Episode26 - Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham

قسط نمبر26 - اللہ محبت ہے - حیا ایشم

ارے ناداں! #انسان کی اصل سکت تو اس کا اللہ ہے#یہ تو نفس ہے جو بے بسی سے گزرتا ہے! تو جب انسان اللہ کو فراموش کیئے اپنی خواہش کو خدا بنا لیتا ہے، تو اللہ کی اپنے بندے کے لیئے محبت کو یہ کیسے برداشت ہو سکتا ہے کہ اس کا بندہ اپنی فلاح کا ایسے دشمن ہوا ہی جائے۔ بس یہیں سے ہماری آنکھیں کھلنے کا لمحہ آن اترتا ہے۔خواہش تو محبت میں ضم کرتی ہے کہ یہ اللہ کی خود سپردگی میں سانس لیتی ہے۔
مگر جب ہم محبت سے جدا خواہش کو انا کو سونپ دیتے ہیں پھر انا جھوٹی خدائی کے جال میں ہمیں اللہ سے دور دور، ہمیں ہماری فلاح سے اور دُور کیئے جاتی ہے۔پھر اللہ ہمیں بتاتا ہے کہ کیسے تمہاری چاہت تمہاری ہی تکلیف، تمہاری ہی تھکن کا سبب بن گئی، پھر اللہ دکھاتا ہے وہ کتنی محبت سے ہمیشہ سے تمہار،ا تمہاری چاہت کا منتظر ہے!! 
”دنیا مانگے تجھ سے اپنی حاجت،
 آ، میری حاجت ہو جا۔

(جاری ہے)

۔ تْو!“
خواہش کے پھل کا لالچ جنت سے نکلوا دیتا ہے، اور پھر دنیا کے مصائب و آزمائشوں کی بھٹی سے گزارا جاتا ہے، وہ تپش سہنی پڑتی ہے جس سے انسان پر خود اسکی 'میں' آشکار ہو جاتی ہے، کندن بننے والے توبہ کے عمل سے گزرتے ہیں اور خود احتسابی پل پل ذات کا حصہ بن جاتی ہے، اور راکھ ہونے والے ، خود فریبی ہوس، الزام و جواز تراشی کو وطیرہ بنائے رکھتے ہیں۔
محبت سب کی منتظر ہے مگر بے بسی کے پردوں میں توبہ کے ذریعے پلٹ آنے والے 2خود کو پا جاتے ہیں خدا کو پا جاتے ہیں، اور 'میں' کے غلام نفس و انا کے باطل معبود کی پرستش میں دونوں دنیا میں خود خواہش کے عوض جلد یا بدیر آگ و اذیت خریدتے ہیں!
اللہ پاک نے فرمایا میں تمہیں بھوک سے آزماؤں گا۔کائناتِ محبت میں ہر شے آزمائش ہے، بھوک صرف کھانے کی نہیں ہوتی، بھوک نفس کی ہوتی ہے، خواہش کی بھوک خواہش کی ترساہٹ آزمائش ہوتی ہے، کبھی جاہ، مال، رزق، شہرت، عزت، محبت، علم، فیض، نام،کرامت، توجہ، تقدس، تقرب، کبھی کچھ کبھی کچھ سب خواہشیں ہیں، کچھ لوگ بالکل ویسے ہی تقدس نہ ملنے پر کرتے ہیں جیسے کہ کچھ لوگ رزق کی بھوک میں کرتے ہیں، کچھ لوگ مال کھو جانے یا نہ ملنے پر بالکل ویسے ہی رنج و ملال و غصہ کرتے ہیں جیسے کچھ لوگ نام نہ ملنے پر کرتے ہیں ، سو سب پردے ہیں سب خواہشیں ہیں، سب خواہشیں آزمائشیں ہیں، رضا کے پردے کو آزمانے والے پردے! 
اللہ پاک نے انبیا کرام علیہ الصلواة والسلام کو مبعوث فرمایا کہ وہ اللہ کی مخلوق کو اللہ سے ملائیں، خواہ ان پر کچھ بھی ہو گزرے، وہ اپنے اللہ پر توکل کریں اور اپنی ذمہ داری سے پل بھی بھی غفلت نہ برتیں، اپنے پیغام سے اپنے عمل سے اپنی دعا سے اپنے قول فعل سے، حق کو حق باطل کو باطل کر کے دکھائیں، انہیں ظلمت کے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی جانب لے کر آئیں، انسان اللہ کا نائب ہے ہر انسان وہ روشنی ہے جو دنیا کی اس ظلمت میں کسی نہ کسی طرح اپنے ہونے کا حق ادا کر رہا ہے، فرعون نہ ہوتا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہونے کا حق کیسے ادا ہوتا، شام نہ ہوتی تو صبح کے اجالے کا احساس کیسے ہوتا، ہمارا مقصد کاٹنا پھینکنا نہیں، تفریق کرنا نہیں سب کو اللہ کی محبت میں ضم کرنا ہے، اگر کبھی اللہ پر نگاہ جائے تو پتہ چلے وہ تو سب کو نواز رہا ہے، بے تحاشا نواز رہا ہے، ان کو بھی جو اسکا شریک ٹھہراتے ہیں، اللہ کسی سے غافل نہیں اب اللہ ہمیں آزما رہا ہے ہمیں ہماری ہی خیر سے آشنا کرنے کو، آزمائش سے کر ہمیں ہماری ہی ظلمت کے اندھیروں سے نکلوانے کے بہانے دے کر ہمیں روشنی میں آ جانے اور لے آنے کی وجہیں عطا کر رہا ہے الحمدللہ!اللہ پاک ہم سب کے لیئے آسانیاں فرما دیں اور ہمیں ایک دوسرے کے لیئے آسانی کرے کی توفیق عطا فرمادے اللھم آمین!
اللہ کے ماننے والوں کی نگاہ ہی اِن پردوں میں نصیحت، عبرت، وعید یا نوید پاتی ہے۔
صحیح معنوں میں جاننا تب منکشف ہوتا ہے جب آزمائشِ آلائش کو وسیلہء پاکیزگی اور آزمائشِ آسائش کو بھی ذریعہء حمد مانا اور جیا جاے الحمدللہ۔ اللہ پاک ہر حال میں ہمیں اپنی حمد ذکر و شکر کی توفیق دیں اللھم آمین۔ جب بھی اندر دل و ضمیر میں... 'خواہش' اللہ کی نافرمانی کا احساس دلائے اور عقل اس میں جواز تراشے خواہ وہ خواہش کیسی ہی جزا کا سبز باغ لیئے آئے کبھی اس کے دھوکے میں نہ آنا، یہ ایمان کی آزمائش ہے جب اللہ کسی کو اپنے لیئے چنتا ہے تو ایک طرف جیسے رحمان کا رحم ہوتا ہے جو احساس بن کر آتا ہے کہ سنبھل جاوٴ، دوسری طرف پوری طاقت سے شیطان کا شر ہوتا ہے جسکا مقصدتمہیں ہر اس احساس سے غافل کرنا ہے جو تمہیں ذرا بھی اللہ کی جانب خود پر رحم کی جانب مبذول کر رہا ہے۔
استغفرللہ شیطانی جال کچھ لوگوں سے یہ تک کہلوا دیتے ہیں کہ کیا ساری آزمائشیں انہی کے لیئے ہیں؟ 
کیا محبوبِ خدا تعالٰی ہوتے ہوے ہمارے نبی کریم ﷺ اور انکی مقدس آل سے بڑھ کر کسی نے آزمائشیں دیکھیں؟ مگر کیا ایک پل کو بھی انکایقین اللہ سے ٹوٹا؟ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺکے مابین محبت کا وہ خوبصورت رشتہ جسکی گواہ یہ کائنات، خود قرآن پاک ہے،جب نبی کریمﷺوحی کے سلسلے میں وقفے سے پریشان ہوئے تو کیسے اللہ پاک نے خود اپنے محبوب ﷺکو سورةالضحیٰ میں کتنی محبت سے تسلی دی۔
محبت کبھی وساوس میں گھر بھی جاے تو فقط ایک سچی تسلی سے یقین کے آنسوٴوں میں قوسِ قزح سی بن کر ابھرتی ہے۔ غارِ ثور میں نبی کریمﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعاٰلی عنہ کو جب دشمن کے قدموں کی چاپ بے حد قریب آ گئی توآپ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی جانب دیکھا اور کہا۔ '' ملول نہ ہو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔'' اور اسکے بعد آپﷺ نے فرمایا '' کیا خیال ہے تمہارا ان دو کے بارے میں جن کا تیسرا خدا ہو"۔
جیسے محبت کی ماہیت یکطرفہ نہیں ہوتی اسی طرح اللہ کی جانب سے عطاکردہ آزمائشوں میں ہم تنہا نہیں ہوتے اللہ پل پل ہمارے ساتھ ہوتا ہے۔ اگر قرآن کو محبت کے پیغام کو مخفی رکھنا ہوتا تو ہم تک نہ پہنچایا جاتا۔ اللہ کو اپنی مخلوق سے اور نبی کریم ﷺ کو اللہ کے عالمین سے بے بہا محبت ہے۔ اللہ کو شوق نہیں ہے ہمیں آزمانے کا، بہت بڑی حکمت پوشیدہ پوتی ہے اسکی ہر آزمائش کے پیچھے، اور ہر حکمت میں محبت مخفی ہے۔
اور اللہ انہی آزمائشوں کے ذریعے ہم پر ہماری حقیقت آشکار کرتا ہے۔ قرآن ہمارے لیئے بھی اسی طرح سے تسلی و محبت کا پیغام ہے جس طرح سے نبی کریم ﷺکے لئیے تھا فرق فقط اتنا ہے کہ کیا ہمیں بھی اللہ سے اتنی ہی محبت ہے جتنی محبت کا اللہ پاک حق رکھتے ہیں؟
اللہ نے جب واضح فرما دیا کہ وہ کسی کو اسکی سکت سے زیادہ نہیں آزماتا۔ تو پھر آزمائشوں سے کیسا گھبرانا ؟ فرمایا گیا ہے کہ اللہ کسی پر ظلم نہیں کرتا، بلا شبہ، اللہ ظلم نہیں کرتا! یہ ہم ہی ہوتے ہیں ہماری انا، باطل نفس و توقعات،بے جا خواہشات، جن پر ہم شیطان کو قابض ہونے دیتے ہیں۔
اللہ کی طرف سے آنے والی ہر آزمائش میں ایک خزانہ چھپا ہوتا ہے اسکے قرب، دو جہاں کی نعمتیں مخفی ہوتی ہیں بشرطیکہ ہم اللہ سے ہی رجوع کریں۔ درحقیقت لا شعوری طور پر ہم نے آزمائش کے ساتھ ایک لفظ منسلک کر رکھا ہے جسکا نام ہے مشکل یا مصیبت۔ قرآن پاک میں اللہ پاک نے بھی یہی لفظ استعمال کیئے ہیں کہ ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے اور مصیبت میں صبر کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔
اللہ امتحان میں ہمارا یقین، توکل اور ہمارا ادب دیکھتا ہے۔لیکن ہم اپنے نفسِ باطل میں گرفتار مشکل اور مصیبت پر رک جاتے ہیں مگر اسکے آگے آسانی اور صبر کی حقیقتوں پر ناآشنا رہتے ہیں۔ جتنا ہم ایمان اور قرآن سے ناآشنا ہیں اتنا ہی ہم اس تسلی سے اور اس کی خوشخبری سے ناآشنا ہیں اور یہی ہمارے ایمان کا امتحان ہے۔ یہیں سے ایک اللہ پر یقین رکھنے والے مسلمان اور وسوسوں اور غیر یقینی میں گھرے انسان کا فرق واضح ہوتا ہے۔
ہم جس خواہش کی بنا پر آج اللہ کی رحمت سے ناامید یا جس آزمائش پر گلے شکووں میں گھرے ہیں یہ دیکھ نہیں پاتے کہ جس نے پید ا کیا، تخلیق کیا، سنوارا بنایا، جس نے خود خواہش ہمارے دل میں ڈالی، آج وہ ہمیں مشکل میں تنہا ہمیں ہمارے حال ہر کیسے چھوڑ سکتا ہے؟ جس نے اس امتحان میں ڈالا بس نکالے گابھی وہی! ہاں بس اگر سرخروئی چاہتے ہو تو وہ کرو جو اللہ اور اللہ کے رسولﷺ نے کہا اس سے بچو جس سے اللہ اور اللہ کے رسولﷺ نے بچنے کو کہا۔
اگر کچھ ایسا ہو رہا ہے جو سمجھ سے بالاتر ہے تو اپنی سمجھ کو اللہ کے سپرد کر دینا چاہیے اور اللہ سے اس واحد لاشریک لہ کی ذات پر اور یقین اور مزید محبت و توکل مانگنا چاہیے۔ کیا اس دنیا میں وہ لوگ نہیں جو نظر سے نابینا ہیں۔ مگر کیا وہ اپنی اس آزمائش میں سورج کو جھٹلاتے رنگوں کو کوستے ملتے ہیں؟ نہیں !! ان کو یقین ہے کہ بے شک جو وہ نہیں دیکھ پاتے اگر ارد گرد کے لوگ کہہ رہے ہیں تو چاند سورج رنگ بادل پھول سب موجود ہیں۔
اسی طرح ایک یقین رکھنے والا مشکل اور مصیبت کے وقت یہ یقین رکھتا ہے کہ اس مشکل کے بعد وہ آسانی ہے جو فی الحال اسکو نظر نہیں آرہی مگر اگر اسکے اللہ نے کہا ہے کہ مشکل کے بعد آسانی ہے تو آسانی ہے! مصیبت میں صبر کرنا ہے تو صبر کرنا ہے!... بس...!! اب شیطان جیسے بھی وسوسے دلائے جیسے بھی امید توڑے جب یقین اللہ سے بندھا ہے تو شیطان کو اتنی جرآت نہیں دینی کہ وہ آپکا یقین جو آپکی سب سے بڑی دولت ہے وہ آپ سے چھین کر لے جائے۔
جانے کیوں ہم چوروں سے اپنے پیسے زیور گاڑیوں بینک بیلینس کی اتنی حفاظت کرتے ہیں کاش ہم اللہ پر اس شدت سے اپنے یقین کی حفاظت کرنے لگیں جس پر شیطان کی نطرِ بد پل پل لگی ہے۔ اللہ پاک ہمیں اپنی محبت بھری چادرمیں ڈھانپ لیں اور ایک پل کو بھی ہمیں ہمارے نفسِ باطل شیطانی انا کے جال کے حوالے نہ کرے اور اللہ پل پل ہم سب سے راضی ہو جائے اور ہم سب کے لیئے دین دنیا موت آخرت میں پل پل بہت آسانیاں فرماے اللھم آمین! 
اللہ پاک نے مایا کا سراب بھی اپنی پہچان کے لیئے بنایا جیسا کہ اللہ کی مرضی کے بنا توکچھ نہیں ہوتا، شیطان کو بھی اللہ پاک نے بنایا۔
تو اسکا اوریجن اس خواہش کی بت پرستی سے ہوا،جو ابلیس نے اپنے وجود میں کی، یعنی کہ اس نے اللہ کی، اسکی رضا اسکے حکم کی پرستش سے جد،ا اپنی میں کی پرستش کی۔ تکبر حقارت، غرور انا میں جلتا بھڑکتا آگ کا شعلہ، اللہ کے کن فیکون کے برعکس فوراً، فوراً عجلت میں سلگتا شعلہ۔ جب اس کو حکم ملاکہ آدم علیہ السلام یعنی اللہ کی رضا کو سجدہ کرو، تو اس نے انکار کر دیا،شیطان اللہ کی رضا کا پردہ نہیں سمجھ پایا،اس کا سبب اس کا اپنے وجود کے پردے میں آ جانا تھا۔
بس یہیں سے مایا کا جال شروع ہوا، اس نے خرد کی نگاہ میں انتقاماً،اور عشق کی نگاہ میں رضائے یار میں چیلنج کر دیا اب سب کو مایا میں الجھاوٴں گا، سیدھی راہ میں بیٹھوں گا،راہ سے گمراہ کروں گا،انہیں انکی اصل سے جدا کروں گا،مایا کے جال میں سب بکھیر دینے کا عزم لیئے وہ اپنی ڈیوٹی پر مامور ہو گیا،اللہ نے کہا ہاں مگر تیرا بس نہیں چلے گا میرے خاص بندوں پر… یہ خاص بندے رجوع کرنے والے ہیں!پلٹ آنے والے! ہوتے ہوتے یہ مایا کا جال حضرت آدم علیہ السلام حضرت اماں حوا علیہ السلام تک آیا،ورغلانے کا عزم لیئے انہیں اسی مایا کے جال میں پھنسائے اللہ سے ہٹ کر غیر خدا یعنی "میں" کی خواہش … نافرمانی تک لے آیا،اب یہ سب اللہ پاک کا خاص کرم ہے کہ اللہ پاک نے اس سب میں اپنے خاص بندے آشکار کرنے تھے، سو، اللہ پاک نے اپنے پہلے بندے، پہلی بندی کو اس خاص ہونے کا اعزاز بخشا، مایا کے جال میں آ جاتے ہی انہیں احساس عطا ہوا وہ کیا کر بیٹھے ہیں، اور پھر اللہ پاک نے انہیں رجوع کرنے کی توفیق بخشی الحمدللہ، واللہ اعلم!
اللہ پاک نے بے شک سچ کہا تھا: ہاں مگر تیرا بس نہیں چلے گا میرے خاص بندوں پر… یہ خاص بندے رجوع کرنے والے ہیں!پلٹ آنے والے!اور اب اس کے سراب زدہ ناکام بس (طاقت)سے لے کر بندے پر (اللہ پاک کی)عطائے بے بسی اُسے رجوع کرنے میں مدد کرتی ہے،یوں جھوٹی بیساکھیاں چھوڑ کر بندہ اللہ کے سامنے سچ میں گڑگڑا اٹھتا ہے اور مدد مانگتا ہے، ورنہ شیطان تو اُس کو جھوٹا خدا بنائے رکھنے کی دیوٹی پر مامور ہے، یا کہہ لیجیے چھانٹنے کی، پاک اور ناپاک کو الگ کرنے کی اعلیٰ ڈیوٹی یہیں سے ہو کر گزرتی ہے! 
زندگی موت تک سراسر آزمائش ہے، اور اس زندگی میں ہر آزمائش 2 انتخاب لیئے آتی ہے تن جاوٴ یا جھک جاوٴ۔
جو رب کے سامنے جھک گیا وہ آزمائش کے سامنے تن گیا سرخرو ہوا۔جو رب کے سامنے تن کھڑا ہوا یا رب سے منہ موڑا وہ آزمائش کے سامنے جھک گیا۔جو رب کے سامنے جھک جاتا ہے رب اسکے ساتھ ہو جاتا ہے جو رب سے ہی غافل رہے وہ آزمائش کو خودسِوا کر بیٹھتا ہے۔خواہش کی بندگی آسائش کو بھی آلائش زدہ کر دیتی ہے۔آزمائش میں رب کے لیئے بندگی، اسکی رضا کا احساس بندے کو پاک کر دیتا ہے۔
شیطان کا ایک بہت عجب جال ہوتا ہے کہ اللہ ہم سے ناراض ہو گیا ہے، کسی بھی بے جا خوف کے تحت وہ ہمیں اللہ سے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے اور وہ ہمارا اللہ جس نے بارہا کہا میرا رحم میرے غضب پر غالب ہے۔ جس نے قرآن کریم میں 113 سورتوں میں اپنی صفت رحمٰن و رحیم بتائی۔ اور فقط ایک سورة جس کا آغازبسم اللہ سے نہیں تو اسکا نام ہی سورة التوبہ ہے۔
جس میں معبودِ حقیقی کا مخفی پیغام ہے اے میرے عبد توبہ کر اور میں تجھے گلے لگانے کو تیار ہوں کہ وہ محبت سے بانہیں پھیلائے ہمارا منتظر ہوتا ہے۔
ویسے جس کے دل میں یہ خوف ہے کہ اللہ اس سے ناراض ہے اس سے اللہ بھلا کیسے ناراض ہوسکتا ہے۔ یہ تو بس تب تک ایک شیطانی جال ہے جب تک یہ خوف انسان کو اللہ سے دور رکھے اور جسے وہ سچے اشکِ ندامت بہا کر یہ کہہ کر توڑنا ہے کہ میرا گناہ میری رب کی رحمت و مغفرت سے بڑا نہیں... وہ معاف کرنے والا ہے وہ مجھے معاف کر دے... مجھے توفیق دے میں اسی کی رضا میں جیوں مروں اٹھوں... اسکے لیئے گناہ سے بچوں اسکے لیئے نیک اعمال کروں... اسے راضی کروں... اسکی محبت کی ٹھنڈک اس کے چین کا نور میرے دل میں ایسا ہو جیسے سخت جون جولائی کے مہینوں میں کسی کو ٹھنڈا میٹھا پانی پی کر قرار آجائے... جیسے کوئی جل رہا ہو اور ٹھنڈی بارش کی پھوار میں نہا جائے... جیسے کوئی تنہا صحرا میں بلکتا ہو تو وہ اسکے جھلستے سر پر کسی سایہ دارابرِ رحمت سا ہو... شاید ناراض ہونا چاہے تو وہ ان سے ہو جنہیں وہ اپنی ذات سے غافل کر دیتا ہے... جنہیں اس احساس سے بھی محروم کر دیتا ہے کہ کوئی ہے... جس نے انہیں پیدا کیا جسکے وہ بال بال مقروض ہیں... مگر سچ کہوں بے پرواہ وہ ان سے بھی نہیں ہوتا جو اس سے بے پرواہ ہو چلے... ان کے ساتھ کیا کیا نہیں کر سکتا مگر نبھاہ رہا ہے کیونکہ اس سے بڑھ کر باوفا کوئی نہیں کیونکہ اس سے بڑھ کر صبور کوئی نہیں وہ تو انکو بھی بے بہا دے رہا ہے جو اس کا شریک اسی کی مخلوق کو ٹھہراتے ہیں۔
اس پرتہمت لگاتے ہیں اسی کا کھا کر پہن کر اسی کی زمین پر چل کر اسی کے آسمان کی چادر تلے اسی پر جھوٹ باندھتے ہیں۔۔ وہ تو سب کو دیئے جا رہا ہے... بے بہا دیئے جا رہا ہے... !
تو الحمد للہ اللہ ہم سے ناراض نہیں۔ مگر ہاں اسکو راضی کرنااور رکھناایک الگ معاملہ ہے۔ شاید ایک مسلمان کو خوف ہوتا ہے اللہ ناراض نہ ہو جائے اور مومن کو یہ فکر رہتی ہے کہ اللہ کو راضی کیسے کرنا ہے، جو کہ بلاشبہ عطا ہے، کہ اللہ انکو ہی اپنے سے راضی ہونے کی لگن دیتا ہے جو اسے اچھے لگتے ہیں، اور بھلا کون ہے وہ تخلیق کار جسے اپنی ہی تخلیق بری لگے اور اللہ بے انتہا خوش ہوتا ہے بندے کے اپنے پاس پلٹ آنے کے لیئے۔
بندے سے اللہ سے بڑھ کر کوئی پیار نہیں کر سکتا اور بندہ کیسا بندہ ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر سب سے پیار کرتا ہے۔ جانے کیوں ہم نے اللہ کو ایک عذاب دینے والی ہستی ناراض رہنے والی ہستی سمجھ لیا ہے حالانکہ وہ تو ہم سے ہماری ماں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے۔ بلکہ اسی نے تو ہمیں ماں بھی دی الحمد للہ رب العالمین۔ 
ہاں بس اس کے پیار کا طریقہ الگ ہے۔
جیسے ایک چھوٹا بچہ جو سمجھ بوجھ نہیں رکھتا مگر اپنے تجسس اور شوق میں وہ نادانی میں آگ پکڑنے لگے تو ماں کیسے بھی کر کے اسکو آگ سے بچاتی ہے کبھی آگ اس سے دور کرتی ہے کبھی اسکو آگ سے دور کر دیتی ہے کبھی کسی اورکھلونے سے بہلا لیتی ہے۔۔ اگر بچہ پھر بھی بضد ہو تو اسے ڈانٹنے یا مارنے سے بھی گریز نہیں کرتی۔ کیوں؟کیونکہ وہ جانتی ہے کہ بچہ نادانی میں جو خواہش کر رہا ہے وہ خواہش اسے جلا دے گی۔
تو ہمارے پیارے سے اللہ پاک۔ جنہوں نے خود ہمیں اتنے پیار سے اپنے لیئے بنایا کیا وہ ہماری خواہش کو اہم نہیں جانیں گے؟ مگر ہم اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اپنے شوق کے ہاتھوں جس شے کے پیچھے بھاگ رہے ہوتے ہیں۔ 
دراصل اسکی ہمارے حق میں اور ہمارے حق میں اسکی اصل ماہیت سے ناآشنا ہوتے ہیں مگر ہمارا اللہ علیم و حکیم آشنا ہے... تو جیسے بچہ جب برا محسوس کرتا ہے کہ اسکی ماں نے اسکو آگ سے دور کر دیا۔
اسی طرح نادان انسان اللہ کی حکمت بھی نہیں سمجھ پاتا، اور شکوے شکایات کا ایک دفتر کھول دیتا ہے۔ اب بھلا کوئی بچہ آپ کے پاس منہ بسور کر آئے اور کہے میری ماما نے مجھے آگ پکڑنے پر ایک تھپڑ رسید فرمانے کی دھمکی ارشاد فرمائی ہے۔ تو آپ اس نادان کو کیسے دیکھیں گے۔ یقینا مسکراتے ہوئے ناں۔ اور پھر سمجھاتے ہوئے کہیں گے کہ بیٹا اس میں آپکی بہتری ہے۔
اب اللہ کے فیصلوں پر اگر کوئی آپ کو بہتری کا پہلو دکھائے تو وہ یقینا آپ سے مخلص ہے مگر اگر کوئی آپ کو آپکی ہی ماں کے خلاف اکسائے یا بھڑکائے تو ذرا اس کے اخلاص کے حوالے سے سوچ لیجیے۔ اب ذرا سوچ لیجئے کہ کبھی کبھی یہ بھڑکانے والی آواز آپ کے ہی اندر سے آ رہی ہوتی ہے کہ شر غالب آرہا ہوتا ہے، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اللہ کسی شے کو بس ذرا لے کر دیکھتا ہے کہ کیا اسکا بندہ اللہ کو واقعی اپنا معبودِ حقیقی جانتا ہے یا اپنی خواہش کو معبود مانتا ہے سو بس آزماتا ہے، سو اگر سرخروئی عطا ہو تو اللہ دو جہاں میں صلہ بڑھا کر عطا کرتا ہے مگر اللہ وہی کرتا ہے جس میں اسے اپنے بندے کی سب سے زیادہ خیر نظر آتی ہے!

Chapters / Baab of Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham