Episode 16 - Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas

قسط نمبر 16 - آبروئے ما - شاہد جمیل منہاس

انسانیت کے تقاضے اور قوانین کا نفاذ
دسمبر کی ایک شام جب میں اسلام آباد سے راولپنڈی کی جانب آرھا تھا کہ اچانک ہائی وے موڑ پر میری گاڑی کے نیچے ایک پھٹی ہوئی اور خون میں لت پت قمیض آئی جسے دیکھ کر میرا جسم تک کانپ اٹھا لیکن چونکہ گاڑی کی سپیڈ معمول کے مطابق تھی لہذا میں رک نہ سکا یا شائد رکنے کے لئے میرے اندر اتنا حوصلہ بھی نہیں تھا۔
چند قدم آگے گیا تو کچھ سبزیاں ، ٹماٹر اور پیاز وغیرہ سڑک پر بکھرے ہوئے دیکھے جنہیں دیکھتے ہی میری روح ایک دفعہ پھر کانپ اٹھی۔ اور مزید چند سیکنڈ کے بعد میں نے وہ منظر دیکھا کہ جس کو دیکھ کر آج دو برس گزر جانے کے باوجود مجھے سڑکوں اور گاڑیوں سے ڈرلگتا ہے۔ وہ منظر یہ تھا کہ ایک بہٹ بڑا اور لمبا ٹرالر سڑک کے بائیں سائیڈ پر عجیب و غریب حالت میں رکا ہوتا تھا۔

(جاری ہے)

شائد یہ اس کے رکنے کی جگہ نہیں تھی۔ میں نے اسے بائیں طرف سے کراس کر کے راستہ ڈھونڈنے کی کوشش کی تو یک دم ایسا محسوس ہوا جیسے میرے جسم سے جان نکل رہی ہو۔ کیونکہ میں نے ایک ایسے باپ کو ٹرالر کے دو گز چوڑے پہیوں کے نیچے دیکھا جو شام کو روزی کمانے کے بعد اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے کھانے پینے کی اشیاء لے کر خوشی خوشی گھر جارہا تھا۔ اور بے رحم ٹرالر نے اسے موت کی آغوش میں لے لیا۔
نہ جانے کیا کیا مستقبل کے منصوبوں کے ساتھ وہ گھر کی جانب رواں دواں تھا کہ جاؤں گا تو بیٹا چلا اٹھے گا کہ ابو آگے۔ دروازہ پہلے کھولنے کی دوڑ میں آج پھر ایک دوسرے سے لڑیں گے جسے میں دیکھنے کا ہمیشہ منتظر رہتا ہوں اور بھی بہت کچھ! یہ ان ہزاروں حادثات میں سے صرف ایک حادثہ ہے۔ کہ جسے میں نے دیکھا اور جو میں نے نہیں دیکھے بلکہ ہم نے سنے تک نہیں لیکن ہو چکے ہیں۔
وہ شخص جو کسی بھی حادثے کا شکار ہوا کسی ایک انسان کی غلطی اور لاپورواہی کی وجہ سے اس کے دکھوں کا مداوا کون کرے گا۔ یہ کیسی دھرتی ہے؟ کہ جس میں پٹرول گاڑی کی ٹینکی میں نہیں بلکہ ایک بوتل یا کین میں ڈال کر فرنٹ سیٹ کے نیچے ڈرائیور کے اپنے پاؤں کیساتھ یا کسی سواری کے پاس رکھ دیا جاتا ہے۔ یعنی آگ کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔ اور وہ بھی انسانیت کے ساتھ اس حوالے سے گجرات شہر کا واقعہ دل ہلا دینے والا حادثہ ہے۔
کہ جس نے کئی ماؤں کے جگر گوشوں کو آگ کی نظر کردیا کہ جن کے کھیلنے کودنے کے دن تھے جو کلاس میں بیٹھ کر اپنی نظر کتاب پر اور ذہن اس دس روپے والے کھلونے کی طرف رکھتے ہیں کہ چھٹی ہوگی تو پہلے کھیلوں گا اور پھر کھانا کھاؤں گا۔ اف میرے خدایا ! وہ والدین آج کے دن اور راتیں کیسے بسر کرتے ہونگے کہ جو اپنے جگر گوشوں کو اپنے سینے سے لگا کر سلایا کرتے تھے آج اگر کوئی ان کی یہ تڑپ ریکھے تو اسے محسوص ہو کہ ماں کی مامتا کسے کہتے ہیں اور باپ بغیر بازؤوں کے کیساتھ ہوتا ہے۔
کیونکہ اولاد والدین کے لئے جسمانی اعضاء یا بیساکھیاں ہوتے ہیں۔ ایسے سب واقعات ہوجانے کے فوراً بعد بے رحم ڈرائیور حضرات نہ جانے کہاں چھپ جاتے ہیں۔ صرف اس لئے کہ پولیس پکڑ کر لے جائے گی۔ اور اس پکڑ کا کیا ہوگاجو قیامت کے روز رب ذوالجلال کی طرف سے ہوگی۔ یہ دنیا تو چار دن کی ہے۔ اصل زندگی تو وہ زندگی ہے جو موت کے بعد ہے جسکا ایک دن دنیا کے ہزارون ایام سے بھی زیادہ طویل ہوگا۔
رات وہ جو ختم ہونے کا نام نہ لے گی۔ رات صرف طویل نہیں بلکہ آگ کا سمندر ہوگا جس میں انسانیت سے کھیلنے والے گناہگاروں کو دن رات پگھلایا جائے گااور موت پھر بھی نہ آئے گی یعنی ایسے گہنگار رب سے موت مانگیں گے لیکن موت ہے کہ قریب تک نہ آگئے گی کیونکہ اللہ کا سب سے بڑا مقصد انسانیت کی بے قدری اور ظلم کرنے والوں کو دن رات آگ میں پگھلانا ہوگا۔
اتنی لمبی چوڑی تفصیل کا مقصد یہ ہے کہ ملکی قوانین کا نفاذ ہی ایسی تباہی اور بربادیوں کا قلع قمع کرسکتے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک آج اگر ترقی کی راہ پر مسلسل گامزن ہیں۔ تو اسکی بڑی وجہ قوانین کا نفاذ اور بدعنوانی سے پاک انتظامیہ کا ہونا ہے۔ جو ڈاکوؤں لٹیروں اور قوانین توڑنے والوں کا ساتھ نہیں دیتے۔ بلکہ ملکی سلامتی کو اولین فریضہ سمجھتے ہیں۔
سعودی عرب میں جب کوئی ڈرائیونگ کے دوران کوتاہی برتے اور اپنے ہی خاندان کو حادثے کا شکار کردے تو بھی اسے عدالت میں حاضر ہونا پڑتا ہے۔ اور لاپرواہی کی سزا جیل کی صورت میں ملتی ہے۔ ملکی قوانین کی پابندی کروانا کسی ملک کے حکمرانوں کے ہاتھوں میں ہے۔ غیر مسلم معاشرے پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ایک باپ اپنے بیٹے کو اپنی پسندیدہ پارٹی کو ووٹ دینے پر مجبور نہیں کرسکتا۔
جب کسی معاشرے میں کسی انسان کی انسانیت کو دیکھ کر ووٹ پڑے تو وہ معاشرہ کبھی برباد نہیں ہوسکتا۔ جمہوریت کی اصل روح بھی یہی ہے۔ اسلام تو جمہوریت کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ یعنی غیر مسلم معاشرے کو بھی یہ باور ہوچکا ہے کہ مذہب اسلام اور اسکی تعلیمات جو مسلمانوں کے آخری نبی لے کر آئے وہ قابل قدر خزانہ ہے۔ پس افسوس یہ ہے کہ ہم آج ان تعلیمات سے دور ہوتے جارہے ہیں لیکن یار رہے کہ حاکم وقت کی مثال ایک گھر کے سربراہ کی سی ہے۔
کہ اگر وہ نماز پڑھے گا تو اولاد بھی نماز کی پابند ہوگی اگر وہ جھوٹ بولے تو اہل و عیال کو یہ جرم کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ لہذا حاکم وقت کا پاک باز اور باکردار ہونا ایک صاف ستھرے معاشرے کی بہترین مثال ہے۔ معاشرہ گناہ گار اسوقت ہوتا ہے جب حکمران لاپرواہ اور گناہ گار ہو۔ اور ایک معاشرے کو چار چاند لگتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ کہ جب سینے میں پھتر کی بجائے دل رکھنے والے رہنما آئے کہ جب دولت کو ثانوی اہمیت اور ملکی سا لمیت کو اپنا فرض سمجھنے والے مرد قلندر لوگوں نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی ۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں حکمران چنتے ہوئے ہمارے دل میں اپنا خوف پیدا کرے۔ کہ ہم ووٹ ڈالتے ہوئے کہیں گہنگار تو نہیں ہورہے!

Chapters / Baab of Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas