Episode14 - Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham

قسط نمبر14 - اللہ محبت ہے - حیا ایشم

محبت اللہ کی پہچان ہے!
محبت میں رب کی پہچان ہے۔اللہ نے اپنی پہچان کے لیئے یہ کائناتِ محبت بنائی، محبت کا بیج بو دیا، معجزہء کن فیکون کر دیا۔ وہ کائنات جو اللہ نے اپنی تلاش کے لیئے بنائی، دراصل اس میں راز اس انسان کی اپنی تلاش کا ہے ، جس نے خود کو پہچان لیا اس نے خدا کو پہچان لیا، اور جس نے اس کو پہچان لیا ، وہ اس کی پہچان بن جاتا ہے۔
جس پر خود اپنی ذات سراب میں الجھ گئی وہ اللہ سے اور اللہ اس سے اتنا باحجاب ہو گیا۔ خالق حقیقت ہے مخلوق خالق کا پردہ ہے، انسان اللہ کی تلاش کی بجائے اس کے پردوں میں محو ہو کر رہ گیا، جب نظر اس سے ہٹ جائے تبھی نگاہ مخلوق میں الجھ کر رہ جاتی ہے، جب نگاہ مرتکز ہی اس ایک پر ہو تو سلجھن بھلا کیوں نہ ہو۔ مقصد یہ نہیں کہ محبت نہ ہو، مقصد فقط یہ ہے کہ حد سے گزرنے کی اذیت خود سہنی پڑتی ہے، اور محبت اذیت نہیں دیتی، وہ جھوٹ جو ہم خود سے بولتے ہیں بس وہ اذیت میں رکھتا ہے، راز تو فقط مخلوق میں رب کی پہچان میں ہے، تو مخلوق تک جاوٴ مگر رب سے نظر محو نہ ہونے پائے کہ معبود سے محو نظر 'انا/میں' کی ہوتی ہے، عبد کی نہیں۔

(جاری ہے)

اور عبد کی پہچان یہی ہے کو وہ جھوٹے معبود نہ بنائے بلکہ حقیقی معبود کے سامنے ہر آزمائش میں د ل، جان و روح سے جھک جائے۔
کیا اس نے نہیں کہا کہ وہی ہنساتا ہے وہی رلاتاہے، توہم ناداں انسان کیسے مخلوق کو اتناطاقتور سمجھ لیتے ہیں کہ وہ ہماری خوشی غمی پر قابض ہو، یہ تو ہمارے ہی جھوٹے اختیار کا سراب ہے کہ ہم کسی اور کو یہ اختیار دے دیں کہ وہ ہمارے ہنسنے رونے کا سبب ہو جائے، اور اللہ نے کیا کہا نہیں کہ اختیار تو سارے کا سارا اللہ کا ہے، ہم مخلوق کے پردوں میں اللہ کے ہجر کو روتے ہیں، ہمارے اندر اسکی اتنی شدید تڑپ ہے کہ ہم اپنے آنسووٴوں کو خود نہیں سمجھ پاتے، ورنہ جس سے عالمِ ارواح میں ہجر ملا، بقول اسی کے جب وہ اس دنیا میں ہم جہاں ہیں ہمارے ساتھ ہے، تو وہ ہمارے پیارے جب جدا ہوں تو کیا انکی محبت ہماری روح کا حصہ نہیں بن جاتی۔
دراصل مخلوق کا، خواہش کا پردہ ہی ہم پر ایسا پڑ گیا ہے، کیسی عجب بات ہے کوئی اپنا مر جائے، تو ہم نعوذباللہ ،اللہ تک سے شاکی ہو جاتے ہیں، اور یہی وہ پل ہے کہ ہمیں زبانی صبر کی ازحد تلقین ہے، کبھی سوچا جب محبوبِ حقیقی کا ہجر ملا تو ہمیں صبر کیسے آیا ہو گا، وہ جس نے بنایا، محبت سے ہمیں سوچا، وہ لمحہء ایجاب و قبول جو الست بربکم اور قالوا بلٰی کی صورت ہوا، وہ ہماری روح کیسے فراموش کر سکتی ہے، یہ راز ہمارے دلوں کی اتھاہ گہرائیوں میں پنہاں ہے۔
یہ راز تبھی منکشف ہوتا ہے جب انا کو مٹایا جاتا ہے، بے بسی میں سر کو دل سے جھکایا جاتا ہے، جب سب اسے سونپ دیا جاتا ہے، جب من کو جھکایا جاتا ہے اور تب رب آشکار ہوتا ہے!
”مقدس جیسے صحیفہ سی،
محبت حجاب ہوتی ہے،
دعا .. آنسووں پر مبنی ،
محبت باریاب ہوتی ہے،
زمین و آسماں کہیے،
یا کہیے جان و دل اس کو،
لفظوں کی قید سے مبرا،
محبت کتاب ہوتی ہے،
ہے عجب کیفیت اس میں،
جو اسے مان نہ پائیں،
اور کچھ نہیں ان کے لئے،
محبت عذاب ہوتی ہے،
مثل ہے اسکی چاند سی،
جو گھٹتا اور ہے بڑھتا،
نہ فنا جسکو ہو ممکن،
محبت ماہتاب ہوتی ہے،
درد میں مہکتی مہکاتی،
اک سراپا راز کی مانند،
ہوں لاکھوں پھول اور بھی، 
محبت گلاب ہوتی ہے،
بن کچھ پوچھے بن کہے،
اترے دل پر وحی کی صورت،
ہو جسکے ٹوٹنے کا ڈر،
محبت خواب ہوتی ہے!“
 اللہ کی محبت عجب ہے حیران کن، جب آپ کو کسی سے محبت ہو تو آپ کی کیا خواہش ہوتی ہے یہی ناں کہ وہ آپ کے ساتھ ہو، اسکی محبت آپ کے لیئے دھوپ میں کسی گھنے سائے کی مانند ہو، مشکلوں میں آسانی جیسی، حبس میں کسی ٹھنڈی ہوا سی، تھکن میں آرام، جنوں میں سکوں سی، ہر درد میں کسی درماں سی، پتہ ہے اللہ ہم سے ایسی ہی محبت رکھتا ہے اس نے ہمارے قدموں تلے زمین بچھا دی سر پر آسمان کا سائبان تان دیا، اسے تاروں سے مزین کر دیا، ہمارے سائے کے لیئے بادل درخت بنا دئیے، حبس میں ٹھنڈی ہوا بھیج دیتا ہے مشکلوں میں آسانی دیتا ہے، تھکن میں آرام دیتا ہے، اس نے سکون جو سب سے قیمتی دولت ہے اسے اپنے بندوں کے لئے سب سے آسان کر دیا کہ مجھے یاد کر لو سکون پاجاوٴ گے، سبحان اللہ۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی اس کو پکارے اور وہ جواب نہ دے، یہ کیسے ممکن ہے کوئی اس سے سر گوشیاں کرے اور وہ ان کو دھیان سے سنے نہیں، وہی تو ہے جو دلِ مضطرب پر قرار کی بارش برساتا ہے۔ وہی تو ہے جو دعا منگواتا دعا قبول کرتا ہے۔ ہمیں لگتا ہے ہم دعا مانگتے ہیں، مگر سچ یہ ہے کہ کوئی ہم سے دعا منگواتا ہے، ہمیں لگتا ہے ہماری طلب ہے مگر سچ یہ ہے کہ کسی نے طلب رکھی ہوتی ہے، ہمیں لگتا ہے ہم جی رہے ہیں مگر در حقیقت کوئی ہے جو ہمیں زندہ رکھے ہوئے ہے، ہمیں لگتا ہے ہم سوتے ہیں جاگتے ہیں مگر کوئی ہے جو ہمیں جگا دیتا ہے سلا دیتا ہے، ہمیں لگتا ہے ہمارا دل دھڑک رہا ہے مگر کوئی ہے جو ہمارا دل دھڑکا رہا ہے، ہمیں لگتا ہے ہم اپنی زندگی کے اتار چڑھاوٴ میں تنہا ہیں جبکہ کوئی ہے جو پل پل ہمارے ساتھ ہے ہم جہاں ہیں وہ اپنی محبت سے وہاں ہے۔
ہم اس سے غافل ہیں وہ ہم سے ایک لحظہ بھی غافل نہیں۔ بہت محبت سے ہر ہر پل ہمیں دیکھ رہا ہے سن رہا ہے الحمدللہ رب العالمین، اللہ ہم سب کو اپنا احساس اپنا مان دے دے اللھم آمین!
 بات تو فقط اتنی سی ہے کہ ہماری ارواح نے اللہ کی محبت کا ذائقہ عالمِ ارواح میں چکھ لیا ہے، اور پھر ہمارے اندر اس محبت کا کیف رکھ کر خود محترم پردے میں چھپ گئے اور اپنی پہچان کے پردے میں یہ کائنات بنا دی، پھر ہمیں بھیج دیا ہے اس دنیا میں جو ہماری انا اور نفس کے حجابات سے اٹی ہے، اب ہم اس سے غافل ہیں مگر غیر مشروط محبت کی تلاش میں ہر ہر پردے میں اسکی وہی محبت تلاشتے ہیں، وہی کیف، وہی چاشنی، مگر ہم سب عام سے انسان ہیں اپنا اپنا ظرف لیئے اپنی خوبیاں اپنی خامیاں لیئے ہیں۔
سو جب دوسرے سے ویسی وفا نہیں ملتی تو ہمارے اندر کچھ ٹوٹ سا جاتا ہے، سوچتی ہوں کیا کبھی اللہ ہم سے دل برداشتہ ہوتا ہو گا؟ وہ کتنی محبت کرتا ہے ہم سے، اور ہم ہیں کہ اس دنیا کے دھوکے میں کس بری طرح الجھے ہوئے ہیں، اور وہ مستقل سراپا وفا و رحمت بس ہمارا ایک سچا اشکِ ندامت اور وہ بڑھ کر گلے لگانے والا۔ نبی کریمﷺ اللہ کی محبت کا وہ پردہ ہیں جو سراپا رحمت سراپا وفا رہے۔
انکی محبت عالمین کے لیئے باعثِ رحمت رہی۔ جہاں شر اور خیر سے بڑھ کر حقیقت محبت رہی۔ ہمیں احساس نہیں مگر نبی کریم ﷺکے وہ اشک آج بھی ہماری ارواح میں ہمارے ضمیر میں زندہ ہیں جو انہوں نے خاموش شبوں میں ہماری فلاح و عافیت کے لیئے بہائے، بات صرف اتنی سی ہے جتنا ہمارا ضمیر زندہ ہے اتنا احساس سلامت ہے جتنا ضمیر مر گیا اتنا ہم اللہ اور نبی کریم ﷺ کی محبت سے غافل ہو گئے۔
وہ پر خلوص محبت آج بھی ہماری روح میں شامل ہے۔ اللہ خیال ڈالتا تھا اور نبی کریم ﷺ روتے تھے کیسی پر خلوص محبت ہے، ہمارا شعور اس محبت سے آج پردے میں ہے مگر لاشعور میں چھپی محبت کا کیف آج بھی زندہ ہے۔ سو آج بھی ہمارا دل جب بھی کسی میں لگتا ہے تو ہم اس سے ویسی ہی محبت چاہتے ہیں ویسی ہی وفا چاہتے ہیں جیسی اللہ ہم سے رکھتا ہے۔ کبھی سوچا ہے وہ کیسی محبت کرتا ہے؟
 جس کو محبت ہو وہ آپ کو سب میں سے چْن لیتا ہے، آپکو منتخب کرتا ہے، آپکو اپنا قرب دینا چاہتا ہے، آپکو اندھیروں سے نکال کر روشنی عطا کرتا ہے، آپکو اپنی نظرِ کرم میں رکھتا ہے، آپکو چھوٹی اور جھوٹی خوشیوں کی بجائے سچی اور ہمیشہ کی خوشیاں دینا چاہتا ہے، آپکے آنسو محبت سے صاف کر کے ان میں ہنستی قوسِ قزح رکھنا چاہتا ہے، آپ کے لیئے آسانیاں کرنا چاہتا ہے، آپکی تنہائی کا ساتھی آپکا بہترین محرم بننا چاہتا ہے، آپکے زخموں پر مرہم رکھنا چاہتا ہے، آپکی ہر بات سننا چاہتا ہے، آپکو سکون دینا چاہتا ہے، کیا اللہ ایسا ہی نہیں ہے؟ بلاشبہ وہ ایسا ہی ہے! جو ہم سے محبت رکھتا ہے وہ خود پر الزام لے لیتا ہے مگر ہماری بھلائی اسکی اولین خواہش ہوتی ہے، تو کیا اللہ بھی ایسا ہی نہیں کرتا وہ اپنے علم سے جانتا ہے کیا ہمارے لیئے خیر ہے کیا نہیں، سو اگر کوئی خواہش ہماری تکلیف کا باعث ہو تو اللہ اسکو خود ہم سے دور کر دیتا ہے یا کوئی خلل ڈال دیتا ہے پھر ہم بظاہر تو تکلیف میں آتے ہیں مگر جلد ہی احساس ہو جاتا ہے کہ اس میں اللہ کی ہمارے لیئے ہی بہتری تھی۔
ہم ایک جہاں سے محبت چاہتے ہیں مگر جو ہم سے اصل محبت رکھتا ہے اسکی محبت کو ہم کتنا فار گرانٹڈ لیتے ہیں! حالانکہ ہماری روحوں نے اس سے عہدِ وفا کر رکھا ہے مگر ہم اس دنیا کے دھوکے میں آ کر اس سے غافل ہو گئے۔ ہاں شاید، ہم واقعی بے وفا ہیں۔ محبت تو بہر طور اچھی ہے خواہ تمہیں کسی سے ہو یا کسی کو تم سے ہو خالص محبت بہرطور عطا ہے الحمدللہ! اور اس محبت کے کیا کہنے کہ اگر کسی کے دل کو اللہ کی محبت کا احساس ہو جاے کہ وہ اپنے بندے سے کتنی شدید محبت رکھتا ہے۔
 
ہاں اللہ جیسی محبت کرناآسان نہیں، ہاں مگر ہم اسکی اسکے محبوبﷺ کی سنت پر عمل تو کر سکتے ہیں،اللہ رسولﷺ والی محبت تو کر سکتے ہیں ناں، اور اسکے لیئے مدد بھی اللہ سے ہی مانگی جا سکتی ہے، کیونکہ جلد یا بدیر ہم تو اللہ کے پاس چلے جائیں گے مگر ہم اپنے اصلی مقصد کو پا جائیں تو زندگی موت اور آخرت آسان ہو جائے گی، اللہ کو پانا اسکی محبت کو نبھانے میں ہے، ہم سب کا ایک مدار ہے ہمارے پیارے اس میں ہیں۔
ہم انکے ساتھ وہی معاملہ رکھنے کی سعی کریں جو اللہ اور اللہ کے نبیﷺ نے رکھا، وفا، خلوص، عفو، رحم و درگزر، کا معاملہ، اور نفرت بغض حسد کینہ سے دور محبت کی وہ خالص فضاء کہ اگر ایک بار اندر آ سمائے تو کائنات بھی خوشگوار ہو جاتی ہے الحمدللہ۔ پھر ایسے میں اللہ ہمیں خود سے دور نہیں لگتا رگِ جاں ے بھی قریب اپنے احساس سے سرشار رکھتاہے جیسے پل پل کہتا ہو 
”رگِ جاں سے ہوں میں قریب تر ۔
۔ کہو کوئی ہجر بھلا کیوں ہو؟
گر میں تمہارے ساتھ ہوں۔۔ پھر تمہیں فکر بھلاکیوں ہو؟“
 ہر انسان کے اندر ایک عجب خواہش شاید قدرت نے ہی رکھی ہے کہ کوئی اسے سب سے بڑھ کرمحبت کرنے والا ہو، جو درد کو سمجھتا ہو، آپکے بن کہے آپکی پرواہ کرتا ہو۔ آپکو سمجھتا ہو، آپکو تھام لیتا ہو، آپ صرف اسکے ہو، وہ صرف آپ کا ہو۔ اس کا احساس دلاتا ہو، مگر کیا کبھی اللہ کے سوا ایسا کوئی ہو سکتا ہے؟ ہممم۔
۔۔ مگر پھر بھی ہم نادان اللہ کو چھوڑ کر دنیا کی پرواہ کو ہمکتے، بلکتے اور سسکتے ہیں، اللہ سے اللہ کو نہیں مانگتے، اس سے اسکے سوا سب مانگتے ہیں، اس سے بھی مانگتے ہیں تو دنیا مانگتے ہیں، پتہ نہیں کیوں ہم اللہ سے اللہ کو نہیں مانگتے۔۔! شاید ہمارا ظرف ہی اتنا نہیں ہوتا! جب ہم زندگی کے التباس میں موت کو بھول جاتے ہیں، تو ہم جھوٹے الہ سے سجی سجائی اس دنیا میں اللہ سے بے دھیان بھی تو ہو ہی سکتے ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ '' باطل الہ'' باہر نہیں ''باطل الہ'' ہمارے اندر ہوتا ہے۔
اللہ کی ذات عجب پراسرار ہے، جب اس نے کسی سے اپنا آپ منگوانا ہوتا ہے تو اس سے اپنا آپ منگوانے کے لیئے اللہ ہر '' باطل الہ'' کو ''لا'' کرواے گا۔ دنیا سے بندھی ہر امید تڑواے گا، اپنی ذات پر ارتکاز کروائے گا، اسکی ہر آزمائش میں آسانی ہوتی ہے۔ جو بظاہر مشکل لگتی ہے۔
اللہ نے انسان میں اپنی یاد کے لیئے اسکا دل چنا ہے، اور اللہ کو یہ بات ناگوار ہے کہ وہ اپنے کسی بندے کو اپنی طلب سے زیادہ عرصے ناآشنا رکھے، یا وہاں اپنے سوا غیر کا غلبہ پائے وہ بہانے دیتا ہے، اب سمجھنے والی نگاہ ہے کہ وہ انا میں الجھ جائے یا اللہ کی محبت و حکمت کو سمجھ جائے۔ الحمدللہ جس نے نفس کے 'باطل الہ' کو 'لا' کر دیا اس نے اللہ کو معبودِ برحق مان اور جان لیا۔
”لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہﷺ
تم ابھی بھی محوِ رقص ہو ،
ہاں مگر تمہیں اپنی خبر نہیں ہے،
خبر ہو گئی جس دن تم کواپنی،
پھر اس دن ہو گا سکون تمہارا،
ہو گی عطا تم پر اک عجب سی،
بہت رمزوں میں سمٹی کچھ دم بخود سی،
مے وہ وفا کی عطا یوں ہو گی،
کہ ترشی کی جس میں دمک نہ ہو گی،
نگاہ کو ہو گا کیف عجب عطا سا،
کہ مستی سے تمہاری اک نگاہ کی، 
کائنات لگے گی… تمہیں محوِ رقصاں…!،
طواف کرے گی روح تمہاری،
مسکراہٹ ہو گی تمہارا گہنا،
حیرت ہو گی نگاہ تمہاری،
سربسجود ہو گی دل کی دھڑکن،
رکوع میں تمہارا وجود ہو گا!،
ہر روم میں فقط کیف ہو گا،
کائنات لگے گی خود میں سمٹتی،
محبت تمہارا حصار ہو گا،
ہاں سب ہو گا ہاں سب ہو گا،
مگر ابھی تمہیں اپنی خبر نہیں ہے،
ابھی تمہیں اپنی خبر نہیں ہے،
ابھی تمہیں خبر کہاں اس کی ہو گی،
ہاں خبر جس دن تمہیں اپنی ہو گی،
اسی دن تمہیں اسکی خبر ملے گی،
پھر جب وہ ملے گا…کہاں تم رہو گے،
کہ تب بس وہ ہو گا…ہاں بس وہ ہو گا،
وہی مسکان ہو گا…وہی اشک ہو گا،
وہی تمہاری حیات… تمہاری مرگ ہو گا،
وہی تمہاری بعد از ممات حیات ہو گا،
پھر تم نہ ہو گے ہاں بس… بس وہ ہو گا،
ابھی تمہیں تمہاری خبر نہیں ہے ،
گر تمہیں اپنی خبر نہیں ہے… تو کیا وہ نہیں ہے؟،
ارے اک وہی ہے… وہی بس وہی ہے،
خبر گیری اپنی مانگو گر تم ،
پھر وہ تمہیں خبر اپنی دے گا،
پھر اپنی خبر کی نہ رہے گی تمہیں حاجت،
بس تمہاری حاجت بس بس وہ ہو گا،
وہ میرا اللہ وہ میرا پیارا ،
بس اک وہی تھا بس اک وہی ہے،
بس اک وہ ہو گا بس اک وہ ہو گا،
وہ میرا اللہ وہ میرا پیارا !“

Chapters / Baab of Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham