Episode29 - Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham

قسط نمبر29 - اللہ محبت ہے - حیا ایشم

انا .. فنا .. رضا .. بقاء !
اللہ پاک کی ایک صفت ہے جسے متکبر کہتے ہیں، یہ وہ صفت ہے جو اللہ کو اپنی مخلوق ، اپنے بندوں میں پسند نہیں، اسکے برعکس اللہ اپنے بندوں میں عاجزی پسند کرتا ہے، تکبر شیطان کا شیوہ تھا، اس کی ہٹ دھرمی کی پاداش میں اسے مردود قرار دیا گیا۔ جس پر ابلیس نے اللہ کو چیلنج کر دیا کہ اسے مہلت دی جائے کہ وہ تا قیامت اللہ کے بندوں کی سیدھی راہ میں بیٹھے گا انہیں گمراہ کرے گا، انکے خون میں لہو بن کر دوڑے گا، ان پردائیں بائیں سے،آگے پیچھے سے حملہ کرے گا ۔
اللہ نے اس کو مہلت دی، مگر ساتھ ہی کہہ دیا کہ اس کا بس اللہ کے خاص بندوں پر نہیں چلے گا، اور یہ خاص بندے وہ بندے ہیں جو اللہ سے رجوع کرنے والے ہیں، ہٹ دھرم نہیں، جو معافی مانگنے والے ہیں، جو انا والے نہیں،جو جھک جانے والے، عاجزی اختیار کرنے والے ہیں، اللہ پاک محبت ہیں، اور اللہ تک جانے میں خود کی خود تک رسائی میں ہماری سب سے بڑی آزمائش ہماری باطل انا، ہمارے نفس کے حجابات ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

”خاک کا پتلا بنا، محبت کا جسے خاکہ کیا،
ابتلا مگر پھر یہ رہی، وہ مغویء ہوس و انا رہا،
جس نے رجوع کیا وہ پا گیا، جو انا میں رہا وہ خفا رہا،
جو جفا میں تھا وہ تنا رہا، جو تنا رہا وہ فنا ہوا،
نہ میں رہا نہ تُو رہا، نہ یہ رہا نہ وہ رہا،
جو جھک گیا وہ ضم ہوا، جو ضم ہوا وہ وفا ہوا،
نبی ﷺ سے ملی وفا کو جِلا، انھوں نے کیا اصل میں نبھاہ،
جگر گوشوں نے کیا وفا کا حق ادا، شہادت ملی درونِ کربلا،
جو تھا کبھی، جو ہے ابھی، جو رہے گا وہ بس اللہ رہا،
جب اللہ ہے تو بس اللہ ہے ناں، کس بات کا خوف و غم بچا،
حق ہے یہی کہ بس اللہ ہی ہے، یہی حق کی ازل سے ہے صدا،
تو حق فقط ہے بس یہی لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ﷺ“
”انا … محبت !انا تعلق توڑنے کے بہانے ڈھونڈتی ہے اور محبت تعلق نبھانے کے۔
انا بھٹکنے کے بہانے دیتی ہے اور محبت راہ پر لانے کے۔انا تنہا کرواتی ہے اور پھر تنہا کر کے مارتی ہے! جبکہ محبت خلوت کو بھی جلوت بنانے کے ہنر سے آراستہ ہوتی ہے اور تھامے رکھتی ہے۔انا سزا دلواتی ہے۔محبت معاف کرتی ہے ۔انا چھینوا لیتی ہے۔ محبت بخش دیتی ہے۔انا کی عزت نفس نہیں ہوتی جبکہ محبت کی عزت نفس ہوتی ہے ۔انا ترس و ہمدردی گوارہ کرتی ہے! محبت انا تو پامال کرواتی ہے مگر یہ ترس اور ہمدردی کو بطور ہتھیار استعمال نہیں کرتی، یہ کسی فقیر کو بھی دلوائے تو اس پر ترس جان کر نہیں بلکہ اسکا حق جان کر مان و محبت سے اسکا حق ادا کرواتی ہے۔
محبت عرش کا، عرش والے کا جذبہ و عطا ہے…انا عرش والے تک نہ پہنچ پانے کی راہ میں مزاحمت ہے۔انا خوف میں رہتی ہے اور محبت یقین میں۔انا سائے کے سراب میں پیچھے دوڑاتی ہے جبکہ محبت بذاتِ خود سایہ دیتی ہے۔انا حصول کی ہوس میں رہتی ہے جبکہ محبت قناعت کے کیف میں رہتی ہے۔انا کی نظر اسباب پر ہوتی ہے اور محبت کی مسبب الاسباب پر۔انا خود غرض ہوتی ہے اور محبت خدا غرض۔
انا خودترسی کا شکار کرتی ہے اور محبت خدا ترسی کا احساس دیتی ہے۔انا گھر توڑتی ہے اور محبت گھر جوڑتی ہے۔انا بظاہر خوشنما ہوتی ہے درحقیقت کریہہ۔انا خود فریبی میں رکھتی ہے اور محبت حقیقت پسندی میں۔محبت کی حقیقت پاکیزگی ہے۔انا، مسلمان میں بھی ہو سکتی ہے۔محبت، بظاہر عیسائی، ہندو، کافر میں بھی ہو سکتی ہے ۔انا منافق، مشرک، کافر ہوتی ہے۔
محبت مسلمان مومن، محبت اسلام ہوتی ہے۔انا دکھاوا ہوتی ہے۔محبت حقیقت ہوتی ہے۔محبت محبت کو بچاتی ہے اور انا، انا کو رسوا کرواتی ہے۔انا بے صبر، جلد باز، ناشکری، بدگمان،اور کم ظرف ہوتی ہے۔محبت با وفا، صابر، شکرگزار، اور نیک گمان ہوتی ہے۔انا میں ایمان نہیں ہوتا محبت ایمان ہوتی ہے۔انا زخم دیتی ہے۔محبت مرہم رکھتی ہے۔انا فریب دیتی ہے ۔
محبت یقین بنتی ہے۔انا چھوڑ دیتی ہے۔ محبت ساتھ نبھاتی ہے۔انا خبط ہوتی ہے۔محبت ضبط ہوتی ہے۔انا خلاء ہوتی۔ محبت ربط ہوتی ہے۔انا عریاں کرتی ہے۔ محبت ڈھانپ لیتی ہے۔انا جبر ہوتی ہے۔محبت صبر ہوتی ہے۔انا وحشت ہوتی ہے۔محبت حلاوت ہوتی ہے۔انا ظالم ہوتی ہے۔محبت نور ہوتی ہے۔انا اذیت دیتی ہے۔محبت سکون دیتی ہے !انا ٹوہ میں رہتی ہے۔محبت کشف، محبت وجدان ہوتی ہے۔
انا احسان فراموش۔ محبت احسان کا حق ادا کرتی ہے۔انا حق چھیننے والی حق غصب کرنے والی ہے۔ محبت حق ادا کرنے والی۔انا ظالم۔محبت رحمان ہوتی ہے۔انا خائن۔ محبت امین ہوتی ہے۔انا باطل۔ محبت حق ہوتی ہے۔انا ’میں‘ ۔ محبت ’تم‘ ہے۔بظاہر،انا محبت تک جانے والی راہ میں رکاوٹ ہے۔چونکہ کائناتِ محبت میں سب عطا ہے کچھ واضح اور کچھ درپردہ ۔تو درپردہ دیکھا جائے تو انا محبت تک لے جانے والا،بے بسی عیاں ہو جانے کا وہ راستہ ہے کہ جو واقعی محبت ہی کی تلاش میں ہے وہ اناکی اذیت کو جان لے گا اور محبت کی پناہ میں خود کو سونپنے کے لیئے محبت کا در کھٹکھٹا اٹھے گا!انا شیطان ہے اور محبت اللہ!۔
انا خار ہے تو محبت وہ پھول ہے جو اس تک صرف اسکو پہنچنے دیتا ہے جو اس خار خار راستے کی اذیت سے بے نیاز اپنی نگاہ و دل و روح و جان فقط پھول کو منسوب کردے! محبت معصوم ہوتی ہے اور انا ظالم۔انا کھوکھلی ہوتی ہے اور محبت کامل۔محبت ڈھانپ لیتی ہے، انا کرتی ہے رسوا۔اناعاق کرتی ہے اور محبت شامل۔محبت آسانی ہوتی ہے اور انا بوجھ۔انا توڑ دیتی ہے، محبت کرتی ہے حامل۔
انا شیطان ہے، اور محبت اللہ۔انا بے بس ہے اور محبت عامل!
اللہ پاک ہم پر انا کی حقیقت عیاں کردیں اور محبت میں بہت محبت سے ضم کر لیں۔ دیکھا جائے تو پردے دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو عقل و دل پر پڑ جاتے ہیں۔اور ایک وہ جو عقل و دل پر نئی دنیا وا کر جاتے ہیں۔جو پردے 'پڑ' جائیں وہ بھٹکا دیتے ہیں، کہہ لیجیے آنکھیں ہوتے ہوئے بھی لوگ اندھے ہو جاتے ہیں۔
اور جو پردے 'عیاں' کر دیں، وہ پردے دل و روح کی بصیرت کا باعث بنتے ہیں الحمدللہ۔ اللہ پاک ہماری آنکھوں عقل و دل پر پڑے پردے ہٹائیں اور ہمیں اپنی معرفت عطا فرما دیں اللھمّ آمین .. کہ ُاس جاناں کونہ جانا، تو جاناں، کیا جانا؟
”جانے کیسی عطا ہے تیری محبت کی مسیحائی میں،
تلخیء زمانہ میں بھی مسکان روح سے جدا ہوتی نہیں،
کتنی پاکیزہ ہے تیری محبت کی نگاہ مجھ پر،
میری کوئی بھی خطا تیری نظرمیں خطا ہوتی نہیں،
تجھ سے مِل کر جاناکیسے ہوتی ہے دعا قبول جاناں،
اب کہتے ہیں، مایوسی اچھی ادا ہوتی نہیں،
کرتے ہیں محبوب کو جو قبول، بنا کسی شرط کے،
ہو جائے کچھ، محبت ان سے خفا ہوتی نہیں،
گہرا تعلق ہے مستقل مزاجی کا اہل محبت سے،
ہٹ جائیں جو پیچھے، محبت اُن کوعطا ہوتی نہیں،
کہاں ’میں ‘بچتی ہے محبت کی بقایائے جات میں؟،
آجائے جس وفا میں انا،وہ 'وفا' پھر 'وفا' ہوتی نہیں!“
اللہ سے وفا اللہ کے فیصلوں سے نبھاہ ہے، اور جو اس نبھاہ کے آڑے آ ئی انا کو خدا بنا کر انا کے سامنے سربسجود ہو جائے وہ اللہ کے فیصلے کے خلاف کھڑا ہو جاتا ہے، اور ایسے میں وہ خود انا کے دغا میں آ کر صرف اللہ سے ہی نہیں خود اپنے آپ سے بھی دغا کر جاتا ہے۔
محبت کے راستے میں انا سب سے بڑا حجاب ہوتی ہے یہ ہم پر مزید بہت سے پردے ڈال دیتی ہے۔ خدا تو دور یہ ہمیں خود، خود پر آشکار نہیں ہونے دیتی۔ بہت خوفزدہ ہوتی ہے انا باطل ہوتی ہے ہمیں اپنی خدا داد صلاحیتوں سے آشنا نہیں ہونے دیتی، پاوٴں ہوتے ہوئے، ہم میں چلنے کی صلاحیت ہوتے ہوئے، ہمیں جھوٹی بیساکھیاں پکڑا دیتی ہے۔ انا کو کوسنے سے فائدہ نہیں کہ اناکی تو ڈیوٹی ہی یہی ہے مگر ہماری نادانی یہ ہوتی ہے کہ ہم اس باطل کے جال میں آتے ہیں اور پاوٴں ہوتے ہوئے بھی (بظاہر آسان، مگر درحقیقت ظلم سے بھرپور) جھوٹی خدائی کی بیساکھیاں پکڑ لیتے ہیں۔
پردہ فقط یہ ہوتا ہے کہ ہمیں لگتا ہے ہم چل نہیں پائیں گے، جھوٹی خدائی کی یہ نادانی، خود فریبی، ناشکری، جھوٹ سے ہوتے ہوئے، گلے شکووں، الزام تراشی، امانت میں خیانت، ہوس، مطلب پرستی، احساسِ برتری، احساسِ کمتری، مایوسی، شک، بے یقینی، ناحق موازنہ، مقابلہ بازی، تشویش، خود ترسی، قطع رحمی، حسد، رنجش، بے جا توقعات، ناحق غصہ، جاگیرداری، تسلط پسندی، حاکمیت پسندی، ظلم، بددعاوٴں، بد اعتمادی، نشے، شراب، زنا، سود، خود کشی یا قتل تک لے جاتی ہے۔
 
اکثر اوقات لوگ نہیں خود ہماری سوچ ہمارے روئیے ہماری دل آزاری کا سبب بنتے ہیں، اور شیطان اور ہماری انا کے جال انہیں لوگوں سے منسوب کر کے ہمارے نفس کے حجاب میں ہمیں مخلوق سے بد گمان کر دیتے ہیں، اور ایسے میں ہمیں اپنے اعمال خوشنما لگتے ہیں، اور ہم زود رنج اور حساسیت میں گھرے خود کو صحیح سمجھتے حق بات سے دور ہو جاتے ہیں۔ اس تکلیف کو سمجھنا ضروری ہے کیونکہ خود سے اللہ سے مغالطہ و پردہ ہمیں معذوری اور اپاہج پن کی طرف تیزی سے لے کر جاتا ہے۔
ہمیں احساس تک نہیں ہوتا ہم کیسے خود پر اور دوسروں پر بوجھ بن جاتے ہیں، اپنے اور دوسروں کے لیئے اذیت کا باعث بن جاتے ہیں، ہمیں مسلہ تو نظر آتا ہے مگر تکلیف کی بات ہے کہ سبب کوئی اور نظر آتا ہے، اگر آپ مسلے میں ہیں تو مسلہ آپ کا ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ سارے ظلم کما لینے کے بعد بھی ظالم انا اپنے شکار کو ادراک نہیں ہونے دیتی کہ وہ اذیت میں کیوں ہے، وہ جل کیوں رہا ہے؟ خود فریبی کا عجب عالم ہوتا ہے کہ انا کو خدا بنا لیا جاتا ہے اور بھلا کیا دو خدا ہو سکتے ہیں؟ نادان انسان سمجھ نہیں پاتا وہ کیا غلط کر رہا ہے۔
عقل و قلب پر پڑ جانے والا پردہ اسکو اپنی فلاح سے اس کو خود دور کرواتا ہے۔ اللہ اپنا آپ نادانوں پر بھی بہت طرح آشکار کرتا ہے۔ مگر انسان ادراک ہی نہیں کر پاتا۔ کبھی خوشی دے کر کبھی غم دے کر، کبھی بہت موقعے دیتا ہے کہ اسے پہچانا جائے اپنا آپ اسے دے دیا جائے مگر جانے کیوں اپنا آپ اسے سونپنا تو دور ہم تو اپنے آپ کو بھی نہیں جان پاتے۔ الحمد للہ اسکو دیکھنے کے لیئے تو نگاہِ قلب کا بیدار ہونا ضروری ہے ناں .. !
”خود ہی سونپ دیتے ہو کسی کے ہاتھ میں دل کو،
پھر خود کیوں توڑ دیتے ہو، سمجھ یہ بات نہیں آتی،
الٰہ دل میں سجواتے ہو، پرستش بے جا کرواتے ہو،
پھر بت خود توڑ دیتے ہو، سمجھ یہ بات نہیں آتی،
دلکش خواب دکھاتے ہو، چاہت میں جلاتے ہو،
خواب سراب بناتے ہو، سمجھ یہ بات نہیں آتی،
 نخلستاں دکھاتے ہو، طلب میں ہر سُو بھٹکاتے ہو،
پھر سمندر صحرا کرواتے ہو، سمجھ یہ بات نہیں آتی،
دل کیوں ایسا بنایا ہے، نہاں ہیں خواہشیں اتنی،
آرزو کیوں جگاتے ہو، سمجھ یہ بات نہیں آتی،
کیسی تلاش میں ہوں گم، کیوں یہ ہے خلاء مجھ میں،
کیوں یہ دل اتنا خالی ہے، سمجھ یہ بات نہیں آتی،
یہاں سب غیر لگتے ہیں، لگتا کوئی بھی نہیں اپنا،
کہنے کو ہیں سبھی اپنے، سمجھ یہ بات نہیں آتی،
ملتا سکوں نہیں مجھ کو، کیسی ہے تشنگی مجھ میں،
یہ کیسا مجھ پر پردہ ہے، سمجھ یہ بات نہیں آتی،
تھک کر ان سوالوں سے، ہُوا ہر اشک جب بے کل،
کُھلا اک پردہ سا مجھ پر، ملا ایک عجب اشارہء کن،
دل سے اک صدا آئی، صدا میں اک ندا آئی،
تو نے کہہ دیا ناں سب؟ اب تو بات میری سن!!،
تیرے ہر اک قصے میں، مخفی ہے رضا میری،
میں تجھ سے ہرگز نہیں غافل، محبت کا سہارا سمجھ،
یہاں کچھ پانا نہ کھونا ہے، یہ دنیا ہے فقط اک کھیل،
تو ماورائے حصول ہو جا بس، قناعت کا اشارہ سمجھ،
سن! خواب برا نہیں ہوتا، تلاش جھوٹی نہیں ہوتی،
جو ہوتا ہے سب اچھا ہے، تُو اِسے پردہء عطا سمجھ،
ہاں طلب کا کھیل ہے سارا، درونِ طلب ہے نہاں طلب،
طلب میں ہوں .. میں مخفی، تُو اگر طلب .. میری سمجھ،
میری ہی یاد میں تجھ کو، ملے گا سکوں اے ناداں،
تو مجھ سے گر ہُوا غافل، اسے فقط مصیبت سمجھ،
ہاں منشاء تجھے میری لگتی ہے ظلم کی مانند،
مگر تو اگر سمجھے، اسے رحمت میری سمجھ!،
تیرے ان خوابوں میں، سرابوں میں، عذابوں میں،
پنہاں ہے پردہء شکرو صبر، تُو میری مصلحت تو سمجھ!،
میں نے تجھے خود بنایا ہے، ماں سے بڑھ کر چاہا ہے،
گر ہوں میں تجھ سے پردے میں، تو اِسے اپنا پردہ سمجھ!،
نزدِ رگِ جاں ہوں تیری، مجھ سے بڑھ کر کون ہے تیرا؟،
تو اپنا ہے میرا اپنا، تُو بھی مجھ کو .. اپنا سمجھ!“

Chapters / Baab of Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham