Episode15 - Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham

قسط نمبر15 - اللہ محبت ہے - حیا ایشم

 یہ زندگی موت تک آزمائش ہے، اس دنیا میں واقعات، لوگ، ہمارے سامنے آزمائش بن کر آتے ہے، یہ کائنات محوِ رقص ہے، چاند سورج کو دیکھیں اس کا رقص اللہ کے گرد سمجھ آ جائے گا، بارش کا بھی ایک رقص ہوتا ہے، پھول کا کلی سے کھل جانا خوشبو پھیلانا، پھر مرجھا جانا یہ سب بھی اسکا محوِ رقص ہونا ہی ہے، یہاں جو بندگی کے راز کو کو پا گئے وہ رقص کے لفظی حد و مطلب یا جسمانی حد سے نکل گئے، وہ اس کی حقیقت کو پا گئے، انکی روح اللہ کے گرد سوتے جاگتے نیند میں خواب میں ہر ہر پل، محوِ طواف ہے۔
ہر ہر زمانے میں اللہ نے کسی کو چنا ہے جو استعارات میں تشبیہات میں الفاظ میں عمل میں اسلام کی محبت کی حقیقت بتائے، اللہ نے نبی کریم ﷺ بشرِ کامل، اپنے آخری رسولﷺ کو چنا کہ وہ اسلام سے روشناس کروائیں، اللہ نے ان کے ذریعے ہم پر اسلام مکمل کیا،حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاکیفِ خرد وعشق، کہ بوقتِ وصال محبوبﷺ کی سخت آزمائش میں بھی وہ اپنی کامل، اپنی سچی برحق محبت کے محور سے بندھے رہے۔

(جاری ہے)

اور کلمہ ء حق و محبت لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ﷺ کا محبت بھرا حق ادا کیا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کے محبت بھرے کیف کی کیا مثل کہ وہ سجدے میں روح کے طواف میں اللہ سے جا ملے، حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا کیف کہ سجدے میں تیر نکالے جاتے، یہ ہے محبت، روح کا کیف جس سے عام لوگ بے بہرہ تھے، ایک وقت آیا تاریکی چھانے لگی توحضرت شمس و رومی رحمة اللہ علیہم کو بھی اللہ نے منتخب کیا وہ نیک اور خالص بندے بھی بمطابق ظرف محبت کے اصل کیف کو پا جانے والے اللہ کے منتخب بندے تھے، انکا مذہب اسلام یعنی محبت تھا، یہ دنیا جو کہ خیر و شر کا مجموعہ ہے جہاں خیر شر کی اور شر خیر کی آزمائش ہے، یہ دنیا جنت نہیں کہ یہاں بس خیر ہو یہ دنیا دوزخ نہیں کہ یہاں بس شر ہو، یہاں ہم عام سے بندے اپنے اپنے اعمال اور نیتوں کے سبب اپنی اپنی دوزخ اپنی اپنی جنت ساتھ لیئے گھومتے ہیں اور بلا شبہ ایک بیج آخرت کے لیئے بھی بو رہے ہیں، سو یہ دونوں جنہوں نے شر سے نفرت کی بجائے اس کو خیر کی پہچان کا پردہ سمجھا، وہ دنیا جو باہر اچھے برے میں پھنسی ہوئی تھی اسکی نگاہ خود اپنے آپ پر مبذول کروائی، انہوں نے ایک رقص متعارف کروایا، آج جس رقص کی ظاہری بحث میں سب الجھ گئے وہ بالکل ویسی ہی الجھن میں الجھ گئے، جس میں سب بس خیر و شر میں الجھ گئے، محبت کو نہ پا سکے نیت سے دور ہو گئے۔
انہوں نے اللہ کو کعبہ میں محدود سمجھ لیا، عبادت کو سجدوں میں اور روزوں میں..!
”جسم پردہ ہے.. حقیقت روح ہے،
رقص پردہ ہے.. حقیقت ھُو ہے!“
رقص کے 'کیف' میں محبوب کا احساس ہے، کس طرح کوئی سب سے بے نیاز ہو کر اپنی لو اللہ سے لگاتا ہے، اپنی حقیقت اپنے اللہ کو پاتا ہے، غور کیجیے تو نماز.. مومن کی معراج ، آنکھوں کی ٹھنڈک ایک کیف اللہ سے ملاقات کی کیفیت ہے، یہ کیف صرف انکو عطا ہوتا ہے جو اللہ سے واقعی محبت رکھتے ہیں، پھر ایسے میں روح باکیف ہو جاتی ہے، صرف 5 وقت کے سجدوں میں نہیں، نیت ہر وقت اللہ کی رہتی ہے، قیام ہر لحظہ اللہ کے لیئے ہوتا ہے، دل پل پل اللہ کی رضا کے سامنے سربسجود رہتا ہے، اور یہ ہے وہ کیفِ رقص جسے انہوں نے ایک رقص کی صورت لوگوں کے سامنے پیش کیا کہ کسی طرح لوگ اس کیف کو پا سکیں ، کہ جب وہ ہو تو میں نہیں ہوتا، پھر بس وہ ہوتا ہے، تو معاملہ بحث کا نہیں بات نیت کے اخلاص کو پانے کی ہے، مقصد رقص کو جسٹی فائی کرنا نہیں، بات مقصد کو اجاگر کرنے کی ہے، یہاں سب محوِ رقص ہیں اپنی اپنی خواہشوں اپنی اپنی انا کے گرد محوِ رقص، ایسے بھی لوگ ہیں جو بظاہر کعبہ کے گرد محوِ طواف ہوں مگر دھیان حضوری کہیں اور ہو، ہم ہی ایسے بھی ہیں کہ نماز میں بظاہر اللہ کے سامنے ہوں مگر دل کہیں اور ہو، سوچ کہیں اور ہو، ایسے بھی لوگ ہیں جو کہنے کو تو کسی کمین گاہ میں ہوں مگر انکے ہر دھیان میں اللہ ہو، تو جج کرنے کے لیئے اللہ ہے، ہم لوگ پتہ نہیں کیوں اللہ بننے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، اللہ ہماری نمازوں کو اپنے لیئے خالص کرے، ہمیں ہر ہر پل روح کا کیف عطا فرمائے، ہمارے دلوں کو اپنی یاد سے منور کر دے، اللھم آمین!
اور محبت اس نور کا وہ نور ہے جو وہ جسے چاہے عطا فرمائے، اس دنیا میں یہاں جسکو دیکھو روتا پھرتا ہے..کہ اسے محبت ہو گئی ہے، حیرت ہے محبت نہ ہوئی، مصیبت ہو گئی، مصیبت نہ ہوئی،وحشت ہو گئی! ارے محبت..ہممم محبت..محبت تو بہت خوبصورت ہے.. بہت خوبصورت.. جیسے صبح کی نرم گھاس پر پڑی معصوم سی.. پلکیں جھپکتی شبنم، سورج کی آغوش سے نکلتی انگڑائیاں لیتی کرنیں، چڑیوں کی چہچہاہٹ سے بھرپور ایک سحر انگیز سی صبح، کہیں اوس میں لپٹی ٹھنڈی سی روح چھو جانے والی ہوا…کہیں دور محوِ طواف پرندوں کا ایک عجب پر سکون سماں، کہیں بادلوں کا دلکش نقش بنانا محبت ہے، تو کہیں خاموشی میں اک عجب سوز لیئے انتظار محبت ہے، محبت دل میں ہو تو زمان و مکان میں جھلکتی ہے، دل میں رنج ہو تو زمان و مکان رنجیدہ ہو جاتے ہیں،محبت موسم نہیں ہے، انسان کی میں کی بے بسی اس کو موسموں کے تغیر میں مبتلا کر دیتی ہے، اور نادان محبت کو بھی موسم سمجھنے لگتا ہے، اپنے اپنے ظرف کی بات ہوتی ہے، جسکا جتنا ظرف ہوتا ہے اتنی دیر محبت اسکے پاس رہتی ہے، کسی کی روح میں اپنا ادراک دے دیتی ہے تو کسی کا اپنا آپ ایسے عیاں کر جاتی ہے کہ وہ حیران رہ جاتا ہے۔
محبت سچ ہے، سچ میں رہتی ہے، اور سب محبت کے ارادے سے ہے، ایک پل آتا ہے جب محبت حقیقت میں ڈھل جاتی ہے، تو ادراک ہو جاتا ہے کہ محبت.. محبت موسموں سے ماورا ہے، محبت تو موسم کی ماہیت بدل دینے کی طاقت رکھتی ہے، جہاں جون کی چلچلاہٹ میں لبوں پر مسکان آ جاتی ہے تو کہیں یہ چنچل دسمبر کی یخ بستگی میں دھند کو گلے لگانے کو بے تاب ہوئے ہوتی ہے..کہیں یہ آگ ٹھنڈی کر دیتی ہے، تو کہیں یہ اپنے بندے کی مدد کے لیئے دریا کا سینہ چیر دیتی ہے، کہیں یہ صلیب سے زندہ محفوظ اٹھا لیتی ہے، تو کہیں پنگھوڑے میں ہی معصومیت کی گواہی دلواتی ہے، کہیں تیغ تلے تحفہ بھیج کر سرخرو کروا دیتی ہے، تو کہیں معصوم راتوں رات آسمانوں کی سیر کروا کر ملاقات کا شرف بخش دیتی ہے، موسم بدلنے کے لیئے ہیں محبت کو بقا حاصل ہے، کیونکہ محبوب.. ہاں محبوب سے موسم ہیں موسموں میں محبوب کی پہچان ہے مگر موسموں سے محبوب نہیں!
اور محبت.. محبت میں بس ایک موسم ہوتا ہے بہار کا موسم..
”کوئی موسم ہو تو تیری یاد کو ،
ہم بہار کیئے رکھتے ہیں!“
بندگی محبت ہے، خاکی بساط سے پرے بندہ بندگی کے احساس سے شرابور تب ہوتا ہے جب ایک قادرِ مطلق کے حضور عاجزی کی روح اسکے دل و جان میں پھونک دی جائے، جس کے دل پر اللہ نے کرم کرنا ہوتا ہے اسے محبت کی پیاس دے دیتا ہے، وہ یہاں وہاں ہر جا تلاشتا ہے آنکھیں کسی نادیدہ نقطے پر ٹکیں کبھی کہیں ہوتی ہیں کبھی کہیں ، کبھی یہ آسمان کے پردے سے پار کسی کو تلاشتی ہیں تو کبھی زمین کی گہرائیوں سے پرے کسی پرکھ میں ہوتی ہیں، جانے کیسی تلاش ہوتی ہے جو سرگرداں رکھتی ہے، ذہن کہنے کو تو حال میں ہوتا ہے مگر ذہن کی باگ کہیں اور ہوتی ہے، کبھی احساسات چلنے والی ہوا کو ایسے محسوس کرتے ہیں جیسے کوئی لمحہ بہ لمحہ زندگی اندر سموئے جاتا ہو، زندگی کا سامان کیئے کبھی بارش ایسی ہوتی ہے جیسے اپنے اندر جانے اور کتنی زندگیوں کی دھڑکنوں کی جھنکار لیئے آئے ہو، کبھی ہوا بادل لیئے آئے تو ایسا لگتا ہے جیسے کسی بہت اپنے نے مسکرانے کا سامان کر ڈالا ہو، جیسے کسی اپنے نے محبت سے نامہ بر بھیج ڈالا ہو ، سحر زدہ سے بادل جیسے عجب نقش بناتے احساس جگاتے زندگی کی فنا و بقا کی حقیقت سموئے رب کا تحفہ لیئے آتے ہیں، سب احساس کا قصہ ہے اور احساس اسکو عطا ہے جس کو اللہ نے احساسِ شکر عطا کیا ہے، شکر میں نعمتوں کا اثبات ہے کفر میں نفی و خود فریبی۔
زمانے کی تلخیوں سے پرے ایک مہربان کی چاہ.. جیسے زندگی، زندگی کو ایک نئی جہت دئیے جاتی ہو، یہ چاہ کہیں آہوں سے ہو گزرتی ہے رفتہ رفتہ اتنی آہوں کے نچوڑ کی یہ چاہ کسی ایسی واہ میں ضم ہوتی ہے کہ تب 'میں' کی نہ آہ رہتی ہے نہ چاہ.. بس اس مہربان کی محبت بھرے حیرت کے جلووں کے طلسم کدوں میں سب سپرد ہو جاتا ہے مشکلیں راحت لگتی ہے اور موت پردہء وصل۔
 
محبت دل سے متعلق ہے، کتنے نادان ہے ناں ہم لوگ.. اللہ کے گھر جا کر اس مقدس در کے کھلنے کی آرزو، اسکو چھونے کی تمنا لیئے تو دیوانے ہوئے جاتے ہیں، مگر دل جو کعبہ کی حیثیت رکھتا ہے، اسکے دروازے کی طرف کتنے بے پرواہ رہتے ہیں، ہمارا طواف اس مقدس گھر کے اطراف جانے کتنی دعائیں لیئے ہوتا ہے، مگر اس دل کے اطراف،جہاں وہ اصلی مکیں ازل سے مکمل شان و شوکت سے براجمان ہے، ہم اس کوچہء جاناں کو لگا زنگ، اس مقفل در کو وا کرنے کی طرف احساس تک نہیں کرتے۔
کبھی سوچا ہے زنگ کیسے لگتا ہے؟ جب لوہے پر پانی لگے تو زنگ لگتا ہے، اور دل ایک عجب شے ہے کہ اگر اسکو آنسووٴں کا پانی نہ لگے تو اسکو زنگ لگ جاتا ہے، یہ لوہا ہو جاتا ہے، پھر جس پر اللہ نظرِ کرم کرنا چاہے اسے کسی بہانے سے اس زنگ سے نجات کے لیئے کسی سوزِ دل کی طرف لاتا ہے، اسکو پگھلی ہوئی سی کیفیت عطاکرتا ہے کہ اس دل کو بلک کر اللہ واحد اللہ کی یاد کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اللہ جو اس دنیا کے سب سرابوں سے ہٹ کرہمارا ساتھی ہے، ہماری پیدائش زندگی موت آخرت سب سب کا ذمہ دار ہے اور ہمارے ساتھ ہمارا بہترین محرم ہے۔
 
سو جن کو اللہ پاکیزگی عطا کرنا چاہے انکو کسی بہانے سے پاکیزگی عطا کی جاتی ہے، کچھ لوگوں کو آبِ زمزم پاک کرتا ہے، کچھ لوگوں کو ان کے آنسو پاک کرتے ہیں، اور جن لوگوں کے آنسووٴں کو اللہ آبِ زمزم کی طہارت جیسی پاکیزگی عطا کرتے ہیں انکی روح کو وہ روشنی نصیب ہوتی ہے کہ اس سے نہ صرف وہ خود بلکہ اطراف بھی جگمگا اٹھتے ہیں الحمدللہ رب العالمین۔
کائناتِ محبت میں ہزار رنگ ہیں ہر رنگ کے ہزار رنگ ہیں ، ایک رنگ دوسرے کو چھپاتا تو کبھی ایک رنگ دوسرے کو عیاں کرتا جھلکتا ہے، ہر بات کے پیچھے ایک راز، ہر پردے کے پیچھے ایک آزمائش ہے، سب اس ایک کی تلاش میں سرگرداں ہیں جسکی جستجو ازل سے ہمارے اندر رکھ دی گئی ہے، ہمارے وصل کو خواہاں وہ ایک لمحہ جو ہمارے اندر ہماری ہی حقیقت کو عیاں کر دے ہمیں اس سکون کی تلاش کبھی سلگتے جھلستے سورج کی تمازت میں من کے صحرا میں بھٹکاتی ہے تو کبھی چاندنی راتوں میں اس چاند کو اپنے راز دینے تک لے آتی ہے، راستہ کوئی صحیح یا غلط نہیں ہوتا مگر ہاں ہماری ہی اصل تک لے جاتا ہے ہمیں ہماری حقیقت سے آشنا کروا جاتا ہے۔
لیکن ایک حقیقت یہ ہے کہ باطل کے سہارے آپ کبھی حق تک نہیں پہنچ سکتے، حق کا راستہ محبت کا راستہ ہے اور محبت کا راستہ خود سپردگی اور قربانی کے دروں ہے۔
”محبت معجزہ ہے“
”برستے ابر کا مردہ زمیں سے لگن کی مانند،
چمکتے چاند کا سیاہ رات سے ملن کی مانند،
ستاروں کے جھرمٹ کا کہکشاں کے چلن کی مانند،
ٹھٹھرتے کہرے میں میٹھے سورج کی اگن کی مانند،
”محبت عطا ہے“
”آنسووٴں سے بھری آنکھوں میں مسکان کی مانند،
ہمارے رب کے حسیں معجزہء کن فکان کی مانند،
سراپاء عجز سربسجود کسی گیان کی مانند،
مرگِ مفاجات میں زندہ کسی گمان کی مانند،
”محبت قناعت ہے !“
”حاصل، لاحاصل کی تشنگی میں صبر کی مانند،
سراب، سیرابی میں پھیلے جابجا ابر کی مانند،
من و تو کے مابین مٹ گئے ہر جبر کی مانند،
نقطہء عشق میں پوشیدہ زیر زبر کی مانند ،
”محبت حصار ہے“
”کسی مضطر کے محرم و مرہم روا حال کی مانند،
حوادثِ زمانہ میں دل کے خوبصورت خیال کی مانند،
سردیوں میں محبوب کی اوڑھائی شال کی مانند،
عرش تک پہنچتی دعا سی کسی ڈھال کی مانند،
”محبت تم ہو “
”مجھ میں سمائے کسی ان کہے قرار کی مانند،
خاموش دھڑکنوں میں کبھی فشار کی مانند،
کبھی دل ناداں کی بے قراریء برقرار کی مانند،
نگاہِ مرگ زدہ میں زندگی کے انتظار کی مانند،
” محبت رسولﷺہیں “
”اطاعت میں جاوداں دوام کی مانند،
محبت میں بسے اک حسیں پیغام کی مانند،
صبر و سیرت میں مہکتے کسی گلفام کی مانند،
رحمت للعالمینﷺ وہ اسلام کی مانند،
”محبت سکون ہے “
”آنسووں میں ہنستی کسی آبشار کی مانند،
دھڑکنوں میں دھڑکتے کسی ساز کی مانند،
سانسوں میں مہکتے حسیں راز کی مانند،
عرش پر سجے دل میں بسے ناز کی مانند،

Chapters / Baab of Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham