Episode32 - Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham

قسط نمبر32 - اللہ محبت ہے - حیا ایشم

اور جب تک ہم پر اُس ایک اپنے کا احساس عیاں نہیں ہوتا تب تک ہم اذیت میں رہتے ہیں،جس پل ہم اپنی الجھنوں، نادانیوں، اپنی مایوسیوں اور اذیت کا الزام کسی اور کو دیتے ہیں اس پل ہم اپنے خیر خواہ نہیں ہوتے، ہماری ہر غلطی میں ایک سبق چھپا ہوتا ہے، ہر خطا کسی عطا کا بہانہ لیئے آتی ہے، بشرطیکہ ہم ایک ہی غلطی بار بار نہ دوہرائیں، اللہ پاک نے جس پل حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا علیہ السلام کو انکی خطاکی ذمہ داری لینے کو کہا تبھی تو صحیح سے خطا کا راز کھلا۔
انسان کے اندر فطری طور پر دو رخ ہوتے ہیں، ایک خطا کے بعد سہی جانے والی اذیت پر الزام دوسرے کو دینا یا پھر الزام خود کو دینا، حالانکہ جن پر رب کی رضا کا راز عیاں ہوتا ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ خطا در پردہ عطا، کیا راز سموئے ہے، رب کیسے بندے پر اس پر اسکا راز آشکار کر کے اپنا آپ آشکار کرنا چاہتا ہے کیسے کیسے اسے رجوع کرنے کے بہانے دے رہا ہے! جس پل بندے پر اپنے نفس پر کیئے جانے والا ظلم آشکار ہوتا ہے اسی پل تو بندہ اس افسوس کی کیفیت سے گزرتا ہے، کہ کوئی تھا جو اسکی فلاح کا خواہاں رہا، اس رشتے کو سوچتا ہے جو اس کی بہتری چاہتا ہے، اور اس پل اسکو اپنی فلاح کا خیال آتا ہے۔

(جاری ہے)

اور پھر یہ خوبصورت احساس اسے رب کی طرف خود سپردگی کی طرف لے آتا ہے الحمدللہ۔
 پھر میں ان پر حملہ کروں گا ان کے آگے سے بھی اور پیچھے سے بھی اور بائیں جانب سے بھی اور دائیں جانب سے بھی آپ نہ پائیں گے ان میں سے اکثر لوگوں کو آپ کا احسان ماننے والا۔ (17-7القرآن)
اگر شیطان کے وار سے بچنا چاہتے ہو، اللہ کا احسان ماننے والو بنو، ناشکری انا کا پردہ ہے۔
شیطان ناشکری کروا کر کفر کی طرف لے آتا ہے، اور گمراہی کا راستہ آسان ہو جاتا ہے، اللہ نے فرمایا تم شکر کرو میں تمہیں اور دوں گا،زیادہ تر عورتوں کو جہنم میں اسلیئے دیکھا گیا کہ وہ اپنے شوہروں کی ناشکری کرتی تھیں استغفراللہ، اگر صرف شوہر کی ناشکری کرنے پر جہنم، تو رب کی ناشکری ؟ استغفراللہ! شوہر رب کا پردہ ہے، اس پردے میں شوہر کا اور سب سے بڑھ کر اللہ کا شکر لازم ہے، اللہ لے کر بھی آزماتا ہے اور دے کر بھی، اللہ ہر ہر پردے میں اپنی حقیقت میں ہم سب کو اپنے شکر کی توفیق دے اللھم آمین۔
شکر کرنے کے لیئے خود اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے، اللہ پاک نے بہت خوبصورت تفکر و تدبر کو دعوت دیتا ایک سوال قرآن میں کیا فبای الآ ء ِ ربکما تکذ بن؟ بے شک الحمدللہ رب العالمین کہ اللہ کی اتنی نعمتیں ہیں ہم پر کہ ہمارا شعور اس کا ادراک تک نہیں کر سکتا، ہم جب جب امانت کی جاگیر کے سراب میں آتے ہیں تب تب ہم خسارہ چنتے ہیں، ہمارے پاس سب سے پہلے ہمارا نفس امانت، عطا ہے اور ہر امانت آزمائش ہے۔
ہر امانت اللہ تک پلٹنے کے لیے ہے اور اللہ کے حضور جوابدہ ہے۔ کیا خوب ہو اگر ہم مرنے سے قبل اپنے نفس کو اللہ کے احکامات، اسکی رضا کے سپرد وتابع کر دیں۔ کبھی کبھی ہم اپنے حال میں صرف اسلیے مطمئن نہیں ہوتے کیونکہ ہمیں،''کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ کیوں نہیں ہوا یا پھر اب کیا ہوگا؟ اس نے کیا.. اس نے ایسا کیوں کیا؟ اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا''کے خودساختہ سوال چین نہیں لینے دیتے۔
یہ سوال شیطان کے ایسے جال ہیں جو کسی نہ کسی طرح ہمیں ہماری 'میں' میں الجھائے رکھتے ہیں جہاں ہم ناشکری، مایوسی، تکلیف، اذیت، غصے تشویش اور پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں۔ کبھی کبھی زندگی میں ایسے میں ہمیں خود سے کچھ سوال کرنے چاہیے۔کیا اس دنیا میں خود اپنی مرضی سے آئے تھے؟کیا اس دنیا سے جانے کا وقت متعین کروا کر لائے ہو؟کیا اپنی مرضی سے جاوٴ گے؟کیا جو پایا،وہ ’تمہارا‘ تھا؟کیا جو’کھویا۔
۔۔ وہ ‘تمہارا تھا؟کیا جو نہیں پا سکے وہ ’تمہارا‘ تھا؟یاجس کو پانے کی چاہ ہے اسے ساتھ لے جاوٴ گے؟تو …سنو!تمہارا 'صرف اللہ' ہے اور اسکو تم تب پا سکتے ہو جب اپنی 'میں' سے آزاد ہو کر تم اپنی تلاش میں نکلو۔اپنی تلاش میں جانے کیلئے جنگلوں کا رخ کرنا ضروری نہیں ۔۔تمہاری 'میں' تم میں ہے، اور تمہاری 'آزادی' بھی تم میں ہے۔ تمہاری 'وفا' بھی تم میں ہے اور تمہاری بیوفائی بھی تم میں ہے۔
اللہ محبت ہے اور محبت تک جانے میں پہلا پڑاوٴ پہلی آزمائش انا ہے۔ انا کے بہت جال ہوتے ہیں، یہ سب سے پہلے شاید اسی خود فریبی میں مبتلا کرواتی ہے کہ 'یہ' نہیں ہے، عقل شیطانی بھی ہوتی ہے عقل رحمانی بھی. انا عقل شیطانی استعمال کرتی ہے، کہہ لیجیے وہ پردہ جو دل، عقل و بصیرت پر پڑ گیا اور جو محبت سے دور لے گیا، وہ یہی ہے! انا عقل سے بہت سے جواز ترشواتی ہے، اپنا دفاع کرواتی ہے، جھٹلاتی ہے، ضد پر اڑتی ہے جھکنے نہیں دیتی. اپنا الزام دوسرے کے سر دیتی ہے، جہاں محبت ہوتی ہے وہاں انا نہیں ہوتی، بظاہر محبت کے روٹھ جانے پر یا زندگی کے چلے جانے پر سوال نہیں اٹھتا، صبر اور خود سپردگی رہتی ہے. رضا میں راضی برضا رہا جاتا ہے لیکن اگر اذیت گلے شکووں کا باب جاری ہے تو جان لیجیے، یہ انا ہی ہے! 
”میرے اللہ!،
مجھ سے میری ''میں'' فنا کر آ،مجھے مردہ کر دے،
جو خوشی تجھ سے دور کرے،بیشک اُسے افسردہ کر دے،
سرابِ نفس جو بھٹکائے ہے در بدر مجھ کو،
ہٹا حجاب، حقیقت اپنی مجھ میں زندہ کر دے،
یا اللہ ورغلا نہ دے کہیں فریبِ فتح ایمان میرا،
جھوٹی فتح اپنے کرم سے شکست خوردہ کر دے،
کسی طبیب سے ملے نہ شفا تیرے درد کی مجھے،
تو مرضِ عشق کو، اپنے سوا، اور بھی دریدہ کر دے،
تیرے ذکر تیری یاد سے نہ رہوں غا فل پل بھر،
اپنی محبت کا نور تُو مجھ میں درخشندہ کر دے،
تیرے پردہء راز ہوں مجھ پر یوں محبت سے عیاں،
جو میرے وجود کو مجھ سے بھی در پردہ کر دے،
حیا قربان تیری قربت و محبت میں لحظہ لحظہ،
کر معجزہ، اپنی محبت مجھ میں پائندہ کر دے،
بنا دے اپنا بیت المعمور، میرا بیت الحزن،
پھر اپنے ہجر میں اور بھی تابیدہ کر دے،
تابِ ضبط نہ رہ جائے جب مجھ میں، لِلّٰہ،
تو اپنا جلوہ دکھا، آ میری نظر تابندہ کردے“
قرآن پاک میں اللہ پاک فرماتے ہیں جسکا مفہوم یہ ہے کہ اور تم نے کہا مان لیا تو کیا آزمائے نہ جاوٴ گے؟ اور اللہ پاک زندگی محبت اولاد محبت، مال نفس، ہر شے سے آزماتا ہے. ہم پر ہماری حقیقت واضح کرنے کیلئے. ویسے انا، محبت میں آزمائش کے لئے آتی ہے، محبت نے دراصل خود انا کو پیدا کیا ہے، اپنی پہچان اور قدر کے لئے. انا بذات خود آزمائش ہے اس سے پرکھا جاتا ہے. سو، انا بذات خود بری نہیں ہوتی۔
بس اس کو اللہ کے کہے کے مطابق اللہ کے سامنے سرینڈر کرنا ہوتا ہے۔ یہ جو دل ہوتا ہے ناں یہ اللہ کی متاع ہوتا ہے، یہ نہ خود کسی پر اڑتا ہے نہ کسی سے ہٹتا ہے بس کن فیکون ہوتا ہے، پریشانی توکل کا متضاد ہے، جہاں ہمیں لگے کہ ہم نے ہی سب صحیح کرنا ہے، ساری الجھنیں ہم نے ہی سلجھانی ہیں، ایسے میں ہم نعوذ باللہ جھوٹے خدا بن جاتے ہیں، کہہ لیجیے جہاں شیطان اللہ سے غافل کروا کر ہماری نگاہ دنیا پر یا ہم پر مرکوز کر دے وہاں پریشانی کا آغاز ہوتا ہے، کیا ہم خود اس دنیا میں آئے؟؟نہیں ناں! تو جس نے پیدا کیا آپ کو چُنا وہ آپ کو پریشانیوں میں دیکھ کر آپ سے غافل کیسے رہ سکتا ہے؟ اسکی یہ مراد بھی نہیں کے مسائل ہم کھڑے کریں، ہم کہیں بس جی اللہ ہے ناں، آپ وہ کریں جو اللہ نے کہا اور اللہ تو وہ کر ہی رہا ہے جو اللہ نے کرنا ہے۔
 یہ اْس کی تم پر عطا تم سے رضا ہی تو ہے کہ وہ تمہیں اپنا خیال دے دے! جس کی نیت اور جس کے عمل کو اْس بے پرواہ کی ناراضگی کی پرواہ لاحق ہو جائے، اسے اْس مہربان کی رضا عطا ہو جاتی ہے الحمدللہ رب العالمین۔اگر اللہ کو، خود کو سونپنے کا احساس چاہیے تو اپنی بے بسی کی آگاہی کے لیئے تیار ہو جاو، کیونکہ ایک وقت میں دو خدا نہیں ہوتے وہ تم پراپنی رحمت و محبت لیئے تب ہی جلوہ گر اور منکشف ہو گا، جب تم اپنے "کچھ نہ ہونے" کے احساس کو محسوس تو کر لو گے مگر شاید اس اظہار کے لیئے گویائی کے بھی قابل نہیں ہو گے، یہ دل سے اس ذات تک وہ واردات ہو گی جس کا محرم فقط وہ ہو گا اور اظہار تمہارے صرف اس کے حضورکہیں تنہائی میں بلکتے بے بس آنسو ہوں گے، کہ تب صرف ایک ،وہ، ہو گا!
اپنے عشق کی عطا کر وہ تابانیاں جاناں
جو میرے قلب، نظر روح کو زندہ کر دے
اپنی تابندگی سے بنا مجھ کو وہ نور 
جو تیری کائنات کو پل میں درخشاں کر دے
دلِ بیاباں میں کھِلا اپنے وصل کا نخلستان
اپنی محبت سے اسے گلستاں کر دے 
مبتلا کر مجھے اور بھی اپنے عشق میں
کچھ ایسے میرے درد کا آ درماں کر دے
ایک تیری جستجو ہو میرے کوبکو یا رب 
میرے حوصلوں کو اور بھی شکیباں کر دے 
تیرے سوا میرا کوئی ارماں نہ رہے
تو اپنا ارمان میرا اول و آخر ارماں کر دے 
کوئی شکوہ نہ کر بیٹھے تیرے ہجر کا کبھی
آ میرے لبوں کو اور بھی لب بستہ کر دے
حیا تیری تیرے اک اشارہء کُن کی منتظر جاناں 
یہ تجھے جیسے بھائے تو اِسے ویسا کر دے!
 اللہ کو خود سپردگی کا احساس، اس ضرورت کا احساس آ جانا بھی اللہ کی عطا ہے۔
یہ اللہ کی عطا کے بنا ممکن نہیں۔ سو، خود کو اللہ کو سونپنا بھی اللہ کی عطا کے بنا ممکن نہیں، اسی لیئے تو ہمیں بار بار ہر شر سے اللہ کی پناہ میں آنے کی تلقین کی جاتی ہے۔اور ہماری باطل انا، ہمارے نفس کی چالیں ہمیں اس ضرورت کا ادراک نہیں ہونے دیتی بلکہ جھوٹے جواز بنا کرہمیں جھوٹے خدا بنانے اور بننے کی طرف لاتے ہیں۔ الحمدللہ درپردہ عطا کی صورت، انسان کی آرائش کی خواہش، خواہش کی آزمائش، کبھی آلائش کی تکلیف، بے بسی لاچارگی اسے سچے اللہ کی آغوش میں لے جانے کی طرف لانے کا سبب بنتی ہے اور ایسے میں انسان اللہ کی ہی مدد سے سارے حربوں سے شکست خودرہ، جب انا کی جھوٹی بیساکھیاں توڑ پھینکتا ہے اور بلکتا سسکتا اللہ کے سامنے سر بسجود ہو جاتا ہے، تب وہ محسوس کرتا ہے کہ جیسے کسی نے، کسی سب سے اپنے نے بہت محبت سے اس کو آغوشِ رحمت میں بھر لیا ہو۔
مسیحائی کا، سکون کا اپنی محبت کا مرہم رکھ دیا ہو۔ الحمدللہ رب العالمین۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنی ذاتِ رحیمی کے لیئے ہماری ہی خیر کے لیئے اپنا آپ اسے سپرد کرنے کی توفیق دیں، کہ ہم ہیں تو اسی کے، مگر ہمارے شعور کی اْس سے تغافل، بیگانگی، لا تعلقی، بار بار ہماری ہی تکلیف کا باعث بنتی ہے۔اس کو اپنا آپ سپرد کر دینے میں ہی ہماری خیر ہے،اللہ ہمیں ہماری خیر سے آشنا کر دے اللھم آمین!
ہر عطا آزمائش ہے اور ہر آزمائش عطا۔
آزمائشیں در پردہ رحمتیں ہیں۔ انا روکنے کے لئے آتی ہے، لیکن بفضلِ خدا ہم اس کے جال میں نہ آئیں تو اس سے درجہ بھی ہمارا ہی بڑھتا ہے۔ جیسے ہم پڑھائی کے دوران امتحان کو برا کہنے لگیں تو ہمارا کالج وغیرہ میں درجہ کیسے بڑھے؟ پروموشن کیسے ہو؟ بس کرنا وہ ہے جو ہمیں استاد نے کرنے کو کہا، پھر آگے اسکی رضا۔ ویسے ہم بہت عام انسان ہیں تو یکدم بدلتے حالات سے ہمارے موڈز میں اتار چڑھاوٴ تو آتا ہے مگر وہ کتنی دیر رہتا ہے ہم اس میں کیا کرتے ہیں یہ ہمارا ٹسٹ ہے، ہر لمحہ عطا سہی مگر آزمائش ہے، الحمد للہ۔
لیکن ہر وقت اگر پریشانی رہے تو بلاشبہ مسلے کی علامت ہے۔یہ ناشکری، اور توکل کی کمی کی شیطان کی پیدا کردہ واضح نشانی ہے اور نہ چاہتے ہوئے ہم ان میں مبتلا رہتے ہیں، ہم سب پریشانیاں نہیں چاہتے مگر کچھ لوگوں کو پریشانیوں میں رہنے سے بہت لگا ہوتا ہے، اس کے بنا انھیں اپنے ہونے کا احساس نہیں ہوتا، خلا کا احساس رہتا ہے، اللہ پاک نے فرمایا تم میرا شکر کرو میں تمہیں اور دوں گا، مگر ہماری نگاہ جو میسر نہیں بس اسی پر رہتی ہے اور ایسے میں ہم اسکی قدر نہیں کر پاتے جو ہمارے پاس نہیں اور جو جب وہ چلا جاتا ہے تو پھر اپنے حال کو اس ماضی کی یاد میں خراب کرتے ہیں۔
مزید یہ کہ ہماری مرضی! ہم چاہتے ہیں سب ہماری مرضی سے ہو۔ جیسا ہم چاہتے ہیں ویسا،سب ہمیں قبول کریں، سب ہم سے راضی رہیں، ہم لوگوں کی رضا کی فکر میں رب کی رضا فراموش کر جاتے ہیں استغفرللہ۔ پھر یہ خوف کہیں ایسا نہ ہو جائے ویسا نہ ہو جائے ، جو بھی ہو گا منظور خدا ہو گا! آپ بس وہ کرتے جائیں جو اللہ نے کہا، ہم نے خود کو خدا کو در حقیقت جانا نہیں، مانا نہیں یہی وجہ ہے کہ ہم پریشانیوں میں جلد مبتلا ہوتے یا رہتے ہیں۔
 
تو دراصل یہ شیطان کا بچہ ہمیں ہمارے حال میں مطمئن و شکر گزار نہیں دیکھ سکتا! اللہ پاک ہمیں توفیق دیں کہ ہم صحیح معنوں میں اس ذات کریمی و رحیمی کا شکر بجا لائیں،دراصل یہاں توسب آزمائش ہے ہر ہر پل. اللہ پاک وہ سب ہمارے سامنے لا کر ہمیں دیکھ رہے ہیں اور پرکھ رہے ہیں، اور ہم ہیں کہ اس کے التباس میں مبتلا ہو جاتے ہیں اللہ پاک ہمارے دل کی نگاہ ہم پر عیاں کریں اور ہم سب کے لئے آسانیاں فرما دیں اور دو جہاں میں اپنی رضا بھری فلاح عطا فرمائیں اللھم آمین۔
انا للہ وانا الیہ راجعون اور الحمدللہ رب العالمین کی اپنی حقیقت ہے۔ الحمدللہ، اللہ نے جب کسی پر اپنا خاص کرم کرنا ہوتا ہے تو اپنے بندے کی سب سے بڑی خواہش کو اپنے اور بندے کے درمیان رکھ کر آزماتا ہے، پھر بندے کا دل خواہ کتنا ہی خواہش کو مانگے مگر اگر الحمدللہ خواہش کی بجائے بندہ.. اللہ، اللہ کی رضا کو چن لے، تو اللہ بندے کے دل کو خود سکون دیتا ہے، اس پر عیاں کر کے رہتا ہے کہ اس نے اس وقت جو اللہ کی رضا کو ترجیح دی تو الحمدللہ اس نے کیا ہی خوب اپنا بھلا کیا، اب اللہ اسے اپنی رضا، اپنی عطا کا جام دے کر سرفراز کرتا ہے۔
اللہ اپنی راہ میں کچھ لوگوں سے ان کی انا مانگتا ہے، کچھ سے اللہ ان کا مال مانگتا ہے، کچھ سے نفس، کچھ سے جان، کچھ سے جاہ، کچھ سے عزت، کچھ سے صحت، کچھ سے دنیا کچھ سے رغبت، اور کچھ سے اللہ ان کا محبوب مانگتا ہے، کچھ سے ان کا دل مانگ لیتا ہے۔ ان کی محبت مانگ لیتا ہے۔ اللہ کے بندوں کی سب آزمائشیں اللہ کے قریب کرنے کے لیئے ہوتیں ہیں، جو انا، مال، نفس، جاہ، جلال، عزت، رتبہ، رغبت، محبوب اللہ نے دیا اسی اللہ نے دل بھی دیا تو جو اللہ کا ہو اللہ اسے مانگنے کا حق رکھتا ہے، تو امانت مانگنے پر ہر گلے شکوے سے بے نیاز امانت صرف وہی لوٹاتے ہیں،جو اللہ کے بندے ہوتے ہیں۔
اللہ کے معاملوں میں بدلے کی چاہ تو فقط تاجر رکھتے ہیں، محبت والے تو فقط اللہ کی چاہ پر الحمدللہ لبیک کہتے حاضر ہوتے ہیں... جسکو اللہ کی چاہ کی چاہت لگ جائے اسے اسکی اپنی ہر چاہت سے بے نیاز کر ہی دیا جاتا ہے...! مگر یہ بے نیازی بہت بے بسی، بہت عاجزی بہت تلاطم، بہت صبر کے بعد من کے سمندر کا حصہ بنتی ہے۔ قربانی ہی تو قرب عطا کرتی ہے، ظرف عطا ہے اور سب کو بقدرِ ظرف آزمایا جاتا ہے اور سبکو بقدرِ ظرف عطا کیا جاتا ہے۔ قربانی کی توفیق بھی عطا ہے۔ اللہ کے کارخانہء قدرت میں سب عطا ہے ہر آزمائش، ہجر وصل، سزا جزا، سب عطاہے الحمد للہ۔

Chapters / Baab of Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham