Episode 51 - Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas

قسط نمبر 51 - آبروئے ما - شاہد جمیل منہاس

معاشی مسائل کا انبار اور حکومتِ وقت
دنیا کا سب سے بڑا سلامی ملک پاکستان جو آزادی کے وقت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک تھا آج دنیاچھٹا بڑا ملک ہے کل رقبہ تقریبا 80 ملین ہیکٹر ہے اور قابل کاشت رقبہ ایک تہائی حصے پر مشتمل ہے پاکستان کی 66 سالہ زندگی معاشی،سیاسی،داخلی اور خارجی مسائل سے بھری پڑی ہے بدلتے ہوئے موسموں کی طرح بدلتی ہوئی سیاسی حکومتوں اور مارشل لاء کے بار بار نفاذ نے بے شمار مسائل پیدا کیے ہیں خاص طور پر گزشتہ پانچ برس میں معاشی مسائل نے دن دگنی رات چگنی ترقی کی ہے مہنگائی بے روزگاری ،بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ،غربت میں بے تحاشااضافہ ،توانائی کے ذخائرمیں مسلسل کمی خوردنی اشیاء کی قیمتوں میں بے قابو اضافہ پینے کا صاف پانی تو بہت دور کی بات اس نعمت کو دیکھنے کے لیے عوام بے قرار نظر آتی ہے،نااہل عہدیداران جو متعلقہ شعبے میں مہارت اور تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے قابض رہے ان کے حوالے سے بات کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ناقص معاشی منصوبہ بندی لاء اینڈ آرڈر کی بد ترین صورت حال دہشت گردی کی لعنت شمالی علاقہ جات اور بلوچستان میں غیر سیاسی اور احمقانہ فیصلے جن مین غیر توجہی کا عمل سر فہرست ہے اور اس کے ساتھ ساتھ نا اہل افسران کی بھرتی نے ان مسائل میں بے پناہ اضافہ کیا ا ور آج عینک والے جن کی طرح غائب غائب ہو گئے ۔

(جاری ہے)

لہذا بھگتنا اسی کو پڑتا ہے جو عصر حاضر میں حاضر پایا جاتا ہے۔اور آج نواز شریف ان مسائل کے حل کے لیے ایک دفعہ پھر سینہ تان کر دیوار آہن بن کر ظم و جبر کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔
معاشی سروے کے ایک محتاط جائزے کے مطابق2011-12کے کچھ حقائق پر نظر دوڑائیں توپتہ چلتا ہے کہ اس عرصے کے دوران خام ملکی پیداوار کی شرع میں 3.7% اضافہ ہوا جبکہ ہدف4.2%مقرر کیا گیا تھااسی عرصے کے دوران زرعی شعبہ جو کہ پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے اس کی پیداوار میں اضافہ3.1%رہا جسکو بالواسطہ یا بلا واسطہ اس مادر ملت کی 70%آبادی کنٹرول کیے ہوئے ہے۔
صنعتی،خدمات کے شعبے اور اس کے ساتھ ساتھ اشیاء کی پیداوار کے شعبے میں اضافہ بالترتیب3.6% 14.2%,اور3.28% رہا خام ملکی پیداوار میں پیداواری شعبے کا حصہ46.5%جبکہ خدمات کے شعبے کا حصہ53.5% کل آبادی 180.7ملین افراد پر مشتمل ہے جبکہ آبادی میں اضافے کی شرح اسی دوران2.04%رہی،شرح خواندگی58%ہے افراط زر کی شرح10.8%رہی،2011-12میں غیر ملکی ترسیلات تقریبا10.7بلین ڈالر رہیں جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر کا تخمینہ16 بلین ڈالر لگایا گیا سب سے پریشان کن مسئلہ غیر ملکی قرضوں اور واجبات کا ہے جو کہ گزشتہ پانچ برس کی کوتاہیوں اور لا پرواہیوں کی وجہ سے60.3 بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے جس کی واپسی کے بارے میں سوچ کر پریشانیوں کا ایک سیلاب امڈ آتا ہے۔
کیونکہ قرض دار ملک کی حیثیت قرض خواہ کے مقابلے میں کیا ہوتی ہے یہ بھی ہم جانتے ہیں،یہاں پر اگر غربت کی بات کریں تو2007-08 میں یہ شرح33.8% تھی جو کہ اب نواز شریف کو40% اضافے کے ساتھ ملی ان تمام معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ نواز شریف کی اکیلی جان نے بہت سارے وفادار دوستوں کے ساتھ ملکر ستمبر میں ایوان صدر میں ایک نیا صدر بٹھانا ہے نومبر میں موجودہ آرمی چیف کی جگہ نیا آرمی چیف لانا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دسمبر بھی آ رہا ہے جس میں نیا چیف جسٹس بھی لانا ہے،عدالت عظمیٰ کی نگاہیں نواز شریف کی سرگرمیوں اور فیصلوں کو بھی مانیٹر کرنے میں سرگرم عمل ہیں۔
غربت و افلاس،بجلی تعلیمی پسماندگی،ڈرون حملے،صحت کے مسائل اور اس سے بھی بڑھ کر کراچی میں قتل و غارت گری کے مسائل کا سامنا بھی اسی تن تنہا ہستی نے کرنا ہے۔یاد رہے کہ یہ وہی ہستی ہے جس کو اٹک قلعہ میں قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا جہاں دن اور رات دونوں گھپ اندھیرے میں گزارتے تھے۔ایک اطلاع کے مطابق جب گارڈ نواز شریف کو کھانہ پیش کرنے آتا تو نواز شریف ہمیشہ اس سے پوچھتے تھے کہ کیا ٹائم ہوا ہے اگر وہ کہتا کہ 11 بجے ہیں تو نواز شریف دوسرا اور آخری سوال پوچھ کر چپ ہو جاتے وہ سوال یہ ہوتا تھا کہ بس اتنا بتا دو کہ دن کے11 بجے ہیں یا رات کے، میں سمجھتا ہو کہ ایک پڑھے لکھے اور با شعور انسان کے لیے ایسی دو چار راتیں بسر کرنا بھی نا ممکن ہے مگر نواز شریف نے ایک طول عرصہ یہ قیامت صغریٰ دیکھی اور سرخ رو ح بھی ہوئے کیونکہ ماں کی دعاؤں نے وہ اثر دکھایا جو ہم کتابوں میں پڑھتے اور کہانیوں میں سنا کرتے تھے مختصر یہ کہ یہ وہ ہستی ہے جس کو ملک بدری کے دوران قریبی رشتوں سے بھی ہمیشہ کے لیے جدا ہونا پڑا لیکن حوصلہ اور ہمت کی داد دینی ہو گی اور پھر یہ وہی نواز شریف ہے جو اللہ کے فضل سے ملک کی تقدیر بدلنے کا عزم لے کر قوم کے سامنے ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ نئی حکومت کے روح رواں نواز شریف ایک بہت بڑا چیلنج قبول کر کے آج بے تحاشامسائل سے دوچار اور پریشان ہیں کوئی ایک شعبہ تنزلی کی طرف جا رہا ہو تو اس کو ترقی دینا کوئی بڑی بات نہیں ہوتی لیکن جب آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہو تو کوئی تدبیر ،عقل،ہوشیاری،تیزی اور چالاکی کام نہیں آتی۔
ایسی صورت میں یہ کہنا مناسب ہے کہ اے رب کریم۔ چھوڑ دی ہم نے کشتی ترے نام پر اب کنارے لگانا تیرا کام ہے اللہ کی ذات پر بھروسہ اور نیک نیتی ایسے ہتھیا ر ہیں جو ان گنت مسائل کو حل کرنے کا سبب بنتے ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ محنت کرنے والا اور محنت نہ کرنے والا کبھی اللہ کی نظر میں برابر نہیں ہو سکتے آج قوم اس بات پر متفق ہوئی ہے کہ ان تمام نا ممکنات کو ممکنات میں تبدیل کرنا صرف اور صرف اللہ کے فضل و کرم کے بعد اسی ہستی کے ذمے لگا دیا جائے جس نے پہلے بھی ایسی تواریخ رقم کی ہیں جن کو الگ الگ شمار کرنابہت مشکل کام ہے قوم سے درخواست ہے کہ اس حکومت کو کام کرنے کے لیے وقت دیا جائے تا کہ غلامی کی زنجیروں سے ہم سب آزاد ہو سکیں۔
اپنی مٹی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھوں
سنگ مر مر پہ چلو گے تو پھسل جاؤ گے

Chapters / Baab of Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas