Episode 9 - Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas

قسط نمبر 9 - آبروئے ما - شاہد جمیل منہاس

محبت ہو تو بے حد ہو۔۔۔۔۔۔محمد عارف راجہ
کتنے عظیم تھے وہ لوگ جنھوں نے پاکستان کی بنیادوں میں اپنا لہو شامل کر کے اس کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ اور پھر آنے والی نسلو ں کو ایک آرام دہ آشیانہ مہیا کر کے اس دنیا فانی سے چل بسے۔ اپنی مٹی سے کتنے وفادار تھے وہ لوگ جو اس دھرتی کو ماں سمجھ کر اس سے اُنس کرتے کرتے اس جہاں سے کنارہ کشی کر گئے۔
کتنے پروقار تھے وہ لوگ جنھوں نے جب بھی سوچا اپنے پاکستان کے لئے سوچا۔ کتنے وفادار تھے وہ لوگ جنھوں نے اپنی نو جوانیاں عیاشیوں پر صرف کرنے کے بجائے تحریک پاکستان کی نذر کر دیں۔کتنے پروقار تھے وہ لوگ جن کے کردار کی مثالیں غیر مسلم کو دینا پڑیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو غیرت مند خون سے تھے۔یہ وہ لوگ تھے کہ جن کے آبا وٴاجداد نے بھی اپنی جانیں اور زندگیوں کا ایک ایک لمحہ اس دھرتی کیلئے وقف کیا۔

(جاری ہے)

اور پھر بعد میں ان کی اولادوں نے بھی اپنے خون کا آخری قطرہ تک اللہد اوررسول اللہاکے نام پر بنائے جانے والے پاکستان پر قربان کر دیا۔آج وہ وارث ہیں اور آج ان کی روحیں بھی فخر محسوس کرتی ہونگی کی وہ اس گھر کے معمار ہیں کی جس میں آج نئی نسل پُر سکون زندگی گزار رہی ہے۔ آج یہ نسل بڑے مان کے ساتھ یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ یہ گھر ہمارا اپنا ہے اور ہم اس کے وارث اور مکین ہیں۔
محمد عارف راجہ کا شمار بھی ان ہستیوں میں ہوتا ہے جن کے نام تاریخِ عالم میں سنہری حروف سے لکھے گئے ہیں۔یہ حروف اس روشنائی سے لکھے جاتے ہیں کی جن کو سات سمندروں کا پانی بھی مٹا نہیں سکتا۔ یہ وہ روشنائی ہے کہ جس میں محمد عارف راجہ جیسے سپوتوں کا لہو شامل ہے۔ محمد عارف راجہ ضلع راولپنڈی کے گاوٴں ساگری میں پیدا ہوئے۔ راولپنڈی کے معروف کالج ، گارڈن کالج سے بی اے اور پنجاب یونیورسٹی سے تاریخ میں ایم اے کی ڈگری نمایاں پوزیشن میں حاصل کی۔
تاریخ کا حصہ بننے والے شہ سواروں سے بے پناہ لگاوٴ رکھتے تھے۔ شائد اسی لئے آج دنیا ان کیلئے بے پناہ پیار اور خلوص کے جذبات رکھتی ہے۔ ایک دفعہ لاہور گئے تو قطب الدین ایبک کے مزار کی اجڑی ہوئی حالت دیکھ کر بہت پریشان ہوگئے اور چند دوستوں کے ہمراہ مزار کی حالت زار کے حوالے سے بزمِ ایبک کی بنیاد رکھی۔ آپ نے سردار عبدالرب نشتر کی سرپرستی میں اس مزار کی تعمیر نو کیلئے اپنا دن رات ایک کر دیا۔
اور پھر اس کے بعد آپ کی تحقیقاتی کوششوں کو چار چاند لگ گئے۔ کیونکہ جب کوئی انسان بغیر کسی مطلب کے کسی سے صرف اس کے کردار اور کارناموں کی وجہ سے لگاوٴ اور عشق رکھتا ہو تو اللہ بھی اس کی مدد فرماتا ہے۔ قیام پاکستان کی جدوجہد میں اس قدر محو اور سرگرم تھے کی اپنے کھانے پینے کا بھی ہوش نہ رہتا۔1948ءء کی جنگ میں کشمیر کے محازپر حصہ لیا ۔آپ ایک لمبا عرصہ ریڈیو پاکستان اور ملٹری گزٹ سے وابستہ رہے۔
اخبارات میں آپ کی تحریریں ایک خاص تواتر سے شائع ہوتی رہیں ۔آپ کا پسندیدہ موضوع تاریخ ہواکرتا تھا اور ان کی زندگی کا نصب العین تحقیقاتی مطالعہ ہی تھا۔ راجہ محمد عارف کی تحقیقات پاکستان اور پاکستان کی حدود سے باہر تک تاریخ کے طالب علموں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ آپ کی معروف کتابیں پوٹھوہار کے آثارقدیمہ ، تاریخِ مذاہب ، تاریخِ پوٹھوہار ، دنیا کی سفاک شخصیات ، تاریخِ راولپنڈی ، تاریخِ راجپوتاں، پاکستان کے آثار قدیمہ اور اس کے علاوہ وہ درجنوں کتب محمد عارف راجہ کے قلم سے اس قوم اور نئی نسل کے حصے میں آئیں۔
ایک دفعہ پولیس میں ASI بھرتی ہو گئے لیکن طبیعت اس محکمے سے نہ مل سکی اور اس نوکری کو خیر آباد کہنا پڑا۔ تاریخ پوٹھوہار لکھنے والی سب سے پہلی ہستی کا نام محمد عارف راجہ ہے۔ شہدائے پاکستان کیلئے بے پناہ عقیدت رکھتے تھے۔ اکثر ان شخصیات کا ذکر کرتے کرتے جذباتی سے ہو جایا کرتے تھے۔ اپنی کتب میں ان شخصیات کو خراجِ تحسین پیش کیاجنھوں نے اپنی زمینیں فروخت کر کے تحریکِ پاکستان کو تقویت دی۔
اس حوالے سے راولپنڈی کا احاطہ شیخ فضل الٰہی سرِ فہرست ہے۔ دلوں کو فتح کرنے کیلئے کسی جنگی ہتھیارکی ضرورت نہیں ہوتی۔اور محمد عارف راجہ دلوں کو فتح کرنے کا ہنر جانتے تھے۔سچی اور کھری بات کرتے تھے۔ اس دن ان کے بیٹے ”ایڈوکیٹ راجہ عابد “ کے پاس بیٹھا ہوا تھا تو باتیں کرتے کرتے میری آنکھیں بار بار نم ہو رہی تھی کیونکہ میں اس معاملے میں ذرا کمزور ہوں۔
لیکن میں نے دیکھا کہ عابد بھائی بار باراپنی پُر نم آنکھوں کو خشک کرنے میں کامیاب ہو رہے تھے۔ اس وقت مجھے معروف شاعر سید ضمیر جعفری بہت یاد آئے۔ ایک کالم میں میں نے یہ وقعہ پڑھا کہ جب وہ اپنی بیماری کی وجہ سے راولپنڈی کو خیر آباد کہہ کر آبائی گاوٴں جہلم جا رہے تھے۔تو اپنی ہی نظم پڑھ کر بے اختیار رونے لگے۔ جب انھوں نے یہ شعر پڑھا تو پوری محفل پر ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے۔
 چپکے چپکے اس نگر گھومنے آوٴں گا میں 
گل تو گل ہیں پتھروں کو چومنے آ وٴں گا میں
لیکن سید ضمیر جعفری کاش یہ بھی بتا جاتے کہ وہ ہمیں تسلی دینے کے لئے یہ شعر پڑھ رہے ہیں تو کم از کم ان کے واپس آنے کا انتظار تو نہ ہوتا۔ لیکن یہ ہمارا ایمان ہے کہ اس نگر جا کر کبھی کوئی واپس نہیں آیا ۔ عابد بھائی سے پتہ چلا کہ اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود اپنی والدہ کی خدمت کے لئے ہر وقت حاضر رہتے تھے۔
والدہ کی وفات سے چند ماہ قبل سخت گرمی میں جب وہ بیمار ہو گئی تو تمام گھر والوں کو تین ماہ کیلئے مری لے گئے۔ تاکہ بیماری کے ایام میں وہ پر سکون رہ سکیں ۔ رعب و دبدبے والی شخصیت کے مالک محمد عارف راجہ بہت نرم مزاج اور درد دل رکھنے والے انسان تھے ۔ انسانیت سے بے پناہ محبت ان کا شیوہ تھا۔ ایک ہاتھ سے دے کر دوسرے ہاتھ کو خبرتک نہ ہونے دیتے تھے ۔
اپنی وفات سے پہلے جب عمرے کی سعادت کے بعد واپس آئے تو بہت خوش اور پر نور تھے۔ یہ عمرہ انھوں نے اپنے بیٹے بریگیڈئیر خضر کے ساتھ ادا کیا۔ کہنے لگے کہ اس دفعہ اللہ نے کرم کیا اور میرا عمرہ بہت اچھا گزرا ۔اس کے بعد پانچ ماہ بہت تندرست رہے لیکن بھوک نہ لگنے کی شکایت اکشر کرتے تھے۔دیکھتے ہی دیکھتے کمزور ہوتے گئے لہذٰا انھیں CMH راولپنڈی میں داخل کرا دیاگیا۔
اپنی بیماری کے دوران انھیں نمونیہ کا حملہ بھی ہوا لیکن وہ صبر کا پیکر تھے۔ اور اف تک نہ کی۔ ان کے دوست جب کبھی ان سے ملنے آتے تو ان سے یہی کہتے کہ میں الحمداللہ بلکل ٹھیک ہوں، لیکن بیماری کے ایام میں اس دنیا سے چل بسنے والے دوستوں کو بھی بہت یاد کیا۔میں نے دیکھا کہ ان کے گھر پھول جیسے بچے ادھر ادھر گھوم رہے تھے مگر ایک بزرگ کا سائیہ جس کے نیچے ان کے بیٹھنے کے دن تھے وہ سائیہ کہیں نظر نہ آیا تو پروین شاکر کا یہ شعر فوراً میرے زہین میں آیا۔
میری تمنا تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر
ہاتھ دعا سے یوں گرا کہ بھول گیا سوال بھی 
گھر والوں سے پتہ چلا کہ راجہ صاحب کو ان کی والدہ جب بھی دعادیتی تو جھولی پھیلا کر دعا دیتی اور دعا یہ ہوتی ” عارف اللہ تمیں میدان کی فتح نصیب کرے“ اور پھر ساری دنیا نے دیکھا کہ عارف راجہ کو اللہ نے ماں کی دعاوٴں کے وسیلے سے ہر میدان میں فتح سے ہمکنار کیا۔
بہت بڑے گھرانے سے تعلق رکھنے والے راجہ عارف نے کبھی کسی پر ظلم نہیں کیا۔ بلکہ ہمیشہ مظلوم کے ساتھ ایسے کھڑے ہوئے جیسے یہ ان کا فرض ہو۔لکھنے والے نے یقینا محمد عارف جیسی شخصیت کے بارے میں ہی لکھا ہے کہ
ازل سے رچ گئی ہے سربلندی اپنی فطرت میں
ہمیں بس ٹوٹنا آتا ہے جھک جانا نہیں آتا
بیماری کے دوران جب وہ اپنی زندگی کے آخری ایام پورے کر رہے تھے تو ان کی اولاد نے دن رات ان کی خدمت کی اور ہمہ وقت ان کی آواز کے منتظر رہتے۔
خاص طور پر ایڈوکیٹ عابد راجہ نے دن رات ان کے ساتھ گزارے ۔آخری دم تک راجہ عارف نے حوصلہ نہ ہارا اور باربار کہتے کہ ” ہر ذی ر وح نے موت کا ذائقہ ایک نہ ایک دن ضرور چکھنا ہے“۔خطئہ پوٹھوہار کے محسن اور شہداء کی زمین کو ایک پہچان اور نام دینے والے راجہ محمد عارف 24دسمبر 2013 کو اس دنیا فانی کو خدا حافظ کہہ گئے۔مجموعی طور پر میں ان کی شخصیت کی عکاسی کے لئے ان اشعار کا سہارا لینا چاہوں گا جو مجھے کئی ہزار الفاظ مزید لکھے بغیر اس شخصیت کا تعارف کروانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ 
پلٹ کر آنکھ نم کرنا ہمیں ہرگز نہیں آتا 
گئے لمحوں کا غم کرنا ہمیں ہرگز نہیںآ تا 
محبت ہو تو بے حد ہو جو نفرت ہو تو بے پایاں 
کوئی بھی کا م کم کرنا ہمیں ہرگز نہیں آ تا

Chapters / Baab of Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas