Episode27 - Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham

قسط نمبر27 - اللہ محبت ہے - حیا ایشم

ہمارے پیارے نبی کریمﷺنے ساری حیات غربت یتیمی آزمائشوں میں حمد، صبر وشکر سے گزاری اس میں اللہ نے انکی خیر جانی اور اللہ نے ہی اپنی محبت سے مسلسل انکا ساتھ دیا الحمد للہ۔ حضرت ایوب علیہ السلام نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ انتہائی تکلیف دہ بیماری میں گزارا اللہ نے اس میں بھی انکی خیر جانی اور پھر راحت سے نوازا۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کی زبان میں لکنت بھی اللہ نے کسی بہانے سے خود رکھوا دی اور پھر ایک خوبصورت آیت کے بہانے سے خیر بھی رکھ دی۔
تکلیفوں میں بھی راحت چھپی ہے۔ بس ذرا صبر شکر اور یقینِ کامل ہو تو اللہ سب آسان کر دیتا ہے۔۔ کیا جب حضرت موسٰی علیہ السلام کی والدہ نے انہیں دریاے نیل میں بہایا توکیا اس میں خیر نہیں تھی؟جب حضرت ابرا ہیم علیہ السلام اماں ہاجرہ علیہ السلام کو ایک بچے کے ساتھ تنہا اللہ کے حکم پر صحرائے بیابان میں چھوڑ آئے تو اس بظاہر تکلیف میں راحت نہیں تھی؟ آج الحمد للہ ساری دنیا جس آب، زمزم سے مستفیدہو رہی ہے تو اسکے لیئے بھی کسی کو آزمائش سے گزرنا پڑا۔

(جاری ہے)

وہ قربانی جسکا حکم سب مسلمانوں کو اللہ قرآن میں دیتا ہے جس کے خالص اللہ کے لیئے ہونے کے ذریعے، مسلمانوں کے درجے اللہ کے نزدیک بلند ہوتے ہیں۔ وہ قربانی بھی سب جانتے ہیں کہ کس طرح اللہ کے دو پیاروں کو آزمائش سے گزارا گیا۔۔ کیا اس آزمائش میں خیر نہیں تھی؟
زندگی کا یہ سفر بے حد مختصر ہے اور اس سفر کی اہمیت سے مفر ممکن نہیں۔ یہاں خواہشوں کی ڈوریاں بندھیں گی آزمائشوں کی گرہیں لگیں گی۔
مگر توکل اللہ اور سعیء مسلسل محبت کا سفر آسانیاں کرے گا۔ اور ہر ہر پل نئی پایئداریاں عطا کرے گا اور اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو جب کسی معاملے میں اللہ پر توکل کریں اور آزمائش آنے پر اس پر قائم رہیں۔ تو سب سے بڑا معاملہ تو ہماری زندگی ہی ہے۔ کیوں نہ جس نے یہ بنائی۔ اور جس کو مرنے کے بعد بھی واپس دینی ہے اسکو مرنے سے پہلے زندگی محبت سے سونپ دی جاے اور ہمارا اختیار سراب ہے خود قرآن میں اللہ نے کہا اور اختیار و سارے کا سارا اللہ کا ہے۔
مگر ساتھ ہی فرمایا انسان کے لیئے وہی کچھ ہے جسکے لیئے وہ سعی کرے۔ تو اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہماری سعی اللہ کے لیئے ہو۔ پھر دیکھیے اللہ ہماری ہر سعی کیسے آسان اور کامیاب کرتا ہے ان شاء اللہ العزیز!کتنا آسان ہے ناں یہ کہنا..کہ یقین کیا!۔کیا ہوتا ہے یقین؟ ہمممم.. محبت کی اصل اساس! محبت کی اصل بنیاد یقین ہی تو ہے!منافق کو یقین نہیں ہوتا، تبھی آزمائش آتے ہی محبت سے کنارہ کشی کر لیتے ہیں، دراصل انکی نگاہ اس حد تک نہیں جا سکتی، جسے ہم آخرت کہتے ہیں، بلکہ کہنا چاہیے انکی نگاہ اللہ پر نہیں کھل پاتی، سو آخرت پر کیسے کھلے، یقین کی اصل آزمائش درونِ آزمائش ہوتی ہے، آزمائش حقیقت کھول دیتی ہے، آر پار کر دیتی ہے، اِدھر والوں کو ادھر، اْدھر والوں کو اْدھر کر دیتی ہے، چھوڑنے والے چھوڑنے کے بہانے ڈھونڈ لیتے ہیں، تھامنے والے تھامنے کے بہانے ڈھونڈ لیتے ہیں، آزمائش ضروری عطا ہوتی ہے تا کہ پاک کو اور پاک، اور ناپاک کو پاک سے الگ کر دیا جاے ۔
اللہ پاک قرآن میں بار بار کہتے ہیں کہ یقین کرنے والوں کے لیئے اللہ کا ساتھ ہے، جسے اللہ پر یقین ہو وہ اللہ کے لیئے اپنی انا، نفس خواہش، رنج، ملال، تکلیف خیال، ہجر وصال، عروج زوال، سب قربان کر دے گا۔ یہاں تک کہ زندگی موت تک اللہ کو سونپ دے گا، اور کیسی عجب بات ہے زندگی ہوتی بھی اللہ ہی کی ہے، مگر باطل انا کا سراب اسکو میں میں کی رٹ لگائے، اپنا بنائے پھرتی ہے، جاگیرداری کے ،جھوٹی خدائی کے زعم میں دین دنیا آخرت برباد کیئے پھرتی ہے۔
یہ ماننا ہے، یقین رکھنا ہے کہ اس کی آزمائشوں میں اس کی خیر ہے!اور ویسے بھی محبت آزماتی تو ہے مگر آزمائشوں میں تنہا نہیں چھوڑتی، محبت سے ساتھ نبھاتی ہے، اور اللہ محبت ہے!
”وہ اکثر مجھے خود سے بھی توڑ دیتا ہے،
پھر مسکراتا ہوا آتا ہے خود ہی جوڑ دیتا ہے،
پہلے میری آنکھوں میں عجب نمی سی بھرتا ہے،
پھر ان میں ہنستی سی قوس قزح چھوڑ دیتا ہے،
میں خوفزدہ ہوں تو مجھ میں یقین بھرتا ہے،
گر بدگماں ہوں تو پکڑ، جھنجھوڑ دیتا ہے،
کبھی عطا کرتا ہے عجب سکون کا عالم،
کبھی اک شور عجب چھوڑ دیتا ہے،
کبھی بت بنواتا ہے مجھ سے میری آزمائش کو،
پھر خود جلوہ گر ہو، روبرو اسے پھوڑ دیتا ہے،
اشک میرے وہ، بڑی محبت سے چنتا ہے،
میں تھک اگر جاؤں، اک نیا موڑ دیتا ہے،
جب تھاما ہے میرا ہاتھ تو بھلا فکر ہو کیسی،
بس اس بات پر وہ، ہمیشہ زور دیتا ہے،
کبھی اپنی چاہ میں مجھے بے حد تھکاتا ہے،
پھر مجھے اس کو پانے کی اک نئی دوڑ دیتا ہے ،
میں اسی کی تھی، بس اسی کی ہوں،
یہ مجھ سے جب بھی سنتا ہے امتحاں اور دیتا ہے“
دو چھوٹے بچوں کو ہوا میں اچھال دیا جاے، تو ایک جس کو یقین کی خوبصورت عطا، عطا ہو گی، وہ ہنستا ہوا اس خلا میں معلق بھی کھلکھلائے گا، جب کہ دوسرا جسکو اچھال دینے والے پر یقین نہیں، وہ گر جانے کے خوف میں مبتلا اس خلاء میں رونا شروع ہو جاے گا، یا ڈر جائیگا! جس کو یقین ہو گا کہ جس نے اچھالا تھامے گا بھی وہی، وہ اس خوف سے نکل آئے گا کہ میرا کیا ہو گا؟ تو ہم بس اس بچے سے ہی ہیں جو اس دنیا کی خلا میں معلق ہیں، اب اللہ پاک ہمیں آزما رہے ہیں، ہمارے خوف کی جگہ یقین وپختگی تبھی آئے گی جب ہم ان آزمائشوں میں اللہ پرکامل یقین کے احساس سے سرشار ہوں گے۔
جب بنایا اللہ نے ہے، جب اللہ کو سب سونپا ہے تو کیسی فکر!
آغاز میں یقین ایک ایسی صورت میں ہوتا ہے جسے ہم بہت خام تصور کر سکتے ہیں اسکی اصل پختگی آزمائشوں میں جھلکتی ہے، سچی محبت آزماتی ہے تنہا نہیں چھوڑتی، جیسے اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نارِ نمرود میں تنہا نہیں چھوڑا، حضرت ہاجرہ علیہ السلام کو اپنے پیاسے بچے کے لیئے معجزہ آب زمزم ملا، نبی کریم ﷺ کو پہلے مکہ سے ہجرت کروائی اور پھر مکمل عزت و احترام کے ساتھ وہاں تکریم و فتح عطا فرمائی۔
اب بات آتی ہے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی۔۔۔ کیسا عجب معجزاتی یقین اور آزمائش تھی، کیسے انکے خون سے اسلام کو جِلابخشی، تشنہ لب شہادت، جاں بلب نیزے تلے سجدہ، سر قلم اور کلمہ اور پھر دنیا میں عزت اور آخرت میں جوانانِ سردار کا اعزاز سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم!
دعاء شہادت کے پیچھے یقینِ آخرت یقینِ اللہ جھلکتا ہے، کوئی شہادت مانگتا ہی تب ہے جب اس پر دنیا کے دھوکے کی حقیقت کھل جائے، اسکا جز وقتی سراب واضح ہو جائے، اسکو یقین ہوتا ہے کہ شہادت کے دروں رب کی کائنات کو اسکی کتنی ضرورت ہے، رب کی رضا اسکی دید کی کونسی لذت ہے۔
ہمارے یقین کااصل حقدار اللہ ہے، اصل سچا یقین اسی پر کیا جاے یہ اسی کو سجتا ہے، وہ جو چاہے کرے، جیسے چاہے فیصلہ کرے، ہم اسکے تابع ہیں، اس سے بڑھ کر ہماری خیر کوئی نہیں جان سکتا، اس سے بڑھ کر ہمارے لیئے اچھا کوئی نہیں کر سکتا، یقین عطا ہے، یہ آزمائشوں میں نکھرتا ہے، جسکا جتنا زیادہ یقین اسکی اتنی بڑی آزمائش، اور جس کی جتنی بڑی آزمائش اسکا اتنا بڑا درجہ، جسکا جتنا بڑا درجہ اسکے لیئے اتنا قربِ الہٰی و نبی کریمﷺان شاء اللہ...!اللہ پاک ہمیں اپنی ذاتِ باری تعالٰی پر یقین و محبت کی توفیق عطا فرماے اللھم آمین یا ارحم الراحمین یا رب العالمین!
سچ کہوں توہماری زندگی میں شاید 5 فیصد آزمائشیں ہوتیں ہوں گی مگر ہماری منفی سوچیں ان آزمائشوں کو ایک مصیبت بنا کر ہمارے ذہن و زندگی پر سوار کر دیتیں ہیں۔
نتیجتاًہم اپنی ہی سوچوں کے سبب مایوسیوں میں گھر جاتے ہیں۔ اور یہ وہ ظلم ہوتا ہے جو ہم انجانے میں خود پر خود کرتے ہیں۔ مایوسی وہ اذیت ہے جو شیطان کی من پسند شے ہے جو وہ اللہ کے ہر بندے پر کسی بھی صورت میں مسلط کرنا چاہتا ہے۔ یہی تو وہ کیفیت ہے جو اسکو اللہ سے دور کر دیتی ہے. ایک مسلمان کا دل ہمیشہ اپنے دل کی اس کیفیت کو لے کر با خبر رہنا چاہتا ہے کہ کہیں سے بھی وہ مایوسیوں کی دلدل میں نہ گھر جائے۔
ہماری زندگی میں دو مقام آتے ہیں۔ایک صعوبتیں و مصائب ہم پر آن پڑتے ہیں دوسرا ہم مصائب کو خود اپنے اوپر طاری کرتے ہیں شعوری یا لاشعوری طور پر انہیں خود چنتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس پر صبر کا اجر ملے گا۔ دوسری والی سچویشن میں نعوذ باللہ ہم خود خدا ہونے کی کوششوں میں ہوتے ہیں یہ وہ مقام ہے جہاں شیطان ہمیں ہمارے اعمال خوشنما کر کے دکھاتا ہے اور ہم دوہری اذیت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔
آزمائش تو جیسے ایک نقارہ بجاتے ہوئے آتی ہے کہ اپنے اپنے خدا چن لو۔ پھر ہم جسکو خدا جانتے ہیں، مانتے ہیں اسکی طرف مدد کو بھاگتے ہیں۔ اور جو بھی اللہ کے سوا معبود چنتا ہے، وہ ساتھ ہی اپنے لیئے ظلم، اذیت، آگ، بھی چنتا ہے، اللہ کی ذات تو کسی پر ظلم نہیں کرتی، اللہ تو بے نیاز ہے، اس کاکوئی ہمسر نہیں۔ اسلام ہمیں اپنے اور دوسروں کے لئے آسانیوں کا سبق دیتا ہے۔
ہماری زندگی بلاشبہ امانت ہے جسکے لئے ہم جوابدہ ہیں۔ اللہ پاک ہم سب کا دل اللہ پر توکل سچے ایمان کی روشنی سے جگمگاتا رکھے اور ایک پل کو بھی ہمیں ہمارے ظالم نفس کے حوالے نہ کرے اللھم آمین!
”خالص محبت کی خواہش اللہ تک لے جاتی ہے،
انا کے قیدی شیطان کے پیروکار بن جاتے ہیں،
خواہش کی پرستش بت پرست بنا دیتی ہے“
 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :”اللہ تبارک و تعالیٰ فرما تے ہیں :میں تمام شرکاء میں سب سے زیادہ مستغنی ہوں۔
جس شخص نے کوئی عمل کیا اور اس میں میرے غیر کو شریک کیا تو میں اسے اس کے شرک کے حوا لے کر دیتا ہوں۔ “ (مسلم۔ ابن ماجہ) 
جو خواہش کو اللہ کے لیئے چھوڑتا ہے اللہ اسے کبھی نہیں چھوڑتا، بلکہ اسے وہاں سے اتنا عطا کرتا ہے جہاں سے اسکا گمان بھی نہیں تھا، اور جو خواہش کے لیئے اللہ کو چھوڑ دیتا ہے، وہ اپنے اوپر اسی خواہش کے ہاتھوں رسوائی وہاں سے مول لیتا ہے جہاں پر اسکا گمان بھی نہیں تھا۔
اللہ اپنی راہ میں سب مانگتا ہے سب لے لیتا ہے، جو اس راہ میں اپنی انا، خواہش، سب دے دیں تب اللہ اپنی رضا دیتا ہے، اور جفا والوں کو اللہ رسوائی دیتا ہے۔ کبھی اپنی نفسانی خواہش کے لیئے اللہ کو یا اللہ کے نام کو استعمال نہ کرنا، ایسا کرنا جلد یا بدیر دو جہاں میں آگ و اذیت خریدنے کے مترادف ہے کہ اللہ انکی خواری انکے نفس کے ہاتھوں ہی کرواتا ہے۔
شیطان کا جال بہت عجب ہوتا ہے وہ براہِ راست یہ کہہ کر نہیں اکسائے گا کہ چلو اللہ کی نافرمانی کرو، آوٴ میں تمہیں آگ میں لے کر چلتا ہوں، آوٴ میں تمہیں تمہاری فلاح سے دور کرواوٴں، وہ ہمیشہ جسٹی فائی کرواے گا، کوئی سمجھ میں آنے والا دفاع استعمال کرے گا، کبھی کسی کو الزام دے گا، کبھی کوئی بہانہ دے گا، کبھی کوئی جواز دے گا، ہر وہ کام کرنے کا جسے اللہ اور اللہ کے رسولﷺنے کرنے سے منع کیا یا اس سے روکے گا جو انہوں نے کرنے کو کہا۔
اور ہم شیطان کو اسکے لیئے مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے، کیونکہ یہ ہمارا ہی نفس ہے جو اسکی ان چالوں کے لیئے کمزور ثابت ہوتا ہے۔ اللہ آزمائشوں میں انسان کو آزماتا ہے، آزمائش انسان کی حقیقت اس پر عیاں کرتی ہے، اسے اسکے 'کیا ہونے' یا 'کچھ نہ ہونے' سے آگاہ کرواتی ہے، اللہ کے قرب کا بہانہ لیئے آئی آزمائش اگر نفس کی کمزوری کی وجہ سے شیطان کے ہاتھوں چڑھ جائے تو انسان کے اپنے نقصان کا بہانہ ہو جاتی ہے۔
حقیقت تو بس یہ ہے کہ کسی بھی آزمائش میں شیطان کے پیدا کردہ ہر جواز سے ہٹ کر اسلام میں مکمل داخل ہونے اور رہنے میں ہماری ہی فلاح ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو ہمارے نفس و انا، اور شیطان کی چالوں سے محفوظ اپنی محبت بھری پناہ میں رکھے اللھم آمین!
”تم ہر گز نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک تم (اللہ کی راہ میں) اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو، اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہوبیشک اللہ اُسے خوب جاننے والا ہے۔
“ (القرآن، آیت 92)
اللہ کی راہ میں خرچ کرنا صرف مالی معاملہ نہیں۔ اللہ کی راہ میں ہر وہ شے دینا جو تم اللہ کی خالص رضا کے لیئے کرو، وہ ایک طرح اپنی خواہش دے کر اللہ کی رضا لینا ہے۔بات تو یہی ہے کہ تم جسے چاہو گے اسے ہی راضی کرو گے۔ اور ہماری اصل فلاح اللہ کو راضی کرنے میں ہے کہ اس میں ہماری ہی خیر ہے۔اس کو راضی نہ کرو جو راضی ہونا ہی نہیں چاہتا، اور راضی ہو ہی نہیں سکتا (سرابِ دنیا، ہوسِ نفس)اس کو راضی کرو جو تم سے راضی ہونا اور تمہیں راضی کرنا چاہتا ہے (اللہ!)
بات تو بس اتنی سی ہے کہ جب ہم اپنی خیر سے آگاہ نہیں ہوتے، جب ہم سیدھے طریقے سے اللہ کے نہیں بنتے، تو اللہ پاک ہماری گرہ کسی خواہش سے بندھوا دیتے ہیں، پھر اسکے پردے میں ہماری انا پامال کی جاتی ہے، کہہ لیجیے الحمدللہ ہم پر درپردہ عطا کی جاتی ہے، اور پھر جب ہم اس انا کے میل و کچیل اور خواہش کی گرد کی تکلیف و آگاہی میں آتے ہیں تو اس عالم میں اللہ کے پاس بھاگتے ہیں، پھر ہمارے ہی آنسووٴں سے یہ ساری گرد، میل دھوئی جاتی ہے، ہم پاک وصاف ہو جاتے ہیں، اللہ سے روتے ہوئے دوڑ کر لپٹ جاتے ہیں، تو کسی ناراض بچے کی طرح ٹھن ٹھن کر کے اللہ کے پاس جانے کی بجائے زیادہ مزہ تو اسی میں ہے ناں کہ کیف و خود سپردگی جانثاری میں کھلکھلاتے ہوئے اللہ سے بھاگ کر لپٹ جایا جائے۔
کسی بھی خواہش کی نا رسائی پر اللہ سے خفا ہو کر شکوہ کرنے سے پہلے بس یہ ضرور سوچ لینا چاہیے کہ یہ خواہش بھی دل میں اللہ نے ہی ڈالی تھی، اور اللہ تو دے کر بھی آزماتا ہے لے کر بھی، اور ویسے اسکا تو نہ دیناا بھی دینا ہی ہے، سب عطا ہے۔ بیشک انسان بے صبرا، ناشکرا اور جلد باز ہے۔ اللہ پاک ایک پل کو بھی ہمیں ہمارے ظالم نفس کے حوالے نہ کرے، ہمارے حال پر اپنا محبت بھرا رحم فرمائے اور اپنی محبت بھری چادر میں ہمیں ڈھانپے رکھے، اللہ پاک اپنی ذاتِ رحیمی کے لیئے ہماری انا و خواہش کو قربان کرنے اپنی رضا میں راضی رہنے اور اپنے ساتھ پر خلوص وفا کی توفیق دیں۔
”اور تو کچھ بھی نہیں فقط اتنی سی خواہش ہے،
میری ہرخواہش تیری خواہش پر ختم ہو جائے!،
 اللھم آمین!“

Chapters / Baab of Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham