Episode34 - Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham

قسط نمبر34 - اللہ محبت ہے - حیا ایشم

بے شک اللہ پاک کی صفات جبار بھی ہے قہار بھی، معز بھی ہے مذل بھی، مگر اگر اللہ پاک کی ہی یقین دہانی کو دیکھا تو اللہ پاک نے خود ہی تو فرما دیا کہ اسکے غضب پر اسکی رحمت غالب ہے، ایک حدیث کے مطابق اللہ پاک نے 99 / ترحم اپنی مخلوق کے لیئے روز حشر کے لیئے سنبھال رکھا ہے اور اس میں صرف 1 / اس دنیا میں مخلوق کو عطا ہے، جس کی ایک مثال میں ہم درندے پرندے چرند انسان وغیرہ کو اپنے بچوں سے محبت کرتے دیکھتے ہیں۔
سو،بے شک اللہ پاک جبار ہیں قہار ہیں۔ مگر انکا جبار ہونا قہار ہونا بھی ہمارے لیئے بہتر ہے جیسے کہ اکثر ہم کسی حادثہ یا دیر کا شکار ہو جاتے ہیں، اللہ پاک تب اپنے جبر کے ذریعے ہمارے ارادے کوٹال دیتے ہیں یا ا س میں ہماری نگاہ میں کوئی مشکل آ جاتی ہے... جس میں بعد میں پتہ چلتا ہے یا چلے گا کہ ہمار ی ہی خیر تھی... سو اللہ کی ان صفات کے پیچھے بھی اسکی محبت ہی کارفرما ہے اسکا مطلب یہ نہیں کہ خدا نخواستہ وہ ہم پر کوئی ظلم کرے گا،ظلم تو ہم خود پر کرتے ہیں لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین اھدنا الصراط المستقیم اللھم آمین ۔

(جاری ہے)

جب محبت کی نگاہ عطا ہو جاتی ہے تو سب محبت ہو جاتا ہے۔پھر اسکی سزا بھی عطا لگتی نہیں بلکہ حقیقتاً عطا ہوتی ہے، یہ معجزہ فقط خالص سچی محبت کو حاصل ہے الحمدللہ!
انا جھکنے نہیں دیتی اور محبت سرتاپا جسم و جاں سے سربسجود ہوتی ہے۔ انا آزمائش ہے محبت سرخروئی ہے۔ انا باطل ہے محبت حق ہے۔ انا فتنہ و فساد ہے محبت امن سلامتی و اسلام ہے۔
انا جلد باز ناشکری بیوفا اور بے صبر ہے محبت صابر، شکرگزار اور باوفا ہے۔ انا کی نگاہ محدود ہے محبت کی نگاہ لامحدود ہے۔ جسطرح سجدے کے بنا نماز نہیں اسی طرح انا کے سربسجود ہونے کے بنا بشر، کاملیت کو نہیں پہنچ سکتا۔ وہ اشرف المخلوقات ہے یہ حقیقت اس پر تب ہی عیاں ہو گی جب وہ اپنی انا کی حقیقت جان جاے گا۔ انا کو کوسنے سے کچھ نہیں ہو گا، ایک وقت میں آپ انا کو کوس لیں یا اسے اللہ کے سامنے جھکا دیں،اللہ کی پناہ مانگ لیں، کہ انا کو کوستے رہنا بھی انا کا جال ہے۔
اللہ پاک نے نبی کریم ﷺ نے قرآن سنت کے ذریعے شیطان کا ہر راز ہم پر کھول دیا، مگر ہم جانے نفس کی کیسی خود فریبی میں رہنا چاہتے ہیں کہ سمجھنا ہی نہیں چاہتے کہ ہم کس طرح دھوکے پر دھوکہ کھائے جا رہے ہیں اللہ کی حدود میں ہماری حفاظت ہے، مگر ہم بار بار انکو پامال کر کے اذیت خریدتے ہیں، شرک نہ کرو، ٹوہ میں نہ رہو، جوڑنے والے بنو توڑنے والے نہیں ، دعا والے بنو بددعا والے نہیں، بت برستی سے بچو، جھوٹ نہ بولو دھوکہ نہ دو، بہتان نہ باندھو، والدین کی نافرمانی نہ کرو، حق کا حق ادا کرو ہٹ دھرمی نہ کرو، تکبر نہ کرو، حرام کو حرام حلال کو حلال جانو، جو اللہ نبی ﷺ کو پسند اسکو تھام لو جس سے وہ روکیں اس سے باز رہو، فرقہ واریت سے اجتناب کرو، غیبت حسد، کینہ سے بچو صلہ رحمی اختیار کرو، معافی مانگو، معاف کرو، صبر کرو، احسان کرو، سعی کرو، شکر حمد توکل کرو، اراکینِ اسلام کو تھامے رکھو، ہم سب جانتے ہیں کہنے کو مانتے بھی ہیں، اس پر بحث بھی کرتے ہیں یہ بھی کہتے ہیں دیکھو وہ دوسرا ایسا نہیں کر رہا مگر وہ کونسا تالا ہے جو ہمیں ہماری ہی خیر ہمارے لیئے عمل کی طرف آتا آتا ہمیں کسی جواز میں بھٹکا کر ہمیں اپنی خیر ہمیں ہمارے اللہ سے دور لے جاتا ہے، وہ ہمارا نفس ہے، اور نفس کو ہم اگر غیر کھلائیں گے تو وہ طاقتور ہو کر نیک ارادے پر غالب آ جائے گا، اور اگر ہم نفس کو اسکی اصل غذا یعنی صبر دیں گے تو یہ صحیح معنوں میں لاغر ہو کر ہمارے تابع ہو کر ہمارے نیک ارادے کو قوی کر جائے گا، نفس کی روحانی غذا صبر ہے، اور ہم جہاں اس کو وقتی لذت کے حوالے کر دیں وہیں یہ ہم ہر حاوی ہو جاتا ہے۔
ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے، اس حقیقت کی یاد دیانی ہی ہمیں ہر ہر پل سچی زندگی کا احساس عطا کر سکتی ہے الحمدللہ۔ اللہ پاک ہمیں پل بھر بھی ہمارے نفس کے حوالے نہ کرے اپنی محبت بھری پناہ میں تھامے رکھے اللھم آمین!
یَا حَیّْ یَا قَیّْومْ بِرَحمَتِک اَستَغِیث ۔۔ پائندہ تیری رحمت کے ذریعے فریاد کر رہا ہوں پس میری فریاد سن اور مجھے پلک جھپکنے کے لئے بھی کبھی میرے نفس کے حوالے نہ کرنا اور تمام حالات میں بہتری پیدا کر دے۔
اللھم آمین۔
میں ہوں ان کہی تو سن مجھے
میں ہوں تشنگی، تو سیراب ہے
جنوں میں محو ادب آداب سبھی
نہ یہ معاملہء گناہ و ثواب ہے
تیرے باب میں، تیری کتاب میں
مکتوب اس زندگی کا نصاب ہے
دیکھ یہ دست وا تیرے سامنے
میرا ہر اشک اشک بیتاب ہے
سراسر الجھی ہوں میں حجاب میں
گر خدا تو مجھ سے با حجاب ہے!
 نفس ایک سیڑھی ہے جو اپنے اندر دونوں صلاحیّتیں رکھتی ہے .اس پر قدم سنبھل کر رکھو تو یہ آپ کو عرش والے تک لے جاتی ہے اور اگر بے احتیاطی یا غفلت ہو توزمیں بوس ہو کر انا کے جال میں آ جائیں۔
اللہ پاک رحم فرمائیں اور تھامیں رکھیں کہ سب ان کی عطا ہی سے ممکن ہے آمین۔ نفس اگر گھوڑا ہے تو انسان کو عطا کردہ 'اختیار' وہ لگام ہے جس سے اس سرکش گھوڑے کو قابو کیا جاتا ہے، اس لگام کو لاپرواہی، غرور، تکبر، ہٹ دھرمی یا غصے سے سنبھالنے کی بجاے اس کو اگر دعا، حلم، عجز، عفو و درگزر، خود احتسابی سے تھاما جائے تو نفس کو مطیع کرنے میں آسانی ہے، کہ یہ نفس اکساتا ضرور ہے مگر یہ بندے کا انتخاب ہے کہ بندہ اب اسکے کہے میں آتا ہے یا رب کے اس کہے پر یقین رکھتا ہے جو سچ ازل سے اسکی روح میں پھونک دیا گیا ہے۔
بندے کا رب کو اپنا آپ اپنی بے بسی اپنا اختیار تک سونپنا بندے کی خودسپردگی ہے، روح کو جتنا اسکی حقیقت سے دور لے جاوٴ یہ اتنا کثیف ہو جاے گی، جتنا اس کی اصل کے قریب لاوٴ اتنی یہ لطیف ہو جائے گی، اسکی اصل اللہ ہے اور اسکی نقل دنیا ہے۔ حیرت ہے دنیا کے پردے کی حقیقت کی آشنائی سے آگاہی ہوتے ہوے بھی ہم ناداں کیسے بار بار اسکے سراب میں جا اٹکتے ہیں، خود فریبی میں رہتے ہوئے ہم اس دنیا کے سراب کو مجبوری کے نام کا کفن پہنا کر خود کو طفل تسلی دیتے ہیں۔
اور خود اپنی فلاح سے دور رہتے ہیں!
ہمیں اپنی حفاظت کرنی ہے کیونکہ ہم امانت ہیں۔ جب ہم اپنی حفاظت کرتے ہیں تب ہی ہم دوسروں کی امانت کی حفاظت کرتے ہیں۔ اخلاص اور محبت کی نگاہ میں سب ایک ہو جاتے ہیں الحمدللہ وہاں دوئی نہیں رہتی! ہم سب کے اندر ایک چور ہوتا ہے۔ اگر ہم اس چور سے خفیہ دوستی کر لیں تو اپنے دشمن ہو جاتے ہیں، اور اگر الحمدللہ اس چور کی شناخت کر لیں اور اسکو اپنے تابع رکھیں تو اپنے دوست ہو جاتے ہیں۔
خدا کے دوست ہو جاتے ہیں اور خدا کے دوست، اپنے دشمن کے تابع نہیں ہوتے، وہ خود سے بیوفا نہیں ہوتے، چاہے وہ جلوت ہو یا خلوت، وہ پلٹ پلٹ کر اللہ کے پاس جاتے ہیں، الحمدللہ، اللہ اپنے دوستوں کو اپنے پاس بلانے کا سامان خود بڑی محبت سے کرتا ہے!
بندے تو سب اللہ کے 'ہوتے' ہیں، مگر کچھ بندے اللہ کے بنتے ہیں کچھ بندے انا کے بنتے ہیں!
'ہو' سے 'ہو جانے' کے سفر میں یعنی کن فیکون کے سفر میں جتنا وقت یا فاصلہ بنتا ہے وہ سب انا لیتی ہے۔
 
انا کے بندے ادھورے رہ جاتے ہیں اور فیکون ہو جانے والے تکمیل پا جاتے ہیں!
انا کا بندہ ہی ہے ناں جو اللہ کے فیصلوں کے آڑے آ کر اپنی خواہش کی چلانا چاہتا ہے۔
انا کا بندہ ہی ہے ناں جو اللہ کے فیصلوں سے نہیں اپنی 'میں' سے نبھاتا ہے۔
تو بن جاوٴ جس کا بننا ہے اللہ کے بن جاوٴ، انا کے بن جاوٴ، مگر درحقیقت ہیں ہم اللہ کے بندے، اور پلٹ کر اسی کے پاس جائیں گے، بھلا کیسا غلام ہے جو اپنی دانست میں آقا کی غیر موجودگی میں غیر سے یاری لگا لے۔
غیر کی غلامی کر لے، اس سے بڑی بے وفائی کیا اس سے بڑی غداری کیا؟
وہ دن ہم چاہیں بھلا دیں جب ''الست بربکم'' کی پکار، ''کیا میں تمہارا رب نہیں؟'' پر ہم نے بڑے وثوق سے کہا تھا کیوں نہیں (قالوابلیٰ)۔بے شک اپنے آج کی اہمیت کو بھی انا کے ہاتھوں فراموش کر دیں، چاہیں اس دن سے بھی غافل ہو جائیں جب اللہ کہے گا کہ کیا تمہیں کہا نہیں تھا شیطان کا راستہ اختیار نہ کرنا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے، میری بندگی کی راہ اختیار کرنا۔
مگر اس پل کیا پل پلٹنے کا اختیار ہو گا؟ تب تو بس ایک پْل ہو گا بال سے باریک پْل جو آر یا پار کر دے گا۔ سو ایک صِراطِ مستقیم ہے اور ایک وہ پْل...!جس پر آج اس پْل کی اہمیت منکشف ہو گئی اس نے ابھی اللہ کی ہی سکھائی گئی دعا اھدنالصراط المستقیم مانگ لی!جو اللہ کا بندہ بن گیا وہ اللہ کی ہی سکھائی گئی جیتی جاگتی دعا بن گیا۔جو انا کا بندہ گیا وہ شیطان کے ہاتھوں اذیت میں مبتلا نہ صرف دوسروں کے لیئے بلکہ اپنے لیئے بھی دغا بن گیا!صراط مستقیم اللہ تک لے کر جاتا ہے ناں، سو جو اس سیدھے راستے میں اٹک گیا یہی وہ ہو گا ناں جو کن فیکون میں اپنی انا لایا، یہی وہ ہو گا جو اس روز اس پْل پر خطرے میں ہو گا۔
استغفراللہ اللہ ہی ہمیں بچا لے۔حقیقت منکشف اس روز ایک پْل پر ہو گی مگر دنیا میں صراط مستقیم کی حقیقت دل میں رکھ دی گئی ہے۔یا اللہ ہمیں ہر شر سے بچا کر اپنا کر لے، پلک جھپکتے بھی شطان کے، ہمارے نفس کے حوالے نہ کر اللہ ہمیں معاف کر دے اللہ ہمیں صراطِ مستقیم پر چلا کر خود تک بہت محبت سے لے جا اللھم آمین یا ارحم الراحمین یا رب العالمین!
ایک فوج اللہ کی ہے ایک فوج شیطان کی ہے، ویسے تو سب اللہ کا ہے، مگر اللہ نے آر یا پار کی آزمائش، انسان کو اسکی حقیقت سے آشناء کروانے کے لیئے جو کارسازی بناء، اپنی محبت کے پردے کو پانے کے لیئے خیر و شر کا پردہ بنایا، یہ سب کسی حکمت سے خالی نہیں، اپنی پہچان کے لیئے انسان کو نائب بنایا، اسکے سامنے اسکی فلاح اس کے دشمن سب دکھا دئیے۔
نبی کریم ﷺ سے بڑا اسکا خیر خواہ کوئی نہیں!اور شیطان سے بڑا اور کھلا دشمن اسکا کوئی نہیں، جو اکثر نفس کی کمزوری یعنی لذت کے پردے میں انسان کو جال میں لیتا ہے اسکا خیر خواہ بن کر ظاہر ہوتا ہے، اسکے سکون کا سامان لیئے آتا ہے۔ مگر حقیقت کچھ اور ہی ہوتی ہے۔ نفس کا عجب جال ہوتا ہے یہ جز وقتی لذت کے سراب میں الجھا کر انسان کو وہاں بہکاتا ہے کہ جہاں وہ خود اپنے نقصان سے بے پرواہ ہو جاتا ہے، یہ شیطان کی سازبازی میں آکر ایسے وار کرتا ہے کہ انسان خودفریبی میں مبتلا ہوتا ہے، خسارے کو سکون بنا کر دکھاتا ہے، عقل پر، آنکھوں پر وہ پردہ پڑتا ہے کہ خود انسان اپنی فلاح کا دشمن ہو جاتا ہے، بیشک شیطان ہمارا کھلا دشمن ہے اور اللہ نے اس سے ہمیں اپنی پناہ میں آنے کو کہا۔
اللہ نے جس مخلوق کو اسکی خیر ، اپنے لیئے بنایا شیطان دھیرے دھیرے اسے انا خواہش، خود ترسی، الزام تراشی، غصے، مایوسی بے چینی کے ذریعے اللہ سے دور کر کے اپنے جال میں لینے لگتا ہے، کہ وہ اپنے آپ پر ظلم کرنا شروع کر دے، انسان اللہ کے احکامات کی حکم عدولی کے لیئے جواز پیدا کرنا شروع کر دیتا ہے، خود اسکی وہ عقل جس کے ذریعے وہ حق باطل میں فرق کر پاتا وہ شیطان کے جال میں آ کر خود اپنی فلاح کے خلاف فیصلے کرنے لگتا ہے، یہاں انسان عقل رحمانی سے نہیں عقل شیطانی سے کام لیتا ہے۔
کیونکہ اس نے خود کو اللہ کے سپرد نہیں کیا اس نے شیطان پر تکیہ کیا، یہاں وہ شکر سے نہیں کفر کرتا ہے، اللہ کے نبی کریم ﷺکی راہ پر نہیں شیطان کا مغوی شیطان کے اپنے نفس کی راہِ گمراہ پر چلتا ہے، دھیرے دھیرے اللہ سے اور دور ہوتا تیزی سے شیطان کے چنگل میں پھنستا چلا جاتا ہے۔ 
''لبیک اللھم لبیک 
جی.. اللہ..جی ''
''انا....
''میں.. اور بس میری.. میں!''
یہ وہ انا ہے جو اس روز سے اس چیلنج پر کاربند ہے کہ جس روز ابلیس نے اللہ کے حکم کے سامنے تکبر کیا تھا، حق کو قبول کرنے میں ہٹ دھرمی دکھائی تھی، یہ وہ انا ہے جو تا قیامت لوگوں کو رب کے حضور اس کی رضا کے لیئے سر بسجود ہونے سے روکے گی، کبھی یہ رگوں میں لہو بن کر دوڑے گی، کبھی دائیں بائیں آگے پیچھے سے حملہ کرے گی، انکے راستے پر بیٹھی انہیں گمراہ کرے گی، انہیں ان کے اصل سے محروم کرے گی، یہی وہ آزمائش ہے جو آر یا پار کرتی ہے، جو اس کے دام کی غلامی میں آ گیا وہ خود اپنی فلاح سے محروم ہو گیا، اور اسکا مغوی جب اسکی جانب مدد بھری نگاہوں سے دیکھے گا تو یہ دور کھڑی قہقہہ لگائے گی، اس پر ہنسے گی، وہ اگر بازپرس کرے گا، تو باز پرس کرنے کی اجازت بھی نہیں دے گی، یہ کہتے کہ میں تو اپنی ڈیوٹی پر مامور تھی تم اپنی ذمہ داری لو ، تمہارا انتخاب تمہیں یہاں تک لایا جہاں آج تم تنہا و بے یارو مددگار کھڑے ہو...... مجھے الزام مت دو!
اور تب انسان۔
نادان انسان... بے بسی کے عالم میں بلکتا جب مدد کو کسی کو پکارے گا، 
کیا کوئی ہے میرا؟
کس کو پکاروں... ؟؟
اب کہاں جاوٴں... یا میرے اللہ...!
تو تب ایک آواز... محبت سے لبریز آواز... اندھیروں سے روشنی میں لے آتی صدا... اس کے من میں گونجے گی !
'' لبیک... یا عبدی...!''
تو نے مجھے پکارا ؟ 

Chapters / Baab of Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham