Episode 4 - Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham

قسط نمبر 4 - اللہ محبت ہے - حیا ایشم

کبھی سوچا ہے زنگ کیسے لگتا ہے؟جب لوہے پر پانی لگے تو زنگ لگتا ہے، اور دل ایک عجب شے ہے کہ اگر اس کو آنسووٴں کا پانی نہ لگے تو اسکو زنگ لگ جاتا ہے، یہ لوہا ہو جاتا ہے، پھر جس پر اللہ نظرِ کرم کرنا چاہے اسے کسی بہانے سے اس زنگ سے نجات کے لیئے کسی سوزِ دل کی طرف لاتا ہے، اس کوپگھلی ہوئی سی کیفیت عطاکرتا ہے کہ اس دل کو بلک کر اللہ واحد اللہ کی یاد کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اللہ جو اس دنیا کے سب سرابوں سے ہٹ کرہمارا ساتھی ہے، ہماری پیدائش زندگی موت آخرت سب سب کا ذمہ دار ہے، اور ہمارے ساتھ ہمارا بہترین محرم ہے۔
علم سے زندگی نہیں بدلتی، علم نہیں جھکاتا عجز جھکاتا ہے، عجز عطا ہے، قرب قربانی سے ملتا ہے اور عطا عجز سے، عجز بھی اللہ عطا کرتا ہے، علم بھی.. جس کا جتنا اخلاص ہوتا ہے اتنا ہی وہ عجز رکھتا ہے، عجز وہ صفت ہے جو اللہ کی نہیں، اور یہی ادا اسے اپنے بندوں میں سب سے زیادہ پسند ہے۔

(جاری ہے)

بے نیازِ مطلق سے واسطہ بڑھانا ہے تو سراپاء عجز بن جاوٴ۔ لا الہ الا اللہ وہ کلمہء اخلاص ہے جو اعمال کی دنیا میں در حقیقت اس وقت ظہور پذیر ہوا، جب ابلیس نے اللہ کا حکم ماننے سے صاف صاف انکار کیا، وہ اللہ کے سامنے نہیں بلکہ اپنی انا کے سامنے سربسجود ہوا، تب اللہ نے ابلیس کے چیلنج کے جواب میں واضح فرما دیا کہ میرے خاص بندوں پر تیرا زور نہیں چلے گا، اور خاص بندے کون ہیں، خاص بندے لا الہ الا اللہ کے پیغام پر یقین رکھنے والے، رجوع کرنے والے، پلٹ آنے والے، کلمہ اخلاص لا الہ الا اللہ کو جینے والے اور اپنے قول و فعل سے اسے صاف صاف پہنچا دینے والے ہیں!پھر ہم لوگوں کے سبق کے لیئے اللہ پاک نے ہمیں حضرت آدم علیہ السلام حضرت اماں حوا علیہ السلام کی آزمائش سے ہمیں بتایا، اللہ کا حکم تھا کہ فلاں درخت کے قریب مت جانا، انہوں نے مانا مگر شیطان جس پر اللہ نے اپنے خاص بندوں کو ظاہر کرنا تھا، سو حضرت آدم کے ذریعے ہم عام سے بندوں کو سمجھایا گیا، کہ شیطان کس طرح جواز لے کر وجہوں کو خوشنما بنا کر دکھاتا ہے، تو جب وہ شیطان کے جال میں آ کر نافرمانی کر بیٹھے، برہنہ ہو گئے، اور ان پر ان کا اپنا آپ عیاں ہو گیا،جب انہیں احساس ہوا وہ کیا کر بیٹھے توفورااًپشیمان ہوئے، تووہ اولین توبہ کرنے والوں،رجوع کرنے والوں میں سے ہوئے۔

الحمدللہ۔یہ ہے وہ لمحہ جب الحمدللہ ایک بندہ، عام بندے سے خاص بندہ بنتا ہے۔ خسارے کی جانب اکساتا،شیطان خارجی دشمن ہے اور نفس اور خواہش وہ داخلی آزمائشیں ہیں جو انسان کو انسان سے بندہء رحمان یا مغویء شیطان بننے کی طرف لے کر جاتا ہے، تو ہر شخص کو پرکھا جائے گا، ہر شخص کو راز دیا جائے گا اسی کلمے کے ذریعے، اسی ایک کلمے سے، یہ کلمہ زبانی کلمہ یا کوئی رٹا رٹایا کلمہ نہیں، یہ کلمہ روح میں اتری ازلی حقیقت ہے، جب تک روح اپنی اصل سے دور ہوتی ہے تب تک وہ اذیت میں رہتی ہے، ہمارا ہی نفس ہماری ہی خواہش ہمارا ہی ملال اللہ کے حکم کے سامنے آن کھڑا ہو گا، پھر جب ہم اس کو اللہ کے لیئے اللہ کے سامنے جھکا دیں گے،رجوع کر لیں گے، خود اللہ کے سامنے یکجا ہو کر جھک جائیں گے تب ہم پر اللہ کی رحمت، وحدانیت اور محبت آشکار ہو گی، قربانی کا راز اس دن سے چلا آ رہا ہے، جس دن ابلیس نے اپنی انا کو قربان کرنے سے انکار کیا، اللہ کے خاص بندے انا کے مارے نہیں ہوتے، عموماًٍ انکی خواہشوں کے پردے میں ان پر اللہ کی حقیقت آشکار کی جاتی ہے۔
”بانہوں میں سمو لیتی، تُو مجسم اگر ہوتا، دل میں چھپا لیتی، تُو دھڑکن اگر ہوتا، میں پلکیں جھکا لیتی، تو آنسو اگر ہوتا، سراپاء خامشی بنتی، تو راز اگر ہوتا، تو عرشوں پر ہے بستا، اور میں فطرت میں ہوں خاکی، پر میرے ہر راز کے محرم، میری اتنی سی خواہش ہے، تو ہی میرا مقدر ہو، تو ہی میری حقیقت ہو، میری حیات تجھ میں ہو، میری ممات میں تُو ہو، نفی میں اپنی کر ڈالوں، تیرا اثبات مجھ میں ہو!، تو میرا ہو میں تیری ہوں، ختم یہ ہر دہائی ہو، ہو ریاضیات عشق ہر دم ھُو،اللہ ہر انتہا اکائی ہو، اللہ اور بندے کا تعلق بہت سادہ ہے، سمندر سے گہرا، مگر کسی آئینے سے بھی شفاف، بہت مہربان کہ تم کسی آئینے سا بھی شکستہ ہو تو وہ مہربان اللہ تمہیں تب بھی محبت سے تھامے گا، اس سے تعلق کی ہر سمت تم تک جا نکلتی ہے، اگر تم اللہ سے بے وفائی کر رہے ہو تو تم خود سے بے وفائی کر رہے ہو، اگر تم اللہ سے باوفا ہو تو تم اسکے فیصلوں سے وفا کرو گے، اور ایسا کر کے تم خود سے باوفا ہو، اگر تم اللہ کی توہین کر رہے ہو تو تم اپنی توہین کر رہے ہو، اگر تم اللہ کے منکر ہو تو تم اپنے منکر ہو، اگر تم اللہ کی رحمتوں، نعمتوں اور برکتوں سے منحرف ہو تو تم خود اپنے سکون کے دشمن ہو، اگر تم اللہ کو چھوڑ رہے ہو تو تم خود کو ترک کر رہے ہو، اگر تم اللہ کے ساتھ بخل کر رہے ہو تو تم اپنے ساتھ بخل کر رہے ہو، اگر تم اللہ کی راہ میں دے رہے ہو تو تم اپنی منزل آسان کر رہے ہو، اگر تم اللہ کی بے حرمتی کر رہے ہو تو تم اپنی بے حرمتی کر رہے ہو، اگر تم خود سے حقیقی محبت رکھتے ہو تو تم اللہ سے محبت رکھتے ہو، پھر تم خود پر اور دوسروں پر ظلم نہیں کرو گے بلکہ رحم کرو گے۔
کہ اللہ اس پر رحم کرتا ہے جو رحم کرتا ہے یہاں اللہ نے تخصیص نہیں کی خود پر رحم یا دوسروں پر، بس کہہ دیا جو رحم نہیں کرتا اللہ اس پر رحم نہیں کرتا! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو تم خود سے محبت کرتے ہو مخلوق سے محبت رکھتے ہو، اگر تم اللہ کی عزت کرتے ہو تو تم اپنی عزت کرتے ہو، جو اللہ کی عزت کرتا ہو کیسے ممکن ہے وہ اپنی عزت نہ کرے مخلوق کی عزت نہ کرے۔
ہمارا اللہ سے تعلق اس بات کا غمازی ہے کہ ہم سے ہمارا تعلق کتنا اور کیسا ہے، ہمارا خود سے تعلق اس بات کا آئینہ ہے کہ ہمارا اللہ سے تعلق کیسا ہے، یہ سارے راستے خود سے ہو کر اس میں ہی اترتے ہیں۔، اللہ سے ہٹ کر خود پر بھروسہ جھوٹے خدا ہونے کا اظہار ہے، اور جو واقعی اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ اسکو جھوٹی خدائی سے پرے سچی عاجزی و عطائے خودی کا جام ضرور پلاتا ہے، مگر اس کے لیئے پہلے اپنی جھوٹی خدائی اپنا آپ اللہ کو سپرد کرنا ہوتا ہے۔
بندگی اخلاص و عاجزی سے مزین ایک اقرارِ محبت ہے، 'الست بربکم' و 'قالوا بلٰی' میں مخفی وعدہء وفا سا ایک رشتہ۔ مزید یہ کہ اے میرے اللہ میرے رب تو نے مجھے اپنا بندہ ' چنا '، (اقرارِ حمد و شکرِ عطا)، اب مجھے توفیق دے کہ میں تیرا بندہ 'بن کر' رہوں گا (عاجزی بھرے خالص عمل کا ارادہ)، میں تیرا ہوں، تو مجھے اپنے لیئے خالص کر لے(عاجزی، خود سپردگی و عطائے خودی کی یکجائی)۔
بندگی بندے اور معبود کا وہ رشتہ ہے جو اگر اخلاص سے خالی ہے تو بندگی نہیں، عمل سے بے مطلب ہے تو منافقت ہے، خالص بندگی محبت ہے، محبت میں دوئی نہیں ہوتی، اخلاص محبت ہے اللہ محبت ہے، جہاں زبان نیت عمل کا فرق آ جائے، وہیں تو پتہ چلتا ہے کہ نعوذ باللہ ہم منافق ہیں یا مومن ہیں یا کیسے مسلمان ہیں، اور یہی وہ تفریق / فرقہ ہے جو اللہ کو پسند نہیں، اخلاص توحید میں سب ضم ہے، اللہ پاک ہمیں توحید میں ضم کر دے اللھم آمین۔
”اگر یقین ہے تو ڈر کیسا، اگر ڈر ہے تو یقین کیسا؟، اگر بھروسہ ہے تو مایوسی کیسی، اگر مایوسی ہے تو بھروسہ کیسا؟، گر مان ہے تو خوف کیسا، گر خوف ہے تو مان کیسا؟، اگر محبت ہے تو شکایت کیسی، اگر شکایت ہے تو محبت کیسی؟، اگر وفا ہے تو انا کیسی، اگر انا ہے تو وفا کیسی؟، اگر خواہشِ قربِ ربی ہے تو خواہشِ نفسانی کیسی، اگر خواہشِ نفسانی ہے تو خواہشِ قربِ ربی کیسی، اگر اخلاص ہے تو توقع کیسی، اگر تمنائے صلہ ہے تو اخلاص کیسا، اگر رنج و ملال ہے تو رضا کیسی، اگر رضا ہے تو رنج و ملال کیسا؟، اگر صبر ہے تو شکوہ کیسا، اگر شکوہ ہے تو صبر کیسا؟، اگر دل میں اللہ ہے تو الہ کیسے؟، اگر دل میں الہ ہے تو اللہ کیسے؟، ”جو ایک کا نہیں ہوتا وہ کسی کا نہیں رہتا، جو ایک کا ہو جاے سب اس کا ہو جاتا ہے!، ایک کا ہو جانے کے لیئے 'کچھ نہیں' ہو جانا ضروری ہے، اور کچھ نہیں ہونے کے لیئے دل کا جھک جانا ضروری ہے، دل کے جھک جانے کے لئے اخلاص و عاجزی کا ہونا ضروری ہے“ اخلاص و عاجزی اس ایک کی عطا ہے کہ جس کو عطا کر دے وہ سب سے ہٹا کر ایک کا کر دیا جاتا ہے۔
بت باہر نہیں ہوتا.. بت نگاہ میں، بت اندر ہوتا ہے.. جیسے سراب کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ صحرا میں دور نظر آنے والا پانی حقیقت میں کہیں نہیں ہوتا ہماری نگاہ ہمیں ایسا دکھاتی ہے۔ مگر ہاں پیاس سچی ہے، پانی کی تلاش بہرحال حقیقتاً سچ ہے بالکل اسی طرح جس طرح کہیں سیرابی بھی ہے جو حقیقتًا پیاسے کی منتظر ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نگاہِ محبت بھی سیرابی چاہتی تھی اور الحمد للہ وہ سرابوں میں الجھنا نہیں چاہتے تھے انکی نگاہِ محبت نے جانا کہ ڈھلتا چڑھتا چاند انکا رب کیسے ہو سکتا ہے؟ طلوع و غروب ہوتاسورج ا ن کا پروردگار کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ چمکتے چھپتے ستارے ان کے رب نہیں۔
یہ اپنے فانی ہاتھوں سے بنائے گئے بت انہیں کیا دے سکتے ہیں؟ اور وہ اپنی قوم اپنے والد تک سے کہہ اٹھے میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نگاہ ان سارے لوگوں میں سے آپ پر رب کی عطا تھی،یہ اُن پر رب کی عطائے محبت تھی کہ انہوں نے فانی(مخلوق) میں باقی(خالق یعنی اللہ)کو جان لیا۔ جس نے ان پر ربِ حق آشکار کیا ورنہ چاند سورج ستارے تو سب کے سامنے ہی طلوع و غروب ہوتے تھے۔
ان کی نگاہ کو چن لیا گیا پھر اس نگاہ سے دیکھنے والوں کو دکھایا گیا..مگر ایسے بھی تھے جو آنکھیں رکھتے بھی نہ دیکھ سکے کیونکہ وہ خود سراب میں تھے.. اور دیکھتے تو وہی ہیں جنہیں وہ اپنا آپ دکھانا چاہتا ہے، اللہ نے جسے اپنا آپ دکھانا ہوتا ہے اسے چن لیتا ہے۔ اپنی طلب بھر دیتا ہے، غورو فکر کے در وا کر دیتا ہے حق و باظل کی تمیز سے روشناس کروا دیتا ہے.. محبت عطا ہے جو بقدرِ ظرف ہوتی ہے، درحقیقت ظرف بھی عطا ہے۔
اللہ پاک ہم سب کو اپنے بابا جان حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دین دل و جان و روح و عمل سے قبول کرنے کی توفیق دے اور اللہ پاک ہم سب پر اپنی ذاتِ محبت بہت محبت سے آشکار کر دے اللھم آمین! اخلاص کا سوچتے، الحمدللہ یار غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی خوبصورت مثال ذہن میں آتی ہے ۔کیسے انہوں نے لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ ﷺ کے صحیح مفہوم کو صحیح وقت پر واضح کر دیا۔
فراق محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وازاواجہ و اصحابہ وبارک وسلم کے وقت وہ واحد تھے جنہوں نے اپنی محبت کے اخلاص کے دروں عشق اور عقل کو یکجا کر دیا سبحان اللہ۔تو حقیقت تو یہی ہے ناں کہ جو آخرت کو 'مانتے' ہیں وہ اللہ کو ماننے والے ہوتے ہیں، اللہ کی ماننے والے ہوتے ہیں، خوفِ خدا، حبِ خدا رکھتے ہیں.جذبہ رکھنے والے ہوتے ہیں، زندہ ہوتے ہیں، اپنی 'میں 'کو 'تم' کے لئے مار کر دل سے زندہ رہنے والے ہوتے ہیں، جو زندہ ہوتے ہیں وہ نفس کو قابو میں رکھتے ہیں، جو نفس کو قابو میں رکھتے ہیں وہ حیا والے ہوتے ہیں، حیا والے پرہیزگار ہوتے ہیں، پرہیزگار امانت میں خیانت نہیں کرتے، امانت کو جاگیر نہیں سمجھتے، امانت کو امانت سمجھنے والے، فرائض کو جانفشانی سے بجا لاتے ہیں، یہ صبر والے ہوتے ہیں، راضی برضا رہتے ہیں سوال نہیں کرتے، دنیاوی موسموں سے بے نیاز ہوتے ہیں، یہ بے نیاز، وفا والے، وفا نبھانے والے ہوتے ہیں، نبھانے والے معاف کرنے والے ہوتے ہیں، معاف کرنے والے پردہ رکھنے والے، ڈھانپنے والے ہوتے ہیں، ڈھانپنے والے رحم کرنے والے ہوتے ہیں، اخلاص والے ہوتے ہیں، اخلاص والے عمل والے ہوتے ہیں، عمل ،اخلاص والے ، محبت والے ہوتے ہیں، انا، سر، دل، محبت جھکا دینے والے ہوتے ہیں، اپنا آپ جھکا دینے والے عجز والے ہوتے ہیں، عجز والے اللہ کو پسند ہوتے ہیں، یہ اللہ کی رحمت سے امید والے ہوتے ہیں، اپنے نفس سے آگاہ رہنے والے ہوتے ہیں، آگاہ رہنے والے دعا والے ہوتے ہیں،دعا والے محبت والے ایمان والے ہوتے ہیں، ایمان والے توکّل والے ہوتے ہیں، توکّل والے امید، رجا، ایمان، دعا، وفا، نبھاہ، خود سپردگی، حیا، اخلاص، محبت راضی برضا بہ قضاء والے ہوتے ہیں. اللہ پر توکّل والے اللہ کو پسند ہیں، جو اللہ سے محبت رکھتے ہیں وہ اللہ پر توکّل رکھتے ہیں، جو توکّل اللہ پر جیے وہ اللہ والے ہوتے ہیں، اللہ والے نہ صرف دنیا میں اللہ کے سایہء محبت والے ہوتے ہیں، بلکہ اللہ والے عرش کے سایہ والے ہوتے ہیں۔
سو… یا تو تم خواہش کی غلامی کر لو یا اللہ کی، یا تو انا کی بندگی کر لو یا اللہ کی، ایک دل میں دو محبوب کیسے رہ سکتے ہیں، بندگی تو تم اسی کی کرو گے ناں جسے تم معبود جانتے ہو۔ مسلہ یہ ہے کہ ہم لوگ صرف اس کو مانتے ہیں جو نظر آتا ہے، جو نظر سے ہماری ہی کم نظری کی وجہ سے محو ہے، اسے ہم دیکھ نہیں پاتے سو اس طرح ہم محبت کو کسی آبجیکٹ میں سمو دینا چاہتے ہیں، محبت کسی بت کی پرستش نہیں ہوتی، محبت کسی عمارت میں قید نہیں ہوتی، کبھی لوگ اللہ کو خانہ کعبہ کے اندر سمونے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ اللہ پاک تو اپنی محبت کی حقیقت بندے کے اپنے سے متعلقہ بندوں سے دیکھنا چاہتے ہیں، آپ اللہ کے گھر کو ہاتھ لگانا چاہتے ہوں مگر اللہ کے بندوں کو انہی ہاتھوں سے دھکے دو، حجرِ اسود کو چومنا چاہو مگر انہی ہونٹوں سے اللہ کے بندوں کے لیئے سخت الفاظ استعمال کرو! اس دھکم پیل میں یہ تک بھول جاوٴ، کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ، زبان کے شر سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔
محبت عجب جذبہ ہوتا ہے، اس میں ''میں'' نہیں ہوتی، اس میں تو شاید کسی اور کے جذبے کو دیکھ کر اسے آگے کر دیا جاتا ہے اس کے لیئے آسانی کردی جاتی ہے اور پھر اسے خوش دیکھ کر جو دل کو میٹھی سی ٹھنڈک ملتی ہے اسکا بیان کم از کم لفظوں میں تو ممکن نہیں! جیسے دل پر سخت حبس میں چل پڑنے والی خوشگوار سی ہوا، ٹھنڈی سی پھوار، کوئی اچانک کھل اٹھنے والی قوسِ قزح، کوئی بے حد رو رہا ہو اور اچانک بے ساختہ کھلکھلا اٹھے! ”اللہ سے ہٹ کر غم بھی باطل الہ خوشی بھی باطل الہ ، جس خوشی، جس غم میں اللہ کی اطاعت نہیں، پھر وہ نفسِ باطل کی اطاعت ہے، وہ بت پرستی ہے!“ ایک بار جب ہم دل سے لا الہ الا اللہ کہہ دیں ناں.. تو سارے باطل الہ.. لا ہو کر ہی رہتے ہیں!یاکہہ لیجیے جب اللہ پاک ہم سے اپنی معیت منگواتے ہیں اور ہم سچے دل سے محبت مانگ بیٹھتے ہیں تو اللہ پاک سب سے پہلے ہم سے ہی سارے الہ کو لا کرواتے ہیں۔
ایک ایک کر کے سارے بت تڑواتے ہیں۔ ہم بے اختیار کہہ اٹھتے ہیں۔ بقول شاعر # ”پتھروں آج میرے سر پر برستے کیوں ہو، میں نے تم کو بھی کبھی اپنا خدا رکھا ہے!، اس بت میں کچھ نہیں ہوتا.. یہ تو ہم ہوتے ہیں جو اس سے سب کمالات منسوب کئے بیٹھے ہوتے ہیں! ہر آس، توقع لگا لیتے ہیں، اس کے سامنے گڑگڑاتے ہیں، اپنی طلب مانگتے ہیں،بہت مہربان ہوتا ہے خدا ہم پر،جب اس بت سے ہمیں کچھ دلوانے نہیں دیتا! ویسے وہ خود سے دے بھی نہیں سکتا ..اُس کا دینا ، رب کی نگاہ سے دیکھو تو عطا، ورنہ دنیا کی نگاہ سے سراب ہی تو ہوتا ہے! مگر ہماری توقع،اُس پر ہمارا مان یہ سب ہوتے ہیں ہماری اصل آزمائش۔
اگر ہم پر اس دنیا میں ہمارے بتوں کی حقیقت ہم پر آشکار ہو جائے تو کیا ہی عطا ہو الحمدللہ! کہ انجانے میں عشقِ بُتاں ہمیں دو جہانوں میں وہ اذیت دیتا ہے جسے ہم خود خریدتے ہیں۔اگر دنیا میں یہ اسرار منکشف ہو تو ہم ان بتوں سرابوں کو بھی دعائیں دیں جائیں گے ورنہ آج جن کو ہم خدا کیئے بیٹھے ہیں اس روز تو یہ ہم سے ایسے انجان ہوں گے جیسے جانتے نہیں ۔
ہبل میں کچھ نہیں تھا لات، منات میں کچھ نہیں تھا عزیٰ بے معنی تھا۔ بت باہر نہیں ہوتا بت اندر ہوتا ہے۔ سب سے بڑا بت نفسِ باطل ہوتا ہے۔ دنیا بھی عجب ہے۔اس بْت کے پیچھے کام نکلوانے کو بھاگتی ہے جو شخص اپنا کام خود نہیں کر سکتا یا جو خود اپنا کام نکلوانے کے لیئے دوسروں کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ تو یہ معاملہ تو یہی ہوا ناں کہ خسارہ بو کر ناامیدی کاٹی جا رہی ہے، ساری توانائی غلط جگہ لگا کر لوگ اتنا تھک جاتے ہیں کہ پھر ان کے پاس اتنی بھی سکت نہیں رہ جاتی کہ امید حق ہی رکھ سکیں۔
باطل سے امید لے ڈوبتی ہے حق سے امید دلدل سے بھی باہر لا سکتی ہے یہ تو اللہ کا وعدہ ہے پھر جانے کیوں لوگ جھوٹے معبود تراش کر پرستش میں مصروف ہیں خسارہ بو رہے ہیں ،خسارہ کاٹ رہے ہیں تھک رہے ہیں اور اپنی اصلاح کاپہلو تک نہیں دیکھ پا رہے اللہ پاک ہمیں اپنی نگاہِ حق عطا فرما دیں اور نیک اعمال کی توفیق دیں اللھم آمین۔ ”اک گوشہ ہو تنہائی کا … تیری یاد ہو بس … اور میں ہوں، میں تجھ کو چاہوں … بس تجھ کو جانوں، تجھ ہی کو سوچوں … تجھ ہی کو مانگوں، اک پل وہ میری عمر کا ہو محیط … میری … حیات تلک، اک گوشہ ہو تنہائی کا … تیری یاد ہو بس … اور میں ہوں!، خلوت میری بن جائے جلوت ہونٹوں پر ہنسی کھلائے یوں، روح معطر کر جائے میری…تیری یاد ہو بس اور میں ہوں، اک گوشہ ہو تنہائی کا… تیری یاد ہو بس … اور میں ہوں!“ ہماری توقعات ہمارے مان کا حقدار واحد ایک ہے .. اللہ! ہم جب جب اسے کہیں اور منسوب کرتے ہیں اذیت کا بیج بوتے ہیں، درد کی فصل کاٹتے ہیں۔
اس کی محبت ہر بت توڑکر ہی رہتی ہے! کیونکہ محبت بہت خاص بہت پاک دلوں پر وحی سی اترتی ہے. اگر وہ گھر پہلے ہی بھرا ہو تو بھلا مکین کہاں رہے۔ وہ گھر خالی کیا جاتا ہے پھر اصل مکین بڑی شان و شوکت سے محبت کی قوس قزح لیئے آن اترتا ہے۔ صحیح سفر اس سفر کے بعد شروع ہوتا ہے.. محبت کا خوبصورت سفر! اخلاص ضم کر دیتا ہے، ایک ہی وقت میں جو خالق کو اچھا کہتا، سمجھتا، اور مانتا ہے وہ مخلوق کو برا نہیں کہہ سکتا..ایک ہی وقت میں نظر اچھائی اور برائی میں نہیں الجھ سکتی۔
سب خالق کے ہاتھ ہے، جب خالق کو کوئی بندہ بھا جاتا ہے اور وہ اس کے دل کے مرکز میں اپنی یاد سجا دینا چاہتا ہے، تو بندے کو اس کی خواہش کی اور مخلوق کی حقیقت دکھا کر دل میں اس کی جگہ کو پیچھے کر دیتا ہے، اس کامطلب یہ نہیں کہ مخلوق کی وقعت ختم ہو گئی، بس اتنا کہ خالق کی حقیقت بالا و برتر ہو گئی، یا کہہ لیجیے مخلوق کا سراب منکشف ہو کر حقیقت کی شکل میں خالق کی حقیقت میں ضم ہو گئی۔
روحانیت کی نشوونما میں یہ آزمائشیں لازم ہیں کہ دل کو غیر کی چاہ سے خالی کیا جائے، اس میں ایک فیز یہ بھی آتا ہے کہ مخلوق کی جانب سے آئی گئی آزمائشوں میں جیسے دل اچاٹ ہو جاتا ہے، مگر اس میں مقصد دل غیر کی چاہ سے خالی کرنا ہے، دل اگر پھر حسد، گِلے، افسوس، رنج و ملال میں الجھ جائے تو یہ ایک اور پردہ ہے جو اگر پڑا رہ جائے توتکلیف کا سامان کر دیتا ہے اور جتنی جلدی ہٹ جائے اللہ پاک اتنی راحت اور آسانی کر دیتے ہیں۔
مخلوق غیر نہیں، کیونکہ مخلوق خالق سے ہے، مخلوق تب غیر ہے جب یہ اللہ سے ہٹ کر اللہ سے بڑھ کر چاہ کی حامل ہو جائے، اور ویسے سچ تو یہ ہے کہ مخلوق خود میں نہیں اٹکاتی یہ نفس ہوتا ہے جو مخلوق میں اٹکتا ہے۔حقیقت تو یہی ہے تم جسکو معبود جانو گے، اسکے لیئے قربانی دو گے، اسی سے امید باندھو گے، اسی سے توقع رکھو گے، اسکے گرد طواف کرو گے، اسکے لیئے جیو گے مرو گے، اسکو سوچو گے، اسکے لیئے جاگو گے اسکے لیئے سووٴ گے، اسے مانگو گے، اسے چاہو گے، اگر تمہارا معبود اللہ سے ہٹ کر تمہارا نفس /تمہاری خواہش ہو گیا تو تم شرکِ خفی کے اس مدار میں داخل ہو گئے جہاں تم معبودِ حقیقی سے منحرف یا محو ہو گئے، اب تمہارا جذبہ خواہ کتنا ہی جنوں کی سرحدوں کو چھوتا ہو اگر مدارِ حقیقی سے ہی ہٹ گیا تو خواری تم نے خود اپنا مقدر کر لی، اپنے نفس پر خود ظلم کر بیٹھے، اب اللہ تمہاری خیر چاہتا ہے تو تمہیں درپردہ عطا یعنی کسی سزا کے پردے میں واپس اس خلاء میں دھکیلا جائے گا، اب اگر تم واپس اپنے جھوٹے معبود سے ہی تسکین پانے کی ضد پر اڑے رہے، تو تم نے خود مزید تباہی مول لے لی، اور اگر جی جان سے خود کو مدارِ حقیقی کے سپرد کر دیا تو اپنے معبودِ حقیقی کو چْن لیا، اب وہ تمہاری خواہش سے ہٹا کر جیسے چاہے اپنی رضا کے سمندر میں بہائے، بہتے جاوٴ، جہاں لے جائے، جاتے جاوٴ، جہاں سے روکے وہاں سے رک جاوٴ، بس اپنی ڈوری اسے تھما دو، تمہیں اس سے بہتر کوئی نہیں تھام سکتا تم خود بھی نہیں! لا الہ الا اللہ کے سفر میںآ پ ایک سمندر میں دو کشتیوں پر سوار نہیں رہ سکتے۔
آپ کو بہرحال کسی ایک کشتی کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ آپ ایک طرف توحید کو بھی راستہ بھی کیے بیٹھے ہوں اور دوسری طرف ضرورت پڑنے یا مشکل آنے پر کفر و شرک کے راستے کو بھی اپنا لو۔ تو یہ آپ نعوذ باللہ اللہ کو فار گرانٹڈ لینا جیسا کرتے ہو۔ ہمارے عقیدے کی درستگی کا نفع و نقصان ہمیں ہی ہے۔ اللہ بے نیاز ہے، اسے نہ ہماری نماز کی ضرورت، نہ ہماری عبادت کی۔
اس نے اپنی خصوصیت بے نیازی بتائی اور ہمارا مقصد عبادت، اور ہم نادان، اس سے بے نیاز ہوئے پھرتے ہیں۔ وہ اپنا آپ دکھاتا ہے اور ہماری عقل و بصارت پر پڑا پردہ ہمیں ہمارے ہی خالق کو نہیں دیکھنے دیتا!! اللہ خالص ہے اور اللہ اخلاص والوں، عاجزی والوں کو پسند کرتا ہے۔ اللہ پاک جس پر اپنی نظرِ کرم کرنا چاہتے ہیں اس کو اخلاص عطا کرتے ہیں، اخلاص اسکے نیک عمل کی بنیاد ہو جاتا ہے۔
دنیا اعمال کے نتائج دیکھتی ہے اللہ اعمال کی نیت دیکھتا ہے، تو اگر بنیاد خالص ہے تو عمارت تو مضبوط ہو گی ناں ان شاء اللہ! ہمارے تو گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ نیت، عمل نتائج کے علاوہ کسی کی خالص معافی کسی کا تائب ہونا اس کی نیت اللہ کو بھا جائے، تو اللہ کو وہ ادا کیسے پسند آ جائے۔ ایک حدیث کے مطابق ،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ: قیامت کے دن سب سے پہلے جس شخص کے خلاف فیصلہ سنایا جائے گا : (۱) وہ شخص ہو گا جو دنیا میں شہید ہوا ہو گا۔
اسے اللہ تعالیٰ کے سامنے لایا جائے گا۔اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں یاد دلائیں گے۔ وہ ان کا اعتراف کرے گا۔اللہ تعالیٰ اس سے پوچھیں گے کہ تو نے میری نعمتوں کا کیا حق ادا کیا ؟ وہ جواب دے گا کہ اے اللہ ! میں تیرے راستہ میں جہاد کرتا رہا یہاں تک کہ شہید ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ تم جھوٹ کہتے ہو۔ تم نے تو جہاد اس لئے کیا تھا کہ لوگ تمہیں جراتمند و بہادر کہیں۔
سووہ دنیا میں کہا جا چکا پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا اور اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (۲) وہ شخص ہو گا جس نے علم دین اور قرآن کریم کی تعلیم حاصل کی ہو گی اور دوسروں کو اس کی تعلیم دی ہو گی۔ اسے اللہ تعالیٰ کے سامنے لایا جائے گا۔اللہ تعالیٰ اسے اپنے انعامات یاد دلائیں گے وہ ان سب کا اعتراف کرے گا۔اللہ تعالیٰ اس سے پوچھیں گے کہ تو نے میرے انعامات کا کیا حق ادا کیا ؟ وہ جواب دے گا کہ اے اللہ میں نے علم دین اور قرآن کریم کی تعلیم حاصل کی اور آپ کی خوشنودی کے حصول کے لئے دوسروں کو تعلیم دی۔
اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تم جھوٹ کہتے ہو، تم نے تو اس لئے علم حاصل کیاتھا کہ لوگ تمہیں بڑا عالم کہیں اور قرآن کریم اس لئے پڑھا تھا کہ لوگ تمہیں بڑا قاری کہیں۔ سو،وہ دنیا میں کہا جا چکا پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا اور اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (۳) وہ شخص ہو گا جس پر اللہ نے وسعت کی ہو گی اور ہر قسم کا مال و دولت اسے عطا کیا ہو گا۔
اسے اللہ تعالیٰ کے سامنے لایا جائے گا۔اللہ تعالیٰ اسے اپنے انعامات کی یاددہانی کرائیں گے۔ وہ ان سب کا اعتراف کرے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ تو نے ان انعامات کا کیا حق ادا کیا ؟ وہ جواب دے گا کہ ا ے اللہ ! میں نے کوئی راستہ ایسانہیں چھوڑا جہاں تجھے خرچ کرنا پسند ہو اور میں نے خرچ نہ کیا ہو۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے ” تم جھوٹ کہتے ہو،تم نے تو اس لئے خرچ کیا تھا کہ لوگ تمہیں سخی کہیں۔
سووہ کہا جا چکا۔“پھر اس کے بارے میں بھی حکم دیا جائے گا اوراسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (مسلم۔ ترمذی۔نسائی) استغفراللہ العظیم الذی لا الہ الا ھو الحی القیوم واتوب الیہ۔ ایمان نیت زبان دل عمل سب کا مجموعہ ہے، یہ معاملہ بہت نازک ہے، انسان کی سمجھ اور ججمنٹ سے باہر، ایسا معاملہ جو اللہ جانچتا ہے پرکھتا ہے، وہ کسی کے دل میں رائی برابر بھی ایمان دیکھ لے تو بخش دے ،کسی زانیہ کو فقط ایک پیاسے جانور کو پانی پلانے پر بخش دے، اور کسی کے پہاڑوں جیسے اعمال رائیگاں اسکے منہ پر مار دئیے جائیں۔
اللہ پاک ہمیں معاف کر دے اپنے لیئے خالص کر دیں اپنے لیئے خالص نیت ، خالص عمل کی توفیق دے اللھم آمین۔ محبت کبھی عزتِ نفس مجروح نہیں کرتی، عزتِ نفس اور انا میں بہت فرق ہے، انا فقط 'میں' ہے اور عزت نفس اللہ کی عطا کردہ احساسِ خودی ہے، جو 'تم' اور 'تم کی رضا' میں ضم ہے۔ محبت ہمیشہ عزتِ نفس کا مان رکھتی ہے، اپنے پاس سے عزت عطا کرتی ہے! اور بیشک ہم پرفیکٹ نہیں ہوتے مگر یہ ہمارے اختیار میں ہوتا ہے کہ ہم کہاں اپنی اس حد کو جان جائیں جہاں محبت کے نام پر ہم اپنی عزتِ نفس کا سودا کر رہے ہیں، کیونکہ عزتِ نفس تو عطا ہے۔
وہ تو دراصل انا ہے جسکی پامالی محبت کی راہ میں کروائی جاتی ہے، جس میں ہمارا اپنا آپ ہم پر آشکار ہوتا ہے۔ جو اصل عزتِ نفس ہے وہ کبھی اللہ کے سوا کسی کے سامنے نہیں گڑگڑائے گی، اور جو اصل محبت ہے وہ اسے کبھی ایسا کرنے پر مجبور بھی نہیں کرے گی! ہر انسان اپنے فعل میں آزاد ہے، کسی کے عمل کے جواب میں کیئے جانے والا ہمارا ردعمل ہمارا عمل ہوتا ہے۔
جس کی ذمہ داری ہم پر عائد ہے بس یہ ہے وہ نقطہ جہاں ہم اپنے اور اپنے رشتے کے لیئے سنوار کا باعث بھی بن سکتے ہیں اور بگاڑ کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ معافی، محبت، عفو و درگزر، بردباری، دعا، وفا، اخلاص، صبر شکر، حمد ذکر،عرش والے سے متعلق ہیں۔ حسد، کینہ بغض عداوت، رنج ملال، نفرت فتنہ و فساد وہ زمینی جذبے ہیں جو جسم خاکی کا خاصہ ہیں، جسکی روح جتنی پاکیزہ اور لطیف ہوتی چلی جائے گی، اس کو اللہ اتنا اپنے پاس سے گنجِ شائگاں (بادشاہوں کا خزانہ) عطا فرمائے گا، اور جس کی روح جتنی کثیف ہوتی چلی جائے گی،وہ چاہے زمین پر جتنا بھی تصرف حاصل کر لے، اس کا تمام تصرف گنجِ رواں (قارون کے خزانے)کی مانند زمیں بوس ہوتا چلا جائے گا۔
یہ زمینی کثافت اپنے اپنے درجوں پر سب کا امتحان بننے آتی ہے، کچھ کے لیئے اللہ محبت ہے، کچھ کے لیئے مال کچھ کے لیئے خاندان ، الغرض ایک جانب یا حق اللہ کی محبت ہے تو دوسری جانب ؛میں؛، نفس کی محبت ہے۔ دیکھا جائے تو انبیا کرام علیہ الصلواة والسلام صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اولیا کرام رحمة اللہ علیہم سب صالح، محبت والوں کو بھی انہی زمینی جذبوں رشتوں میں موجود آلائشوں بھری آزمائشوں سے آزمایا گیا، مگر الحمدللہ انکے بقدرِظرف جھکاوٴ نے ان کو اس کثافت کو پنپنے دینے سے باز رکھا اور انہوں نے جتنا اللہ کے لیئے قربان کیا اتنا اللہ پاک نے انہیں اپنا اتنا فیض کرم سکون دیا، اور اپنی محبت کے حجاب ان سے اٹھاتا چلا گیا۔
عرش والے کی عطا کردہ صبر و شکر، حمد و ذکر، راہِ حق و وفا میں سعی ء مسلسل، اشکوں کی صورت ہونے والی بارانِ محبت جیسے دل کی زمینی کثافت کو دھو ڈالتی ہے۔ روح آہستہ آہستہ ایسے لطیف ہوتی جاتی ہے، جیسے اس کا تعلق زمین سے نہیں آسمان سے بھی پرے کہیں کسی دنیا سے ہو۔ جب خلوت میں ذکر بڑھ جاتا ہے تو جلوت میں خامشی بڑھ جاتی ہے، کہ یہ خامشی اسی ذکر میں مشغول رہتی ہے، یوں جلوت میں خلوت اور خلوت میں جلوت ہو جاتی ہے، محبت خامشی میں بھی ذکر ہے، ذکر کرنے سے محبت بڑھتی ہے محبت ذکر بڑھا دیتی ہے اور پھر خامشی بھی ذکر ہو جاتی ہے۔
خلوت جلوت کے معنی بدل جاتے ہیں۔الحمدللہ، محبت شکر اور اخلاص کے پردوں میں جھلکتی ہے، گرنماز سراپا شکر ہے، توسورةالفاتحہ اللہ اور بندے کے درمیان بہت واضح کلامِ محبت ہے۔ جس میں الحمدللہ 'میں' کچھ نہیں سب تُو'کی حقیقت پنہاں ہے۔ اخلاص اللہ کی وحدانیت اسکی حمد سموئے وہ حقیقی جذبہ و عطاہے، جہاں اللہ اپنی صفات کی محبت و ذات وحدہ لاشریک لہ کی جگمگاہٹ لیئے ان دلوں پر محبت اتارتا ہے جو اللہ کے لیئے خالص ہیں، اللہ پاک ہم سب کو ہماری آزمائشوں میں ہر کثافت سے محفوظ رکھے، اپنے پاس سے رحم کرم و سکون اپنی یاد و قرب دوجہاں میں اپنی نظر میں سرخروئی عطا فرمائے۔
”اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیہ را جِعْونَ“ (پارہ:2، سورة البقرہ:156) ”ہم اللہ کے مال ہیں اور اسی کی طرف ہماری مْرَاجَعَت (واپسی/ لوٹنا) ہے۔“ یہ آیت انسان کے لیئے احساسِ اخلاص کے خزانے کی کنجی ، اس کی زندگی موت، آخرت کی مشکلوں اور آزمائشوں کے لیئے آسانی کا راز سموئے ہے۔ انسان کی آسانی اس امرِ حقیقی میں پوشیدہ ہے کہ اُس کو اِس امر باذن اللہ پر یقین آ جائے کہ وہ اللہ کا ہے، اُس کی اصل اللہ ہے،وہ اللہ کی طرف ہی پلٹ جانے کے لیئے ہے،اور ُاس کا نفس ہر ہر لمحے کے لیئے اللہ کے سامنے جوابدہ ہے۔
ایک رجوع وہ ہے جو انسان مرنے کے بعد، اس فانی جسم سے جدائی کے بعد اپنے رب سے کرے گا، ایک رجوع وہ ہے جو انسان اپنی انا کی فنا کے سفر میں اپنے رب سے درونِ زندگی کرتا ہے، الحمدللہ،جو زندگی میں ہی رب سے رجوع کر گیا وہ خاص ہونے کا شرف پا گیا، اور جو مرنے کا انتظار لیئے یا مرنے سے سرے سے ہی غافل ہوا، رب سے غفلت برتتا رہا، اُس نے خسارے کا سودا کیا۔
اے اللہ ہم سب تیرے پاس پلٹنے کے لیئے ہیں، ہمیں دنیا ، ہمارے نفس کی خواہشوں کے دھوکے، اس لہو و لہب میں مبتلا نہ رکھ، اے میرے اللہ تیرے اختیار میں سب ہے سب، اپنی اور اپنے محبوبﷺ کی محبت دے دے، اللہ پاک تو ہماری روح دل جاں عمل نفس نیت سب اپنے اور اپنے محبوبﷺکے لیئے پاکیزہ کر دے۔ اللہ ہمارے سارے جھوٹے رنگ اتار کر ہمیں اپنے اپنے محبوب ﷺ کے سچے محبت والے رنگ میں رنگ لے ہمیں خالص کر دے اللہ ہمیں معاف کر دے، ہدایت عطا فرما دے ،ہدایت پر قائم کر دے، اللہ ہماری زندگی موت آخرت اسلام کر دے اللہ ہمیں خالص مسلمان کر دے، اللہ مومن کا درجہ بہت بڑا ہے، اللہ ہمیں اپنے لیئے اپنے محبوبﷺ کے لیئے خالص انسان خالص مسلمان کر دے، اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم تیری رضا سے راضی رہیں اللہ ہم سے راضی ہو جا اللھم آمین!

Chapters / Baab of Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham