Episode 19 - Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas

قسط نمبر 19 - آبروئے ما - شاہد جمیل منہاس

اسلام اور معاملات زندگی
اگر کوئی شخص گلی گلی محلے محلے گھوم کر ایک لمبا عرصہ یہ کہتا پھرے کہ فلاں شخص بہت نیک سیرت،با کردار رشتوں کو بیلینس رکھنے والاچھوٹے بڑے کو اس کی عمر کے مطابق عزت دینے والا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مثبت اصولوں پر چلنے والا ایک سچا انسان ہے ۔اور پھر اچانک ا سی حلقے میں جہاں وہ اس شخص کی مثبت شخصیت کے بارے میں پھولوں کی لڑیاں پرویا کرتا تھایہ کہہ رہا ہو وہ شخص ایک ذہنی مریض ہے اور خامیوں سے بھرا ہوا ہے تو ان دو شخصیات میں سے ذہنی مریض کون ہوا ؟ ظاہر ہے وہی جو گرگٹ کی طرح رنگ بدلا ۔
۔۔۔۔یہ وہ لوگ ہیں جن کی فطرت میں میں قابظ ہو چکی ہوتی ہے ایسے لوگ اپنی اچھائیوں کو آسمان کی بلندیوں پر لے جا کر بیان کرتے ہیں اور خامیوں کو مصنوعی رنگ و روپ دے کر اچھائیوں میں تبدیل کرنے کا منفی ہنر جانتے ہیں اور خاص طور پر چند جماعتیں پڑھے لکھے لوگ جو اندھوں میں شمار ہوتے ہیں نہ کانوں میں شمار ہوتے ہیں ان میں سے چند لوگ اس فن میں کمال حاصل کر لیتے ہیں جو یقینا جہنم کی طرف لے جانے والا راستہ ہے جس میں کوئی موڑ،کوئی اسپیڈ بریکراور کوئی سگنل نہیں ہوتا یعنی ناکامی ان کے مقدر میں لکھ دی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

یہ وہ بد بخت طبقہ ہے کہ جس کو اگر کسی کی ماں بہن بیٹی میں کوئی خامی یا کوتاہی نظر آ جائے تو وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ان کی بھی کوئی ماں بہن بیٹی تھی یا ہے،وہ پڑھے لکھے انداز میں بد نام کرنے کی انتھک کوشش کرتے ہیں ۔حتیٰ کہ اس انسان کو جو کہ یقینا غلطی کا پتلا ہے بدنام کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے اور پھر ہوتا یہ ہے کہ رب کی ذات کو جلال آ جاتا ہے میرا ہی بندہ ہو کر مجھ سے آگے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے اس پر کیوں نہ ناگہانی آفت ٹوٹ پڑے اور پھر اس کے ساتھ وہ ہو جاتا ہے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا،یعنی اللہ تعالیٰ ان کو ایک موقع دیتا ہے۔
کہ کسی بھی مسلمان یا غیر مسلم کے عیب کو اچھالنا کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے۔لہذا نمونے کے طور پر ایک جھٹکا لگا کر اس گنہگار کو جو کبھی بظاہر نماز تک ضائع نہیں کرتا ایک سبق دینے کی کوشش کرتا ہے جو کہ یقینا آزمائش نہیں بلکہ سزا ہوتی ہے اس موقع پر حضرت علی کا یاک خوبصورت قول بیان کرنا مناسب سمجھوں گا جس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص آپ کے پاس آیا اور ایک سوال پوچھا کہ یا امیر المومنین میں ایک پریشانی میں مبتلا ہوں لیکن مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ اللہ کی طرف سے مجھ پر عذاب ہے یا آزمائش آپ نے مسئلہ پوچھنے کی بجائے ایک لمبی چوڑی تمحید کو چند جملوں میں بیان کر کے اقوام عالم مین انقلاب برپا کر دیا یعنی دریا کو کوزے میں بند کر دیا اور فرمایا کہ اگر کسی بھی شخص پر کوئی پریشانی تنگی تکلیف یا مصیبت آ جائے اور وہ اللہ کی طرف پہلے سے زیادہ رجوع کر کے اپنے گناہوں کی معافی مانگنا شروع کر دے تو یقینا یہ اس پر اللہ کی طرف سے آزمائش ہے اسے شکر ادا کرنا چاہئے کیونکہ آزمائش صرف نیک لوگوں پر آتی ہے اور اگر کوئی شخص ایسی صورت حال میں رب کی طرف مزید ایک قدم بڑھانے کی بجائے کاہل اور سست ہو جائے یعنی نمازوں کو تاخیر کا شکار کر دے یا چھوڑ دے تو وہ سمجھ لے کہ یہ اس پر اللہ کی طرف سے عذاب ہے اور عذاب یقینا گنہگاروں پر ہوتا ہے کیا خوبصورت بات کی کہ ہم اپنا محاسبہ اکیلے کمرے میں بیٹھ کر اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کر بڑی آسانی کے ساتھ کر سکتے ہیں۔
معاملات انسان کی زندگی میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں نماز جو کسی بھی صورت میں معاف نہیں جس کے بارے میں یہ فرمایا گیا ہے کہ ضعف و کمزوری کی وجہ سے اور موت کا خوف طاری ہو جانے والی کیفیت کے دوران انگلی کے اشاری سے ہی سہی لیکن نماز ادا کرنا ہو گی یعنی نماز ہمارے فرائض میں سے پہلا فرض ہے جس میں کوتاہی کبھی معاف نہیں کی جائے گی لیکن جب تک روز مرہ کے معاملات درست نہیں ہونگے تب تک نماز روزہ وقت ضائع لرنے کے مترادف ہے بلکہ بجائے آسودگی اور گناہوں کے جھڑنے کے ایسے لوگوں کی نماز او روزے ان کے لیے تباہی کا باعث بن جائیں گے بالکل ایسے ہی جیسے کوئی روزہ رکھ کر اور نماز پڑھ کر جھوٹ بولے یا دنیا سے چھپ کر گناہ کرے، رمضان مبارک کی آمد آمد ہے اس ماہ مقدس میں ایک نیکی کا ثواب کئی گنا ملتا ہے لیکن گناہ کا حساب و کتاب بھی کچھ اسی تناسب سے ملتا ہے اتنی لمبی چوڑی تمہید کا مقصد تقریر یا فلسفہ جھاڑنا نہیں ہے بلکہ صرف یہ ہے کہ ہم دنیا کی نظر میں سرخ روح ہونے کی دوڑ میں اس قدر مہو ہیں کہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ خدا کی ذات ہم سے کیا تقاضہ کر رہی ہے 10 روپے دس ہزار روپے یا دس لاکھ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا کوئی بڑی بات نہیں بڑی بات یہ ہے کہ ہماری نیت کیا ہے کیا ہم جلسے کا منظر پیدا کر کے یہ رقم ساری دنیا کے سامنے اپنا نام پیدا کرنے کے لیے تو نہیں دے رہے؟اگر ایسا ہے تو دنیا میں تو واہ واہ ہو جائے گی لیکن آخرت پر برے اثرات مرتب ہونگے کیونکہ یہ وہی دولت ہے جو اللہ نے ہمیں دی ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ایک ہاتھ سے ایسے دو کہ دوسرے ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو لہذا وہ ہمیں اس دولت سے محروم بھی رکھ سکتا تھا اور ہم مانگنے والوں کی قطار میں بھی کھڑے ہو سکتے تھے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ دولت اللہ کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہے بشرط کہ انسان دولت مند ہونے کے نشے میں ہوا میں نہ اڑتا پھرے بلکہ ہر لمحہ یہ سوچے کہ اللہ ہمیں اس سے محروم بھی رکھ سکتا تھا کیونکہ اس کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے زندگی کے اس کڑے امتحان میں بس ہم نے کامیاب ہونا ہے جو کہ صرف اور صرف عاجزی میں پنہاں ہے تکبر صرف اللہ کی ذات کو زیب دیتا ہے انسان اس کے سامنے عاجزی اور انکساری کا ایک پیکر ہونا چاہیے بڑے بڑے برج ہم نے گرتے ہوئے دیکھے فرعون اور نمرود کل بھی تھے اور آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں کل بھی دنیا نے ان کی تباہی اور ذلالت دیکھی اور آج بھی آئے دن ہم نے اور آپ نے ایسے فرعونوں کو غرق ہوتے ہوئے دیکھا جو یہ کہتے پھرتے تھے کہ ہماری طاقت کا تمھیں اندازہ نہیں ہے،ہم یہ کر دیں گے ہم وہ کر دیں گے ایسے لوگوں کی زبان پر کبھیِ،انشاء اللہ ، کا لفظ سنننے کو نہیں ملتا اور افسوس کی بات یہ کہ یہ لوگ کلمہ گو بھی ہوتے ہیں اپنی مسلمانیت کے بھی نعرے لگاتے ہیں اور کبھی کبھی اللہ اور اس کے رسول کا نام بھی لے لیتے ہیں آج ہماری ناکامی اور تنزلی کا سبب صرف اور صرف معاملات میں خرابی اور"میں" کا نشہ ہے اسلام نے جو روایات قائم کی تھیں وہ آج ہم بھلا چکے ہیں اخلاقی طور پر اتنے پست ہو چکے ہیں کہ گناہ کرنے کے بعد ندامت تک نہیں ہوتی لیکن اللہ نے ہمیں قدم قدم پر مہلت دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جب ہم نیکی کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اللہ ہمیں صرف اس ارادے کا اجر ثواب کی صورت میں دیتے ہیں لیکن جب ہم گناہ کا سوچیں کہ ہم نے فلاں غلط کام کرنا ہے تو اللہ اس وقت تک ہمارے نامہ اعمال میں گناہ درج نہیں کرتا جب تک کہ وہ گناہ ہم سے سر زد نہ ہو جائے اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ذات اپنے بندے سے کس قدر پیار کرتی ہے اپنے بندے کو جہنم کی آگ سے بچانے کے بہانے ڈھونڈنے والی ذات کا نام اللہ ھے،توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے قیامت تک لیکن توبہ کی توفیق اللہ کس کو دیتا ہے یہ بھی ہمیں جان لینا چاہیے اس مقصد کو پانے کے لیے اور اللہ کی قربت حاصل کرنے کے لیے ہمیں دوسروں کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھنا ہو گا۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے حقوق اپنی مرضی سے معاف کرسکتا ہے لیکن حقوق العباد کو ٹھیس پہنچانے والے شخص کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔ خاص طور پر کسی بھی انسان کا دل توڑنے والا شخص کبھی جنت کا حقدار نہیں ہو سکتا ۔

Chapters / Baab of Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas