Episode 39 - Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas

قسط نمبر 39 - آبروئے ما - شاہد جمیل منہاس

جس کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے (راجہ وحید منہاس)
نظر اور نصیب کا کچھ ایسا اتفاق ہے کہ نظر کو اکثر وہی چیز پسند آتی ہے ۔ جو نصیب میں نہیں ہوتی اور نصیب میں لکھی چیز اکثر نظر نہیں آتی ۔ چلنے والے دونوں پیروں میں کتنا فرق ہے ایک آگے اور ایک پیچھے لیکن نہ تو آگے والے کو غرور ہے اور نہ پیچھے والے کی تو ہین کیو نکہ انہیں معلوم ہے کہ پل بھر میں یہ بدلنے والے ہیں اور اسی کو زندگی کہتے ہیں ۔
زندگی میں اگر کچھ کھونا پڑجائے تو یہ دو جملے یاد رکھنے چاہیے کہ جو کھویا اس کا غم نہیں اور جو پایا وہ کسی سے کم نہیں ۔ جو نہیں وہ ایک خواب ہے اور جو کچھ بھی نصیب میں ہے اور ہمارے پاس موجود ہے وہ لاجواب ہے ۔ ان چند لمحوں کی زندگی میں انسان کو کیا کیا دیکھنا نصیب ہوتا ہے انسان کے ساتھ وہ کچھ ہو جاتا ہے کہ جس کا اس نے تصور بھی نہیں کیا ہوتا ۔

(جاری ہے)

اللہ کی ذات اپنے بندوں کو ہر لمحہ خوش رکھنے کی کو شش میں خوش رہتی ہے ۔ لیکن انسان ہے کہ یہ سمجھتا ہے کہ ذندگی صرف خوشیوں کا ہی نام ہے ۔ جب انسان اللہ تعالیٰ سے بہت اچھی توقعات کر لیتا ہے تو اللہ کی ذات انسان سے خوش ہو جاتی ہے کہ انسان کا اس ذات پر یقین بڑھ رہا ہے۔ اور یہی ایمان والے اور مومن کی نشانی ہے لیکن یہاں پر ایک واقعہ بیان کرنا چاہوں گا کہ معروف دانش ور اشفاق احمد اپنی ایک کتا ب میں لکھتے ہیں کہ کسی گاوٴں میں ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے موچی سے پوچھا گیا کہ تم ہی بتا دو کہ مومن اور مسلمان میں کیا فرق ہے تو اس کے جواب نے مجھ جیسے پڑھے لکھے افرد کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ۔
اس کا جواب یہ تھا ” جو اللہ کو مانتا ہے وہ مسلمان ہے اور جو اللہ کی مانتا ہے وہ مومن ہے “اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ علم مومن کی گمشدہ میراث ہے ۔ علم کے موتی جہاں سے بھی ملیں انہیں چن لیا کرو ۔ انسان کو اللہ سے اچھی توقعات رکھنی چاہیے لیکن اس کے بدلے میں اسے یہ ثابت بھی کرنا ہو گا کہ اللہ کی ہر تقدیر سے وہ متفق ہے۔ ہم خوشیوں کی تلاش میں اور رنگین دنیا میں اس قدر آگے نکل جاتے ہیں کہ اس ذات کو سجدہ کرنا بھی بھول جاتے ہیں جس ذات نے ہمیں ہر قدم پر مایوسیوں سے بچا کر خوشحال کر رکھا ہے ۔
اللہ کی ذات اپنے بندے کو اپنی طرف لانے کیلئے تھوڑی سی سختی برتنا شروع کر دیتی ہے ۔ وہ ذات انسان سے 70 ماوٴں سے زیادہ پیار کرتی ہے ۔ لہذا اس کا بندہ اس سے دور بھاگنے کی کوشش کرتا ہے تو رب کریم ا ٓزمائش دے کر اسے اپنے پاس بلاکر یہ احساس دلاتا ہے کہ زندگی صرف خوشحالی اور عیاشیوں کا نام نہیں بلکہ زندگی تو رب غفور سے ڈرنے کا نام ہے ۔ پچھلے دنوں جب میرا سارا خاندان اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھا تو اچانک اللہ کی آزمائش ہم پر آن پڑھی ۔
میرے بڑے بھائی جن کے حوالے سے میں اثر لکھتا رہتا ہوں کہ انھوں نے ہم سب بہن بھائیوں کو باپ بن کر پالا ہمیں اعلیٰ تعلیم دلوائی ۔ جن کو ہم مرتے دم تک فراموش نہیں کر سکتے ۔اللہ کی ذات نے ان کو تکلیف اور آزمائش میں ڈال کر ہمیں یہ احساس دلایا کہ زندگی ایک ایسے پھلدار درخت کانام ہے کہ جس کے ساتھ پھل تو لگتا ہے لیکن کانٹے بھی موجود ہوتے ہیں ۔
پھول کا موسم آتا جاتا رہتا ہے لیکن کانٹوں کا موسم سدابہار ہے ۔ اس کے باوجود انسان کے جسم کے ہاتھ کو کانٹا ایک ہی صور ت میں چبتا ہے کہ جب وہ حد سے زیادہ لاپرواہ ہو کر پھل یا پھول چننے کی کوکشش کرے۔ اور ہوتا یہ ہے کہ مجھ جیسے گنہگار کی غلطیوں کی سزا کسی ایسے رشتے کو منتقل ہو جاتی ہے کہ جو انتہائی معصوم ہوتا ہے ۔اور جو ہمیں دل و جان سے ذیادہ پیارا ہوتا ہے ۔
میرے بڑے بھائی راجہ وحید احمد بھی ایک بے زر ر انسان تھے ۔ کچھ دن قبل وہ روات شہر میں سڑک کراس کرنے لگے تو اچانک ایک بے رحم کار ان کے ساتھ ٹکرا گئی اور اس قدر زخمی ہوئے کہ سر پر گہری چوٹ لگنے کی وجہ سے وہ 7ایام زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ا سلام آباد میں PIMS کے سرجیکل وارڈ نمبر 3 میں رہے ۔ جب طبیعت بہت زیادہ خراب ہو ئی تو دس محرم الحرام کو انھیں ICU میں Ventilater کے سہارے اللہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔
ہم اللہ کی ذات سے پھر بھی مایوس نہیں ہوئے کیونکہ وہ ذات تو مردوں کو زندہ کر دیتی ہے PIMS کے ڈاکڑوں کی کوششوں اور محنتوں نے یہ ثابت کیا کہ اللہ کی ذات پر ان کا مکمل ایمان ہے اور وہ واقعی انسانیت کے لئے اپنے دلوں میں بے بہا درد رکھتے ہیں ۔ شفاء صرف اللہ کے پاس ہے ۔ اور محنت کرنے کا حوصلہ اور ہمت بھی وہ رب ہی عطا کرتا ہے جو اس ہسپتال کے عملے اور خاص طور پر ڈاکٹر خلیق الزمان کی شاندار سربراہی میں کام کرنے والے ڈاکٹر ز کی محنت اور کاوشوں سے ظاہر ہے ۔
زندگی کے اس کٹھن مرحلے میں عزیز واقارب اور دوستوں نے جو حوصلہ افزائی کی اس کا صلہ کم از کم میں نہیں دے سکتا وہ میرا للہ ہی دے گا ۔ سائے کی طرح ہمارے ساتھ رہنے والے بہت سے دوست اور عزیز اور اقارب نے یہ ثابت کیا کہ وہ واقعی میرے اپنے ہیں ۔ اس مختصر سے کالم میں ان سینکڑوں ہمدرد افراد کا ذکر ممکن نہیں ۔لیکن راجہ نوشیر وان ، راجہ شہزاد ، شیخ ساجد الرحمان، سیدشاہ میر ،راجہ ظفر ، نعمان اور دیگر دوست اور احباب ۔
حتیٰ کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان جیسی ہستی نے بھی عملی طور پر ہمارے کندھوں پر ہاتھ رکھا ۔ وقت گزر جاتا ہے لیکن انسان کے اعمال تھم جاتے ہیں اور وہ زندہ رہتے ہیں ۔PIMS کے چیئرمین ڈاکٹر خلیق الزمان صاحب سے جب بات ہوتی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ سب مریض اپنے اپنے گھر والوں کیلئے اتنے ہی پیارے ہیں کہ جتنے آپ کے بھائی آپ کیلئے پیارے ہیں ۔
لیکن مجھے اللہ نے جو تو فیق اور عزت دی ہے اس کی شکر گزاری کیلئے میں اللہ سے آپ کے بھائی کی زندگی کی بھیک ضرور مانگوں گا اورمیں اور میرا عملہ ہر ممکن کوشش کرے گا کہ اللہ ہمیں کامیابی عطاء فرمائے۔ میں نے دیکھا کہ ڈاکٹر عمر جیسے محنتی اور انسان دوست لوگ اپنے ڈیوٹی اوقات ختم ہو جانے کے بعد بھی اپنے کھانے پینے کی پروا ہ کیئے بغیر اللہ کے بندوں کی خدمت کر کے دلی سکون حاصل کر رہے ہیں ۔
اللہ انہیں دنیا و آخرت کی ہر خوشی عطاء کرے اور کوئی دکھ اور غم ان کے پاس سے بھی نہ گزرے ۔ ICU کے محب وطن عملے کے ساتھ ساتھ سر جیکل وارڈ کے ڈاکٹرز تک ہر فرد محنت کو اپنا شعار بنائے بیٹھا ہے خاص طور پر ڈاکٹر عمر اور اس کے ساتھیوں کا جب میں نے شکریہ ادا کیا تو کہنے لگے کہ ہم سب اب فائر فائٹر بن چکے ہیں ۔ بہت سی خوبیوں کی حامل انتظامیہ اگر صفائی کے نظام کو بہتر کر کے پانی کے ضیاع کو بھی روک سکے تو یہ ہسپتال پاکستان کے تمام صحت کے مراکز میں پہلے نمبر پر آسکتا ہے ۔
 
لیکن کہا جاتا ہے کہ انسان کی خوبیوں کو معیار بنا کر خا میوں کو بھول کر زندگی کا سفر اور معاملات زندگی آسان ہو جاتے ہیں کیونکہ انسان کبھی فرشتہ صفت نہیں ہو سکتا لیکن بہترسے بہترین ضرور ہو سکتا ہے ۔ اس ملک کے سب ہسپتالوں میں اپنے اپنے پیاروں کی صحت یابی کیلئے ان کے جان نچھارو کرنے والے رشتے دار بے تاب بیٹھے ہیں ۔انسان بہت کمزور ہے اور اللہ سے دعا ہے کہ انسان کے کندھے ناتواں کندھے ہیں ہم ان آزمائشوں کا بو جھ نہیں اٹھا سکتے ۔
اے رب رحیم ہم پر رحم فرما اور ہمیں کمزور ترین سمجھ کر ہم پر اتنا بوجھ ڈال کہ جتنا ہم برداشت کر سکیں ۔ بوڑھے والدین اپنی اولاد کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے ۔ اے اللہ امت مسلمہ کی تکا لیف اور مصائب کو آسانیوں میں تبدیل کر دے ۔ اے غفور و الرحیم تو معجئزے کرنے والی ذات ہے ہم گنہگاروں کو معاف کر کے ہماری پریشانیوں کو ختم کر دے۔ بے شک تیرے ہر کام میں مصلحت ہے جو ہم انسانوں کی سوچ سے باہر ہے۔
میرے بڑے بھائی راجہ وحید احمد انتہائی خوش اخلاق انسان تھے ۔ ہنس مکھ اتنے کہ جو انہیں نہیں جانتا تھا اس کی بھی خواہش ہوتی تھی کہ وہ ان سے ملے اور باتیں کرے ۔ لڑکپن کھیل کھود کی بجائے محنت کی نظر ہو گیا۔ آج سے 20 برس قبل جب ہمارے والد گرامی راجہ ایوب خان ہمیں داغ مفارقت دے گئے تو اس بھائی نے ہمیں باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دی ۔ بہنوں اور بھائیوں کو سکول ، کالج اور یونیورسٹی تک لے گئے ۔
در حقیقت پڑھا لکھا تو راجہ وحید تھا کہ جس کی تربیت نے ہمیں انسانیت سکھائی ۔ بھائی کے پاس صرف کتابیں نہیں تھیں لیکن تربیت کمال کی تھی ۔ کیونکہ اس بھائی نے ہمیں آدمی سے انسان بنا دیا ۔آج میری ماں اپنے بیٹے کے بغیر پل پل جدائی کے زخم سے چھلنی ہو رہی ہے ۔ شدت جذبات میں میت اٹھاتے ہوئے زور زور سے کہنے لگیں کہ نہیں جانے دوں گی ۔ میں نے دیکھا کہ ایک ماں آج بھی یہ محسوس کر رہی ہے اس کی مامتا سو رہی ہے ۔
اسے کیا معلوم کہ اس کا جگر گوشہ سو تو رہا ہے لیکن ابدی نیند ۔ آج اس کی یاد میں ہم سب ریزہ ریزہ ہو چکے ہیں ۔ میرے دوست جب مجھ سے ان کا تعارف مانگتے ہیں تو میں سب سے یہی کہتا ہوں کہ آج ہم یتیم ہو گئے ہیں ۔24 گھنٹوں میں بیس گھنٹے محنت کرنے والا وحید آج ہم میں موجود نہیں ہے اور وہ یقینا شہید ہے۔ ان کی بیٹی مومنہ اور دو بیٹے آکاش اور حمزہ آنسووٴ کو بار بار روکنے میں ناکام ہو رہے ہیں ۔
اس سارے مرحلے میں اگر بھائی حفیظ، حارث بھائی ، خرم ، زاہد ،عمر اور سہیل میرے ساتھ نہ ہوتے تو میں یہ مصائب کبھی بھی برداشت نہ کر پاتا ۔ بھائی جب بستر مرگ پر تھا تو مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ میں ان کو اس حال میں دیکھ سکتا ۔ لہذا میں موجود تو PIMS میں ہی ہوتا تھا لیکن بھائی کے پاس رکنا میرے بس میں نہیں تھا ۔ لیکن میرے ان بھائیوں نے بہت ہمت اور حوصلے کا مظاہرہ کیا ۔
لیکن ایسا بھی ایک لمحہ آیا کہ جس نے ثابت کیا کہ دولت اور انسانی کاوشیں کسی کو جانے سے نہیں روک سکتیں ۔ اچھے لوگ اگر دنیا والوں کو پسند ہوتے ہیں تو خدا بھی انہیں پسند کرتا ہے ۔ لہذا وہ ایسے لوگوں کو جلد ی بلا لیا کرتا ہے ۔ 8 نومبر 2014 دن ایک بجے میرے بھائی راجہ وحید احمد ہمیں چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ان کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف کر کے ان کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنادے۔ آمین۔
آج پھر اِک اور برس بیت گیا اس کے بغیر
جس کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے

Chapters / Baab of Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas