Episode11 - Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham

قسط نمبر11 - اللہ محبت ہے - حیا ایشم

میرے نزدیک محبت.. محمدﷺ اور محبت میں کوئی فرق نہیں۔ آپ ﷺ کا ایک نام میرے نزدیک محبت بھی ہے۔ سراپا محبت.. سراپاء ایثار و وفا و اخلاص الحمد للہ! اللہ محبت ہے اللہ نے محبت کے لیئے کائنات بنائی۔ اللہ نے اپنے محبوب ﷺکے لیئے کائنات بنائی، اللہ کو سب سے زیادہ اپنی حمد پسند ہے بیشک وہ حمد کے لائق ہے اور اللہ کو سب سے زیادہ محمدﷺ پسند ہیں۔ جو تحفہء درور نبی کریم ﷺاور امت کو عطا ہوا اس کا رمز بھی حمد اور محبت ہے۔ بے غرض محبت کسی نے سیکھنی ہو تو نبی کریمﷺ سے سیکھے....جب عدو لہو لہان کر دیں....حضرت جبرئیل علیہ السلام سارے اختیارات لیئے آن موجود ہوں..
بس ایک بار کہہ دیجیے.. اور پھر بھی صبرِ جمیل، ایک امید سلامت.. ایک یقینِ کامل.. نہیں.. شاید انہی میں سے کوئی میرے اللہ کا نام لیوا ہو....نہیں، اے میرے اللہ،مددفرما ان کی.. صبر.. یہ نہیں جانتے یہ کیا کر رہے ہیں اللہ انہیں ہدایت دے! اس صبرویقین پر بھلا اللہ دعا کیسے نہ سنتا..کیا بیتی ہو گی جب اپنوں نے آنکھیں پھیر لی ہوں گی..جس جس کو نگاہیں بدلتے دیکھا ہو گا کیسے کیسے ہر ہر پل اللہ کی محبت کی آغوش میں خود کو سپرد کیا ہو گا..
ہاں مگر محبوب کے ساتھ کسی آزمائش میں کبھی بے وفائی نہیں کی بس محبوب پر توکل کیا اور خود سے بھی بے نیاز ہو کر بس محبوب کا پیغامِ حق پھیلاتے رہے۔

(جاری ہے)

کیا بیتی ہو گی جب حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مثلہ اپنی نگاہوں سے دیکھا ہو گا.. کیا کوئی سکتہ سا ہوا ہو گا؟ اور جب غصے میں آئے تو جب وحی الٰہی میں زیادتی سے منع اور صبر کی تلقین پر صبر کیا ہو گا …تب کیسے ایک پل میں لبیک کہا ہو گا..

الحمدللہ رب العالمین، الرحمن الرحیم۔
محبوبِ الٰہیﷺ۔ جن کے دینی بابا جان حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے لختِ جگر کو بے آب و گیاہ صحرا میں سنتِ سعی و معجزہء زمزم عطا فرمایا… قربانی بیٹے کی مانگی گئی اور تحفتاًسنتِ ابراہیمی عطا ہوئی سبحان اللہ۔ کبھی سوچا ہے گلوں شکووں سے بے نیاز صبر کا وہ کون سامقام ہو گا… کہ جب حضرت جبرئیل علیہ السلام نے خبردی ہو گی… کہ کیسے اپنوں کی ہی بیوفائی ایک جگر گوشے کو زہر دے گی، کیسے حق کی خاطر ایک جگر کے ٹکڑے کو کربلا کے بیابان میں بس کچھ گز دوری پر دریائے فرات کی موجودگی کے باوجود… تشنہ جامِ شہادت پینا ہو گا کیسے ان کی گردنِ مبارک کو....
کیسے حرمت و عصمت کی ردا کھینچی جائے گی اور کیسے… صبر کا جام پیا جا ئے گا کہ بس امت.. امت کا خون نہ بہے۔ حق قائم رہے.... وہ پل کیسا ہو گا جب حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لب چومے ہوں گے....وہ لمحہ کیسا ہو گا جب حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گردنِ مبارک پر… لب رکھے ہوں گے جانے آنکھوں میں ضبط سے مزین مسکراہٹ ہو گی.... جانے چشم نم ہو گی یا جانے …ہونٹوں پر مسکراہٹ ہو گی....کون محرم ہو گا اس ایک لمحے کا....
ہاں سب سن کر لبیک کہا ہو گا الحمدللہ کہا ہو گا.. اللہ سے کچھ بدلنے کو نہیں کہا.. بس مان لیا سر جھکا دیا.. رضائے محبوب میں راضی.. کیسے اللہ نے اس پل محبت کا ہاتھ اپنے محبوب ﷺکے دل پر رکھا ہو گا.. کیسے تھام لیا ہو گا… تنہائی میں بہتے ہوئے ان اشکوں کو چوم لیا ہو گا۔ 
آج یہ امت جو قرآن پاک میں واضح وَاعتَصِمْوا بِحَبلِ اللہِ جَمِیعاً وَلاَ تَفَرَّقْواکی نصیحت ہونے کے باوجود فرقہ واریت کی دلدل میں جابجا دھنستی جا رہی ہے۔ یہ وہی امت ہے جس کے نبی کریمﷺرسولوں تک میں تفریق کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ ایک بار کسی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جوش میں ایک یہودی سے ایک گفتگو میں نبی کریم ﷺ کو حضرت موسٰی پر فوقیت دی تو جب وہ یہودی آپﷺ کے پاس شکایت لے کر پہنچا تو آپ ﷺ کا چہرہ مبارک غصے سے سرخ ہو گیا اور فرمایا یہ مت کہو میں موسٰی علیہ السلام سے بہتر ہوں، قرآن میں اللہ پاک نے مومنوں کے حوالے سے فرمایا ہے کہ وہ رسولوں میں تفریق نہیں کرتے۔ان جیسی محبت کیا کوئی ہو سکتا ہے؟ ان جیسی محبت کیا کوئی کر سکتا ہے؟
انسان تو بے شک، ایک چڑیا کے بچے تک کی فکر کرنے والے کہ اس کو چھوڑ دو… اس کی ماں بے چین ہے، محبت جانتی ہے ہجر کی کیفیت کیا ہوتی …جب پیدا بھی نہیں ہوئے تو بابا جان سے محرومی کی آزمائش… کتنی چھوٹی عمر میں ماں اور دادا جان چچا جان کی شفقت کا سایہ ہٹ گیا…کیسے کیسے نہ آزمائشیں سہیں… دنوں کی بھوک پیاس، مگر الحمد للہ ثابت قدم رہے… قصواء نے کیوں انکے فراق میں بھوکے پیاسی جان دے دی؟ کچھ اسم محبت پھونکا تو ہو گا اس بے زبان کی روح میں ان رحمت للعالمین ﷺنے… جو اس معصوم کو پھر کہیں نہیں ملنا تھا… کیسے بے زبان جانور ان سے اپنے دکھ کہہ جاتے تھے… محبت تھے ناں وہ ان کی زبان ان کے درد کی زبان سمجھتے تھے… ان کے مالکوں کو سرزنش کرتے کہ ان کے حقوق میں کوتاہی نہ کرو… ظلم نہ کرو… اللہ سے ڈرو…!
کبھی سوچا ہے ہم لفظوں سے تو کہتے ہیں کہ ہمیں اللہ سے اور رسول ﷺ سے محبت ہے مگر حقیقت کیا ہے کبھی سوچا ہے وہ ایک لمحہ کہ یہاں اس دنیا میں جہاں ہم اپنے مفاد کے لیئے ہر وہ شے کر گزرنے کو تیار ہوتے ہیں خواہ اسکا راستہ اللہ رسولﷺ کے راستے سے ہٹ کر ہی کیوں نہ ہو؟ درحقیقت کیا ہوتی ہے اس مفاد کی اس خواہش کی حقیقت؟ اگر فقط نفس سے جڑی ہے تو صرف ایک آزمائش، کیا وہ خواہش قبر میں ساتھ جاتی ہے؟ وہ ایسی خواہش جو سب سے پہلے ہمیں ہماری اصل سے ہٹانے کا بہانہ لائے گی، کیا اس خواہش کو حاصل بھی کر لو تو قرار مل جاتا ہے؟ مگر اگر اسی خواہش پر اللہ کے لیئے صبر کیا جائے اسے اللہ کے سپرد کیا جائے، اللہ ہی کی رضا پر عمل کیا جائے، تو وہی خواہش کیسی عطا بن کر روح و دل جسم و جان میں اتر جاتی ہے پھر وہ آزمائش صبر کی بھٹی سے گزر کر کندن سی دمکتی ہے، عطا بن جاتی ہے۔الحمدللہ اسلام کو نبی کریم ﷺ کے جگر گوشوں کی قربانی نے پھر سے جِلا دی۔ روزہ کھلنے تک صبر کی کیفیت کیسی ہوتی ہے؟ اور جب پانی کا ایک قطرہ مل جاتا ہے تو کیا اس وقت حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یاد آتی ہے؟ حلق میں اترتے اس ٹھنڈے قطرے کے ساتھ کیا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تشنہ قربانی دنوں کی بھوک اہل و عیال پر ظلم و ستم صرف حق کے لیئے ڈٹ جانے کی ہمت یاد آتی ہے؟ تاریخ کہتی ہے یہی دن تھے وہ شدت کی گرمی کے، ہمارے کچھ گھنٹوں کی ہائے روزہ ہائے روزہ کرتے گزرتے ہیں اور ان کے دنوں کی بھوک پیاس میں حق کے لیئے جان مال آبرو سب قربان کرتے..
انہوں نے کیا کیا اور ہم نے کیا کیا؟
”وہ جو مشکلوں میں گِھرے رہے … مگر حوصلوں پر ڈٹے رہے،
وہ جو فاقہ کشی میں رہے مبتلا … پر زبان سے کی نہ کبھی آہ و بکا،
جنہیں کیا گیا لہولہان جب … دی دعا انہوں نے ہر حال تب،
وہ جو بچپن میں ہی یتیم ہوئے … جھیلیں … مہر بلب سب سختیاں،
ذرا تحفہ وحیء محبوب کیا ملا … خوب دیکھیں جہاں کی تلخیاں،
جنہوں نے پیغامِ حق نہ بھلایا کبھی … اپنوں کو نہ ٹھکرایا کبھی،
سہیں جنہوں ﷺنے سب عداوتیں … اپنوں کی زہر ملی سب دعوتیں،
وہ حق پر تھے، رہے حق پر سدا، وہی وہ ایک ہیں محبوبِ خداﷺ،
جن کو نصیب ہوئیں تجلیاں، کہ جن سے راضی رہا ہر پل خدا،
اک دن جب ملا اشارہء خدا، تیرا کنبہ ہوگا قربان..
راہِ خدا،
تجھ سے پھیلا جو اسلام جابجا، تیرا ہی خون دے گا اسے پھر بچا،
وہ مہر بلب کپکپا گئے، پر کہا نہیں اک لفظ شکوہ بجا،
ان کے دل نے کہا بس دل جھکا، بس سر جھکا بس دل جھکا،
لب دھرے گردنِ حسین پر … لب چوم لیئے حسن کے تب،
اشکوں کو مسکرا پی گئے … کہا! یہ تیرے ہیں تیرے ہی گئے،
یہ ہیں ہمارے …… نبی کریم مصطفیﷺ،
سیکھا ان کی زندگی سے …… بھلا ہم نے کیا،
بس اپنی غرض اپنی لالچیں …… کچھ عرضیاں کچھ شفاعتیں،
ہمیں قربِ ربی سے بھلا کیا غرض … بس اپنی طرز اپنی قباحتیں،
ضابطہء حیات قرآن تھا جناب، اس کو کیا ذریعہء ایصالِ ثواب،
وہ نماز تھی جو مومن کی معراج … وہ اب نماز نہیں، بوجھ بنی ہے آج،
کیسے بھول گئے مقصدِ حیات ہم، کیوں اپنی ہی الجھنوں میں گھرگئے ہیں ہم،
قربانیاں کر چکے رائیگاں ہم … کیا بنایا تھا اور کیا بن گئے ہیں ہم،
نہ آئے تھے یہاں رضا سے ہم، نہ مرضی چلے گی جاتے ہوئے،
پھر غرور کس بات کا ہے بے وجہ، کیوں بن گئے ہم جھوٹے خدا،
اپنی اصلیت ہم بھلا چکے … ہمیں یاد ہو بھلا کیونکر خدا،
بس جب ذرا چوٹ ہو اسے پکار لو … جب دل دکھے اسے یاد کرو،
پھر پھیر لو اپنا رخ سبھی … آخر زندگی پڑی ہوئی ہے ابھی،
وقتِ مرگ کریں گے اسے یاد ہم، جیسے لیے آئیں ہوں اپنا وقت لکھا،
خدا ہے پردے میں رسولکے جابجا، آوٴ اسی زندگی میں اس کو ڈھونڈ لیں!،
آوٴ چکھیں کبھی وہ چاشنی … وہ دلکشی وہ مے کشی،
وہ حق، جو ان میں ہے بسا … بس وہی اصلیت ہے ہماری …جابجا،
اللہ سن دعا … اب کر عطا تو ہمیں عشقِ مصطفیﷺ،
ہر انا کا رنگ ہم سے اتار دے..حُبِ سنت کا دے ہم پر رنگ چڑھا،
ہماری ہنسی میں ان کا ہو سرور … ہمارا اشک ہو بس ان سے جُڑا،
اللہ سن دعا … اللہ کر عطا عشقِ مصطفیﷺ،
تیرے واسطے ہم جی سکیں … تیرے ہی واسطے ہم مر سکیں،
اپنی انا سے ہوں ہم ماورا، تیری کائنات جگمگا سکیں،
اللہ اپنے قرب میں ہمیں دے مزہ، اللہ ہمیں کر عطا عشقِ مصطفیﷺ،
اللھم آمین یا رب العالمین یا ارحم الراحمین!“
ہم عطا مانگتے اپنا ظرف نہیں دیکھتے ہاں شکوہ کرتے رب کے خزانے ضرور کھنگالنے پر اتر آتے ہیں۔ اللہ ہمیں معاف کر دے، اسلام میں مکمل داخل فرما، ہماری نیتوں ہمارے اعمال کو اپنے لیئے خالص کر لے ہمارا سکون ہماری فلاح ہمارا احساس تجھ میں ہے، تجھ سے ہٹ کر تو ہم خسارہ ہیں سراسر خسارہ، اللہ ہمیں ہدایت دے اور دینِ اسلام کے لیئے اپنی محبت عطا فرما کر چْن لے اللھم آمین۔ بلاشبہ نبی کریمﷺ سراپاء محبت ہیں۔نبی کریم ﷺوہ نبی رحمة للعالمین ہیں جنہیں تمام ابنیا کرام علیہ الصلواة والسلام کی آزمائشوں سے گزارا گیا، خواہ وہ بہت جلد یتیمی ہو، مسکینی ہو، غربت ہو، فاقہ کشی ہو، اپنوں کا پرایا ہو جانا ہو، محاصرے ہو، بائیکاٹ ہو، قاتلانہ سازشیں ہوں یا ہر طرح کا ظلم و ستم، نبی کریم ﷺکے دینی بابا جان حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان کے لختِ جگر کی جس آزمائش کے خواب سے گزارا گیا۔ نبی کریمﷺ کے جگر گوشوں نے اپنی شہادت سے اس خواب کو تعبیر دی۔نبی کریمﷺ آخری نبی ہیں جن کے بعد کوئی نبی نہیں!
”رہبرِ کونین ہیں، آپ مظہرِ حْبِ خدا،
آپ اللہ کا مان ہیں، جانِ شہیدِ کربلا،
آپ پر خدا کی رحمتیں، محبتیں سب نِعمتیں،
آپ صبر و وفا کی لاج ہیں، آپ راہِ محبت سدا،
اْس جبینِ دل کو سلام، محبت میں جو جھک گئی،
آپ مکینِ شہرِ معظمہ، آپ امینِ شہرِ وفا،
آپ ہیں شفیع الامم، شفیعِ محشر بھی آپ ہیں،
آپ ہی نورالھدیٰ، آپ حبیب مصطفٰیٰ،
آپ ہی بدر الدجیٰ، خیر الوراٰ بھی آپ ہیں،
شمس الضحیٰ بھی آپ ہیں، آپ ہیں حبیبِ خدا،
خاک نقشِ پا کی، مقدر بنے میرا کبھی،
مقدر بنے میرے حسیں، میرے سید المرسلین و جاں،
سب انبیا کی آزمائشیں، آ، آپ پر ختم ہوئیں،
آپ نبی آخر الزماں، آپ امامُ الانبیا،
صلی اللہ علیہ وآلہ وازواجہ واصحابہ وبارک وسلم “
وہ سراپاء محبت، سراپاء رحمت اپنی تنہا جان پر سب جھیل لینے والے کیا ان کی مثل کوئی ہو سکتا ہے جو بس ''یا اللہ میری امت میری امت'' کہتے چلے گئے، اور اس روز بھی جس روز ہر نفس نفسا نفسی کا شکار ہو گا جب سب انبیا کرام علیہ الصلواةوالسلام نفسی نفسی کہہ رہے ہوں گے واحد نبی کریم ﷺ ہوں گے جو امتی امتی کہہ رہے ہوں گے، یہ کیسی محبت تھی جس نے اپنے جگر گوشے اس امت کے لیئے قربان کر دیئے … اور آج یہ امت..
یہ امت کونسی محبت کو محبت سمجھے بیٹھی ہے؟ کس وفا کو وفا کہہ رہی ہے؟ مجھے یاد ہے کچھ عرصے پہلے میں نے کسی سے پوچھا تھا کہ نبی کریم ﷺ سے کیسے محبت ہوسکتی ہے… تو انہوں نے جواب دیا تھا ''جو نبی کریم ﷺکہیں اس پر عمل کر کے، اسے پلو سے باندھ کر'' بے شک یہی فرمان ہے جو نبی کریم ﷺدیں اسے لے لو جس سے باز کریں اس سے رک جاوٴ۔ جس نے اللہ تک پہنچنا ہے وہ نبی کریم ﷺکی محبت کو تھام لے۔ اللہ پاک سے دعا ہے مجھے، ہم سب کو نبی کریم ﷺکی محبت عطا فرما دیں، ہمیں توفیق دیں کہ جو وہ کہیں اس پر عمل کریں، جس سے وہ باز کریں اس سے باز رہیں، اللہ پاک ہمیں سنت نبوی ﷺپر عمل پیرا کر دے اللھم آمین۔کائنات آج بھی ایک تلاش ہے … نبی آخرالزماں سیدنا محمد ﷺاس کا استعارہ ہیں!
”محبت بے قرار نہیں کرتی،
محبت داغدار نہیں کرتی،
محبت لاجواب تو کرتی ہے،
محبت آہ و زار نہیں کرتی،
عجب سکوں کا احساس ہوتا ہے،
رگ و پے میں جو یکجان ہوتا ہے،
محبت سہہ جاتی ہے سب خود پر،
محبت بپا فشار نہیں کرتی،
سولی چڑھ جائے، آگ پر چل جائے،
روح میں سپردگی، سرشاری سموئے،
محبت خراج تحسین دیتی ہے،
محبت اف کا اظہار نہیں کرتی،
ظرف سمندر کا سا کرتی ہے عطا،
بہت شور میں بہت خاموش ہوتی ہے،
محبت پاسبان ہوتی ہے عزتوں کی،
محبت کبھی بے مہار نہیں کرتی“

Chapters / Baab of Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham