے۔
یہ بیان جو جانبدارانہ ہے ،لیکن بالکل غلط نہیں، اُس وقت کی بڑی طاقتوں کو سازشیوں کے طور پر پیش کرتا ہے جو سلطنت عثمانیہ کو کمزور کرنے کی سازش کررہی تھیں۔ اس کے نتیجے میں، ترکی کے تاریخی جرائم کی مذمت میں کسی بھی جدید عظیم طاقت کی طرف سے منظور کی جانے والی قراردادبھی محض زخموں کو ہرا کرے گی۔
اس بداعتمادی میں اضافہ کرتے ہوئے، بہت سے ترک پالیسی سازوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ کو نسل کشی کو تسلیم کرنے پر مبنی قرارداد علاقائی نرمیوں کی راہ ہموار کرے گی۔
حقیقت میں ان خدشات کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔اگرچہ آرمینین ریوو لوشینری فیڈریشن جیسے بعض شدت پسند گروہ،، علاقائی دعوے کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں،لیکن جمہوریہ آرمینیا نے سرکاری طور پر ترکی کی موجودہ سرحدوں کو تسلیم کیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان مکمل سفارتی تعلقات کی بحالی، جو1990 کی دہائی کے اوائل سے آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جنگ کے بعد تعطل کا شکار ہیں ، سرحدوں کے تسلیم کیے جانے کو مزید باضابطہ بنا دے گی۔
ایک ایسی جماعت کے بیانات، جس نے آخری بار 1920میں آرمینیا پر حکومت کی تھی، اس حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتے۔
مصائب کا شکار ہونے والوں کے حوالے سے بات کی جائے تو، یہ دیکھنا خاصا مشکل ہے کہ امریکہ کی طرف سے لفظ ”نسل کشی“ کو تسلیم کرلینا سے ان کے لیے کس طرح کام بنادے گا۔ زیادہ تر بین الاقوامی قانونی نقطہٴ نظر واضح ہیں کہ اقوام متحدہ کا نسل کشی سے متعلق کنونشن ماضی کے واقعات پر کارروائی کی قطعی قوت نہیں رکھتا اور اس وجہ سے اس کو متروک شدہ املاک پر دعوؤں کے لئے لاگو نہیں کیا جا سکتا۔
ایسی صورت حال کا تصور اور بھی زیادہ مشکل ہے کیونکہ یہ پوری پہلی عالمی جنگ کی بھیانک قانونی کارروائی دُہرانے کے عمل کو متحرک کردے گی ، جس کے دوران نہ صرف آرمینیائی بلکہ آزربائیجان، یونانی، اورکرد باشندوں کو بھی اناطولیہ، بلقان اور قفقاز میں ان کے مال و اسباب کی لوٹ مار کا نشانہ بنایا گیا تھا۔اس کے باوجود متنازعہ لفظ کی فریاد اب بھی ترکی کو خوف کا شکار کردیتی ہے۔
ترک پگھلاؤ
اس تاریک تاریخی کہانی کے حوالے سے واحد اچھی خبر،خود ترکی کی طرف سے ہی آئی ہے۔ کمال اریکان کے بعد،جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی(جسے اے کے پی کے طور پر بھی جانا جاتا ہے) کی قیادت میں کام کرنے والی حکومت کے 2002 ء میں ہونے والے انتخابات کے بعد سے، بڑی حد تک بیرونی دباوٴ سے لاتعلق عمل میں، ترک معاشرے نے اپنے ماضی کے تاریک صفحات میں سے بعض پر دوبارہ غور کرنا شروع کر دیا ہے، جس میں سلطنت عثمانیہ کے آخری دور کی غیر ترک آبادی پر ہونے والا جبر بھی شامل ہے۔
اس بڑھتی ہوئی کشادگی نے، زبردستی مسلمان بنائے گئے آرمینیوں کی نسل سے تعلق رکھنے والوں کو خوف کے سائے سے باہر آنے کے قابل بنایا ہے، اور چند آرمینی گرجا گھر اور سکول دوبارہ کھل گئے ہیں۔ ترک مورخین نے بلا خوف و خطر سلطنت عثمانیہ کے آخری دور کے بارے میں لکھنا شروع کر دیا ہے۔ اور انھوں نے بالآخر اُس پرانی غالب کہانی کو چیلنج کرنا شروع کردیا ہے، جسے موٴرخ برکتے نے”ترک جمہوریہ کے پاکیزہ تصور کا نظرئیہ“ قرار دیا ہے۔
آرمینیائی نقطہٴ نظر سے، کشادگی کا یہ آغاز بہت سُست رہا ہے۔ لیکن حقیقت میں اگر اس کی رفتار تیز ہوتی تو اس کا آگے بڑھنا بے حد مشکل ہوتا۔جیسا کہ اس ”پگھلاؤ“ میں اہم کردار ادا کرنے والی اہم ترین شخصیت استنبول میں رہائش پذیر آنجہانی آرمینیائی صحافی ہرانٹ ڈنک نے توجہ دلاتے ہوئے کہا تھا کہ، ترکی پچھلی تین نسلوں سے ایک بند معاشرہ بنا رہا تھا؛ اس طرح کی صورت حال کو تبدیل کرنے میں بہت زیادہ وقت اورکوشش لگتی ہے۔
ڈنک نے2005 میں لکھا تھا کہ ” ترکی کو آج جو اہم ترین مسئلہ درپیش ہے،وہ نہ تو ’انکار‘ کا ہے اور نہ ہی ’اعتراف‘ کا،بلکہ ترکی کا اہم ترین مسئلہ ’فہم و ادراک‘ ہے۔اور فہم و ادراک کے عمل کے لیے، ترکی کو سنجیدگی سے تاریخ کے بارے میں ایک متبادل مطالعہ کی ضرورت ہے، اور اس کے لئے، ایک جمہوری ماحول کی… معاشرہ ایک ایسے سچ کا دفاع کر رہا ہے، جس کی حقیقت وہ بخوبی جانتا ہے“۔
اسی تناظر میں، ڈنک، جو بائیں بازو کے مضبوط رہنما اور تصدیق شدہ سامراج مخالف تھے، انھوں نے غیرملکی پارلیمانوں میں اس بنیاد پر نسل کشی سے متعلق قراردادوں کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ محض ترکی کی سابقہ عظیم طاقت کی غنڈہ گردی کو دُہراتی ہیں۔وہ اپنے مشن کو ،آرمینیائی باشندوں کے لیے ترکوں کی حساسیت اور جائز مفادات کو تسلیم کرنے میں مدد دیتے ہوئے، ترکوں کے لیے آرمینیائی باشندوں اور پچھلی کئی نسلوں سے جاری اُن کی تکلیف کو سمجھنے میں معاون تصور کرتے تھے۔
ڈنک کے موقف نے ترکوں اور آرمینیائی باشندوں دونوں کی پابندیوں کو توڑ دیا، اور انہیں اپنی اس ہمت کے لئے سب سے زیادہ قیمت بھی اداکرنا پڑی: 2007 میں، انھیں ایک نوجوان ترکی قوم پرست نے قتل کر دیا تھا۔
ڈنک کے نظرئیات تجویز کرتے ہیں کہ ہوسکتا ہے لفظ ”نسل کشی“درست اصطلاح ہو لیکن یہ تنازعہ کے حوالے سے ایک غلط حل ہے۔ سادہ لفظوں میں، لفظوں کی جذبات انگیز قوت نے آرمینیائی اور ترک باشندوں کے درمیان مذاکرات کا خاتمہ کردیا۔
کوئی بھی اپنی مرضی سے نسل کشی کے ارتکاب کو قبول نہیں کرتا۔ اس الزام کا سامنا کرتے ہوئے، بہت سے ترک (اور ان جیسی صورت حال میں دوسرے) یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں اپنے آباؤ اجداد کا موازنہ نازیوں سے کرنے کی دعوت دی جا رہی ہے۔
عین ممکن ہے کہ لفظ ”نسل کشی“ خود ختم ہو چکا ہو، اور لیمکن کی ایجاد کی کامیابی ہی اس کی تباہی بھی بن گئی ہو۔ لیمکن نے شاید کبھی یہ توقع نہیں کی ہوگی کہ عزت و وقار کے ایک نئے معیار کا نظریہ، ایک افسوسناک عالمی مقابلے کو شروع کردے گا، جس میں قومیں…آرمینیا کے ہمسایہ میں واقع آذربائیجان سے لیکر سوڈان اور تبت تک…اپنی دردناک کہانیوں پر اس لیبل کو لاگو کرنے کے لیے ،آگے نکلنے کی کوشش کریں گی۔
فلسفی و وتان تودوروف نے مشاہدہ کیا ہے کہ، اگرچہ کوئی بھی شکار بننا نہیں چاہتا ،لیکن یہ حیثیت بعض فوائد پیش کرتی ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ ،”جو گروپ ماضی کی نا انصافیوں کا شکار ہونے والوں کے طور پر شناخت حاصل کرلیتے ہیں، وہ ”اخلاقی جواز کی ایک نہ ختم ہونے والی حد“ حاصل کرلیتے ہیں۔ماضی میں جتنا بڑا جُرم ان کے ساتھ ہوا ہو،موجودہ دور میں اتنے ہی زیادہ یقینی حقوق…جو محض ایک غلط گروپ میں رکنیت کے ذریعے حاصل کے جاتے ہیں“۔
اس کے برعکس، مبینہ قصورواروں کی نسل سے تعلق رکھنے والے اپنے آباؤ اجداد کو جُرم سے مستثنیٰ اور ، ایڈولف ہٹلر اور ہولوکاسٹ سے تعلق نہ جوڑنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
کتاب ”A Problem From Hell“ میں سمنتھاپاور نے بین الاقوامی برادری کو اس کی بزدلی اور نسل کشی جیسے خوفناک رُجحان کو نام دئیے جانے اور کالعدم قرار دئیے جانے کے باوجود، روکنے میں ناکامی پر آڑے ہاتھوں لیا ہے۔
لیکن مسئلہ دوسرے طریقے سے بھی درپیش آ سکتا ہے: کیایہ بین الاقوامی اداکار نسل کشی کی اصطلاح کے بارے میں مبہم باتوں کے پیچھے خود کو چھپانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ اُنھیں کچھ بھی کرنا نہ پڑے…اور یہ کہ کیا لفظ ”نسل کشی“ کی طاقت اور جو ذمہ داریاں یہ لاگو کرتا ہے، وہ کارروائی سے روکتی ہیں؟۔ہوسکتا ہے کہ یہ کوئی اتفاق نہ ہو کہ اقوام متحدہ کے نسل کشی سے متعلق کنونشن کے تحت پہلی کامیاب کارروائی، روانڈا کے ایک جنگی مجرم کے خلاف ،ستمبر 1998 میں، یعنی کنونشن کی منظوری کے تقریباً 50 سال بعد ہی عمل میں آسکی۔
آرمینیائی باشندوں کے معاملے میں، ”آرمینیائی نسل کشی“ کا جملہ، عالمانہ ادب میں ایک روایت بن گیا ہے۔ جو لوگ آج اس لفظ سے بچتے ہیں، وہ دراصل خود کو اُن شکوک میں مبتلا افراد کی صف میں کھڑا کرنے کا خطرہ مول لے رہے ہیں، جوسانحہ کی حقیقت کو کم یا مکمل طور پر اس کا انکار کرتے ہیں۔اب تو بہت سے ترقی پسند ترک دانشور بھی اس اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں۔
ان میں صحافی حسن کمال کے جیسی دلیر آوازیں بھی شامل ہیں ،جو 1915 میں ظالمانہ عثمانی حکومت چلانے والے تین نوجوان ترک رہنماوٴں میں سے ایک، احمد کمال پاشا کے پوتے ہیں۔
لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ”بہت بڑی آفتMeds Yeghern “ایک کمتر اور کم عکاسی کرنے والا جملہ ہے۔اگریہ زیادہ وسیع پیمانے پر استعمال ہونے لگتا ہے، تو عین ممکن ہے کہ یہ وہی حیثیت اختیار کرلے جو یورپی یہودیوں کی قسمت کے بیان میں ”ہولوکاسٹ“ اور”Shoah“ کو حاصل ہے۔
ایک قانونی اصطلاح ”انسانیت کے خلاف جرائم“ بھی ہے، جس کا اطلاق سب سے پہلے 1915 میں،خاص طور پر آرمینیائی باشندوں کے قتل عام کے حوالے سے کیا گیا تھا۔ اس تصور میں جذباتی طاقت کا فقدان ہے اوریہ لفظ ”نسل کشی“ کے تعریفی معیار پر بھی پورا نہیں اُترتا، اور بڑے پیمانے پر ہونے والے اُن مظالم کا احاطہ کرتا ہے جو اس کی محدود تعریف کے تحت نہیں آتے…ان مظالم کا جن کا ارتکاب کرنے والوں کا ہوسکتا ہے کہ پوری قوم کے خاتمے کا ارادہ نہ ہو لیکن پھر بھی انھوں نے بہت سے بے گناہوں کو خوفناک طریقے سے ہلاک کر دیا ہو۔
چنانچہ امریکہ کے لیے چیلنج، صرف ایک بار پھر ”آرمینیائی نسل کشی“کی اصطلاح(یعنی وہ جملہ جو وہ پہلے بھی استعمال کرتا رہا ہے) کو دوبارہ استعمال کرنے کا راستہ تلاش کرنا نہیں ہے، بلکہ ایسا کرتے ہوئے اُس تصور کی حدود کو قبول کرنا بھی ہے جو کہ جذبات سے لبریز اورزیادہ قانون پرست بن چکا ہے۔ آرمینیائی اور ترکوں کی تاریخ کے ساتھ ایک گہری وابستگی کے بغیر، اس اصطلاح کو استعمال کرنے کے عمل سے، اس بڑے بنیادی سوال کو حل کرنے میں کوئی مدد نہیں مل سکے گی کہ،سو سال پہلے کے سلطنت عثمانیہ کے دور کے آرمینیائی باشندوں اور دیگر اقلیتوں کے نقصانات کا احترام کرنے کے لیے ترکی کو کیسے قائل کیا جائے۔
1915 ء میں ایک غیر جانبدار طاقت ہونے کے ناطے، امریکہ پُرزور طور پر کہہ سکتا ہے کہ وہ ترکی کے خلاف کوئی تاریخی بغض نہیں رکھتا۔ چنانچہ واشنگٹن آرمینیائی اور ترک باشندوں کے درمیان وہ مفاہمت قائم کرنے میں مدد کر سکتا ہے ، جس کی ڈنک نے وکالت کی ہے۔ امریکہ ترکی پر زور دے سکتا ہے کہ وہ ، تھوڑے بہت باقی بچے ترک آرمینیائی باشندوں کو ملک چھوڑنے سے روکنے ،ترکی میں باقی بچے آرمینیائی ثقافتی ورثے کے تحفظ ، اور ترک تاریخ کی کتابوں میں آرمینیائی اور دیگر نسلی اقلیتوں کا مقام بحال کرنے کے لیے اقدامات کرکے تاریخی حقائق کو ازسر نو مرتب کرنے کا عمل تیز بنائے۔
آرمینیائی کو بالآخر اس قابل بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ ترک ریاست کی طرف سے اُن کے ساتھ پیش آئے خوفناک واقعہ کے اعتراف کے بعد، اپنے آباؤ اجداد کوحقیقتاً دفن کرسکیں۔مصالحت کی جانب یہ اقدامات یقینا اس وقت زیادہ ممکن ہوسکیں گے جب ترکی زیادہ کشادگی کے ساتھ اپنے مجموعی ماضی کا سامنا کرنے کا آغاز کرے گا۔ اگر یہ حقیقت میں ممکن ہوجائے، تو باقی سب کچھ خودبخود ٹھیک ہوتا چلا جائے گا۔