Episode25 - Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham

قسط نمبر25 - اللہ محبت ہے - حیا ایشم

محبت آزماتی ہے!
خواہش .. آرائش ..آسائش ..آلائش ..آزمائش!
# کبھی آزمائش عطا ہوتی ہے۔کبھی عطا آزمائش ہوتی ہے۔دراصل ہر عطا آزمائش ہوتی ہے۔ہر آزمائش عطا ہوتی ہے!
#جب تک ہم عطا کو اللہ سے منسوب مانتے ہیں .. الحمدللہ عطا، عطا رہتی ہے جب ہم اسے جاگیر سمجھ لیتے ہیں اپنی 'میں' سے منسوب کر لیتے ہیں تب ہم اذیت خرید لیتے ہیں اور یہ عطا سزا بن جاتی ہے ۔
لیکن ایک بات یہ بھی ہے کہ سزا بھی عطا ہی ہوتی ہے اگر سزا کا احساس ہو جائے، غلطی تسلیم کر لی جائے تو، رجوع کر لیا جاے تو، سب عطا ہے الحمدللہ!
#آسائش نہ مانگو... آسائش آلائش بھی بن جاتی ہے ،کہ آسائش ہو یا آلائش دراصل آزمائش ہے،رضا مانگو رضا۔ رضا عطا ہے دراصل در پردہ آسائش ہے!
#عطا ہو یا سزا آزمائش کے پردے میں آتیں ہیں...عطا ہو یا سزا سب رب کی طرف سے ہے آزمائشیں در پردہ رحمتیں ہیں الحمدللہ۔

(جاری ہے)

ہرعطا آزمائش ہوتی ہے اور ہر آزمائش سچ میں امتحان ہوتی ہے۔ یہ ہمارا زاویہء نگاہ ہے کہ ہم اسکو ایک امتحان کی صورت دیکھتے ہیں یا سزا کی صورت۔ امتحان، ممتحن دیتا ہی اسلئے ہے کہ وہ ہمارے درجے بڑھائے۔اپنے قریب لائے، ہر امتحان میں سب سے کامیاب مدد اللہ کے فضل سے ہمارا ایمان ہوتی ہے یہ ایمان کہ ہم تنہا نہیں، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
# وقت کی سب سے بڑی آزمائش اس کی تغیر پذیری ہے جو اس تغیر پذیری کو مسقل جان لیں یہ ان سمجھنے والوں کی آزمائش بڑھا دیتا ہے۔
اگر مشکل کا ایک وقت ہے تو ایک آسانی کا وقت بھی ہے۔ یہ اللہ کا کہنا ہے اور اللہ کی بات وہ مانتے ہیں، جو اللہ پر یقینِ کامل رکھتے ہیں۔ اللہ غیب کا علم رکھتا ہے۔ اللہ حکمت والا ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں تو اسکا عملی یقین اسکی آزمائشوں پر اسکی ان دیکھی حکمتوں پر یقین رکھنا ہے۔ جو ہم نہیں جانتے وہ، اللہ جانتا ہے، اس حقیقت پر یقین رکھنا ایمانِ کامل کا حصہ ہے۔
#اللہ پر توکّل کرنے والے کسی کو بد دعا نہیں دیتے. وہ یقین رکھتے ہیں کہ سب کچھ اللہ کے'کن' سے ہو رہا ہے. وہ آزمائشوں کا بھی دل و جاں سے شکریہ ادا کرتے ہیں.کہ یہ نہ ہوتیں تو تڑپ کیسے بڑھتی، آتش شوق کیسے بھڑکتی، ہجر کیسے سلگتا، شوق کا سفر کیسے چلتا، جاں کیسے نکلتی، حقیقت کی پیاس کیسے بڑھتی، اور... وصل کی لذّت کیسے ملتی؟
#محبت والے آزمائش پرشکایت نہیں کرتے...خاموش سی مسکراہٹ روح میں سجا کردل سے مسکراتے ہیں، لبّیک جاناں کہتے...محبت میں اور بھی محبت سے سر جھکاتے ہیں!
# جس شخص کے دل میں اللہ کا احساس پیدا ہو جائے، وہ شخص جیسے مر کر بھی زندہ رہتا ہے۔
کبھی کسی دعاوٴں کی صورت میں کبھی کسی کی یادوں میں!
# توقع کواللہ کے سپرد کر دو۔انسانوں سے توقع رکھ کے رشتہ رکھنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی درخت کا بیج فقط پھل کی آس میں بوئے، درخت پر صرف پھل کی توقع رکھو اور خزاں میں اس سے قبول نہ کرو، تو ایک ایسا تاجر درخت سے کب تک نبھاہ کر سکتا ہے؟ اور ایسے تاجر کو درخت کاٹتے ہوئے بھی تکلیف نہیں ہو گی۔
کیونکہ تاجر کی غرض تو فقط پھل ہے۔درخت خزاں میں بھی آپ کا ہے اور بہار میں بھی آپ کا۔ رشتے بھی ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ہم غرض وتوقع کی نگاہ سے دیکھیں گے تو وہ ہمیں خود غرض لگیں گے۔ (توقع کی دلدل ہمیں بہت جلد قطع رحمی کی طرف لے جاتی ہے) لیکن اگر خدا کی نگاہ سے دیکھیں گے تو محبت۔ اور محبت والے تو اللہ سے بھی توقع نہیں رکھتے وہ ہر حال میں اللہ سے راضی ہوتے ہیں، ان کا تو ہر حال انکے لیئے عطا ہوتا ہے، انہیں تو بس اللہ کافی ہوتا ہے!
 #جو اپنا بھلا نہیں چاہتا.. اسکا بھلا کوئی نہیں کر سکتا!
#خود غرض دنیا کے ساتھ گزارے کی ایک ہی صورت ہے... اور وہ ہے،اس کے ساتھ اللہ کے لیئے بے غرض ہو جاوٴ!
#جہاں خواہش کی ڈوری بندھتی ہے، وہاں آزمائش کی گرہ ضرور لگتی ہے، اس گرہ پر بے صبری میں جھنجھلاوٴ تو گرہ اور سخت ہو جاتی ہے۔
یہاں تک کہ کبھی کبھی ڈوری ہی ٹوٹ جاتی ہے، اللہ چاہے تو صبر و تحمل، استقامت اور صحیح حکمتِ عملی اس گرہ کے کھلنے میں آسانی کا سبب بن جاتے ہیں۔ الحمدللہ اکثر یہ کھل جانے والی گرہ اس ڈوری کو ایک نئی پاییداری عطا کر جاتی ہے!
#جتنا وقت ہم اس میں لگاتے ہیں کہ کسی پر الزام لگا کر اپنی ناکامی کو جسٹی فائی کریں اتنا وقت اگر ہم ذمہ داری لینے میں لگا لیں تو یقینااپنے لیئے آسانی کا سبب بن سکتے ہیں!
#رب سے بیوفائی کر کے نفسِ باطل سے وفا کرنا خود اپنے آپ سے بیوفائی نہیں تو اور کیا ہے؟
#کچھ نہیں سے کچھ ہونے والے وجود کی ساری حقیقت یہ ماننے میں پوشیدہ ہے کہ دراصل وہ اپنے رب کے سامنے کچھ نہیں، کچھ بھی نہیں۔
جس شخص پر اپنے اختیار کا سراب عیاں ہو جاے، وہی انسان اپنا آپ اللہ کو سونپ سکتا ہے۔ اور اختیار تو سارے کا سارا اللہ کا ہی ہے۔خودشناسی، بے بسی کی حدوں سے شروع ہوتی ہے، بے بسی سے گھبراتے نہیں، تنہائی اور بے بسی خدا کو پکار اٹھنے کے لیئے بہت خوبصورت لوازمات ہیں اور خدا شناسی کا سفر اس بے بسی کو اللہ کے سپرد کرنے سے، خود کو،اللہ کی ادائے کن فیکون جاننے سے شروع ہوتا ہے!
# اگر کسی کے لیئے آسانی نہیں کر سکتے تو کسی کے لیئے مشکل کا باعث بھی مت بنو!
#الحمدللہ انسان کی بیوفائی بہت بڑی عطا ہے یہ عطا نہ ہو تو رب کی وفا کیسے آشکار ہو؟
#کچھ لوگ یا واقعات ہماری زندگی میں واضح رحمت کی طرح آتے ہیں اور کچھ درپردہ رحمتوں کی طرح، الحمدللہ کائناتِ محبت، کائناتِ ربانی میں سب رحمت ہی تو ہے۔
#آزمائش تو جیسے ایک نقارہ بجاتے ہوئے آتی ہے کہ اپنے اپنے خدا چن لو۔ پھر ہم جسکو خدا جانتے ہیں، مانتے ہیں اسکی طرف مدد کو بھاگتے ہیں۔اور جو بھی اللہ کے سوا معبود چنتا ہے، وہ ساتھ ہی اپنے لیئے ظلم، اذیت، آگ، بھی چنتا ہے، اللہ کی ذات تو کسی پر ظلم نہیں کرتی، اللہ تو بے نیاز ہے، اسکا کوئی ہمسر نہیں!
#رکاوٹ بھی ادائے کن فیکون ہے، عطا ہے، آزمائش ہے۔
بہانے بنانے والے بہانے ڈھونڈ لیتے ہیں۔رکنے والے رک جاتے ہیں۔رستہ بدلنے والے رستہ بدل لیتے ہیں۔ اور آگے بڑھنے والوں کو رکاوٹ اور مہمیز کرتی ہے۔رکاوٹ بذاتِ خود کوئی حیثیت نہیں رکھتی، نگاہِ قلب و بصیرت کا کھیل ہے سارا!
#آزمائش اللہ کے بندوں کے لیئے درپردہ عطا ہے!آزمائش پاک کرتی ہے، آلائش دھوتی ہے درجہ بڑھاتی ہے، آر، یا،پار کر دیتی ہے، درجہ بڑھا دیتی ہے یا درجہ گھٹا دیتی ہے، آزمائش رجوع کا بہانہ دیتی ہے، آزمائش حقیقت کھول دیتی ہے، آزمائش میں آزمائش دینے والے ساتھ کی محبت اسکے مان کا احساس ہو تو اسکی حکمت کا سوال تک ختم ہو جاتا ہے۔
# جب آلائش زدہ ہوں اور آزمائش آئے اور الحمدللہ، اللہ خواہ کسی سزا کے بہانے ہی سہی اگر اللہ اس آلائش کو دور کرے تو یہ سزا بھی درپردہ عطا ہے۔
خواہش .. آرائش ..آسائش ..آلائش ..آزمائش!
اللہ پاک نے قرآن پاک میں بہت واضح فرما دیا کہ اللہ تمہیں ضرور آزمائے گا! سو آزمائش بھی اسکی نشانی ہے، آزمائش حقیقت کھول دیتی ہے، ماننے والے اور نہ ماننے والے میں تفریق کر دیتی ہے، نہ ماننے والے کے لیئے آزمائش دل کو اور اکڑا دیتی ہے۔
جھوٹی خدائی کی جانب مزید دھکیل دیتی ہے، اللہ کو ماننے والے کے لیئے آزمائش آلائش دھونے آتی ہے، دل گداز کرنے اور عطا درجہ بڑھانے۔ قرب ربی عطا کرنے آتی ہے۔ ہم پر جو آزمائش آتی ہے وہ ہمیں کچھ انتخاب دیتی ہے، فیصلہ ہماری سرشت یا انتخاب کا ہوتا ہے صبر کر لیں شکر کر لیں، بدلہ لے لیں یا روگ اور گلے شکوے پال لیں.ہمارے پیارے اللہ پاک تو ہمارے ہی درجے بڑھانے کو ہمیں آزماتے ہیں، اب اگر ہم پردے میں ہی اٹک جائیں تو نظر وہاں کیسے جائے؟ سب مصلحت سے ہو رہا ہے، سب بہانے ہیں. سب پردے ہیں، سب کرم ہے سب فضل ہے، سب عطا ہے۔
تعجب ہے اس ماننے والے پر جو محبت کی بات تو کرے مگرجب محبوب قرب کا سامان کرے تو واوایلے کرے۔ سوزِ دل ایک ایسی عطا ہے کہ یہ دل سے جھک جانے والوں کو ہی عطا ہوتا ہے، آزمائش کچھ دلوں کا سنگدل ہوناثابت کر دیتی ہے اور کچھ دلوں کا موم دل ہونا، کچھ سنگ دل تک پگھل کر پانی ہو جاتے ہیں، پانی اصل ہے۔۔ محبت بھی پانی سی ہوتی ہے، بہتی رہتی ہے زندگی دیتی رہتی ہے جہاں کہیں اپنے وقفے سے زیادہ رک جائے وہیں تعفن ہونے لگتا ہے۔
کچھ دل ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کے درد سے پھر کیف و ترحم کی آبشاریں پھوٹتی ہیں، جب درد دل سے گزرتا ہے تبھی دل ہر آلائش سے پاک ہوتا ہے جس دل کو تدبر تفکر ترحم عطا ہو جاے وہ دل صرف اپنے درد سے بے نیاز کر دیا جاتا ہے، پھر ایک جہاں کا درد اس کا درد ہو جاتا ہے۔ اس زندگی سے بڑی آزمائش کیا؟جہاں خوشی بھی آزمائش ہے غم بھی زندگی بھی آزمائش ہے موت بھی۔
سکون فقط اسکے ساتھ میں ہے جو آزمائش دینے والا ہے، اللہ پاک ہماری مدد فرمائیں اللہ پاک ہم سب پر رحم فرما دیں اللھم آمین۔ اللہ، مجاز کے ذریعے خواہش پیدا کرواتا ہے، انا کے ذریعے 'میں' کھڑی کرواتا ہے، آزمائش کے ذریعے پرکھتا ہے، انسان اپنی جلد بازی، ناشکرے پن، بے صبری کی بناء پر اپنے نفس پر ظلم کرتا ہے، رضا کے احساس سے جھکنا سکھاتا ہے، جبکہ وفا کے ذریعے اللہ راضی برضا رہنا سکھاتا ہے، اورجب اللہ نے اپنی محبت اپنی ضرورت کا احساس دلانا ہو تو مجاز کو دور کروا کر خلاء پیدا کر دیتا ہے۔
ارض وسما میں جو کچھ ہے وہ محوِذکر ہے۔ تو سب سے بڑھ کر تو یہ خلاء ہے جو عام انسانی نگاہ سے محو مگر محوِ ذکر ہے۔ جو جتنا دنیا کی طلب و کشش سے اللہ کے لیئے خالی ہو یا خالی کر دیا جاے، اور جو جتنا ان پر غور و فکر کی نگاہ کی عطا لیئے ہے وہ الحمدللہ، اللہ کے لیئے اتنا محوِ ذکر ہے۔ اگر الحمدللہ خلاء اپنا احساس کروا دے تو انسان مزید خلاء میں معلق نہیں رہتا، بلکہ اپنا آپ اسکو سپرد کر دیتا ہے جو اس خلاء کو زمین و آسمان میں تھامے ہوے ہے الحمدللہ رب العالمین۔
”جہاں خواہشِ بقا بھی ہے حجاب،
میں اُس عالمِ فنا میں ہوں!“
مجھے لگتا ہے اللہ پاک سے انسانوں کو چیزوں کو یا خواہشات کے پورا ہونے کو نہیں مانگتے کیونکہ ایسے تو نادانی میں ہم اپنے لئے آزمائشیں مانگتے ہیں اور ویسے بھی انسان، اشیا، خواہش، وہ تو ہر حال میں اللہ پاک کی ہی ہوتیں ہیں ناں، اللہ تک پلٹنے کے لیئے۔دراصل اللہ سے اپنی چیزیں مانگتے ہیں۔
اللہ پاک سے ہر حال میں، (مزید) خیر و عافیت اسکا قرب، اس کی رضا مانگتے ہیں عجز و انکساری، توکل، تقویٰ، شکر، اخلاص، صبر، محبت، امید، ایمان غور و فکر، اور اسکی حمد کرنے کی توفیق مانگتے ہیں کیونکہ یہی تو ہیں ہمارے لئے دو جہاں میں اثاثہء حیات الحمدللہ، اللہ پاک ہم سب کو ہماری '' یہ چیزیں'' عطا فرمائیں اللھمّ آمین۔ہاں وہ کہتا ہے "تم چاہ بھی نہیں سکتے اگر اللہ نہ چاہے!" (القرآن )
ہاں ایک طرف وہ کہتا ہے ایک تیری چاہت ہے اک میری چاہت ہے۔
۔۔
ہاں وہ کہتا ہے" ا گر تو نے مخالفت کی اُس کی جو میری چاہت ہے تو میں تھکا دوں گا تجھے اس میں جو تیری چاہت ہے اور پھر ہو گا وہی جو میری چاہت ہے" !(حدیثِ قدسی)
پھر یہ کیا تضاد ہے؟ جب وہ کہتا ہے صرف اسی کی چاہت ہے! پھر کیسے ہم اس کی چاہت کے برخلاف کوئی خواہش کر بیٹھتے ہیں؟ دراصل ہم اس خواہش کے حصول کے سراب کے عوض کبھی وہ راہ اختیار کر بیٹھتے ہیں جو راہ اس تک نہیں جاتی، بلکہ اس سے جدا کر جاتی ہے!اور بس یہیں جب ہم راہ سے گمراہ ہوئے جاتے ہیں، یہیں وہ بے پرواہ ہماری پرواہ کا راز لیئے ہم پر اپنی خیر کسی ٹھوکر کے ذریعے منکشف کرتا ہے، یہ وہ چھوٹی ٹھوکر درپردہ عطاہوتی ہے جو کسی بڑی کھائی میں گرنے سے بچا لیتی ہے وہ تھکن ہوتی ہے جو بالآخر اللہ کی آغوش میں ہماری راحت کا سبب بنتی ہے۔
نفس تمہاری خواہش اکسائے گا، شیطان تمہیں خواہش کے پردے میں الجھائے گا، ورغلائے گا، تم اپنی خواہش یا تو اللہ کر لو! یا سیدھے سیدھے اللہ کی رضا کی محبت بھری چادر اوڑھ لو،یااپنی خواہش اللہ کو سونپ دو، الحمدللہ رب العالمین!انسان خود پر ظلم کرتا ہے، اللہ بار بار محبت سے اسے اس کی خیر کے بہانے دیتا ہے اور انسان کا نفس ہر بات کو عطا یا در پردہ عطا کی بجائے ظلم سمجھ کر تکلیف و اذیت سمجھ کر دیکھتا ہے، حالانکہ یہ اسکی پاکیزگی کا بہانہ ہوتا ہے!اللہ کہتا ہے وہ کسی کو اس کی سکت سے زیادہ نہیں آزماتا، انسان کا نفس انا کے جال اُس کو اُس کی سکت کی حقیقتِ آشنائی سے محروم کر دیتے ہیں!

Chapters / Baab of Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham