Episode 52 - Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas

قسط نمبر 52 - آبروئے ما - شاہد جمیل منہاس

آزاد عدلیہ اور حکومت وقت
مسلم لیگ ق کے دورِ حکومت میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے لیے ایک بہت بڑی ریلی کا اہتمام کیا گیا جس کی قیادت موجودہ وزیر اعظم پاکستان جناب محمد نواز شریف کر رہے تھے پوری قوم اس ریلی سے متفق تھی جس کا ثبوت عوام نے دیا یہ ریلی ابھی دارالخلافہ سے سینکڑوں میل دور تھی کہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی اس ریلی کا بنیادی مقصد اس وقت کی حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنا اور محترم چیف جسٹس کی بحالی بھی اس کا حصہ تھی اب عوام کا خیال تھا کہ نواز حکومت جب بھی آئے گی چوہدری افتخار اس کے لیے معاون ثابت ہونگے لیکن حقائق یہ بتا رہے ہیں کہ موجودہ حکومت جہاں جہاں غلطی کرتی ہے یا غلط اقدام کی طرف جاتی ہے عدلیہ اسے فوراََ خبردار کہہ کر حدود کا تعین کر دیتی ہے جو کہ یقینا ملکی مفاد میں ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ موجودہ حکومت دانستہ طور پر ایسا اقدام کرتی ہے کہ جس کے حوالے سے عوام اور حکومت کی رائے میں تضاد پا یا جاتا ہے،سابقہ پی پی پی دور حکومت میں حکمرانوں کے غلط ریوں اور اقدامات کی وجہ سے ملک کے اثاچہ جات کو بے پناہ نقصان پہنچا جس کی روک تھام کے لیے عدلیہ نے بھرپور کردار ادا کیا ورنہ ایسے ایسے اقدامات کہ جن کی وجہ سے ملک پاکستان تباہی کے دہانے تک پہنچ جاتا اگر عدلیہ ان کی حوصلہ شکنی نہ کرتی موجودہ دور حکومت میں مسلم لیگ ن کی حکومت مسائل کے چنگل میں مکمل طور پر گرفتار ہو چکی ہے جس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ کر لیتی ہے جس کی تشہیر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی ہو چکی تھی لیکن عوام کے پر زور احتجاج اور اصرار کی وجہ سے حکومت کو یہ فیصلہ واپس لینا پڑا،میں سمجھتا ہوں کہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہی ایک ایسا ہتھیار ہے جو کامیابی سے ہمکنار کر سکتا ہے یہاں حکومت کے فیصلہ کرنے کی قوت میں کمی واضع نظر آ رہی ہے اسکی بڑی وجہ ہوم ورک مکمل نہ کرنا ہے جس پر حیرانگی پائی جا رہی ہے بہت سے اقدامات ایسے ہیں جن کو پوری دنیا نے سراہا مثال کے طور پر وزارتوں میں کمی اور سہولتوں کی بھرمار لینے سے انکار حتیٰ کہ لوڈ شیڈنگ میں واضع کمی نظر آ رہی ہے اس کے علاوہ تعلیم،صحت،صنعت اور دیگر میدانوں میں بہتری کے لیے اقدامات بھی سامنے آ رہے ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ جب تک ملک اندرونی اعتبار سے مستحکم نہیں ہو گا تب تک ترقی کا تصور بھی فضول ہے میں نے پہلے بھی ایک کالم میں لکھا تھا کہ موجودہ حکومت کو خالی ڈھانچہ ملا ہے جس کو از سر نو تعمیر کرنا ہو گا جو ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ سے کم نہیں لیکن بحرحال موجودہ توڑ پھوڑ کو مرمت کے مراحل سے گزارنا بھی ہماری مجبوری ہے ان سب مسائل کے حل کے لیے عدلیہ دن رات موجودہ حکومت کو سہارا دینے میں کوشاں ہے صرف موجودہ حکومت کے لیے یہ معاونت نہیں بلکہ ماضی کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے سابقہ حکومت کے مثبت اقدامات کو تقویت دینے کی جب بھی بات آئی تو عدلیہ معاون و مددگار ثابت ہوئی فرق صرف یہ تھا کہ موجودہ حکومت نیک نیتی سے خالصتاََ قائد اعظم کے بنائے ہوئے پاکستان کے لیے سرگرم عمل ہے جبکہ سابقہ حکومت اور حکمرانوں نے زیادہ تر اقدامات ملکی مفاد کے بر عکس کیے جن کے لیے جیبیں بھرنا سب سے بڑا اور بنیادی مقصد تھا یہ اقدامات ملک کی سا لمیت کے منافی تھے لہذا عدلیہ نے وہی کیا جو ملک و قوم کے لیے سود مند تھا مثال کے طور پر سی این جی سو روپے کلو کر دی گئی تو یہ عدلیہ ہی تھی جس نے اس ظالمانہ اقدام کی مخالفت کی اور فیصلہ دیا کہ 75 روپے سے زیادہ لینے والے سی این جی مالکان کوسزا دی جائے یہ اقدام براہ راست حکومت کے ظالمانہ اقدام کے خلاف ایک ڈھال تھا جس کو قوم کبھی فراموش نہیں کر سکتی اس طرح کی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ عدلیہ نے غریب عوام کے لیے منفی اقدامات کو روکا اور مثبت اقدام میں تبدیل کیا ورنہ گزشتہ دور حکومت میں غریب عوام پر ظلم کے کوہ گراں گرائے گئے اگر افتخار چوہدی اپنا کردار ادا نہ کرتے تو آج دشمن اس ملک میں داخل ہو چکا ہوتا موجودہ دور حکومت میں اگر کہیں غلط اقدام ہو بھی رہا ہے تو عدلیہ اس کے لیے بھی ڈھال ثابت ہو رہی ہے جو کہ حکومت وقت کی کارکردگی مین بہتری کا ہی سبب بنے گی اور میں سمجھتا ہوں کی نواز شریف جیسے صافگوحکمران کے لیے یہ Helping Hand سے کم نہیں۔

(جاری ہے)

عدلیہ کا آزاد ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ حکومت اور دیگر ادارے باہم مشاورت سے احکامات جاری کر رہے ہیں جو کہ ملکی مفاد میں ہے آج آزاد عدلیہ نے اپنے ذمے بہت سے فالتو کام بھی لے لیے ہیں خوشی سے نہیں بلکہ گزشتہ پانچ سالہ ظالمانہ کاروائیوں سے تنگ آ کر آزاد عدلیہ ملکی مفاد کے منافی پالیسیوں کو صیح سمت میں کام کروانے کی طرف لائی۔۔لہذا موجودہ حکومت کو بھی پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہو گا ہم اس سے زیادہ اس ملک کی شکست و ریخت کے متحمل نہیں ہو سکتے یعنی مزید لاپرواہی ہمیں تباہی سے دوچار کر سکتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ دور حکومت میں مسائل بے تحاشا اور وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں،اس کی مثال یو ں دی جا سکتی ہے کہ ایک شخص بیمار ہے اسے دوا کی سخت ضرورت ہے دوسری طرف اس کے کپڑے بھی پھٹے ہوئے ہیں لیکن اس کے پاس رقم اتنی ہے کہ یا تو وہ دوا خرید سکتا ہے یا کپڑے تو ظاہر ہے کہ ایک ہوش مند آدمی پہلے دوا کھائے گا تا کہ زندہ رہ سکے کیونکہ کپڑے زندوں کو پہنائے جا تے ہیں مردوں کو تو کفن پہنایا جاتا ہے جو کسی اور کے ہاتھ سے میسر آتا ہے اس وقت اس مادر ملت کو دوا کی ضرورت ہے اس کے بعد زیبائش کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔
نواز شریف حکومت اس وقت صنعت و حرفت،فنون لطیفہ،زراعت،تعلیم اور دیگر بے شمار حوالوں سے الجھن کا شکار ہے کیونکہ جب محکمے نا دہندہ ہونا شروع ہو جائیں تو کوئی تدبیر اور دانش مندی کام نہیں آتی بلکہ اللہ کی رحمت کا طلبگار ہونا پڑتا ہے اور رب کی ذات نے گزرے ہوئے کل میں بھی معجزے کیے اور آج بھی انشاء اللہ ہونگے بشرطیہ نیت صاف اور محنت کا جذبہ ہوالمختصر آج ضرورت اس امر کی ہے کہ عدلیہ اور حکومت باہمی مشاورت سے ملک کی تقدیر بدلنے کا عزم کر لیں اسی میں موجودہ حکومت ،عوام اور ملک کی بہتری ہے، انصاف مہیا کرنے والے ادارے ہوں یا قانون ساز اسمبلیاں یا کہ عوام،جب تک اتحاد و اتفاق کی فضاء پیدا نہیں کی جاتی تب تک ترقی کی منازل طے کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہو گا ،پاکستان کے ہر فرد اور ادارے کے ہر کارکن کو ہر آنے والی حکومت اور آزاد عدلیہ کا ساتھ دینا ہو گا۔
منی لانڈرنگ کا معاملہ ہو یا اسمگلنگ کی پریکٹس ہمیں ہر حال میں اس ملک کو بچانے کیلئے ایسے گھناؤنے کاروبار اور ملک دشمن عناصر کو بے نقاب کرنا ہو گا ،پاکستان کا پیسہ باہر لے جا کر ملکی سا لمیت کو نقصان پہنچانے والے درندہ صفت لوگوں کو کڑی سزا ملنی چاہئے۔اس سلسلے میں ملک و قوم کا ہر بچہ ،بوڑھا اور جوان اس تحریک کا حصہ بن جائے جس کا نعرہ یہ ہے ”ملک دشمن عناصر کی سرکوبی“
چلو یہ سوچیں ہم آج مل کے جو اس زمیں سے کیا تھا ہم نے
وہ عہد کیا ہم نبھا رہے ہیں۔
وہ عہد کیا ہم نبھا رہے ہیں
گئی رتوں کے ہر ایک پل کا دلوں سے اپنے حساب مانگیں
دیا ہے کیا اس وطن کوہم نے یہ آج خود سے جواب مانگیں
وطن کی راہوں میں ہم وفا کے گلاب کتنے کھلا رہے ہیں
ہر ایک دشمن کی سازشوں سے یہ دیس ہم کو بچانا ہو گا
محبتوں کو فروغ دے کر شعور ملت جگانا ہو گا
یہ کون ہیں جو ہمیں میں رہ کر ہمارے گھر کو جلا رہے ہیں 
چلو یہ سوچیں۔۔۔۔۔۔۔

Chapters / Baab of Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas