Episode33 - Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham

قسط نمبر33 - اللہ محبت ہے - حیا ایشم

اللہ رحمان ہے اور رحمان چونکہ خود الرحم الراحمین ہے سو اسکو عزیز ہے اپنے بندے کا خود پر اور دوسروں پر رحم کرنا۔ نبی کریم ﷺ رحمت للعالمین ہیں جنہیں جب کہا جاتا کہ فلاں کہ حق میں بددعا کیجیے تو فرماتے : ''میں لعنت اور بددعا کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا ہوں بلکہ رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں'' آپ ﷺکے ارشاد کا مفہوم ہے نہ خود کو تکلیف دو نہ دوسروں کو۔
نہ خود پر ظلم کرو نہ دوسروں پر۔
انسان کا کھلا دشمن شیطان ہے چونکہ شیطان اللہ کی رحمت سے دھتکارا گیا ہے تو وہ انسان کو رحم کرتا نہیں دیکھ سکتا نہ خود پر نہ دوسروں پر۔ اللہ نے خود فرمایا کہ اللہ اس پر رحم نہیں کرتا جو رحم نہیں کرتا... اب وہ رحم خود پر بھی ہے اور دوسروں پر بھی، اللہ ظالمین سے محبت نہیں کرتا خواہ وہ ظلم خود پر ہو یا دوسروں پر۔

(جاری ہے)

انسان کی نادانی کی انتہا ہی تو ہے کہ جو ظلم وہ دوسروں پر کرتا ہے تو وہ ظلم وہ سب سے پہلے خود اپنے اوپر کرتا ہے خود اپنی فلاح کا دشمن بنتا ہے، ماں یا باپ اگر اپنے بچوں کی تربیت سے غافل ہیں یا کوتاہی کر رہے ہیں تو ان ڈائریکٹ لی یہ ظلم وہ بچوں پر بعد میں اور خود پر پہلے کر رہے ہیں، کہ جو بوئیں گے وہ کاٹیں گے، ضروری نہیں کہ اچھی تربیت 100/ اچھے بچے ہی بنائے گی، کہ اللہ کی آزمائش اللہ کے نیک بندوں پر بد اولاد کی صورت بھی آتی ہے مگر اچھی پرورش کرنے والے والدین اللہ کی جانب سے ایسی اولاد کے باوجود سکون سے محروم نہیں کیئے جائیں گے جب کہ کوتاہی اچھی پرورش نہ کرنے والے والدین کو سکون سے محروم کر دے گی جس سکون سے غالبا ًوہ پہلے بھی ناآشنا تھے، یہی معاملہ اولاد کے ساتھ بھی ہے بلکہ اولاد کے ساتھ تو والدین کے حوالے سے معاملہ اس سے بھی نازک ہے۔
اسی طرح شوہر اگر بیوی کے حقوق کی حق تلفی کرے یا فرائض سے نگاہ چرائے توخود اپنے گھر کو جہنم بنا دیتا ہے مگر شیطان کی مغوی اسکی نگاہ کو اس جہنم کا داروغہ اپنی بیوی لگتی ہے۔ جب ہم حق کا حق ادا نہیں کرتے تب ہم سکون سے محروم کر دیئے جاتے ہیں اور شکایت ہمیشہ وہی کرتا ہے جو حق ادا نہیں کرتا۔ اگر بیوی شوہر کے حوالے سے ناشکری یا اسکے حقوق سے کوتاہی کر رہی ہے تو ظلم کا یہ بیج دو جہاں میں وہ اپنے لیئے بو رہی ہے۔
انسان عجب ہے واقعی اس سے عجب کون، سود جیسی اذیت جسے اللہ نے اللہ کے رسولﷺنے منع کیا ، جب شیطان کے جال میں آ کر... اس اللہ رسولﷺکے خلاف اس کھلی جنگ میں وہ حصہ دار بنتا ہے تو یہ ظلم اس کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ شیطان کیسے اس اذیت کو خوشنما بنا کر دکھاتا ہے ۔ 
زکوٰة خود پر اور دوسروں پر رحم ہے.. سود خود پر اور دوسروں پر ظلم ہے۔
اور یہاں انسان اپنا ہی دشمن ہو جاتا ہے پھر اللہ جس کے دل میں ایمان کا ذرا سا احساس دیکھتا ہے اسے اللہ سرخرو کر دیتا ہے اور جو اپنی انا پر قائم رہے وہ قارون کے خزانوں کی طرح زمین کے اندر دھنسا دیا جاتا ہے کہ اس سے نہ اسے خود کو فائدہ ہوا نہ دوسروں کو الٹا اذیت کا سودا کیا۔
ہم لوگ بہت کوتاہ نظر(شارٹ سائیٹڈ) ہیں، سمجھ ہی نہیں پاتے کہ یہ زندگی ہر ہر لمحہ آزمائش ہے یہاں والدین اولاد بیوی شوہر بچے خاندان مال، خواہشات سب آزمائش ہیں ہم یہاں جو کر رہے ہیں یہ سب ختم ہو جائے گا ہاں مگر یہ سب کہیں لکھا جا رہا ہے اور ایک دن ایک ایک لمحہ ہمیں دکھا دیا جائیگا ہم نے کیسے کسی پر ظلم کے پردے میں خود پر ظلم کیا، تب کسی زندہ درگور لڑکی جس کی اس وقت چیخ تک نہیں سنی گئی اس روز اس زندہ درگور لڑکی کو بولنے کا حق آواز کی طاقت دی جائے گی۔
تب اس کے درد سے ریت سماج کے پریشر جھوٹی خدائی کے پیرو اس کے باپ کو اسکا درد سننا ہو گا اس ایک اللہ کے سامنے اس باپ کو کھڑا ہونا ہو گا، جس کے پاس وہ لڑکی امانت کی طرح سونپی گئی تھی جس کے پاس موقع تھا کہ وہ چاہتا تھا تو زمانے کی جھوٹی خدائی کے خلاف کھڑا ہو کر، یا اسکی زندگی بچا کر خود پر، اس بچی پر رحم کر لیتا۔
دوسروں پر رحم خود پر رحم ہے ۔
۔ خود پر رحم دوسروں پر رحم ہے 
دوسروں پر ظلم خود پر ظلم ہے ۔۔ خود پر ظلم دوسروں پر ظلم ہے 
اللہ پاک ہمیں رحم و ظلم کا فرق سمجھا کر محبت عطا فرمائے۔ اللہ پاک اے ارحم الراحمین ہمیں خود پر اور دوسروں پر رحم کی توفیق دے، ہماری ساری ظلمت کو اپنے نور سے روشنی میں بدل دے ،ہمیں خود پر اور دوسروں ہر ظلم سے بچا اللھم آمین یا ارحم الراحمین یا مالک یوم الدین یا رب العالمین!
حضر ت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہﷺ نے فر ما یا:جب اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق مکمل کر لی تو اپنی کتاب میں اپنے متعلق لکھ د یا جو کہ اس کے پا س موجو د ہے۔
تحقیق میر ی رحمت میر ے غضب پر غا لب رہے گی"(مسلم، بخاری،نسا ئی، ابن ما جہ)
ظلم کر دینے کا احساس بھی ایک آزمائش ہے، عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ جب لوگوں سے کوئی گناہ یا خطا ہو جاے تو وہ توبہ کے بعد بھی اس کے احساسِ گناہ و کثافت سے نکل نہیں پاتے اور انجانے میں رب کی رحمت پر پھروسہ سے زیادہ اپنے گناہ کی اذیت پر مرتکز رہتے ہیں، یہ شیطان کا بہت تکلیف دہ جال ہے۔
میرا خیال ہے کہ اللہ پاک کسی بھی انسان کی نیت دیکھتے ہیں، اگر آپ سچے دل سے تائب ہو گئے، اور راہِ حق پر اللہ کے لیئے استقامت کے ساتھ ڈٹ گئے، تو اللہ پاک آپ کی آلائشوں کو مختلف آزمائشوں کے ذریعے دھوئیں گے ضرور مگر آپ کو اس راہ پر تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ اور ہر کوئی اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہوتا ہے، ہاں ہم دوسرے پر کیئے اپنے اس ظلم کے ذمہ دار ہیں، اللہ کی مدد شاملِ حال رہے جس حد تک ممکن ہو دوسرے کے لیئے معافی، تلافی اور اضافی سے ہم اپنے عمل کو سدھار سکتے ہیں، اگر اس کے باوجود بھی ہم دوسرے کو ظالم بنتا ہی دیکھ رہے ہیں تو اس میں اسکا اپنا ظرف بھی تو شامل ہے ناں، آزمائش تو حقیقت کھولنے آتی ہے ادھر والوں کو ادھر، اْدھر والوں کو اْدھر کرنے، یہ ضروری تو نہیں کہ ہم پر ظلم ہو تو ہم ظالم بن جائیں، کچھ تو ظلم کے جواب میں ہی رحم کرنا سیکھتے ہیں، نبی کریم ﷺسے بڑھ کر اور کس کی مثال آتی ہے ذہن میں ، دراصل یہ تو اپنے اپنے ظرف کی بات ہے، اپنے اپنے پانی کے ڈھلان کی بات ہے، ہم پر کیئے جانے والا ظلم دوسرے پر ہی نہیں ہماری بھی آزمائش ہے، جیسے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ ظالم کی بھی مدد کرو اور مظلوم کی بھی، کسی نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ مظلوم کی مدد تو سمجھ میں آتی ہے ظالم کی مدد کیسے کریں؟ آپ ﷺنے فرمایا: ''اس کو ظلم سے روک کر اسکی مدد کرو''۔
مزید برآں یہ نازک معاملہ اس طرح ہے کہ کبھی کبھی انجانے میں ہم دوسرے کے گناہ کا بوجھ بھی اٹھا لیتے ہیں...مگر خیر اللہ کی ذات سچی نیت دیکھتی ہے اللہ ہم سب کو معاف کر دے اور خود پر اور دوسروں پر رحم کرنے کی توفیق دے اللہ ہم سب پر رحم فرما دے اللھم آمین!
ایک حقیقت تو یہ بھی ہے کہ جب ہم خود سے خفا ہوتے ہیں تب ہم انجانے میں اللہ سے خفا ہوتے ہیں اور یہ سفر میں رکاوٹ پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے کیونکہ خدا تک پہنچنے کا راستہ تو ہم میں سے ہی ہو کر گزرتا ہے ناں، جتنی خود سے دوری ہے اتنی خدا سے دوری ہے، ہم انسانوں کی حقیقت یہی ہے کہ ہم خود سے خفا ہو تو جاتے ہیں مگر خفا ہی 'رہ' نہیں سکتے، کیونکہ اللہ پاک اپنے بندوں کے دلوں پر اپنے پاس سے نرمی عطا کرتا ہے، اپنی طرف پلٹ آنے کے بہانے دیتا ہے، اور جب اسکی رضا کا احساس اسکے 'کن' کی مشیت پر، غیب پر یقین ہوتا ہے تو آہستہ آہستہ دل خود سے اور اللہ کی مرضی سے راضی ہو جاتا ہے الحمدللہ۔
بس اتنی سی بات ہے اگر رضا کا احساس مل جائے یا راضی برضا رہنے کی نیت آ جائے تو الحمدللہ ہر 'آہ' 'کسی کی چاہ' میں ضم ہوتی ''واہ'' ہونے لگتی ہے۔
اللہ پاک نے قرآن پاک میں اتنے صاف الفاظ میں فرما دیا..کہ ''وہ جسے 'چاہے' بیٹے دے جسے 'چاہے' بیٹیاں، جسے 'چاہے' دونوں دے اور جسے 'چاہے' بے اولاد رکھے'' مگر جانے کیوں ہم اپنی چاہت، اسکی چاہت کو سپرد نہیں کرتے یا کر نہیں پاتے.. یہ تک ادراک نہیں کر پاتے کہ اسکی 'چاہت' سے الگ 'چاہت ' ہمارے ایمان کی آزمائش ہے. 'چاہت' یا مرضی صرف اس کی ہے. دو مرضیاں کیسے چل سکتی ہیں؟ …نا دانی میں اسکی چاہت سے الگ چاہت کر کے ہم اپنے لیئے دو جہاں میں بے سکونی، اذیت، اور خسارہ خریدتے ہیں. اور پھر ہمیں ضد سے مزین اس خواہش کا تاوان دو جہاں میں ادا کرنا ہوتا ہے۔
اولاد کو بلاوجہ تو آزمائش نہیں کہا گیا .. اسکا ہونا بھی آزمائش اسکا نہ ہونا بھی آزمائش۔ اور آزمائشیں بری نہیں ہوتیں آزمائشیں تو فقط اللہ سے قریب کرنے کے لئے وہ سیڑھیاں ہوتی ہیں جن پر اللہ کے کہے کے مطابق قدم دھرنا ہوتا ہے جس کی منزل رب کی محبت، اسکی معرفت، اسکا قرب ہے۔ وہ لوگ جو دنیا میں اللہ کی رضا کے سامنے اپنی رضا سپرد نہیں کرتے اور اپنی مرضی کو افضل جانتے ہیں شاید یہی وہ لوگ ہوں گے جن کے متعلق قرآن میں اللہ پاک نے فرمایا ہے جسکا مفہوم کچھ یوں ہے کہ اس دن (روز حشر )وہ اپنی اولاد اپنا مال اپنا خاندان دے کر عذاب سے بچنا چاہیں گے مگر یہ کہاں ممکن ہو گا! استغفرللہ۔
 
 انسان بھی عجب ہے دنیا کے دھوکے میں کیا کیا نہیں سمیٹنا چاہتا۔کیسا دھوکہ ہے کہ بے بس آیا انسان، بے بس جاتا انسان اللہ کی دنیا میں آ کر اپنا بس چلانے پر ہی توکل کیئے رہے۔کیا بیوفائی ہے ایک اجنبی جگہ پر آوٴ اور دل ہی لگا کر بیٹھ جاوٴ، جب کہ اصل دوست پلکیں وا کیئے محبت سے پل پل منتظر ہو۔کیا ستم ظریفی ہے اپنے پاوٴں خود ہی کلہاڑی ماری جائے اور سمجھا جائے خود پر پھول برسائے جا رہے ہیں، کیسی بے خبری ہے کہ اپنی اگلی سانس کی خبر نہیں، اصل باخبر سے بے خبر رہتے ہوئے انسان ساری دنیا کی خبر رکھنا چاہے،کیسی بد نصیبی ہے کہ کریہہ اعمال خوشنما لگیں، اور التباس اس راہ پر قائم کیئے رہے!
سچ تو یہ ہے کہ زندگی کے اس کارِ سفر میں وفا اور جفا آر یا پار ہے۔
اور انا اسکے لیے سب سے بڑا لٹمس پیپر ہے اگر ہم خود سے باوفا نہیں تو ہم اللہ سے باوفا نہیں اور اگر ہم اللہ سے باوفا نہیں تو ہم خود سے باوفا نہیں اور انا تو ہم سے بیوفائی ہی کروانا چاہتی ہے۔ اللہ نے مومنوں کے نفوس خرید لیے ہیں اور اسکے بدلے میں جنت کا وعدہ ہے۔ اور یہ نفس ہمارے ہی اندر ہماری ہی آزمائش بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ خیر اور شر باہر نہیں۔
خیر اور شر اندر ہیں ہم اپنے اندر کی اس کشمکش میں مبتلا ہیں جوہمیں دھوکہ دے کر توجہ باہر مبذول کرواتی ہے جب ہم ماں کے رحم میں اکیلے تھے اللہ ہمارے ساتھ تھا۔ جب ہم قبر میں اکیلے ہوں گے تب بھی کیا ہم اکیلے ہوں گے؟ نہیں ہمارے ساتھ تب بھی اللہ تھا اور قبر میں بھی اللہ ہو گا۔ وہی اس دنیا میں بھی ہمارے ساتھ ہے ہاں مگر یہاں ہماری آزمائش کو ہم پر ہماری حقیقت واضح کرنے کے لیئے انا/ شیطان بھی ہمارے ساتھ ہے جسکی ڈیوٹی ہی ہمیں اللہ سے دور کرنے کی ہے اور الحمد للہ اسی انا کو جھکا کر اگر اس پر پاوٴں رکھا جائے، تو اللہ اپنے کیسے کیسے جلوے لیئے ہمارا منتظر ہے اور پھر خوبصورت سفر شروع ہوتا ہے۔
اللہ کی عطا کردہ اس ساری تجلی کا سفر اللہ کی مخلوق تک پہنچتا ہے جو خود سے وفا کر کے اللہ سے وفا کرتا ہے اسکے لیئے کیسے ممکن ہے وہ اللہ کی مخلوق سے بے وفا ہو؟ انا وفا سے روکتی ہے۔ مگر یہ درپردہ رحمت ہے اگر اسکا راز آشکار ہو جاے اور اسی کو جھکا دیا جائے۔ اللہ پاک ہمیں توفیق دیں کہ ہم اس ذاتِ رحیمی کی محبت میں اس انا کی آزمائش میں سرخرو ہوں اور پل پل اللہ کی محبت میں ڈھل جائیں اللھم آمین!
'میں کچھ نہیں' کا جب رمز کھلا، تو جوکچھ بچا وہ'کچھ نہیں'
اس کچھ نہیں میں سب ضم ہوا تو بس 'اک رہا' ہم کچھ نہیں
وہی ایک ہے بس وہی ایک ہے، کیا لے آئے تھے کیا لے جائیں گے
کیا اپنا تھا جو ہم نے کھو دیا ، کیا اپنا ہے سنگ لے جائیں گے
گر ساتھ جانچنا ہے تو سوچیے، گر سوچیے تو یہ بات ہے 
کہ جو مہد میں تھا میرا آشنا وہی لہد میں میرے ساتھ ہے
جزا سزا سے بے ریا، وفا جو رضا میں سمٹ گئی
تو عیاں ہوا یہ معاملہ... زندگی کس طرح سے پلٹ گئی
کوئے دلبراں میں جب لگی الست بربکم کی اک صدا
قالوا بلیٰ کہتی سر بسجدہ ہوئی تیری میری یہ روحِ وفا 
درد جب درد کو چھو چلا تو سوزِ زندگی عطا ہوا
جب محبت محبت کو چھو گئی تو اجالا سا ہر ُسو ہو گیا
کیا وصال تھا کیا ہجر ہوا، کیا صحرا سا تھا کیا بحر ہوا
جو کبھی اتر گیا درونِ دل، نہ یہ معاملہ درگزر ہوا
خلوص، وفا، عطا کیا... نبھاہ، حیا، پناہ کیا
سب ہو گیا میرے محرماں، جب اک اشارہ تُو نے ذرا کیا
کبھی بے بسی کبھی سپردگی کبھی کیفِ خودی کا جام سا
کن فیکون سے ہوا سب روا، یہی حق زبان زدِ عام سا
کیا صحیح ہوا کیا ہوا خراب...کیا گناہ ہوا کیا ہوا ثواب
تجھ سے جدا ہوا سب سراب، تیرے کیف میں تشنگی سیراب 
وہ جو لمحہ موت کا معین ہوا اس لمحے کو کہیے کیوں سراب
وہی حق ہے وہی لمحہ وصل وہی اک حسیں آہا۔
شبِ زفاف...!
تقدیر کا کہیں راز ہے کہیں حیراں ملی ہمیں سعی
حق بات فقط ہے یہی کہ بجز اللہ کچھ نہیں
حق ہے، الا اللہ ... کچھ بھی نہیں!

Chapters / Baab of Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham