Episode 25 - Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas

قسط نمبر 25 - آبروئے ما - شاہد جمیل منہاس

حکومت بمقابلہ پاکستان تحریک انصاف
کچھ عرصہ قبل یونیورسٹی آف سرگودھا کے وائس چانسلر چوہدری اکرم صاحب کے والد کی وفات پر جانے کا اتفاق ہوا ۔ میرے ساتھ پاکستان کے معروف ماہر تعلیم سید شاہد گیلانی بھی میرے ہمسفر تھے۔ جنہوں نے خاص طور پر راولپنڈی اسلام آباد ڈویژن میں کامرس کی تعلیم کا بیج بویا اور آج ملک بھر میں آپ کی اس کاوش کو تسلیم کیا جاتا ہے ۔
وہ راولپنڈی گروپ آف کالجز کے صدر ہیں ۔ فاتحہ کے بعد واپس آتے ہوئے جب کھانا کھانے کی بات ہوئی تو سڑک کنارے ایک ڈھابے پر شاہ صاحب نے گاڑی رکوائی اور کہا کہ میں نے دال کھانی ہے اور آپ نے جو کچھ بھی کھانا ہے بتا دیں ۔ ڈھیر سارے کالجز کا واحد مالک اس قدر عاجزی اور انکساری کے ساتھ اپنی زندگی کے لمحات کو سنہری لمحات میں تبدیل کر رہا ہے ۔

(جاری ہے)

میں نے دیکھا کہ شاہ صاحب عام انسانوں میں اور عام انسانوں کی طرح زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں لہذا وہ کھانے بھی عام کھاتے ہیں ۔

کھانے کی میز پر میں سوچ رہا تھا کہ شاہ صاحب جیسے افراد کی PTI میں موجودگی سے فائدہ کیو ں نہیں اٹھایا جاتا ۔ اپنے ادارو ں کی سلور جوبلی تک منا چکے ہیں اور ہزاروں خاندانوں میں ان کے کئی ہزار شاگرد موجود ہیں ۔ جو یقینا انتخابات میں سید شاہد گیلانی کا ہی انتخاب کرتے ۔ کیونکہ آپ راولپنڈی اسلام آباد میںTI P میں ایک خاص عہدہ بھی رکھتے ہیں ۔
شاہ صاحب سچے اور صاف گو آدمی ہیں۔ سچ ناپید ہے لہذا نا پید کی قدر زیادہ ہونی چاہیے مگر افسوس کہ اس ملک میں سچ بولنے والوں ہی کی قدر نہیں کی جاتی ۔ لہذا پہلے ایک گروہ ،پھر ایک پارٹی اور پھر سارے کا سارا نظام ناکارہ ہو جاتا ہے۔ PTI کے لیے عمران خان کی محنت اور جدوجہد کو کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن ہر پارٹی کی سیر و تفریح کرنے والے کچھ اراکین کی جلد بازی اور غلط بیانات سے عمران خان کی کوششوں سے ملنے والے پھل کو پھلنے میں رکاوٹیں آرہی ہیں۔
جیسا کہ سٹیج پر جب PTI کے اراکین کی بے ہوشی کی اطلاع شاہ محمود قریشی صاحب کو ملی تو انھوں نے فوراً کہا کہ چپ کرو ایسا ہوتا رہتا ہے۔ شاہ محمود کے اس جملے سے PTI کے کتنے ہمدرد PTI کو چھوڑ کر جا سکتے ہیں یا چھوڑ گئے ہیں شاید اس کا اندازہ عمران خان صاحب کو بھی نہیں ہے۔ لہذا اس پارٹی کو شارٹ کٹ اور تیز رفتاری کی وجہ سے کچھ نقصانات ہو رہے ہیں۔
عمران خان صاحب کو کم از کم تمام شہدا کے جنازے پر جانا چاہیے تھا ۔مگر وہ نہیں گئے ۔ اللہ جانے ایسا کیوں ہوا؟سول نافرمانی کی تحریک کا علان کر کے خان صاحب نے وہ غلطی کی ہے کہ جسے اکثر غلطان بھی کہا جاتا ہے ۔اس اعلان کے مطابق کسی بھی قسم کا ٹیکس نہ دینے کا اعادہ کیا گیا ہے ۔ خان صاحب کو شاید یہ معلوم ہو گا کہ خان صاحب کے جلسوں میں ہونے والے اخراجات اور خریدی جانے والی اشیاء کی ادائیگی ٹیکس کے ساتھ کی گئی ہے ۔
خاص طور پر جنریٹر میں استعمال ہونے والے پیٹرول کی ادائیگی میں ٹیکس کی ادائیگی بھی شامل ہے ۔یاد رہے کہ جس قلم سے ہم روز لکھتے ہیں اس کی قیمت میں بھی سیلز ٹیکس شامل ہوتا ہے ۔ یہ سب حقائق ذہن میں رکھ کر خان صاحب کو اس تحریک کا اعلان کرنا چاہیے تھا۔ کونکہ جسم پر ملبوس کپڑے تب ہی ہم پہن سکیں گے جب کپڑا خریدتے ہوئے سیلز ٹیکس بھی ادا کریں گے۔
PTI کی اس حکمت عملی یا نا تجربہ کاری کی وجہ سے اس جماعت میں موجو د سید شاہد گیلانی جیسے کئی خیرخواہ افراد پریشانی میں مبتلا ہیں ۔ حالانکہ یہ وہ لو گ ہیں کہ جو نہ تو جھکنے والے ہیں اور نہ ہی بکنے والے ۔ پاکستان کے عوام اور خاص طور پر نوجوان اس پارٹی کے بے حد چاہنے والے ہیں لیکن وقعتا فوقتاً اس طرح کے حالات اس قوم کے نوجوانوں کو مایوس بھی کر رہے ہیں۔
ملتان کے جلسے میں بے شمار کو تاہیوں کے باوجود یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ لوگ کم تھے۔ عوام کا جم غفیر پوری دنیا نے دیکھا لیکن یہ پتا نہیں کہ ان میں ووٹر ز کتنے تھے۔ لیکن شدید گرمی میں اس طرح کے جلسے میں جانے والے اس پارٹی کے متوالے ہی ہو سکتے ہیں ۔ گزشتہ چند سالوں کی بڑھوتری ایک طرف اور 13 اگست 2014 سے اب تک یعنی 60 دنوں کی ترقی ایک طرف ہے جو PTI کی پزیرائی کو ظاہر کرتی ہے۔
اگر پارٹی کے عہدیداران اور ذمہ داران لاپرواہیوں سے گریز کریں اور ملتان جیسے حادثات سے بچنے کی کوشش کریں تو آئندہ الیکشن میں PTI پہلے سے بہتر مقام حاصل کر سکتی ہے ۔ لیکن اگر پارٹی کے اند راتحاد نہ بن سکا اور لا پرواہیاں اور کوتاہیاں اسی طرح ہوتی رہیں تو بجائے بہتری کے کام خراب بھی ہو سکتا ہے۔ آزمائے ہوئے لوگوں کو ٹکٹ دینے کے بجائے پڑھے لکھے اور بے داغ ماضی اور شفاف حال کے مالک افراد کو آگے لایا جائے ۔
ملتان میں ناراض کارکنان نے عمران خان کی گاڑی بالکل ایسے ہی روک لی جیسے جاوید ہاشمی کی گاڑی کو روکا گیا ۔ خان صاحب کے لیے یہ بات ایک معمولی بات نہیں ہونی چاہیے ۔ہوسکتا ہے کہ یہ مستقبل کے لیے پریشانی کا سبب ہو ۔ بلاشبہ جاوید ہاشمی کی کامیابی کے امکانات ہیں بھی اور نہیں بھی لیکن PTI کے لیے بھی وقت کم اور مقابلہ سخت ہے ۔PTI میں مز ید بہتری بھی آسکتی ہے جیسا کہ عمران خان صاحب نے کہا کہ آئندہ جلسے میں سٹیج پر میرا اور میری ٹیم کا کنٹرول ہو گا۔
لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اگر آئندہ یہ کنٹرول عمران خان اور ان کی ٹیم کے ہاتھ میں ہو گا تو ملتان کے جلسے میں یہ کنٹرول کس کے ہاتھ میں تھا؟ یہ وہ سوال ہے جو خان صاحب کے بیان کے بعد مزید پختہ ہو گیا ہے اور جواب طلب بھی ہے۔ اس سے قبل سٹیج وغیرہ کی فکر کسی بھی پارٹی کے جلسے میں نہیں ہوا کرتی تھی کیونکہ اس سے قبل سٹیج کے معاملے میں اتنے زیادہ مسائل کبھی نہیں ہوئے لیکن موجودہ حالات میں ہر پارٹی اس معاملے پر خصوصی توجہ دے گی۔
عوام کا ایک بہت بڑا سمندر PTI کے ملتان کے جلسے میں دیکھنے کو ملا ۔اگر ا ٓئندہ کے جلسوں میں حالات ایسے ہی رہے تو یقینا حکومت کے لیے یہ بات پریشانی کا باعث ہے ۔ جس کے لیے حکومت وقت کو بھی وقت سے پہلے عوام کے مسائل حل کرنے ہوں گے جیسا کہ گزشتہ کئی دنوں سے پاکستان کے بہت سے شہروں میں لوڈ شیڈنگ میں کمی آئی ہے۔ عوام بجلی کا تسلسل چاہتے ہیں جس کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔
ایسے کڑے وقت میں اگر اس ملک کے عوام کو بنیادی ضروریات زندگی میسر نہ آئی تو یقینا کوئی نیا گروہ یا پارٹی ان سہولیات کی فراہمی کا دعویٰ اور وعدہ کرکے کم از کم آنے والے الیکشن میں کامیاب ہو سکتی ہے ۔ 5 سالوں میں نئی حکومت اپنے وعدوں کو پورا کرتی ہے یا نہیں یہ وقت ہی بتائے گا لیکن موجودہ حکومت کو نقصان ہو سکتا ہے ۔ آنے والے الیکشن چار سال کے بعد بھی ہو سکتے ہیں اوور چند ماہ میں بھی ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اپنی مدت حیات کو پورا کرتی ہے یا مڈٹرم الیکشن اس کا مقدر بنتے ہیں ۔ مستقبل قریب میں اگر عوام کم از کم بجلی گیس اور روزگار کے حصول کے لیے سڑکوں پر نہ آئے تو یہ حکومت اپنا عرصہ پورا کر سکتی ہے ۔ طاہر القادری اور عمران خان کے مستقبل کے اقدامات قوم کی کایا پلٹ سکتے ہیں ۔PTIاور PAT جن اقدامات کے دعوے دار ہیں وہ یقینا ترقی یافتہ ممالک کے عوام کے پاس ہیں ۔
پاکستان میں کبھی یہ قوم ان سہولیات کا تصور بھی نہیں کر سکتی ۔ لیکن یاد رہے کہ ان دونوں لیڈران کے بیان کردہ اقدامات کسی صورت بھی ناممکن بات نہیں ہے۔ ہاں البتہ مشکل ضرور ہیں جو اس سے قبل نہ تو مسلم لیگ اور نہ ہی PPP کر سکی ۔ ظاہری بات ہے کہ کوئی بھی قوم سہولیات لینے سے انکار نہیں کرتی لہذا جو پارٹی عوام کو ریلیف دے گی وہی اس ملک کی حکمران پارٹی ہو گی ۔ یعنی جو جیتا وہی سکندر۔

Chapters / Baab of Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas