Episode 3 - Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham

قسط نمبر 3 - اللہ محبت ہے - حیا ایشم

ہماری زندگی میں اس سے بڑی کیا عطا کیا ہو گی کہ الحمدللہ کوئی شخص ہمارے اندر کی جھوٹی خدائی کو ختم کروا کر ہمارے سامنے واحد خدا کی حقیقت لے آئے الحمدللہ رب العالمین، ہماری زندگی میں یہ خوبصورت عطا نبی کریمﷺ ہیں۔ اور اگر آج بھی ہم پر ان رحمة للعالمین سیدالمرسلینﷺ کی رحمت، ان کی رسالت آشکار نہیں تو یقیناً ہم اپنی 'میں' کے کسی حجاب میں مبتلا ہیں۔
کتنی عجیب بات ہے ناں اللہ بے نیاز ہے، اور اللہ نے ہمارے لیئے ہماری ساری فکر اپنے محبوبﷺ میں ڈال دی، قرآن میں ایک قوم کی نافرمانی کے نتیجے میں عذاب کے حوالے سے اللہ پاک نے فرمایا: پھر ان پر نہ توآسمان کو اور زمین کو رونا آیااور نہ ان کو مہلت ہی دی گئی۔ (سورة دخان، آیت29) اللہ نے ہمیں اُن نبی رحمةللعالمین ﷺ کی امت میں چْنا کہ جو راتوں کو اٹھ اٹھ کر، ہر نماز میں ہمارے لیئے ہماری فلاح و مغفرت کے لیئے روتے تھے، روزِ حشر جب تمام انبیا تک نفسی نفسی کہہ رہے ہوں گے واحد نبی کریم ﷺ ہوں گے جو امتی امتی، یا اللہ میری امت یا اللہ میری امت کہہ رہے ہوں گے، خوبصورت ہے وہ آنکھ جو آج ان کی اس مہربانی بے غرض محبت کا سوچ کر اشکبار ہو جائے، اللہ کی اس عطا پر جانثار ہو جائے کہ کتنی محبت ہے اس رب کو اپنے بندوں سے۔

(جاری ہے)

کتنی محبت ہے ہمارے نبی کریم ﷺ کو رب کی مخلوق سے۔ نبی کریم ﷺ 40 سال لا الہ الا اللہ کی مکمل عملی تفسیر رہے اور 23 سال محمد رسول اللہﷺ کی جامع عملی تفسیر۔ لا الہ الا اللہ کے سفر میں وہ ہر ایذا رسانی ظلم و ستم پر صبر و وفا، 'میں نہیں سب تُو' کا عملی نمونہ رہے اور دورِ نبوت میں اللہ کی عطا کردہ حکمت عملی و سعی ء کامل و جامِ خودی سے فیضیاب اس کامل درجہ کو پہنچے کہ اس مختصر سے عرصے میں مکمل اسلام عطا اور رائج ہو گیا الحمدللہ۔
بلاشبہ، کمال محبت کو حاصل ہے،محبت کمال کرتی ہے۔محبت اخلاص ہے،اخلاص میں شرک نہیں ہوتا، اخلاص شرک کی ، شرک اخلاص کی ضد ہے۔محبت/توحید میں بحضورِ رب نفس دل روح جسم و جاں کے تابع ہونا حاضر ہونا ہے، الحمدللہ حاضر ہونا بھی عطا ہے۔ لَبَّیکَ اَللّٰھْمَّ لَبَّیک،َ لَبَّیکَ لَا شَرِیکَ لَکَ لَبَّیکَ، اِنَّ الحَمدَ وَ النِّعمةََ لَکَ وَ المْلکَ لَا شَرِیکَ لَک ترجمہ :حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں۔
بے شک حمد تیرے ہی لائق ہے ساری نعمتیں تیری ہی دی ہوئی ہیں بادشاہی تیری ہی ہے ۔ کوئی شریک نہیں تیرا؟ میری غفلت بھی تیرے حضور حاضری میں شریک نہیں، کہ ہونے کو آئے تو 'غفلت' بھی 'شریک' ہو جائے، کیونکہ یہ غفلت بھی تو کہیں اور حاضر ہوتی ہے، کسی اور بت کے سامنے سربسجود۔ تو میں حاضر ہوں میرے اللہ.. کوئی بت؟ نہیں! کوئی میرا رنج ملال، کوئی فکر، کوئی خواہش، کوئی آزمائش کوئی آسائش کوئی آلائش؟ نہیں.. نہیں میں، بس تو، سب تو، اللہ لا....الہ.... الا.... اللہ کا رمز سموئے، نفی اثبات سے مزین یہ خوبصورت تلبیہ، یہ سچا کلمہ جھوٹی خدائی کے بتوں کو پاش پاش کرتا سچے واحد بادشاہ کی بادشاہت کا اقرار، وہ اقرار ہے جو فقط حج کے دنوں میں بیت اللہ کے سامنے زبانی کہہ دینے سے روح میں جگمگانے نہیں آتا، یہ وہ عطا بھرا اقرار ہے جو اللہ اگر کسی دل کا اخلاص دیکھتے اس دل پر اتار دے تو اسکا ہر ہر لمحہ لا الہ الا اللہ ہو جاتا ہے، ہر لمحہ روح، نفس،خواہش لبیک اللھم لبیک لا شریک لبیک کہتی سر بسجود ہو جاتی ہے۔
اے اللہ میں حاضر ہوں! نیت ارادہ، عمل، وجود، حواس ایمان سے، دل روح خواہش نفس جسم و جان سے لسان، ذکر، خامشی دھیان سے کیف ایقان ہاں میرے وجدان سے۔۔ اور یہ رب کے حضور ایسی حاضری ہے جو خود سپردگی کے احساس سے سرشار، اللہ کے حیرت و استعجاب میں مبتلا اپنی بندگی اپنے معبود کو سونپتی حاضری ہے۔ اللہ چاہے تو بحضورِ رب یہی اخلاص و احساسِ بندگی و حاضری نماز کی بھی کاملیت ہے، روزے کی بھی، ظاہر کی بھی باطن کی بھی خلوت کی بھی جلوت کی بھی۔
ایمان کی بھی اور ہمارے نفس ہمارے جان کی بھی الحمدللہ۔ اللہ پاک ہمیں خالص اپنا کر لیں اللہ پاک ہم سب کو اپنے گھر بلانے کی سعادت سے نوازے اور اپنی زمین پر ہر ہر جا ہر ہر لحظہ ہمیں کلمہ حق تلبیہ جینے کہنے سننے اسی میں مرنے اور اسی کے سنگ جی اٹھنے کی توفیق دیں اللھم آمین لبیک اللھم لبیک لا شریک لک لبیک! ”تم فرماؤ ’بے شک میری نماز اور میری قربانی، میری زندگی اور میری موت، سب اللہ کے لیے ہیں، جو سارے جہانوں کا رب (ہے)۔
(اور) جس کا کوئی شریک نہیں ہے۔“ (پارہ:8، سورة الانعام: 162 تا 163) ایک حدیث شریف میں ریا کا ری کو شرک خفی قرار دیا گیا ہے کہ یہ ایسا چھپا ہوا شرک ہے جو آسانی سے محسوس نہیں ہوتا اس لئے اس میں زیادہ لوگ مبتلا ہو جا تے ہیں اور اپنے اعمال کو ضائع کر بیٹھتے ہیں۔ شیخ سعد ی فرماتے ہیں ۔۔ ”کلید در دوزخ است آن نماز، کہ در چشم مردم گزاری دراز“ (وہ نماز جہنم کے دروازے کی چابی ہے جو لوگوں کو دکھا نے کے لئے لمبی پڑھی گئی ہو)۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ کوئی بھی نیک عمل کر لینے کے بعد اگر یہ دعا پڑھ لی جائے تو ریا کاری کے گناہ سے حفاظت ہو جاتی ہے : اَللّٰھْمَّ اِنِّی اَعْوذْبِکَ مِن اَن اْشرِکَ بِکَ شَیئاً اَعلَمْہ وَاَستَغفِرْکَ لِمَالا اَعلَمْہ۔ ترجمہ : اے اللہ ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں اس بات سے کہ جانتے بوجھتے ہوئے کسی چیز کو تیرے ساتھ شریک کروں اور اس سے بھی استغفار کرتا ہوں کہ لاعلمی میں کسی چیز کو تیرے ساتھ شریک کروں۔
حیرت ہے ایسی نگاہِ محبت پر جس میں محبوب آ جائے اور وہ جا جا غیر میں اٹکے!حقیقت تو یہ ہے کہتوحید عشق ہے! جس کے روح دل جسم و جاں پر واقعی رازِ لا الہ الا اللہ آشکار ہو جائے پھر وہ اللہ کے سوا کچھ نہیں دیکھ سکتا۔ بے بسی سے ہوتی عاجزی خودسپردگی کا وہ اظہار ہے جو رب کو بے حد پسند ہے اور جب رب کو یہ ادا بھا جائے تو اللہ اپنے بندے کو اس بے بسی کے عوض اپنے احساس اور پھر جامِ خودی سے نوازتا ہے یہ الگ بات ہے کہ خود سپردگی اور عاجزی وہ عطا ہے کہ جسے محبت کہتے ہیں اور سارا راز اس نقطے میں نہاں ہے۔
کچھ ہونے کے سراب سے کچھ نہیں ہونے کی فنا سے گزرنے والے وجود کو کچھ ہونے کی بقاء رب کی ذات، اس کی رضا میں ضم ہونے سے عطا ہوتی ہے، جہاں بس واحد رہ جاتا ہے، پھر بندے کا نہ ارادہ رہ جاتا ہے نہ خواہش، نہ ضد رہ جاتی ہے نہ انا، نہ غم رہ جاتا ہے نہ غصہ، جب وہ اللہ کا ہو جاتا ہے تو اللہ کا ہر ارادہ اسکا ارادہ، اللہ کی ہر خواہش اسکی خواہش اللہ کی ہر رضا اسکی رضا ہو جاتی ہے، تخصیص ختم ہو کر بس واحد کا راج رہ جاتا ہے۔
سو ، نفی.. 'میں نہیں'..سے اثبات .. 'اللہ ہے'' کا سفر، لا الہ الا اللہ.. بے بسی، عاجزی، خودسپردگی سے ہوتا رضائے رب کے بحرِ وحدت میں ضم ہوتا ہے الحمدللہ،اور تحفتاًعطائے خودی،رب کی رحمت کے جلوے کا مظہر ہے۔ خودی پا جانے والی خلق کو اشرف المخلوقات کا شرف عطا ہے۔ ”اللہ کی عبادت اللہ کی محبت ہے!، اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، نہ نفس نہ خواہش…نہ غم نہ راحت، نہ زندگی نہ موت…نہ دن نہ رات، نہ میں نہ آپ…نہ ماں نہ باپ، نہ سورج نہ چاند…نہ ضیاء نہ ماند، نہ جاہ نہ جلال…نہ چاہ نہ خیال، نہ اولاد نہ مال…نہ عروج نہ زوال، نہ رنج نہ احوال…نہ شکوہ نہ ملال، اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، اللہ کے سوا کوئی محبت کے لائق نہیں!“ الحمدللہ،ساری محبتیں اسی سے ہونا،اُسی کے لیئے ہونا اخلاص ، ایمان کی حلاوت کا حصہ ہے۔
آپ کے اندر ہی ایک آواز ہوتی ہے جو آپ کو حق سے آشنا رکھے ہوتی ہے، جو آپ کو نشاندہی کرتی رہتی ہے کہ کیا حق ہے کیا باطل، عجب بات ہے 'حق والے' ممکنہ اسباب و وسائل نہ ہوتے ہوئے بھی 'حق کے لیئے' 'حق' کا حق ادا کر جاتے ہیں، حق اللہ ہے، حق والے لا الہ الا اللہ والے ہوتے ہیں جن کی نظر اسباب و وسائل سے بے نیاز اُس بے نیاز پر ہوتی ہے جو سب سے بڑھ کر پرواہ کرنے والا ہے، وہ ایقان رکھتے ہیں کہ اگر وہ راہِ حق پر ہیں تو حق ہر صورت اسن کے ساتھ ہے اور انہیں حق کا حق ادا کرنے کے لیئے کسی کا حق غصب نہیں کرنا ہوگا، 'حق'، حق ادا کرنے کی آزمائش میں اسی لیئے ڈالتا ہے کہ حق والے حق کی معیت میں آ جائیں، 'حق والے' ''حق'' کی حقانیت پا جائیں۔
حق کے لیئے آواز نہ اٹھانا ''حق'' والے کا حق غصب کرنے اور حق کے غضب کو آواز دینے کے مترادف ہے، 'حق' کا حق ادا نہ کرنا وہ قرض ہے ہم پر کسی قرض کی صورت واجب الادا رہتا ہے، اور مکافاتِ عمل کی دنیا اس عمل کو ہمارے پیچھے ہماری آزمائش بنا کر لگا دیتی ہے، اور جب ہم اس آزمائش سے گزرتے ہیں تو کوئی ہمارے لیئے آواز اٹھانے والا نہیں ہوتا، کسی کی آزمائش ہمارے سامنے آئے تو وہ ہماری آزمائش بن جاتی ہے، ہمارے ہی ہمسائے میں جب آگ لگ جائے اور ہم اسے ہمسایوں کا معاملہ سمجھ کر غافل ہو جائیں توکوئی بعید نہیں، وہی آگ کب ہمارے گھر تک آ پہنچے، اور اب اسے کوئی اور بجھانے والا نہ ملے، نفسا نفسی و بے حسی کی انتہا ہی تو ہے کہ جسم کے ایک حصے کو درد ہو اور دوسرا حصہ اس سے غافل رہے۔
حدِ بے حسی کہیں یا کہیں نفس کی حدت، اپنے ہی درد سے اب ہم کودرد بھلا کیوں ہو نشاط و طرب نے کیا ہمیں بے طرح غافل، کسی کی آہ فغاں سے ہم کو غرض بھلا کیوں ہو ! خدائی مصلحت سے پرے، جھوٹ بھی اخلاص کی ضد ہے۔جھوٹ، باطل معبود کو اللہ کی بجائے نیت، زبان، عمل کا وہ شر پسندسجدہ ہے جو حقیقی خدا سے، اسکے غضب و رحم سے غافل ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
جھوٹ بولنے والادانستہ یا نادانستہ اللہ کی حقیقت، قرآن میں کہے گئے اس کے الفاظ 'میں شہ رگ سے بھی قریب ہوں' کو جھٹلاتاہے۔ اس سے وہ وقتی اذیت سے بچنے کے لیئے اللہ کو یا کسی اورکو کیا دھوکہ دے گا، وہ نادان تو خود اپنے نفس کے شر کے سامنے سربسجود ہو کر شیطان کے اس مکر میں آتا ہے جو اس کے لیئے سراسر اذیت اور رسوائی کا سبب ہے تاآنکہ وہ اپنے اللہ سے سچی معافی نہ مانگ لے۔
اللہ حق ہے اور حق اللہ کے ساتھ ہے، جو بھی حق کو اللہ سے پرے ڈھونڈے گا تباہ کن باطل پائے گا! اللہ پاک ہمیں اپنی ذاتِ رحیمی کے لیئے سچ بولنے، سچ سننے، سچ سہنے اور سچ قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے اللہ پاک ہم سب کو حق پر سچ پر قائم کر دے اللھم آمین! اخلاص تحفہ خودی کا ذریعہ ہے۔کائنات کے لیئے نبی کریم ﷺسراپاء خودی تھے اور بحضورِ رب سراپا عاجزی، من و تو سے پرے توکل وہ عطا رب ہے ہے جس میں نبی کریم ﷺ کی اللہ کے لیئے محبت بولتی ہے ۔
اور خودی وہ عطائے رب ہے کہ جس میں اللہ کی نبی کریم ﷺ کے لیئے محبت بولتی ہے۔ دراصل ہم لوگ ابھی تک بت پرستی میں الجھے ہیں۔ الحمدللہ جو سچ میں لا الہ الا اللہ کے راز کو پا گئے وہ نبی کریم ﷺ کی رسالت کی حقیقت کو پا گئے یا جو سچ میں نبی کریم ﷺ کی رسالت کی حقیقت کو پا گئے وہ لا الہ الا اللہ کے راز کو پا گئے۔ نبی کریم ﷺ مجسمہء رحمت و محبت ہیں، اگر قرآن توکلت اللہ کہتا ہے توحدیث و سنت سے پتہ چلتا ہے کہ اونٹوں کو باندھ کر توکل کرنا ہے اب یہ اونٹوں کو باندھنے میں کس عطائے خودی کی جانب اشارہ ہے یہ اس عاجزی کے شکرانے کی نعمت کا اظہار ہے جو سراسر رب کی عطا ہے، رب سے غافل بندے کی جھوٹی انا نہیں۔
سعی بھی عطا ہے اگر اسکا مرکز رب کی رضا ہے، اللہ اور نبی کریمﷺ کی رضا میں کوئی تخصیص نہیں! ایک جانب اگرنبی کریمﷺ کو صبر و توکل کا اشارہ ہے تو دوسری جانب ان کو خودی کا اظہار عطا ہے ایک طرف اگر ایک وقت پر کفار و مشرکین سے کنارہ کش رہ کر صبر کرنے کو کہا تو دوسری جانب انہی سے جہاد کرنے کو کہا گیا، ایک جانب اگر طائف کے مظالم صبر سے برداشت کرنے کی توفیق دی تو دوسری جانب صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو یہاں تک کہہ دیا کہ ان کے سامنے اونچی آواز سے بات نہ کرو، ان ﷺسے دھیمے مودب لہجے میں مخاطب ہوں۔
نبی کریمﷺ نے ظلم پر صبر کیا صبر پر شکر کیا، عاجزی میں سربسجود رہے، خود سپردگی و توکل کے بعد جامِ خودی عطا ہوا۔کہیں اگر مشیتِ ایزدی کے ہاتھوں اپنے محبوب شہر سے کوچ کیا اور پہنچ ہونے کے باوجود مکہ میں طواف تک کرنے پر صبر کیا، توکہیں خانہ کعبہ میں جا کر… حق آ گیا باطل فنا ہونے کے لیئے تھا … کہتے سراپا رسالتِ حق ہوتے ہوئے اللہ کی وحدانیت کا پرچار کیا۔
استعجاب و محبت تو یہ ہے کہ نبی کریمﷺ وجود و عمل میں محمد رسول اللہﷺرحمت للعالمین اور ذات میں لا الہ الا اللہ رہے صلی اللہ علیہ وآلہ وازواجہ واصحابہ وبارک وسلم۔ ”کسی کو دیدار کی تمنا تھی اور رہی یہ جستجو، کسی کو روبرو یوں کیا کہ وہ پھیلا کوبکو، کِیا خلیل کو جس آزمائش سے اُس نے روبرو، کِیا نواسہء محبوبﷺ کو پھر اُس میں سرخرو، کہاں ملے اس سے بڑھ کوئی یہاں خوبرو، وہی وہ ایک ہے بس ایک ہے اللہ جل جلالہُ، دل کی دھڑکن سنو سکون سے کبھی تم چار سُو، کیسے خاموش سی کہے جا رہی ہے یہ اللہ ھُو، بجز ادائے کن فکاں، محبت ہے کہاں زندہ؟، دربدر پھرو، ہر جا پھرو، پر رہو گے گومگو، کسی کو آبِ زمزم عطا، کسی کو تشنگیء کربلا، کسی کو جنت میں کوثر، کسی کو ملا دنیا میں آب جو، کسی کی زبان ہوئی سلب، ثلاثہ ایام بولا نہیں گیا، پنگھوڑے میں یکدم مِلا کسی کو معجزہء گفتگو، وہی جو اپنے علم سے کیئے ہے احاطہء عالمین، وہی اک شہنشاہ ہے نہ ملے کوئی اُس کے دوبدو، گو اس کا جلوہ ارض و سما میں ہے مسکراتا سا، تم ڈھونڈو جابجا پر نہ ملے کوئی اس کا ہوبہو، جس کی روح کہہ رہی ہے یہاں اللہ وحدہ لا شریک لہ، اُسی کے دل نے مانا ہے حق محمد عبدہ ورسولہﷺ“ کہنے کو ہم مشرک نہیں کفار نہیں، کہنے کو ہم مسلمان ہیں، کلمہ پڑھنے والے ہیں،مگر اسلام کے حقیقی معنوں سے اس کی آشنائی سے کوسوں دور ہیں۔
دیکھا جائے تو اخلاص کے راستے میں خواہش باطل الہ ہے، جسکو اللہ 'لا' کرواتا ہے۔ اگر اسکو 'لا' کروانے کے باوجود بھی ہم اللہ کے سامنے سربسجود ہونے کی بجائے تن کر کھڑے رہیں تو یہ ہماری انا ہے، جو ہماری ہی خیر کی اصل دشمن ہے، اللہ اپنی رضا کے پردوں میں جھلک دکھاتا ہے، اللہ تبھی آشکار ہو گا جب خواہش کے بت/الہ کو گرا دیا جائے گا اور جب یہ بت اپنے قدموں پر آ گرے تو انسان اپنے دکھ درد دل روح سر جان سمیت اپنے رب کے حضور سجدے میں جا گرے، سر تسلیم خم کر لے، رضائے یار میں راضی رہنا اللہ کی توفیق سے ہی ممکن ہے، الحمدللہ اور انسان کے لیئے تو وہی کچھ ہے جس کے لیئے وہ خالص سعی کرے اور صبر تو ایسی عطا ہے کہ اگر صرف صبر دکھانے کی کوشش ہی کی جائے، تواللہ پاک اس شخص کو صبر عطا کردیتے ہیں الحمدللہ رب العالمین! جن لوگوں کو اللہ ان کی اور اپنی ذات کا ادراک دینا چاہتا ہے اللہ ان کو اپنے ہونے کے مقصد کا سوال عطا کرتا ہے۔
ورنہ کافی لوگ ایسے بھی ہیں جو خواہشوں کی پیروی کرتے نفسانی خواہشات کو خدا بنائے رکھے، خود سے اللہ سے سب سے غافل رہتے ہیں۔ اللہ چاہے تو انسان زندگی کے ہاتھوں زندگی کے ایک ایسے مرحلے سے گزرتا ہے جہاں اس پر اپنے ہونے کی کیفیت کا اظہار ہوتا ہے، مگر وہ کیا ہے کیوں ہے؟ میں نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟ آخر میں ہی کیوں ؟ میں نہیں رہوں گا تو کیا ہو گا؟… جیسے سوالوں میں الجھتا ہے، کبھی وہ لوگوں سے اپنے وجود کی شناخت چاہتا ہے۔
کبھی اسٹیٹس سے کبھی پیسے تو کبھی کیرئیر سے، ناپاک نطفے سے تخلیق شدہ، مٹی سے بنا انسان مٹی میں جانے والا انسان، جسکو اشرف المخلوقات کا شرف اللہ کی ذات عطا کرتی ہے۔ اس فانی دنیا کے دھوکے میں اپنی شناخت کے لیئے مزید ناپائیدار اشیا پر تکیہ کرتا ہے۔ جس پر اللہ کرم کرنا چاہے اس پر اللہ اس فانی سراب کی حقیقت کھول دیتا ہے، تکلیف غم و صدمے و شکستگی میں انسان اس در پر جا پڑتا ہے،جہاں اس کو وہ جیسا ہے، وہ کیسا ہے؟ اس بات سے بے نیاز اس کے پلٹ آنے پر اس کو بس گلے لگایا جاتا ہے، اشکوں کو محبت سے چوم لیا جاتا ہے، مگر اس سفر میں کتنے نادان ہے ناں ہم لوگ! کہ اللہ کے گھر جا کر اس مقدس در کے کھلنے کی آرزو، اسکو چھونے کی تمنا لیئے تو دیوانے ہوئے جاتے ہیں، مگر دل جو کعبہ کی حیثیت رکھتا ہے، اسکے دروازے کی طرف کتنے لا پرواہ رہتے ہیں، ہمارا طواف اس مقدس گھر کے اطراف جانے کتنی دعائیں لیئے ہوتا ہے، مگر اس دل کے اطراف،جہاں وہ اصلی مکیں ازل سے مکمل شان و شوکت سے براجمان ہے، ہم اس کوچہء جاناں کو لگا زنگ، اس مقفل در کو وا کرنے کی طرف احساس تک نہیں کرتے۔

Chapters / Baab of Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham